اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ صوفیا کرام ہر اس دور میں جب کہ وہ واقعتاً پائے گئے انہوں نے معاشرےکی اصلاح کا کام کیا۔ لیکن یہاں بنیادی بات یہ ہے کہ ہم جن کا تذکرہ بطور صوفیا کر رہے ہیں آخر وہ ہے کون سی جماعت اور کس طرح اس بات کا فیصلہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کو صوفی کہا جائے۔ دوسرا اہم نکتہ معاشرے یا سماج کا ہے کہ اس سے ہماری مراد کیا ہے اور کن حالات میں کوئی صوفی معاشرے کے حق میں مصلح ثابت ہوتا ہے۔ رسالہ قشیریہ میں جو کہ علم تصوف کی بنیادی کتابوں میں شامل ہے اما ابوالقاسم قشیری نے آج سے تقریباً بارہ سو برس پہلے یہ بات لکھی تھی کہ یہ یقین کر لو کہ اس ٹھوس گروہ صوفیہ کی اکثریت اب ختم ہو چکی ہے اور ہمارے اس دور(376-465) میں اس گروہ کا کوئی خال فرد ہی باقی بچا ہوگا۔لہذا صوفیا کی جماعت خود صاحب قشیریہ کے زمانے میں اتنی قلیل تھی جو کہ طب طابعین کے عہد سے بالکل قریب تھا، تو بعد کے عہد میں اس کی قلت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ صوفی سے امام قشری کی مراد کیا ہے اسے انہوں نے تفصیل سے لکھا ہے،مختصر طور پر یہ کہ اس جماعت میں انبیا کی صفات پائی جاتی ہیں جن میں بشریت کے پہلو نا کے برابر ہوتے ہیں۔ لہذا وہ جو کرتے اور کہتے ہیں وہ من جانب اللہ ہوتا ہے۔ قرآن میں اس جماعت کا ذکر محسنین کے نام سے آیا ہے اور ایک حدیث نبوی جسے حدیث جبریل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس میں ہے کہ جب رسول اکرمﷺ سے پوچھا گیا کہ احسان کیا ہے توانہوں نے جواب دیا کہ احسان یہ ہے کہ تم اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس طرح عبادت کرو گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ عبادت کی اس کیفیت کو پہنچی ہوئی جماعت صوفیہ کی جماعت ہے۔ ایسی جماعت جس معاشرے میں رہتی ہے لامحالہ وہ اس معاشرے کے حق میں جس سے مراد ایک ایسا انسانی گروہ ہے جو بعض متمدن حالات میں ایک ساتھ زندگی گزارتا ہے مفید ثابت ہوتی ہے۔ کس طرح مفید ثابت ہوتی ہے ؟اس کو بھی جان لیا جائے۔ ہمارے پاس صوفیا کے نام پر چند ایک موٹی موٹی مثالیں ہیں، مثلاً جنید بغدادی، امام غزالی،رابعہ بصری، شمس تبریزی، شیخ عبدالقادر جیلانی، علامہ ابن عربی،ابو نصر سراج، شیخ عثمان ہارونی، داتا گنج بخش لاہوری، خواجہ معین الدین چشتی، شیخ نظام الدین اولیا، پیر نصیر الدین چراغ دہلوی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی۔ یہ بات ہمیں بخوبی جان لینا چاہیے کہ جس طرح دنیا کا ہر بڑا حکیم اپنی حکمت سے اپنے معاشرے میں پھیلی خرابیوں کا علاج کرتا ہے اسی طرح ہر صوفی دوسرے صوفی سے الگ جداگانہ انداز میں معاشرے کی اصلاح کا کام انجام دیتا ہے۔ مثلاً علم موسیقی جو کہ صوفیا کی بعض جماعتوں کے نزدیک حرام نہیں بلکہ مستحسن ہے وہ صوفیا کی کچھ خاص جماعتوں کے نزدیک قطعاً درست نہیں۔ مثلاً چشتی علم موسیقی کے قائل ہیں جبکہ نقشبندیہ اور قادریہ اس کے خلاف۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں کسی بھی شئے کی زیادتی ہو جاتی ہے تو اس سے معاشرے میں ایک نوع کی خرابی پیدا ہونے لگتی ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے عہد میں بغداد کی یہ ہی صورت حال تھی کہ علم موسیقی معاشرے میں خرابی کا موجب بن گیا تھا لہذا شیخ نے اس سے اجتناب برتا،جبکہ سلطان جی کے زمانے میں دلی میں اس سے خدا ترسوں کی جماعت کو یکجا کرنے کا کام کیا گیا اس لیے یہاں یہ مستحسن رہا۔ لہذا ایک ہی علم کو کہیں حرام قرار دے کر صوفیا نے معاشرے کو برائی سے بچایا اور کہیں رائج کر کے۔ اسی طرح جہاں نرم رویے سے اصلاح کا کام بہ آسانی ہو گیا وہاں اپنے جمال کو روا رکھا کہ جس کی بہترین مثال شیخ شرف الدین یحیی منیری کے مکتوبات سے ملتی ہے جس میں وہ بڑی شفقت سے کہتے ہیں کہ ایک بار غلطی ہوگئی تو توبہ کر لو دوبارہ ہوگئی دوبارہ کر لو سہ بارہ ہوگئی تو سہ بارہ کر لو اور اگر چوتھی بار ہوگئی تو چوتھی بار کر لو۔ وہیں دوسری طرف جہاں سخت رویہ کی ضرورت پیش آئی وہاںشیخ عبدالحق محدث دہلوی کی طرح جلال سے کام لیا کہ دین الہی کا رد کرنا ہے تو کرنا ہے۔ صوفیا کا موقف بہت واضح اور صاف ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی معاشرے میں بے دینی، جہالت اور بد اخلاقی پھیلتی ہوئی نہیں دیکھ پاتے۔ لہذا خلوص دل سے کسی بھی معاشرے کی اصلاح کا کام کبھی زور وشور سے کرتے ہیں تو کبھی آہستگی سے۔ اس ضمن میں صوفیہ کے دو گروہ ہیں ایک وہ جو مشہورہوتا ہے اور ایک وہ جو گم نام، گم نامی میں کام کرنے والے صوفیا کی تعداد مشہور صوفیا سے قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً علامہ فضل حق خیرآبادی کے پیر طریقت شاہ بڈھن ایک ایسے شخص تھے جن کو بہت کم لوگ جانتے تھے اب بھی ان کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے،مگر علامہ فضل حق خیر آبادی کو کون نہیں جانتاکہ جن کے علم معقول ومنقول کی دنیا جہان میں شہرت ہے ان کی صوفیانہ تربیت شاہ صاحب نے کی۔اسی طرح شمس تبریزی علیہ رحمہ کی شہرت مولانا روم کے مقابلے کم تھی، لیکن مقام و مرتبہ ان سے کہیں زیادہ تھا۔ ایسے صوفیہ اپنے کسی نائب کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا کام کرتے ہیں اور اس سے تعلیم و تعلم کی شمع روشن کرتے ہیں۔

یہ بھی غور طلب ہے کہ ایک صوفی ایک سچے فنکار کی طرح ہوتا ہے جو اصلاح معاشرہ کے لیے ہاتھ میں ڈنڈا تھام کر کام نہیں کرتا کہ جہاں کسی سے غلطی ہوئی وہاں اس پر چڑھ دوڑا۔ جس طرح ایک عظیم فن کار زندگی کی حقیقتوں سے واقف ہوتا ہے اس کے باطنی دکھوں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنی فنی صلاحیتوں سے اس طرح ان دکھوں کا علاج کرتا ہے کہ معاشرے کا ظاہری ڈھانچہ متزلزل نہ ہو،اسی طرح صوفیہ بھی محبت اور بصیرت سے کام لیتے ہوئے اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ مثلاً ہندوستان کے ایک عظیم مصور دھن راج بھگت نے جس طرح اپنی مصوری سے معاشرے میں پھیلی برائیوں اور نفاق کو ظاہر کیا ہےاور جن کی بیشتر تصاویر National Gallery of Morden Art (Delhi)میں موجود ہیں،اسی طرح شیخ طریقت مرزا مظہر جان جاناں نے اپنے خطوط میں بت پرستی اور توحید کے متعلق جو غلط فہمیاں عوام میں پائی جاتی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرزا مظہر جان جاناں جو کہ نقشبندیہ سلسلہ کے ایک عظیم صوفی تھے انہوں نے اپنے عہد میں ہندوستان میں بت پرستی کی بڑھتی مخالفت کو محسوس کیا اور عوام کو یہ باور کرایا کہ بت پرستی بہت مماثل ہے تصور شیخ سے۔ لہذا جس طرح تصور شیخ معیوب نہیں اسی طرح بت پرستی بھی معیوب نہیں۔ کوئی مولوی یہ بات نہیں کہہ سکتا اور نہ کوئی پنڈت۔ کیوں کہ ان دونوں کے یہاں علم کا غرور پایا جاتا ہے۔صوفی ان کے مقابلے میں قدر متوازن ہوتا ہے۔ معاشرے میں پھیلنے والی برائی کی جڑ پہ نگاہ رکھتا ہے اور اس کے یہاں قبولیت کا امکان بہت بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ وہ ہر صورت حال کو ہنسی خوشی اسی لیے قبول کر لیتا ہے کیوں کہ اس کی نگاہ حقیقت پر ہوتی ہے۔ منصور حلاج کی مثال سامنے کی ہے کہ جب ان کو اناالحق کی صدا پر دار پر چھڑایا جا رہا تھا تو انہوں نے اپنی طرف بڑھتے ہوئے جلاد کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا کہ آو تم جس شکل میں آو گے میں تمہیں پہچانتا ہوں۔ صوفی سچا اور نیک ہوتا ہے لہذا وہ حق ہی بولتا اور سنتا ہے خواہ اسے جلا دیا جائے، مار دیا جائے یا سولی چڑھا دیا جائے۔ وہ اپنی سچائی سے ہی معاشرے کو راہ راست اور صراط المستقیم کا پتہ دیتا ہے۔منصور حلاج نے بھی یہ ہی کیا کہ جس عہد میں خودی اور حق کے مباحث گمراہی کا شکار ہونے لگے اس عہد میں انہوں نے اپنے انجام کی پروا نہ کرتے ہوئےحقیقت کا اظہار کیا۔اسی کا اظہار امام شافعی نے بھی کیا تھا اور بعد کے عہد میں سرمد شہید نے بھی کیا۔ ایک عام غلط فہمی جو کہ عوام میں صوفیہ کے متعلق پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ عوام صوفیا کو سادہ لوح سمجھتی ہے۔ صوفی سادہ لوح نہیں ہوتا وہ سادہ دل ہوتا ہے۔ سادہ لوح شخص کسی معاشرے کے لیے کار آمد نہیں ہوسکتا جبکہ سادہ دل ایک تصوراتی معاشرے کو حقیقی روپ دے سکتا ہے۔سچا صوفی جبر نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کج بحثی ہوتا ہے،وہ منطق اور تدبر سے کام لیتا ہے اور عوام میں سچ کو دیکھنے اور جاننے کی ترغیب پیدا کرتا ہے۔ صوفیا عوام کے دلوں میں حقیقت کی لو روشن کرتے ہیں جس سے اصلاح باطن کا کام ہوتا ہے،وہ عوام کو تزکیہ نفس کی تعلیم دیتے ہیں جس سے حرص و ہوس جاتا رہتا ہے۔ انسانی تاریخ کے جتنے ادوار میں صوفیہ کی جتنی جماعتوں نے اپنے دائرے میں اصلاح باطن کا کام کیا ہے تاریخ شاہد ہے کہ وہاں برائیوں کا گراف بہت نیچے چلا گیا ہے۔ ہندوستان میں تو اس کی سیکڑوں مثالیں ہیں خواہ وہ بہار ہو یا بنگال،کشمیر ہو یا دکن، گجرات ہو یا مہاراشٹراوراتر پردیش ہو یا آسام ہر جگہ ایسے صوفیہ پائے گئے ہیں جنہوں نے عوام کے دلوں کو اپنی تعلیمات سے روشن کیا اور ان کی ذات میں محبت و اخوت کا بیج بو دیا اور میری دانست میں کسی بھی معاشرے کی اصلاح کی اس سے بہتر ترکیب شاید ہی کچھ اور ہو کہ اس میں محبت، صبر، تحمل،علم اور حلم کے چراغ روشن کر دیئے جائیں۔

Leave a Reply