ڈاکٹر احمد حسن رانجھا: شوگر نے اس کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ وہ پیر جی کا مرید تھا، پیر جی شوگر کے لیے چینی دم کرتے تھے۔ اس نے دم کی ہوئی چینی خوب کھائی،
ڈاکٹر احمد حسن رانجھا: گلے میں چھتروں کا ہار اور منہ پر کالک مل کر پورے میلے میں پھیرایا گیا۔ لوگ انہیں مڑ مڑ کر ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ پھیری والے چڑیا گھر کے بندر ہوں۔ یہ تماشہ تو انہیں دس روپے کے ٹکٹ کے بغیر ہی میسر آگیا تھا۔
یہ عینک اس کی نظر کی کمی کو کسی طور پورا نہیں کرتی۔ یہ بس اس کی تنہائی کی ساتھی ہے۔ اس کی صفائی میں کچھ لمحے بیت جاتے ہیں۔ زندگی موت کی طرف دو قدم آگے بڑھ جاتی ہے جیسے ٹرین نے دو اسٹیشن پار کرلیے ہوں۔