زندگی کے لئے
ایک عورت کو بس
سانس لینا ہی کافی نہیں
اس کو لازم ہے وہ
کوہساروں کی آواز سنتی ہو
نیلے افق کی حسیں، بے کراں وسعتوں کو
اسے علم ہو
وہ زن باد شب
جانتی ہو کہ
کیسے طرح دے کے سب گھٹنائیوں کو نکل جائے
کیسے وجود اپنا خود میں سمیٹے
یہ سب
یہ سارا کچھ
اس کو معلوم ہو
اس کو لازم ہو
وہ جانتی ہو
اسے سب خبر ہو
مجھے دیکھو
میں بھی وہی ہوں
زن باد شب
لیکن اس آگ کو
میں نے کیسا چراغوں میں ڈھالا ہے
کس طرح اب میری آواز کی
گونج ان بے کراں وسعتوں میں فضاؤں کی
سنو
میں بھی تم میں سے ہوں
کوئی تم سے الگ تو نہیں
مگر میں زن بادِ شب
نیلگوں آسمانوں کا ایک سلسلہ ہوں
میں اب
سینڈیا کے پہاڑوں کی آواز ہوں
ہاں میں وہی ہوں
وہی۔۔۔۔ وہ زن باد شب
ایک اک سانس میں اپنی جلتی تھی جو
Image: firelei baez