Laaltain

پستان-چوتھی قسط

8 اگست، 2016

[block­quote style=“3”]

ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے

[/blockquote]

باب‑4
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔

 

کبھی کبھی دل نہ چاہتا تو چھ سات گھنٹوں کے لیے کسی پارک میں جاکر خوب آرام کرتا اور واپسی میں بھائندر پل پر سے سمندر میں ساری چٹھیاں پھینک دیا کرتااور رسیدوں پر خود الٹے سیدھے دستخط کرلیا کرتا
اس وقت وہ دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں، صدر کچ کے پیروں کے ناخنوں میں نیل پالش لگا رہا ہے اور وہ خلا میں گھور رہی ہے۔میں اس کے چہرے کو دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ وہ کچھ یاد کررہی ہے۔انسان جب کسی چیز یا کسی بات کو یاد کرتا ہے تو اندھا ہو جاتا ہے، اسے بس خلا نظر آتا ہے، جس کے پردے پر ہیولے ناچتے، تھرکتے نظر آتے ہیں۔ انسان کی یادیں ذہن کے صندوق سے گھنگھروؤں کو باندھ باندھ کر نکلتی ہیں اور گھنر گھنر گاتی ہوئی، سٹیج پر آکر رقص کرتے ہوئے دائیں سے بائیں گزر جاتی ہیں، ان یادوں کی شکلیں ٹیڑھی میڑھی اور عجیب و غریب ہوا کرتی ہیں، یہ ننگی یادیں انسانی بدن کے اس مردہ اور چمکتے ہوئے ڈھانچے کی طرح ہوتی ہیں، جن کی عریانیت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، یہ دیکھنے میں بھی بہت حد تک ایک جیسی ہوتی ہیں، مگر انہیں ہاتھ لگا کر چھونا چاہو تو بھربھرا کرزمین پر گرپڑتی ہیں۔کچ کو بھی اس وقت کچھ ایسا یاد آرہا تھا، جسے وہ مٹا کر اپنے حساب کا منظر بنانا چاہتی تھی، ایک نیا اور بالکل اپنی پسند کا نقشہ، جس میں کسی کا عمل دخل نہ ہوتا۔اس نے صدر سے ان خیالات کو چھیڑے بغیر پوچھا
‘کیا کبھی تمہیں کسی نے تمہاری مرضی کے بغیر چھوا ہے؟’

 

صدر نے ‘ہوں ں ں’کہہ دیا اور پھر اسی انہماک کے ساتھ اس کی انگلیوں پر پھونکیں مارنے اور اپنی صفائی پر خود توصیفی انداز میں گھورنے لگا۔برابر والے کمرے سے ہلکی موسیقی کی آواز آرہی تھی، سن ساٹھ کی دہائی کا کوئی گانا بج رہا تھا، جس کی موسیقی تو سمجھ میں آرہی تھی، مگر الفاظ، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت سریلی آواز موسیقی کی لہر وں میں بہتی ہوئی چلی آرہی ہو، بے معنی اور بے مقصد۔کچ نے پھر پوچھا۔

 

‘کس نے چھوا تھا؟’

 

صدر نے ایک کُشن اٹھا کر اپنی گود میں رکھا اور صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہنے لگا۔

 

ہوا بہت اچھی چل رہی تھی، اس بوڑھے منظر میں اپنے وجود کی گٹھری اٹھائے کچھ سوکھے ٹٹر پیڑ اپنی خمیدہ کمروں کے ساتھ دھوپ سے پناہ مانگ رہے تھے
‘لمبا قصہ ہے، اب تم سننا ہی چاہتی ہو تو سن لو، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کورئیر کا کام کیا کرتا تھا۔در بدرپھرنا، لوگوں کے خطوں کو پہنچانا۔ان خطوں میں سے زیادہ تر کسی کمپنی کےبل، کسی بینک کے تقاضے اور کچھ ایسے ہی دوسرے معاملات کی شکل میں میری بغل میں دبے ہوا کرتے۔ایک دفعہ میں جب نالا سوپارہ اسٹیشن اترا تو مجھے بہت دور تک،یوں سمجھ لو کہ قریب چھ یا سات میل تک پیدل چل کر جانا پڑا اور وہ بھی ایک ایسے خط کے لیے، جس کو اگر میں نہ بھی پہنچاتا تو کوئی ایسا بڑا نقصان نہ ہوتا۔ ایسا نہیں تھا کہ میں سارے خط پہنچایا ہی کرتا، کبھی کبھی دل نہ چاہتا تو چھ سات گھنٹوں کے لیے کسی پارک میں جاکر خوب آرام کرتا اور واپسی میں بھائندر پل پر سے سمندر میں ساری چٹھیاں پھینک دیا کرتااور رسیدوں پر خود الٹے سیدھے دستخط کرلیا کرتا، جس سےمیرے مالک کو یہ اندازہ ہوسکے کہ میں نے خطوط پہنچا دیے ہیں۔الغرض جب میں اس گھر پر تھکا ہارا، بھوکا پیاسا، ڈولتے ہوئے بدن اور بہتی ہوئی قمیص کے ساتھ پہنچا تو دیکھتا کیا ہوں کہ تین منزل چڑھنے کے باوجود اس گھر پر قفل لگا ہوا ہے، مجھے وہ تالا دیکھ کر بہت غصہ آیا۔مجھے ایسا لگا، جیسے میں بہت دور سے کسی چیز کو چھونے آیا تھا، مگر وہ چیز وہاں گویا تھی ہی نہیں، میں اس خط کو پھینکنا نہیں چاہتا تھا، ہاں اگر میں نے اس کے لیے اتنی محنت نہ کی ہوتی تو شاید مجھے اسے پھاڑ دینے یا پھینک دینے کا کوئی افسوس نہ ہوتا، مگر ایسی تگ و دو کے بعد ؟ بہرحال میں کچھ دیر کے لیے وہیں ایک پائری پر بیٹھ گیا، سیڑھیوں کی جانب بنی ہوئی اس پائری سے باہر دور دور تک کا منظر دکھائی دے رہا تھا، یہ ایک طرح کی دکھائی دینے والی بہت سی بلڈنگوں میں سے ایک بلڈنگ تھی، جو کہ بالکل کنارے پر آباد تھی، اب ان تمام بلڈنگوں کی تعداد تو مجھے ٹھیک طور پر یاد نہیں، البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بیس ، بائیس تو ہوں گی ہی یا شاید تھوڑی بہت زیادہ یا کم۔باہر دور دور تک بنجر میدان تھا، لیکن ہوا بہت اچھی چل رہی تھی، اس بوڑھے منظر میں اپنے وجود کی گٹھری اٹھائے کچھ سوکھے ٹٹر پیڑ اپنی خمیدہ کمروں کے ساتھ دھوپ سے پناہ مانگ رہے تھے، مگر مجھے دھوپ نہیں لگ رہی تھی، اوپر والی پائری نے اس خوبصورتی سے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا کہ منظر کی پیلاہٹ میری آنکھوں میں چبھن نہیں پیدا کرسکی اور میری تھکے ہوئے بازوؤں اور ٹانگوں کو ایسا لگ رہا تھا، جیسے ہوائیں انہیں ہلکے ہلکے دبارہی ہوں۔میں نے کچھ دیر بعد گھڑی پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ پون گھنٹہ بیت چکا ہے، اب میں جلدی جلدی نیچے اترنے لگا، لیکن ایک منزل اترتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک خونخوار کتا اپنی پھولتی پچکتی پسلیوں میں اپنے دھار دار دانتوں کو چھپائے سورہا تھا، میری ہمت نہ ہوئی کہ اس کی بغل سے نکل جاوں۔میں نے سوچا کہ اوپر کی منزل سے کسی کو بلا لوں، مگر تیسری منزل پر تالا لگا ہوا تھا اور دوسری پر میں جا نہیں سکتا تھا۔ اس لیے میں نے ارادہ کیا کہ مجھے چوتھی منزل کو بھی ایک دفعہ دیکھ لینا چاہیے،میں وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر میری جان میں جان آئی کہ دروازے پر تالا نہیں لگا تھا، میری عمر اس وقت سولہ سترہ سال تھی،مجھے پوری امید تھی کہ کوئی نہ کوئی باہر نکلے گا اور میری فریاد پر مجھے زینہ پار کروادے گا۔میں ذرا اور اوپر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک جالی دار دروازہ تھا، جس پر جھلی دار پردہ پڑا ہوا تھا، اس پردے کے اڑنے سے یہ معلوم ہورہا تھا کہ گھر میں ضرور کوئی ہے، کیونکہ اصل لکڑی کا دروازہ بند نہیں تھا، میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹایاکیونکہ اس وقت دیوار پر کوئی گھنٹی نظر نہ آئی۔جب پندرہ بیس منٹ تک کھڑے رہنےکے باوجود کوئی نہ آیا تو مجھے تشویش ہوئی، شام گھر چلی تھی اور اب مجھے واپس بھی جانا تھا، میں نے ہیبت میں چار پانچ بار زور سے دروازے کو قریب قریب پیٹ ڈالا۔ایک وقفے کے بعد چھن چھن کرتی ہوئی آواز سنائی دی، پردے کے پیچھے سے کوئی سایہ سا سرسراتا ہوا نکلا اور دروازہ چررکی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔

 

عجیب بات یہ تھی کہ اس کی آواز اس کی خوبصورت شکل و شباہت کا بالکل ساتھ دیتی ہوئی معلوم نہیں ہورہی تھی، ایسا لگتا تھا کہ کسی خوبصورت ایکٹرس کی ڈبنگ کسی تھرڈ کلاس ڈرامہ آرٹسٹ سے کروادی گئی ہو
وہ عورت عمر کے لحاظ سے تیس بتیس برس کی معلوم ہورہی تھی، اس کے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے، اس نے ایک ساٹن کی ساڑی پہن رکھی تھی، جس کا بلاوز اس قدر چست تھا کہ اس کے پستان ان میں سے ابلے پڑرہے تھے۔ چوڑی پیشانی، لمبوترا چہرہ، ہلکے موٹے ہونٹ اور ان پر بہت مشاقی سے لگائی ہوئی لپ سٹک۔اس کی ساڑی کا پلو بھی جھلی دار پردے کی طرح ہوا میں لہرارہا تھا،مگر عجیب بات یہ تھی کہ اس نے پیروں میں جرابیں پہن رکھی تھیں، کالی اور چمکدار رنگ کی گہری جرابیں،جو کہ سوراخ دار تھیں۔ ان کے بہت سے سوراخوں میں سے اس کی ہری رگیں اور چکنا گورا رنگ پنجوں کی ہیت کے ساتھ ان کی خوبصورتی کی بھی غمازی کررہا تھا۔اس عورت نے ایک نظر بھرپور انداز سے مجھے دیکھا، اس سے پہلے کہ میں اسے مسئلہ بتاتا، وہ قریب قریب چیختے ہوئے پوچھنے لگی کہ میں وہاں کیسے آیا، عجیب بات یہ تھی کہ اس کی آواز اس کی خوبصورت شکل و شباہت کا بالکل ساتھ دیتی ہوئی معلوم نہیں ہورہی تھی، ایسا لگتا تھا کہ کسی خوبصورت ایکٹرس کی ڈبنگ کسی تھرڈ کلاس ڈرامہ آرٹسٹ سے کروادی گئی ہو، بہرحال مجھے اتنا یاد ہے کہ کسی طرح میں نے اسے اپنا مسئلہ بتایا، اس پر اس نے ایک کھرک دار قہقہہ لگایا اور مجھے کالر سے پکڑ کر اندرلے آئی، اس نے جالی دار دروازے میں کنڈی لگالی، میں ایک چوکی پر ہکا بکا بیٹھا ہوا تھا، میرا جسم ساکت تھا، دماغ مائوف، کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے، میں نے دھیان دیا تو کمرے میں چاروں طرف دیواروں پر بہت سے نیبو اور ہری مرچیں، دھاگوں میں ٹنگی ہوئی نظر آرہی تھیں، حتیٰ کہ گھڑی کے پنڈولم سے بھی ایک ایسا ہی نیبو لٹک رہا تھا، عورت نے میرے بال پکڑے اور اپنے ہونٹوں کو میرے کانوں سے لپٹا کر چوستے ہوئے کہنے لگی۔

 

‘وہ کتا نہیں ہے، میرے مرد کی آتما ہے۔سالا سور، شام گئے آکر بیٹھ جاتا ہے، لیکن میں اسے اپنی ہڈیوں کی خوشبو تک نہیں سونگھنے دوں گی۔’

 

میں قریب قریب خوف سے بے ہوش ہونے لگا، مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہلکے سے گھگھیاتے ہوئے میں نے اسے ایک طرف دھکا دینا چاہا، مگر میں نے دیکھا کہ اس کی ساڑی اتر کر زمین پر آرہی تھی، اور کسی گول گول گھومتے ہوئے مگر مچھ کی طرح زمین پر پڑی پنکھے کی تیز ہوا میں چوکی کے ایک کونے سے ٹکی جھول رہی تھی، ہانپ رہی تھی۔میری سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا، عورت اپنی زبان سے میرا پورا چہرہ چاٹ رہی تھی، اس کے لعاب کی عجیب سی بو میرے نتھنوں میں زبردستی گھستی چلی آرہی تھی، اس نے میرا شرٹ اتار دیا تھا، اپنے ناخنوں سے، پہلے اس نے میرے سینے پر کچھ لکھا، اور میرے دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنی گردن پر رکھ دیے، اور پھر میرے کان میں ہلکے سے کہا۔

 

‘اسے دباو!’

 

مجھے اپنے بندھے ہوئے ہاتھ پاوں سے سن ہوتے ہوئے بدن اور کانٹے چبھوتی ہوئی شریانوں کے باوجود ایسا محسوس ہوا جیسے میرا پورا بدن گوشت کی دلدل میں دھنسا ہواہو، ایک نرم ، ہوا ابلتے ہوئے، گرم گوشت کی دلدل میں۔
میں جو اب تک اس منظر سے جان چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا، پتہ نہیں کیسے اس کے دام سحر میں اس بری طرح الجھ چکا تھا کہ سب کچھ مجھے ایک طلسمی ماحول سا لگنے لگا، میں اس عورت کے نیچے لیٹا ہوا تھا، اس نے میرے ٹراوزر کو اتار کر بھی وحشت میں کہیں دور پھینک دیا تھا،اس کی پھٹی پھٹی سانسیں اور خرخراتے ہوئے گلے سے مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں جیسے کسی کتیا کے ساتھ لپٹا ہوا ہوں، اسے پتہ نہیں میری کنپٹیوں سے کیا بیر تھا کہ وہ میرے کانوں کی لوئوں کو چوستی، دباتی، کاٹتی اور کان کے پچھلے حصے پر تیرتے ہوئے پسینے کو اپنے ہلکے موٹے ہونٹوں میں اتار لیتی، چھوٹی سی چوکی پر جب میرے وجود پر اس کا وجود پوری طرح سایہ نہ کرسکا تو اس نے مجھے دھکا دیا اور میں زمین پر گر گیا، پھر وہ کہیں سے دو دوپٹے لائی، اس نے پہلے میرے ہاتھ باندھے اور پھر پیر، پھر میرے عضو تناسل اور ان کے ساتھ لٹکتی ہوئی دو سیاہ گولیوں کو چھیڑنا شروع کردیا، وہ ہاتھ سے میرے اس مرکزی حصے کو چھیڑتی رہی اور پھر یکدم اس نے گولیوں کو اپنے منہ میں بھر لیا، مجھے اپنے بندھے ہوئے ہاتھ پاوں سے سن ہوتے ہوئے بدن اور کانٹے چبھوتی ہوئی شریانوں کے باوجود ایسا محسوس ہوا جیسے میرا پورا بدن گوشت کی دلدل میں دھنسا ہواہو، ایک نرم، ہوا ابلتے ہوئے، گرم گوشت کی دلدل میں۔جہاں ہر طرف اندھیرا ہے، لذت ہے اور چپچپے پانی کا احساس ہے، وہ پانی، جو پسینہ بن کر ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے ماتھے پر چھنک رہا تھا، اب میرے اندرون میں اتر رہا ہے۔پتہ نہیں کیوں، لیکن اس کیفیت میں میری آنکھیں ہلکی ہلکی بھیگنے لگیں، میں نے آنکھیں کھولیں تو اس کا چہرہ میرے چہرے پر ڈٹا ہوا تھا، اس کی لمبی گھنیری پلکیں بند تھیں اور اس نے اپنے پستان کا ایک سرا میرے منہ میں ٹھونس دیا تھا، ان پستانوں کی لذت میں ساری زندگی نہیں بھول سکتا،ایسا نہیں کہ اس سے پہلے مجھے کبھی عورت کے وجود اور اس کے لمس کا احساس نہ ہوا تھا، مگر وہ پہلی بار تھا جب کسی عورت نے مجھ پر اپنے سینے کی ابلتی ہوئی دیگ کو ظاہر کردیا تھا، مجھے اس کے پستانوں پر زبان پھیرتے وقت ایسا محسوس ہوا جیسے میں کوئی بہت نمکین اور گھلی ہوئی برف اپنے گلے میں اتار رہا ہوں، میرے بدن کے سارے تار بج رہے تھے، آنکھیں شیشہ بن کر ایک مرکز پر جم گئی تھیں، اندھیرا مزید دبیز اور گھنا ہوگیا تھا، میرے ہاتھ پاوں،قریب قریب مردہ ہوتے ہوئے بھی خون کی اچھل کود کو بدن کے چاروں کونوں میں رقص کرتا ہوا محسوس کررہے تھے۔
اب مجھے کہیں نہیں جانا تھا، ان پستانوں نے مجھے عورت کے خالق حقیقی ہونے کا احساس کرادیا تھا، میں ڈوب رہا تھا تو اس وقت انہی دو پستانوں کی مثلث نما کمانیں پکڑ کر میں بدن کے جزیرے پر واپس لوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔ لوٹا بھی کیا، زبردستی واپس لایا گیا۔ آنکھ کھلی تو سب جانب اندھیرا تھا، میرے منہ کے اوپر اور اندر خوشبودار انسانی بالوں کا ایک ہجوم سا تھا، جب یہ ہجوم چھاٹنے کے لیے میں نے اپنے ہاتھوں کو ہلانا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ تو کھلے ہوئے تھے، پیر بھی ہل رہے تھے، مگر وہ دو مضبوط، تھل تھل کرتی ہوئی دو چمکدار گوری رانوں کے درمیان پھنسے تھے۔میں نے بالوں کا پردہ ذرا سا چاک کرکے دیکھا تو جالی کا وہی دروازہ کھلا ہوا تھا اور باہر ایک کتا، ہانپتے ہوئے بڑی امید اور حسرت کی نگاہوں سے اس عورت کے ننگے بدن کو مظلومیت کی انتہا کے ساتھ دیکھے جارہا تھا، یہ وہ کتا نہیں تھا، یا شاید وہی تھا، مجھے کچھ علم نہ تھا۔۔۔میرے کانوں میں بس ایک آواز آئی ۔

 

‘سوجاو!’

 

اور میں نے ان دو گول گول، بھرے ہوئے پستانوں کے بیچ میں سہم کر اپنا منہ چھپالیا،عورت کے دونوں ہاتھوں نے میرے کولہوں کو اپنی طرف گھسیٹ کر مجھے اپنے بدن کے صدر دروازے میں داخل کرلیا، اور ایک بار پھر اندھیرا چھاگیا، اس وقت پتہ نہیں وہ خط کہا ں تھا، جو میں تیسری منزل والے شخص کے لیے لایا تھا، بس اب تو چاروں اور ایک جھم جھم کرتی گوشت کی دلدل تھی، جس سے باہر نکلنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا، وہ عورت اب بھی میرے کان کی لو کو، نیند میں ہلکے ہلکے چبارہی تھی، مجھے درد کا احساس تو تھا، مگر وہ درد میں اپنے دانتوں کے ذریعے اس کے پستانوں کی نوک میں انڈیلتے ہوئے ایک نئی لذت کا وظیفہ پڑھنے لگا، جس کی تاثیر ایک بھرپور ،صرصر کرتی ہوئی سیاہ نیند کی صورت میں میری آنکھوں کے سامنے موجود تھی۔

 

پتہ نہیں یہ وقت، اپنی اسی کیفیت کے ساتھ اور کتنی دیر وہاں رکا ہوگا، کیونکہ جب مجھے ہوش آیا تو میں اگلے دن کے کورئیر بانٹنے نکل کھڑا ہوا تھا، مگر اب میرا کہیں جانے کا دل نہ ہورہا تھا، اس لیے میں پارک کی جانب چل دیا۔

 

(جاری ہے)

ٰImage: Female Fig­ure with Head of Flow­ers, 1937 Art Print by Sal­vador Dalí

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *