راوی رستہ موڑ
علی زریون: راوی رستہ موڑ کبھی اس شہر کی جانب جو جلتا ھے سن زخمی آواز جو سینے چیر رہی…
علی زریون: راوی رستہ موڑ کبھی اس شہر کی جانب جو جلتا ھے سن زخمی آواز جو سینے چیر رہی…
علی زریون: سیارے پر بہت ہی سخت دن آئے ہوئے ہیں خواب بچّے ہیں ڈرے سہمے گھنی پلکوں کے پیچھے…
کوئی ایسا شبد لکھے کوئی جسے پڑھ کر اک حیرانی ہو جسے کھول کے دیکھیں تو اس میں ہر مشکل…
بہت پیارے بہت اپنے مسیحا! پرسہء اہلِ محمد پیشِ خدمت ہے وہ بچے بھی ہمارے ہیں پرندے بھی ہمارے ہیں…
بعض اوقات بڑی دلچسپ کہانی پیدا ہو جاتی ہے اپنا کتبہ اور کسی کی قبر کا کتبہ بن جاتا ہے
کئی بار سوچا قلم کو معطّل کروں اور احساس معزول کر دوں سُکوں سے جیوں جس طرح سے سبھی جی…
علی انکل یہ کافر کون ھوتا ھے؟؟ مجھے لگتا ھے وہ ھوں گے جنھوں نے ھم کو مارا تھا!!