Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

اجنبی

test-ghori

test-ghori

02 جنوری, 2016
ہوا میں تپش تھی، وہ بگولوں کی صورت اٹھتی اور دور تک پگڈنڈی پہ مٹی کو گول دائروں میں اٹھائے چلی جاتی تھی۔ گھوڑا سفید رنگ کا منہ زور اور اتھرا تھا۔ تانگہ طوفانی رفتار سے پگڈنڈی پہ دوڑ رہا تھا گھوڑے کے سموں اور تانگے کے پہیوں سے اٹھنے والی دھول کچھ دیر کے لیے حیرت سے تانگے کے پیچھے بیٹھے دو اجنبیوں کو تکتی اور پھر آرام سے پگڈنڈی پہ بیٹھ جاتی تھی۔ بوڑھے شخص نے نیلے رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی اور پگڑی کے نیچے پیشانی پہ شکنیں گہری ہو رہی تھیں۔ دو مسافر اور کوچون تانگے کے اگلے حصّے میں براجمان تھے۔ اُس سال خوردہ بوڑھے شخص نے اپنی برف سفید داڑھی پہ ہاتھ پھیرا اور گردن موڑ کر پگڈنڈی کو دیکھا۔ بڑھاپے سے لاغر ہوتے چہرے پہ دو گڑھوں میں دھنسی نیم پیلی آنکھوں سے اُس نے متفکر انداز میں سامنے دیکھا۔ عمر کے اسی دہائیوں کے سفر نے اُس کا حلیہ ہی نہیں بدلا تھا پنجاب کے اس دور افتادہ علاقے کی شکل بھی کافی حد تک تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ تذبذب اور پریشانی میں تھا کیا وہ صحیح راستے پہ جارہے ہیں؟ کیا یہی راستہ اُس کے گھر کو جاتا ہے۔ سالوں کے سفر نے راستوں کے حلیے ہی نہیں بدلے تھے اُس کی یادداشت کا چراغ بھی کسی حد تک دھیمی آنچ پہ کر دیا تھا۔

تانگہ طوفانی رفتار سے پگڈنڈی پہ دوڑ رہا تھا گھوڑے کے سموں اور تانگے کے پہیوں سے اٹھنے والی دھول کچھ دیر کے لیے حیرت سے تانگے کے پیچھے بیٹھے دو اجنبیوں کو تکتی اور پھر آرام سے پگڈنڈی پہ بیٹھ جاتی تھی۔
“بھاجی آپ کو یقین ہے نا چک نظام کو یہی رستہ جاتا ہے؟” بوڑھے شخص نے کوچوان کو مخاطب کیا۔

“بزرگو چک نظام کا تو مجھے پتہ نہیں مگر جو آپ نے نشانیاں بتائی ہیں اور جو آپ نے نقشہ بتایا ہے وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے پر اس سے ملتی جلتی بستی خیر دین ہے اور میں وہیں پر آپ کو لے جا رہا ہوں، اگر وہ آپ کا مطلوبہ گاؤں ہوا تو سمجھو آپ کا سفر رنگ لایا اور اگر نہ ہوا تو سمجھو آپ نے مفت میں اس بڑھاپے میں سفر کی یہ صعوبت برداشت گی۔”

کوچوان کی بات سن کر بوڑھے کی پیشانی پہ شکنیں اور بھی گہری ہو گئیں گرد آلود گرم ہوا اُس کی پیشانی سے ٹکرا رہی تھی بیساکھ اپنے شروع کے دنوں پہ تھا۔ گندم کے سونا کھیت پگڈنڈی کے دونوں طرف دور تک پھیلے تھے۔ گرم ہوا سبز بالیوں سے ٹکرا کر ایک احساس تفاخر میں اوپر اٹھتی تھی۔ کھیتوں میں کسرتی بدن کے کسان تیز دھوپ سے بچاؤ کے لیے پگڑیاں باندھے گردن جھکائے انتہائی پھرتی کے ساتھ درانتیاں چلا رہے تھے اور گندم کی فصل کاٹ رہے تھے۔ گھوڑے کے سموں اور تانگے کے پہیوں کی آواز سن کر اکا دکا کسان گردن اٹھا کر کچھ دیر تک اُن کو دیکھتے اور اس بہانے تھوڑا سا سستا بھی لیتے تھے۔ کہیں کہیں ونگار کی صورت میں کسانوں کی ٹولیاں مل جل کر فصل کاٹ رہی تھیں اُن میں سے کچھ لوگ ڈھول کی تھاپ پر رقص کر رہے تھے اور بھنگڑا ڈال کر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔

“تانگے والا خیر منگدا تانگہ لاہو ردا ہووے تے بھانویں جھنگ دا” کوچوان مشہور پنجابی دھن گنگنا رہا تھا۔ گنگناتے ہوئے اُس نے دھیمی پڑتی رفتار پر اچانک اتھرے کو دو چار پنجابی گالیاں بکیں اور چھانٹا رسید کیا۔ اتھرے کے سموں میں جیسے بجلیاں سی بھر گئیں اُس نے طوفانی رفتار کے ساتھ دوڑنا شروع کر دیا۔
بوڑھا مسافر بدستور پریشان تھا۔ اُس نے متفکر نظروں سے اپنی بوڑھی بیگم کو دیکھا جو اُس کے ساتھ پچھلی نشست پر بیٹھی تھی۔ بوڑھی عورت نے سر سے سرکتا دوپٹہ کھینچ کر سفید بالوں کے اوپر کیا۔ پریشانی سلوٹیں بن کر بڑھیا کے ماتھے پر بھی پھیلی تھی۔

“لو جی بزرگو لگتا ہے آپ کی منزل آگئی ہے، یہ دائیں ہاتھ بستی خیر دین ہے” کچھ دور جا کر کوچوان نے تانگہ روکتے ہوئے کہا۔ کرایہ ادا کرکے عمر کے ہاتھوں کمزور اور سفر کے ہاتھوں نڈھال ہوتا بدن سمیٹ کر وہ بوڑھا، بڑھیا تانگے سے نیچے اتر آئے۔ دائیں ہاتھ قبرستان کے ساتھ ساتھ ایک کچا راستہ جاتا نظر آیا۔ وہ دونوں اُس راستے پہ چل پڑے۔ چک نظام کے راستے میں ایک چھوٹا سا قبرستان تھا یہ قبرستان اُس سے کافی بڑا تھا۔ پھر اُس نے سوچا وقت کے ساتھ جب بستیاں بڑی ہوتی ہیں تو اُن کے ساتھ قبرستان بھی پھیلنے لگتے ہیں۔ بستیوں میں زندگی اِس سے بے خبر کہ موت کا دامن بھی وسیع ہو رہا ہے اپنی دھن میں بے فکر اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ قبرستان سے آگے بائیں ہاتھ ایک جوہڑ تھا اور جوہڑ کے کنارے برگد کا ایک بوڑھا درخت تھا۔ بوڑھے برگد کے نیچے پرانی اور بوسیدہ اینٹوں کا ایک کھنڈر سا پھیلا تھا ۔بوڑھے نے رک کر اُس برگد کے درخت کو دیکھا۔ چک نظام کے آس پاس بھی برگد کا ایک درخت ہوا کرتا تھا پر اُس کے نیچے ایک کنواں تھا۔ بوڑھے نے سوچا یہ کھنڈر شاید اُس کنویں کے ہی ہوں۔ برگد کے قریب یہ جوہڑ نیا ہمسایہ تھا پہلے وقتوں میں تو برگد کے آس پاس ہرے بھرے کھیت ہوا کرتے تھے۔ جوہڑ سے آگے کچے پکے مکانوں کی ایک بستی شروع ہو گئی۔

پھر اُس نے سوچا وقت کے ساتھ جب بستیاں بڑی ہوتی ہیں تو اُن کے ساتھ قبرستان بھی پھیلنے لگتے ہیں۔ بستیوں میں زندگی اِس سے بے خبر کہ موت کا دامن بھی وسیع ہو رہا ہے اپنی دھن میں بے فکر اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔
وہ دونوں جب بستی میں داخل ہوئے تو یکایک بوڑھے کی پیشانی سے شکنیں غائب ہو گئیں خوشی شفق بن کر گالوں کے افق پر اترتی چلی جا رہی تھی۔ یہ گلیاں یہ کوچے، یہ درودیوار کافی حد تک بدل ضرور گئے تھے مگر اُس کے لیے مکمل اجنبی نہیں ہوئے تھے۔ چک نظام اُس کی طرح بوڑھا نہیں ہوا تھا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ کافی حد تک پھیل گیا تھا اور جوان ہو گیا تھا۔ چک نظام جہاں اکا دکا پکی حویلیاں تھیں اور باقی سارے کچے مکان تھے۔ وہاں اب اکا دکا کچے مکان تھے اور اکثریت پکے گھروں کی تھی۔ لوگ حیرت سے اُس اجنبی بوڑھے کو تکتے تھے۔ آج وہ اُس چک نظام کے لیے اجنبی تھا جہاں وہ پیدا ہوا پلا بڑھا۔ جس کے گلی کوچوں میں بچپن کا کھلنڈر اپن پھیلا تھا اور منہ زور اتھری جوانی کی ٹھوکریں بکھری پڑی تھیں۔ کچھ دیر کی تگ و دو اور تلاش کے بعد وہ بالآخر اپنی حویلی کے دروازے کے سامنے پہنچ گیا ڈیوڑھی کی اینٹیں خستہ ہو کر بھربھری ہو چکی تھیں۔ کہیں کہیں بھربھری سرخ اینٹوں پر کلر کی سفید تہہ جمی ہوئی تھی۔ سیمنٹ کے ٹکڑے باقی تھے اُن پر سیمنٹ ہی سے بنے نقش و نگا رکے معدوم ہوتے نشان باقی تھے۔ ڈیوڑھی کے کواڑ نیچے سے کافی حد تک وقت اور دیمک کی نذر ہو چکے تھے۔ کواڑبند تھے اور باہر سے کنڈی لگی تھی۔ بوڑھے اجنبی نے کنڈی کھولی اور کواڑ کو اندر دھکیلا ۔ ایک دھیمی چرچراہٹ کے ساتھ وقت کے ہاتھوں بوسیدہ ہوتا دروازہ لزرتے ہوئے کھل گیا۔ بوڑھے شخص کی پیلی گدلی آنکھوں میں آنسوؤں کے موتی نمودار ہوتے چلے گئے۔ اُس نے بوڑھے پپڑی جمے ہونٹوں سے دروازے کو بوسہ دیا اور دہلیز پہ سجدہ ریز ہو گیا۔ آتے جاتے لوگ حیرت سے اُس سٹھیائے ہوئے بوڑھے کے پاگل پن کو تکتے تھے۔ کافی دیر سجدے میں رہنے کے بعد وہ اٹھا تو اُس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی۔ وہ اٹھا اور وارفتگی سے ڈیوڑھی کی دیواروں سے لپٹ گیا۔ وہ بوسیدہ دیواروں پہ لاغر ہاتھ پھیرتا اور اپنے چہرے پہ مل لیتا۔

سورج کہیں دور مغرب کے اندھے کنویں میں اتر رہا تھا اور ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں جو ڈیوڑھی کے راستے برآمدے پر اتر آئی تھیں منڈیروں سے رخصت ہونے کی تیاری کررہی تھیں۔ صحن میں بیری کے درخت کے نیچے بان کی چارپائی پڑی تھی وہ دونوں اُس پر بیٹھ گئے ۔ وہ ابھی چارپائی پر بیٹھے ہی تھے کہ ڈیوڑھی سے ایک نوجوان اندر داخل ہوا اُس نے ہاتھ میں حقہ اٹھا رکھا تھا اور دن بھر کی مشقت کے آثار اُس کے چہرے سے عیاں تھے۔ اُس جوان کے کے پیچھے ایک دیہاتی عورت اور دو لڑکے بھی حویلی میں داخل ہوئے۔ اُن دونوں اجنبیوں کو دیکھ کر وہ تمام حیرت کے سکتے میں تھے۔ بالآخر وہ نوجوان بولا:

“جیی آپ کون؟”

“میں اس گھر کا مالک ہوں!” بوڑھے نے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے لفظ ادا کیے۔

” اس گھر کا مالک تو میں ہوں!!!” نوجوان کے لہجے میں غصے اور حیرت کا ملا جلا تاثر تھا۔ وہ غصے میں اس لیے تھا کہ اجنبی اُس کے گھر میں گھس آیا تھا اور اب اُس کے گھر پر بلا جواز ملکیت کا دعویٰ کررہا تھا۔

“بیٹا تمہارا نام کیا ہے؟” بوڑھے نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

“میرا نام خورشید احمد ہے” بوڑھے نے باری باری اُس کی بیوی اور بیٹوں کے سر پر بھی ہاتھ پھیرے ۔

دن بھر وہ گندم کی کٹائی میں مصروف رہے تھے اور اب اس ناگہانی آفت نے انہیں چکرا دیا تھا۔

“بہت پیارا نام ہے خورشید۔۔۔۔ خورشید بیٹا اگر تم لوگ اطمینان سے بیٹھ سکتے ہو تو میں تمہیں ایک چھوٹی سی کہانی سنانا چاہتا ہوں!!!!” خورشید نے برآمدے میں سے چارپائی اٹھائی اور اُن کے سامنے ڈال دی اور وہ پورا خاندان اُس پر بیٹھ گیا۔

بچپن سے لے کر جوانی تک کی سبھی خوشیاں انہی درودیوار کے اندر تو بکھری ہوئی ہیں۔ اسی ڈیوڑھی سے میری بارات نکلی تھی اور اسی صحن میں اجیت کور کی ڈولی اتری تھی” بلوندرسنگھ نے اپنی پتنی کی طرف اشارہ کیا۔
“خورشید بیٹا یہ گھر میرا گھر ہی تھا، وہ جو سامنے برآمدے میں کونے والا کمرہ ہے نا میں اُس کمرے میں پیدا ہوا تھا۔ ماتا پریت کور یہی بتایا کرتی تھی۔ میرے باپ کا نام سردار جتندرسنگھ تھا وہ اس گاؤں کے سرپنچ تھے۔ میرے دادا سردار نظام سنگھ نے یہ گاؤں آباد کیا تھا۔ جب ہم لوگ چلے گئے تو گاؤں کا نام بھی بدل کر چک نظام سنگھ سے بستی خیر دین ہو گیا۔ میرے باپ نے میرا نام سردار بلوندر سنگھ رکھا۔ اسی برآمدے میں گھٹنوں کے بل چلتے چلتے میں نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھا۔ گرمیوں کے دنوں میں اسی دالان میں ماتا پریت کور کی لوریوں کی آواز گونجتی تھی اور نیند دبے قدموں آنکھوں کی وادیوں میں اتر آتی تھی۔ اسی صحن میں بہن امرت کور “ککلی کلیردی پگ میرے ویر دی” گایا اور کھیلا کرتی تھی اُس کی سکھیوں کے ہنسنے اور گانے کا شور دن بھر ان درودیواور کے اندر گونجتا رہتا تھا۔ وہ سامنے ڈیوڑھی میں سردار جتندر سنگھ کی پنچایت لگا کرتی تھی اور لوگوں کا میلہ تھا کہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا اور ماتا پریت کور کا سارا دن لسی پانی اور روٹی ٹکر کے بندوبست میں گزر جاتا تھا۔ اسی ڈیوڑھی میں سے سردار سکھوندر سنگھ پہلے اپنے کندھوں پہ بٹھا کر اور پھر انگلی پکڑکر اپنے ساتھ سکول لے جایا کرتا تھا” بوڑھے سردار نے پگڑی درست کرتے ہوئے تھوڑا توقف کیا۔ وہ پورا خاندان بیتے وقتوں کی الف لیلیٰ میں گم ہو چکا تھا۔

“بچپن سے لے کر جوانی تک کی سبھی خوشیاں انہی درودیوار کے اندر تو بکھری ہوئی ہیں۔ اسی ڈیوڑھی سے میری بارات نکلی تھی اور اسی صحن میں اجیت کور کی ڈولی اتری تھی” بلوندرسنگھ نے اپنی پتنی کی طرف اشارہ کیا۔
” اسی صحن میں میں نے اپنوں کو پرائے ہوتے اور دوستوں کو دشمن بنتے دیکھا۔ میں لوگوں کو دوش نہیں دیتا وہ وقت ہی ایسا تھا۔ جب تقسیم کا اعلان ہوا تھا تو سبھی بدل گئے تھے۔ وہی جو ماتا پریت کور کے ہاتھ سے لسی پیتے تھے اور پراٹھے کھاتے تھے اور اپنی ماں کہتے تھے اُنہی کے ہاتھوں ماتا پریت کور ، بہن امرت کور اور بھائی سکھوندرسنگھ کے سینے چھلنی ہوئے وہ وقت ہی ایسا تھا ہندوستان جاتے ہوئے جو راستے میں ملے جو وہاں سے آرہے تھے اُن کے ساتھ بھی یہی بیتی تھی۔۔۔۔۔” بوڑھے سردار کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی “ان درودیوار نے اُن کی چتاکی آگ کے شعلے دیکھے تھے اور اسی صحن میں سب رشتے راکھ ہو گئے تھے دکھ اور سکھ کے ان گنت لمحے جو زندگی کا اثاثہ ہیں اس آنگن سے وابستہ تھے۔۔۔۔سردار جتندر سنگھ، اجیت کور اور میں جان بچا کر ادھر چلے گئے ۔ مگر میرا دل ساٹھ سال سے مسلسل ان گلی کوچوں، ان درودیوار کے لیے تڑپتا ہے۔۔۔۔ آیا تو میں بابے نانک کی جنم بھومی پہ ماتھا ٹیکنے کے بہانے سے ہوں پر اصل ماتھا میں نے اس دہلیز پر ٹیکنا تھا۔۔۔۔زندگی کی ایک آخری خواہش تھی کہ جب آنکھیں بے نور ہوں تو اس حویلی کا ایک آخری نقش ان آنکھوں کی پتلیوں میں محفوظ ہو۔۔۔۔” شام کی تاریکی آہستہ آہستہ درودیوار پہ بسیرا کرتی جارہی تھی۔ خورشید احمد کی آنکھوں میں بھی نمی اتر آئی تھی۔ گھر کا اصلی مالک اُس کے سامنے بیٹھا تھا اور وہ خود کو اپنے گھر میں ہی اجنبی محسوس کررہا تھا۔