Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

گدلا پانی

test-ghori

test-ghori

11 مئی, 2018

تحریر: منشا یاد

ممکن ہے آپ کو معلوم ہو کہ محبّت لمس کے بغیر تو قائم رہ سکتی ہے، لفظوں کے بغیر نہیں۔ محبّت بھی ایمان کی طرح زبان سے اقرار چاہتی اور الفاظ مانگتی ہے ،اِس کے بغیر ہوس کہلاتی ہے،لیکن اُس وقت تک اُسے یہ معلوم نہیں تھا۔

یوں اُس کا ارادہ تھا اُسے اپنے دل کا سارا حال بڑھا چڑھا کر بتائے گا کہ کس طرح وہ اُسے اچھی لگنے لگی اور پھر ہوش و حواس پرچھاتی چلی گئی اور کس طرح وہ اُسے چھین لینے کے منصوبے بناتا تھا، لیکن جب وہ آئی تو اُسے یہ سب کہنا عجیب سا لگااور اِسی سے ساری خرابی پیدا ہوئی۔ بے شک اب وہ اُس کی بیوی تھی اور بیوٹی کوئین بنی بیٹھی تھی، لیکن تھی توکچھو ہی،گوٹ پاکٹ نہ کر سکنے پر روپڑنے اور امتحان میں اِتنے نمبر وں کے سوال چھوڑ آنے والی کہ اُن میں ایک اور لڑکی سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہو جائے۔

جس طرح بعض نغمے ایسے ہوتے ہیں کہ سرسری یا پہلی بار سنیں تو دل پر کچھ اثر نہیں کرتے ،لیکن اُنھیں بار بار اور دل جمعی سے سنا جائے تو اُن کی دُھن یا بول دل کو لبھانے لگتے ہیں، ایسے ہی وہ بھی اُن عورتوں میں سے تھی جو سرسری طور پر دیکھنے سے متأثّر نہیں کرتیں، لیکن جیسے جیسے اُنھیں قریب سے دیکھا اور ملا جائے اُن کی دل کشی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، بلکہ اعصاب مضبوط نہ ہوں تو ہوش و حواس پر چھا جاتی ہے۔ یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کو روٹین میں دیکھتے رہتے ہیں اور معمول کا حصّہ سمجھ کر اُس کی خوبیوں پر غور نہیں کرتے، لیکن جب وہ چیز چھن یا کھو جاتی ہے تو آپ کو اُس کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بس کچھ ایسا ہی ہُوا تھا۔

بچپن سے اُن کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا تھا ایک ساتھ کھیلتے بھی رہے تھے۔ وہ اپنے آدھی درجن بھائی بہنوں میں تیسرے یا شاید چوتھے نمبر پر تھی۔ بڑی تھی نہ چھوٹی، اِس لیے کبھی الگ اور نمایاں نظر نہ آتی تھی۔ اُسے کبھی خاص طور پر اِس کا خیال نہ آیا۔ اُسے اب بھی اُس زمانے کی بہت تھوڑی باتیں یاد آتی ہیں۔ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے وہ چور بنتی تو اکثر پکڑی نہ جاتی (اُس وقت کیا پتا تھا آگے چل کر اُسے اُس کی بکل کا چور بننا ہے) پھر جب سب تھک ہار جاتے تو بالکل کسی قریبی دروازے کی اوٹ، صوفے کے پیچھے یا بستروں کی پیٹی سے برآمد ہو جاتی۔ کیرم کی دل دادہ تھی، مگر کچھ خاص مہارت نہ تھی۔ سارا وقت کوئین گوٹ کو پاکٹ کرنے میں لگی رہتی۔ ہاں اُسے اُس کی پتلی پتلی نرم اور اُجلی انگلیاں یاد آتی ہیں ،مگر اُس وقت انگلیوں سے زیادہ گوٹوں کی فکر ہوتی تھی۔ یوں بھی اُس کی بہنوں کی انگلیاں بھی ویسی ہی پتلی، نرم اور اُجلی تھیں، بلکہ شاید کیرم کھیلنے والی ساری لڑکیوں کی انگلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔وہ سوچتاکیاپتا لڑکیوں میں کیرم اِسی لیے مقبول ہو کہ انگلیوں،ناخنوں، ہاتھوں اور چوڑیوں سے بھری کلائیوں کی نمائش کا موقع ملتا ہے۔ ہاں ایک بات اور یاد آتی ہے تب وہ کالج میں پڑھتا تھا اور اُس کا دسویں کا نتیجہ آیا تھا، اُس نے ساڑھے آٹھ سو میں سے سوا چار سو نمبر لیے تھے یعنی بالکل ففٹی پرسنٹ۔ ایک نمبر کم نہ زیادہ۔ اِسی لیے بات یاد رہ گئی۔ اُس نے اُس کا مذاق اُڑایا تھا:
’’تم نے کمال کر دیا کچھو… جتنے نمبر چھوڑ دیے، اِن میں تمھاری کوئی سہیلی پاس ہو گئی ہو گی۔‘‘

’’سیکنڈ ڈویژن ہے جناب۔‘‘
اُس نے یوں اِترا کر جواب دیا تھا جیسے سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہو کر بڑا تیر مارا ہو یا جیسے سیکنڈ ڈویژن کی بجاے بورڈ میں سیکنڈ پوزیشن لی ہو، لیکن بعد میں اُسے اندازہ ہُوا،وہ تو تھی ہی سیکنڈ ڈویژن۔ دوسری قطار کی لڑکی۔ اُس کی بہنیں اُس سے زیادہ ہوشیار اور دیکھنے میں پُرکشش تھیں۔ اِن کے رشتے بھی اوّل نمبر کے آئے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں خوش تھیں اور شاید اوّل درجے کی زندگی گزار رہی تھیں۔ بس ایک وہی پیچھے رہ گئی اور جس طرح میلے کے آخری روز دُکان دار کھانے پینے کی بچی کھچی چیزیں اونے پونے بیچ کر جلدی جلدی گھروں کو لَوٹنا چاہتے ہیں ،اُس کے والدین کو بھی فارغ ہونے کی شتابی تھی جو پہلا رشتہ آیا اُسے آخری سمجھ کر ہاں کر دی۔

وہ عام طور پر مرے ہوئے آدمیوں اور دلہن بنی عورتوں کے چہرے نہیں دیکھتا تھا۔ مرے ہوئے آدمی کا چہرا اِس لیے کہ اُس کی جیتی جاگتی صورت کی بجاے وہی مردہ اور بے رونق چہرا ہمیشہ کے لیے ذہن سے چپک جاتا ہے اور دلہن کا چہراپہلے سہیلیاں اورڈومنیاں اور اب بیوٹی پارلر والے اتنا بگاڑ دیتے ہیں کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے ،ساری دلہنیں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔کٹ آؤٹس کے سے روغنی چہرے ، لیکن اُس نے اُسے دلہن بنے ہوئے دیکھا اور پریشان ہو گیا۔ جب شفاعت اللہ سے اُس کا نکاح پڑھا جانے والا تھا ،اُسے نکاح کے وکیل اور گواہ کے ساتھ اندر بھیجا گیا۔ اُس نے نکاح کے فارم اُس کے سامنے رکھ کر اور تھوک نگل کر بہ مشکل کہا،
’’یہاں دستخط کر دو۔‘‘

اُس نے دستخط کرنے سے پہلے عجیب نظروں سے اُسے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو ’’یہ تم کہ، رہے ہو؟‘‘
اُس کی آنکھوں میں پتا نہیں کیا تھا کہ اُس کی راتوں کی نیند اُڑ گئی جب بھی یاد کرتا، طرح طرح کے خیالوں اور سوالوں سے دماغ پھٹنے لگتا۔ رہی سہی کسر اُس شام پوری ہو گئی جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ اُن کے ہاں کھانے پر آئی۔

اُس کی شادی ہوئے دسواں روز تھا،اُس نے آتے ہی ایک عجیب جادو بھری بھر پور نگاہ اُس پر ڈالی۔
یہ اُس کچھو کی نہیں جسے وہ جانتا تھا ایک عورت کی نگاہ تھی۔ اِس میں شکایت، دکھ اورکوئی عجیب سا سندیسہ تھا ۔وہ اُسے بار بار دیکھتا اور خود کو کوستا کہ اِس سے پہلے اُسے پتا کیوں نہ چلا وہ اِس قدر خوب صورت تھی اور اُس سے محبّت کرتی تھی۔ اُسے اپنی بہنوں پر غصّہ آتا جو اُس کی طرح اندھی تھیں اور اُس کے ہوتے ہوئے انھیں چاند سی بھابی کی تلاش تھی۔ وہ جیسے جیسے دیکھتا وہ اور نکھرتی جاتی، لیکن اُس نے دوبارہ اُس کی طرف نہیں دیکھا ،شاید اُسے یقین تھا کہ پہلی نگاہ ہی اپنا کام کرگئی تھی۔

عورت کے مقابلے میں مردیوں بھی ون ٹچ سسٹم ہوتا ہے۔ پری سیٹ الیکٹرانک میوزک ڈیک کی طرح ۔جو ریموٹ کنٹرول کو ذرا سا چھو دینے سے آن ہو جاتا اور نغمے بکھیرنے لگتا ہے۔اور عورت خواہ کچھو کی طرح بے وقوف ہی دکھائی دے، اپنے ہنر میں تاک ہوتی ہے۔ عام طور پر خوب صورت عورتوں کے شوہر بہت حسّاس ہوتے اور الرٹ رہتے ہیں اور نجی محفلوں میں بھی نظروں سے اُن کی نگرانی کرتے رہتے ہیں ،مگر شفاعت اللہ اُس سے غافل بیٹھا ہُواتھا اور پیٹھ موڑے چھوٹی چھوٹی اور فضول باتوں پر ہنس رہا تھا۔اُسے جیسے خبر ہی نہیں تھی کہ وہ اتنی حسین بیوی کا شوہر ہے ،بلکہ رویّے سے وہ شوہر کی بجائے اُس کا گارڈین لگ رہا تھا۔

وہ ایم اے میں اُس کا کلاس فیلو رہ چکا تھا۔ نیک، شریف اور شرمیلا تھا۔ صوم و صلات کا پابند۔ گورے چٹّے چہرے پر بھٹّے کے بالوں ایسی داڑھی خوب سجتی تھی۔ کالج کے ہر فنکشن میں وہی تلاوت کرتا اور نعت سناتا۔سب اُسے صوفی کے لقب سے پکارتے تھے۔ اُس سے رسمی سی واقفیت تھی، لیکن اُسے یہ اندازہ نہیں تھاکہ اُس کی شادی اُن کے فیملی فرینڈ انکل خواجہ کے ہاں ہو گی جو نسبتًاایک آزاد خیال گھرانا تھا اور اُس لڑکی سے ہو گی جو اپنے بھائی بہنوں کی طرح فلموں اور موسیقی کی رسیا تھی۔ اِدھر صوفی تھا کہ کسی لڑکی کو آنکھ اُٹھا کر دیکھنا یا بات کرنا تو دُور کی بات ہے، کوئی لڑکی قریب سے گزر جاتی تواُس کا چہرا سرخ ہو جاتا۔ کیفے ٹیریا میں ریڈیو پر محبّت کا کوئی گیت سُن کر اور ٹیلی ویژن پر کسی جوان عورت کی تصویر دیکھ کر اُسے پسینا آ جاتا۔ لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی اُسے چھیڑتی رہتیں۔ پتانہیں اُسے دیکھ کر اُسے ٹیلی ویژن کے پروگرام وائلڈ لائف میں دیکھا ہُوا اندھیری غاروں میں رہنے والا گوہ ایسا وہ جانور کیوں یاد آجا تاتھا جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اُس کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ شاید اِس لیے کہ اُسے کچھ دیکھنا ہی نہیں ہوتا ،خدا نے اُس کی آنکھیں بنائی ہی نہیں تھیں۔ کیا پتا پہلے بنائی بھی ہوں پھر بے مصرف جان کر واپس لے لی ہوں۔ کشور کا اِس کا کیا جوڑ؟…لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ اُس کے جانے کے بعد وہ جیسے کسی طلسم سے رہا ہُوا۔ عقل و شعور نے کام کرنا شروع کر دیا اور اُسے اپنے خیالات پر ندامت سی ہونے لگی۔

اِس کے بعد اُس کے ہاں جانے کے کئی موقِع آئے،مگر اُس نے دانستہ گریز کیا کہ جس بستی جانا نہ ہو اُس کا راستاپوچھنے کا کیا فائدہ، مگر اُس کی امّی لمبی بیمار پڑ گئیں۔ اِدھر شفاعت اللہ شادی کے چند روز بعد دو تین مہینوں کے لیے تبلیغی جماعت کے ساتھ بیرونِ ملک چلا گیا۔ وہ اُس کی امّی کو دیکھنے ہر تیسرے چوتھے روز آنے لگی۔ کبھی ساس یا سسر کے ساتھ ،کبھی اکیلی اور اُسے ہر بار پہلے سے زیادہ خوب صورت نظر آتی، وہ چلی جاتی تو خود کو ملامت کرتا۔ آئندہ اُسے آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھنے کا عہد کرتا، مگر جب وہ آتی جتنی دیر رہتی،خود کو اُسے دیکھنے پر مجبور پاتا اور دیکھ کر بے کل سا رہتا۔ خدا نے عورت کو یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ بہ وقتِ ضرورت اُس کی کنپٹی پر ایک تیسری آنکھ اگ آتی ہے ،وہ مرد کواپنی طرف دیکھتے، نہ بھی دیکھ رہی ہو تو اُسے نظروں کا لمس محسوس ہو جاتاہے اور یہ پتا بھی چل جاتا ہے کہ کون اُسے کن نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ وہ جب کبھی اُس کی امّی کے پاس اکیلی بیٹھی ہوتی اور وہ چھپ کر اُسے دیکھتا تب بھی وہ بار بار پلّو ٹھیک کرتی، سر ڈھانپتی اور بے چین نظر آتی۔ وہ اکثر نظریں چراتی رہتی، لیکن کبھی کبھار جیسے ایک تیر سا آ لگتا۔

آہستہ آہستہ اُس کے خواب سہانے اور سوچیں گدلی ہونے لگیں۔ صوفی کو ٹھکانے لگانے کے منصوبے بناتا۔ وہ تیرنا نہ جانتا ہو تو اُسے اپنے ساتھ جھیل یا دریا پر لے جائے، اُس کی موٹر سائیکل سے بم باندھ دے۔ کشور مان جائے تو اُس کے ذریعے کھانے میں کچھ ملا دے، لیکن ہر بار پکڑا جاتا یا کشور کو بھی نقصان پہنچ جاتا،لیکن پھر ایک عجیب واقعہ ہو گیا، بالکل ناقابلِ یقین۔ کیا شدید اور سچّے جذبوں میں واقعی اتنی طاقت ہوتی ہے یا زمانہ بدل گیا ہے ا ور کوّوں کی دعا سے ڈھور ڈنگر مرنے لگے ہیں،اُسے رہ رہ کر خیال آتا۔

شادی کے تین چار مہینوں بعد صوفی نے اچانک اُسے طلّاق دے دی۔ سب دنگ رہ گئے۔ ہر کسی کو افسوس تھا، لیکن اُس کے اندر جیسے خوشی کی جھانجھروں والے لقے کبوتر جلی ڈالنے لگے ،

اگرچہ اِس خوشی کی نوعیّت کچھ ایسی تھی جیسے آدمی اپنے مدِّمقابل کھلاڑی کے زخمی ہوجانے کی وجہ سے مقابلہ جیت جائے تو خوشی میں کچھ ملاوٹ سی ہو جاتی ہے، لیکن جیت تو بہ ہر حال جیت ہوتی ہے اور محبّت اور جنگ میں بہت کچھ جائز ہوتا ہے۔

تفصیل معلوم کی تو پتا چلا ،اُس گھر میں طرح طرح کی پابندیاں تھیں۔ اخبار تک نہ آتا تھا کہ اُس میں ایسی تصویریں اورخبریں ہوتی ہیں جن سے بے حیائی پھیلتی ہے۔ تلاوت اور خبروں کے سوا ریڈیو اورٹیلی ویژن دیکھنے کی ممانعت تھی۔ کچھ عرصے تو وہ اجازت حاصل کرنے کی کوشش اور انتظار کرتی رہی، پھر چُھپ چُھپ کر ڈرامے وغیرہ دیکھ لیتی۔ ٹیلی ویژن، وی سی آر اور میوزک ڈیک وہ اپنے ساتھ جہیز میں لے گئی تھی۔ جس روز یہ واقعہ پیش آیا وہ شوہر کی عدم موجودی میں وی سی آر پر کوئی فلم دیکھ رہی تھی۔ یہ پتا تو نہ چل سکا کہ کیسی اور کون سی فلم تھی، مگر وی سی آر اور فلم کے نام سے سننے والوں کی آنکھوں میں ایک خاص چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی۔ شوہر کوپتا چلا تو اُس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ تکرار ہوئی اور نتیجے میں طلّاق۔

شروع شروع میں اُس کی امّی نے مخالفت کی ،’’میرے بیٹے کے لیے اترن رہ گئی ہے کیا؟‘‘ لیکن جب اُنھیں پتاچلا کہ یہ سب تو اُن کے اِس بیٹے کی دعاؤں یا بددعاؤں کا نتیجہ تھا جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا تھا تووہ حیران پریشان رہ گئیں۔ رضا مند ہو جانے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔
اُس نے یہ بھی سوچاہُواتھا کہ پوچھے گا صوفی بے وقوف تھا یا نا شکرا جس نے اُس کی قدر نہیں کی تھی یا سب کچھ کسی حادثے کی صورت میں ہو گیا ،مگر اُس کے منہ، سے پھنکار سی نکل گئی۔’’آج تم دوسری بار دلہن بنی ہو۔‘‘

اُس نے چونک کر اُسے دیکھا۔ اُس کے سرخ و سفید چہرے پر ویرانی سی چھاگئی۔ بڑی بڑی بندہ ڈباو آنکھوں میں بے بسی کا دھواں سا پھیل گیا ،پھر جیسے دو حصّے ہائیڈروجن اور ایک حصّہ آکسیجن مل کر پانی بناتی ہیں ،شکایت او ربے بسی نے مل کر دو موٹے موٹے آنسو بنائے جو رخساروں سے ہوتے ہوئے ٹھوڑی تک پھیل گئے۔ فرصت تھی نہ موقع، مگر اُس نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ د و دو دریاؤں کے نام ایک ساتھ کیوں لیے جاتے ہیں،ستلج بیاس ،راوی چناب ،گنگا جمنا، دجلہ فرات ،جیہوں سیہوں وغیرہ ۔ اچانک وہ ہاتھوں سے چہراچھپا کر رونے لگی۔

سامنے والا جب انتہائی غصّے میں ہو یافرطِ جذبات سے رونے لگے توکچھ دیر کے لیے خاموش رہنا چاہیے۔ یہ بات اُس نے اپنے ابّا سے سیکھی تھی۔ ویسے بھی وہ اِس صورتِ حال کے لیے تیار نہ تھا۔ نہ ہی رونے کا سبب اتنا سادہ تھا۔ خاموش بیٹھا آنسوؤں کار یلا گزر جانے کا انتظار کرنے لگا، لیکن جب اُس کا رونا ہچکیوں میں تبدیل ہو گیا اور ہچکیاں طول پکڑ گئیں تو اُس کے اندر اندیشوں اور وسوسوں کے بلبلے سے اٹھنے لگے۔’ توکیا اِسے اپنی پہلی شبِ عروسی یاد آگئی! کسی جدا ہو جانے والے ہاتھ کا لمس یاد آیا!‘

اُس نے اپنا تجزیہ اور احتساب شروع کر دیا۔ کہیں ساری خرابی اُس کے اپنے اندر تو نہیں تھی۔ امّی بچپن میں اُسے دکھیارا بچّہ کہا کرتی تھیں۔ شاید یہ ٹھیک ہی تھا۔ اُسے وہی کھلونا پسند آتا جو کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہوتا۔ اسکول اورکالج میں اُس کے ہمیشہ اچھے نمبر آتے ،لیکن اُس سے زیادہ نمبر اوربہترپوزیشن لینے والے اُس کی ساری خوشی غارت کر دیتے ۔ اب بھی اُسے وہی لباس زیادہ خوب صورت معلوم ہوتا تھا جو کسی دوسرے پر سج رہا ہو اور وہی ریل یا بس زیادہ آرام دہ اور تیز رفتار معلوم ہوتی تھی جو نکل چکی ہو۔ صرف یہی نہیں،بلکہ گھر میں اُس کی ہر چیز اپنی اور علاحدہ تھی۔ دوسرا کوئی اُس کی کسی چیز کو چھو دیتا یا استعمال کر لیتا تو وہ اُسے اُسی کے پاس ہی چھوڑ دیتا یا ضائع کر دیتا۔ بڑے بھائیوں کے چھوٹے پڑ جانے اور اُتارے ہوئے کپڑے اور جوتے، اُن کی پڑھی ہوئی کورس کی کتابیں اور میلے کیے ہوئے کھلونے چھو کر بھی نہ دیکھتا۔ کھانے پینے کی جس چیز کے بارے میں ذرا سا بھی شک ہوتا کہ جو ٹھی یاچکھی ہوئی ہے اُس کے لیے حرام ہو جاتی۔ گھر میں سب اُس کی عادتوں سے واقف تھے اور اِن باتو ں کا خیال رکھتے تھے۔ شاید یہ سب کچھ اِس لاڈ پیار کا نتیجہ تھا جو چھوٹا ہونے کی وجہ سے اُس کے حصّے میں آیا تھا۔

اُس نے اُس سے کچھ پوچھا ،نہ ہی اُس نے کچھ بتایا اور صبح ہو گئی۔
وہ سوچتا بہت تھا، مگر زیادہ تر گفتگو اپنے اندر کرنے کا عادی تھا۔ وہ بھی بہت جھینپتی شرماتی تھی۔ دونوں طرف کی چپ گہری ہوتی چلی گئی اور تکلّف اور جھجک کی ایک چادر سی اُن کے درمیان تن گئی۔ بدن قریب رہے ،لیکن روحیں دُور ہوتی چلی گئیں،مگر لفظوں کا تبادلہ کبھی نہ ہُوا۔ اپنے ہاں کے بیش ترلوگ اِسی طرح کی خاموش اور بہ راہِ راست محبّت کرتے ہیں ۔ایپی ٹائزرز کی ضرورت تو اُنھیں ہوتی ہے جن کو بھوک نہ لگتی ہو۔ ہم تیسری دنیا کے جنم جنم کے بھوکے لوگ ،کھانا سامنے آ جائے تو باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ یوں بھی تب تک اُسے معلوم نہ تھا کہ محبّت بدن کے لمس کے بغیر تو قائم رہ سکتی ہے، مگر الفاظ کے بغیر نہیں۔ محبّت بھی ایمان کی طرح زبان سے اقرار چاہتی اور الفاظ مانگتی ہے، اِس کے بغیر ہوس کہلاتی ہے۔
اُسے پانے سے پہلے اُس کا اندر جذبات سے یوں لبالب تھا جیسے اساڑھ مہینے میں اناج سے بھرا ہُوا بھڑولا،مگر اِس اناج کو چپ کی سسری لگ گئی اور چند ہی مہینوں میں اندر خالی ہو گیااور خانہ خالی را دیومی گیرند کے مصداق دل میں طرح طرح کے بھوت خیالوں نے بسیرا کر لیا۔ ’کیا واقعی عورت زندگی میں ایک ہی بار محبّت کرتی ہے۔ کیا اُ س نے صوفی سے محبّت کی؟ اگر اُس کا عقدِ ثانی اُس کی بجاے کسی اور سے ہو جاتا تو کیا وہ اُس دوسرے مرد سے بھی اِسی طرح محبّت کرتی!‘

آہستہ آہستہ وہ اُسے اجنبی اور بیگانی بیگانی سی لگنے لگی۔ ایک تیسرا شخص ان کی تنہائیوں میں مخل ہونے لگا۔ وہ اُس کا ہاتھ چھونے لگتا تو اُس پر دوسرے ہاتھ کی گرفت کے نشان نظر آتے۔ اُس کی انگلیاں اب بھی ویسی ہی پتلی، نرم اور اُجلی تھیں، مگر وہ گندی اور ناپاک معلوم ہوتیں۔ اُس کے بدن سے اُسے کسی اجنبی وجود کے پسینے کی باس آتی ،وہ سوچتا۔ وہ محض جسم ہوتی تو بھی اُسے یقین اور محبّت کے زم زم سے نہلایا اور پاک کیا جا سکتا تھا ،مگراصل عورت تو اندر ہوتی ہے جسے کنوئیں کی طرح پانی کے بوکے نکال کر، تالاب کی طرح کلورین ملا کر، لباس کی طرح دھلوا کر اور کمرے کی طرح اسپرے کروا کر ڈس انفیکٹ اور صاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اُسے وہ ایسا خط معلوم ہوتی جسے مکتوب الیہ نے پڑھنے کے بعد دوبارہ پوسٹ کر دیا ہو۔ اُس کی حالت اُس پیاسے کی سی تھی جو پیاس کی شدّت میں گدلا پانی پی جائے، لیکن جوں ہی حواس درست ہوں،پانی کے پاک یا ناپاک ہونے کے مخمصے میں پڑ جائے۔ اُسے خبط سا ہو گیا کہ اُس کا جسم ہی نہیں روح بھی آلودہ تھی اور اُس کے اندر اب تک کسی نہ کسی صورت میں صوفی موجود تھا۔

کبھی کبھی اُسے خیال آتا۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے جو چیزمل جائے اُس کی قدرنہیں کرتا، اگرچہ سب لوگ ایسے نہیں تھے تب بھی دو آدمی یقینًا بہت نا شکرے تھے ،ایک صوفی شفاعت اللہ اور دوسرا وہ خود، لیکن قدرت کا صحت و صفائی کا اپنا ایک نظام ہے۔ بارشوں سے زمین کی غلاظتیں دُھل جاتی ہیں،بدبوؤں کو ہَوااپنے دامن میں سمیٹ لے جاتی ہے۔ وہ کیچڑ میں کنول کھلاتی اور ملھڑ( گوبرکھاد) سے پھلوں پھولوں کی نشوونما کرتی ہے۔ اچانک ایک روز پتا چلا اُس کے اندر ایک اور چراغ جل اُٹھا ہے۔ گھر بھر میں اجالا پھیل گیا۔ شادی کی سال گرہ قریب آ رہی تھی، گھر والوں نے سال گرہ اور گود بھرائی کی تقریب ایک ساتھ اور دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں شروع کر دیں، لیکن شاید اُسے ابھی ایک اور امتحان سے گزرنا تھا۔
ایک روز اچانک صوفی اُن کے ہاں آگیا۔

وہ تو اچھاہُواکہ وہ گھر پر نہیں تھا ،ورنہ اُس سے پوچھتا کہ وہ یہاں کیا لینے آیا تھا، شاید اُسے وہیں گیٹ سے واپس کر دیتا، یا دھکّے دے کر باہر نکال دیتا۔شروع شروع میں بھی دو ایک بار اُس کا کشور کے لیے فون آیا تھا جس کا اُس کی امّی نے برا مانا تھا اور کشور نے بھی بات کرنا پسندنہیں کیاتھا، لیکن وہ خودکسی روزآدھمکے گایہ اُس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا،لیکن دکھ اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ اُس نے نہ صرف اُسے ڈرائنگ روم کھول کر بٹھایا، بلکہ کچھ دیر اکیلے میں اُس سے باتیں بھی کرتی رہی تھی، ’توکیا صوفی پشیمان ہے ،اگر وہ تلافی کرنا چاہے تو؟‘

’اور کیا وہ بھی؟‘
اُس کے دماغ میں جھکّڑسے چلنے لگے۔
’’وہ یہاں کیا لینے آیا تھا؟‘‘ اُس نے اُسے ایک طرف بلا کر پوچھا۔
اُس نے خلافِ توقّع نہایت جرأت او راعتماد کے ساتھ جواب دیا،
’’میں نے خود انھیں بلایا تھا۔‘‘
’’تم نے؟ ‘‘اُس نے غصّے سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ اداس ہو گئی تھیں؟‘‘
’’اُن سے اجازت لینا تھی؟‘‘
’’کس بات کی؟‘‘
’’میں نے قسم کھائی تھی کہ اُن کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں بتاؤں گی، مگراب ضروری ہو گیا تھا کہ آپ کو بتا دوں۔‘‘
’’یہ کیا پہیلیاں بجھوا رہی ہو۔‘‘ اُس نے درشت لہجے میں کہا،’’ سیدھی طرح بات کرو۔‘‘
’’صوفی صاحب اچھے ااور نیک آدمی ہیں اور ہمارے محسن ہیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’محسن؟‘‘
’’ہاں۔ انھوں نے پہلے روز ہی وعدہ کر لیا تھا کہ وہ کچھ عرصے بعد کسی بہانے مجھے آزاد کر دیں گے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا۔
’’اِس لیے کہ میں نے انھیں صاف صاف بتا دیا تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’اب یہ بھی بتانا پڑے گا۔‘‘ اُس نے نگاہیں جھکا کر کہا۔
بات اُس کی سمجھ میں آگئی۔

اور یہ سوچ کر کہ اُس نے اِتنا بڑا رسک لیاتھا، اُس کا دل محبّت اور خوشی سے بھر گیا اور اُسے یقین بھی آگیا کہ صرف صوفی جیسا شخص ہی ایسا کر سکتا تھا اور اُسے اِس کے اندر سے نہیں نکالاجا سکتا تھا۔ اُن کی صعوبتوں کا تصوّر کر کے اُسے لگا جیسے تاریک غاروں میں رہنے والا آنکھوں کے بغیر گوہ وہ خود تھا۔
Image: Lubna Agha