Laaltain

جنگل کے پاس ایک عورت

25 فروری، 2018
Picture of افضال احمد سید

افضال احمد سید

نیند کے پاس ایک رات ہے
میرے پاس ایک کہانی ہے
جنگل کے پاس ایک عورت تھی
عورت بچہ پیدا کرنے کے درد سے مر رہی تھی
ایک شکاری وہاں پہنچ گیا
اور بچے کی آنکھوں کے عوض
عورت کی مدد کرنے پر آمادہ ہو گیا
عورت نے جڑواں بچے جنے
شکاری کے ہاتھ
آنکھوں کی دو جوڑیاں آئیں
اس وقت سکے ایجاد نہیں ہوئے تھے
ایک جوڑی آنکھ کے بدلے
زندگی بھر کا سامان خریدا جا سکتا تھا
جو لوگ دوسروں کی آنکھیں حاصل نہیں کر سکتے
اپنی آنکھوں کا سودا کر لیتے
ہر سودے کی طرح
بیچتے وقت
آنکھوں کی صرف آدھی قیمت حاصل ہوتی تھی
آنکھیں بیچنے والے
صرف آدھی زندگی خرید سکتے تھے
عورت نے شکاری سے جدا ہو کر
اپنے بچوں کو جنگل میں چھوڑ دیا
جیسا کہ اس نے اپنے شوہر کو
سمندر میں چھوڑ دیا تھا
بچے بھیڑیوں میں پل کر بڑے ہوئے
ان میں سے ہر ایک
دوسرے کو
اپنی ماں کی کوکھ کا غاصب
اور اپنی آنکھوں کے سودے کا باعث سمجھنے لگا
جب
بیلوں میں پاؤں ٹوٹنے کی بیماری پھیل جانے کی وجہ سے
اندھے غلاموں کی مانگ بڑھ گئی
ایک بردہ فروش
انہیں بھیڑیوں کی غول سے چرا لے گیا
زمین میں جتے ہوئے اندھے بھائی
ہل لے کر اتنی مخالف سمت میں چلتے کہ
ان کے آقا کو
خدا سے درخواست کر کے
ایک کھڑکھڑانے والا سانپ ان کے پیچھے لگانا پڑا
میں بہت دنوں پہلے
اس شہر کا محاصرہ کرنے آیا تھا
میرے پرچم پر رہنے والا عقاب اڑ گیا
میرے سپاہیوں نے
اپنی تلواریں ٹکسالوں میں بیچ دیں
گھوڑے نے اپنی کھال
مشکیزہ بنانے والے کو ہدیہ کر دی
شہر کی دیواروں میں
شگاف کہاں ہے
یہ اس کے چرواہوں کو بھی معلوم ہے
اور ان کی بھیڑوں کو بھی
مگر یہ جنگ
غداروں اور چوباؤں کو بھی خرید کر نہیں جیتنا چاہتا
میں سمندروں کو کشتیوں سے
اور تلوار کو تلوار سے ناپتا ہوں
میں غلام عورت کی
غلام مرد سے پیدا ہوئی اولاد نہیں
جو ایک غلام شاخ سے کمان
اور دوسری غلام شاخ سے تیر بناتا ہے
میں اس کھڑکھڑانے والے سانپ کو کچل دوں گا
اور جڑواں بھائیوں کے کندھے سے جوتا اتار کر
اسے گہری کھائی میں پھینک دوں گا
میں انہیں لے کر جنگل میں نکل آؤں گا
اور اس شکاری کو تلاش کروں گا
جو بچہ پیدا کرنے کے عوض اس کی آنکھیں طلب کرتا ہے
اور اس ماں کو تلاش کروں گا
جو بغیر آنکھوں کے بچے کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے
ایک دن بیچی ہوئی آنکھیں
شکاری سے سودا کردہ شخص کو پہچان لیں گی
اور اندھے بچے
اس آدمی سے اہنی آنکھیں چھین کر
اپنے شکاری کو ڈھونڈ نکالیں گے
اور شکاری سے اس عورت کا پتہ پوچھ کر رہیں گے
جو انہیں جنگل میں چھوڑ کر چلی گئی تھی
چاہے وہ عورت میری بیوی ہی کیوں نہ ہو
Image: Roberto Matta

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *