ایک گیت گایا نہیں جا سکتا (فیثا غورث)

ایک گیت تمہیں گھیر لیتا ہے ایک گیت جو تم نے سن رکھا ہے ایک گیت جو تم کبھی نہیں سنو گے راستے میں چلتے ہوئے گھیر لیتا ہے ایک گیت تمہیں گلے لگا لیتا ہے ایک گیت جس کے لیے تم زندہ رہ سکتے ہو ایک گیت جس کے ...

تمہاری وجہ سے (فیثا غورث)

تمہاری وجہ سے میں ایک خلا نورد نہیں بن سکا میرے مجسمے کسی چوک پر نصب نہیں ہوئے میرے نام سے کوئی سڑک منسوب نہیں کی گئی میرے کارناموں پر کہیں کوئی مقالہ نہیں لکھا جا سکا اور کوئی قومی دن میرے لیے مختص نہیں ...

کتبہ (فیثا غورث)

میں نے اک گیت لکھا اور اس نے اپنی نبضیں کاٹ لیں میں نے اک نظم کہی اور وہ چھت سے کود گئی میں نے اک کہانی بُنی اور وہ پھندے سے لٹک گئی میں نے اک بچہ جنا اور اس نے مجھے قتل کر دیا...

ایک دن اپنے ہاتھوں سے میں ایک رسی بُنوں گا

فیثا غورث: ایک دن اپنے ہاتھوں سے میں ایک رسی بُنوں گا اور اس رسی کے ایک سرے سے خود کو باندھ کر اچھال دوں گا ہو سکتا ہے میں چاند میں جا کر اٹک جاوں ہو سکتا ہے میں رات کے چند گچھے توڑ لے آوں ہو سکتا ہے میں اڑتے اڑتے دور نکل جاوں

نروان

آج کی پہلی مشت زنی کے بعد میں تھک کر بیٹھ گیا۔ مجھے اب مچھروں، اٹھائی گیروں اور رات کی پرواہ نہیں رہی لیکن دن کا خوف ابھی باقی ہے۔

میں نے حیرت کو قتل کیا

میں نے میں نے حیرت کو قتل کیا اورتحیر کی لاش دریافت ہونے تک میں خود کو محفوظ خیال کر سکتا ہوں کو قتل کیا اورتحیر کی لاش دریافت ہونے تک میں خود کو محفوظ خیال کر سکتا ہوں

سایہ

آخری بس کے انتظار میں بس سٹاپ پر میں نے خود کوبس سٹاپ سے ذرا فاصلے پر کوڑے کے ڈھیر کے پار گلی میں روپوش ہوتے دیکھا جہاں میں نے خود کو پستول دکھا کر لوٹا، اپنے سامنے دری پر چند سکےپھینکے اوراپنے گھر کی دیوار پھلانگی۔

کن فیکون

اس نے وجدان کے کسی لمحے میں عالم برزخ کا تمام روحانی گردا فلکیاتی تمباکومیں مسلا اور کائناتی رذلے میں بھر کر ایک الہامی کش لیا ۔۔۔۔ دھواں ارض و سما کی شکل میں مجسم ہو گیا۔

حکایات جنوں

خدا کے ترازو کے آس پاس داڑھیوں، مسواکوں، تسبیحوں، مصلوں، برقعوں،صحیفوں، کھجوروں، تلواروں، ٹخنے سے اونچی اور ٹخنے سے نیچی شلواروں اور لوٹوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ، خدا نے انسانوں کی صرف روحیں تولنے کا حکم دے دیا تھا۔