Laaltain

Child Abuse

12 اپریل، 2015
کوئی نظم ایسی لکھوں میں
کہ جس میں علامت کا پردہ نہ ہو
گالیوں کی اجازت ہو
ننگی حقیقت میں ڈوبی ہوئی گالیاں
جو تمہیں دے سکوں
ایک غصّے میں جلتی ہوئی نظم ایسی کہوں
جو فقط تم پڑھو
اور بس تم ہی سمجھو
جسے پڑھ کے تم کو تمہاری غلاظت بھری سوچ سے شرم آئے
تمہیں یاد آئیں
وہ اندوہ چیخیں
کہ جو میرے حلقوم میں پھنس گئی تھیں
وہ معصوم آنسو
کہ جو میری پلکوں سے بہ کر مِرے دل میں اُترے
اور اب تک تمہیں بد دعا دے رہے ہیں !
خراشوں بھری وہ اذیّت کی شب
جس میں تم نے
تقدّس بھرے ایک معصوم رشتے کو بھنبھوڑ ڈالا
مجھے نوچ ڈالا!
اگرچہ میں کافی بڑی ہو گئی ہوں
مگر وہ خراشیں
ابھی تک مری ذات میں رِس رہی ہیں!!
مجھے اب جو آدم پہ اور اُس کے رشتوں کی جھوٹی بناوٹ
پہ کوئی بھروسہ نہیں ہے
تو اِس کا سبب صرف تم ہو
فقط تم
ڈرو!!
اُس گھڑی سے
کہ جب میں کوئی نظم لکھّوں
وہی نظم
جس میں علامت کا پردہ نہ ہو گا
وہ چھوٹی سی معصوم بچّی بڑی ہو گئی ہے
اُسے شاعری میں پنہ مل گئی ہے۔۔ !!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *