Laaltain

دس برسوں کی دلی-قسط نمبر 5

8 مئی، 2016

[blockquote style=”3″]

تصنیف حیدر شاعر ہیں اور شاعر بھی وہ جو غزل میں تجربات اور جدت طرازی سے خوف زدہ نہیں۔ دوردرشن اور ریختہ سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انٹرنیٹ پر اردو ادب کی سہل اور مفت دستیابی کے لیے ادبی دنیا کے نام سے اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی “دس برسوں کی دلی” ان کے دلی میں گزرے دس برس پر محیط ہے جس کی بعض اقساط ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس آپ بیتی کو اب مکمل صورت میں لالٹین پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

[/blockquote]

دس برسوں کی دلی کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

قسط نمبر 5

 

میں زندگی کے بھورے رنگ کو پسند کرتا ہوں، جس میں تھوڑی سیاہی ، تھوڑی سفیدی سے گلے ملتی ہوئی نظر آتی ہو۔
میری کہانی کے یہ حصے اتنے بٹے ہوئے اس لیے ہیں کیونکہ میں خود بھی اتنا ہی بے ربط ہوں۔ دہلی کے دس سالوں کی داستان بہت زیادہ قصوں پر مشتمل نہیں ہے، لمبی نہیں ہے، مگر دلچسپ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں زندگی کے بھورے رنگ کو پسند کرتا ہوں، جس میں تھوڑی سیاہی ، تھوڑی سفیدی سے گلے ملتی ہوئی نظر آتی ہو۔ ریختہ میں جانے سے کئی سال پہلے یعنی دہلی آنے کے بعد گورو مشرا سے میری دوستی جس پروڈکشن ہاوس میں ہوئی وہاں وہ ہندی میں مکالمے ٹائپ کیا کرتا تھا۔ دہلی میں ایک بڑی آبادی ایسے لوگوں کی ہے جو جرنلسٹ بننے ، ٹی وی اینکر بننے آیا کرتے ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ اب گورو کی شادی جس لڑکی سے ہوئی ہے، یعنی وجیاسے، وہ بھی ٹی وی اینکر بننے ہی آئی تھی، مگر اب یہاں کے ایک مشہور ہندی میگزین میں کام کرتی ہے۔گورومشرا، ذات کا برہمن ہے، وہ آریہ سماجی ہے،مگر مورتی پوجن کو جائز سمجھتا ہے،جنیو ڈالے صبح سویرے ننگے بدن، یعنی محض ایک چڈی پہن کر بھی بھگوان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔اس کی شرافت، لہجہ، متانت، انداز بیان اور ہر چیز اتنی سیدھی ، سچی اور آئینے کی طرح ہے کہ اس سے ملتے ہی میرا دل اس سے جڑ گیا۔ ہم دونوں اکثر ساوتھ ایکس میں رات رات بھر ساتھ کام کیا کرتے تھے، سردی کا موسم تھا، وہاں موجود ایک لڑکےسے ہم چائے بنوایا کرتے، میگی نوڈلز بنوایا کرتے اور کھاتے، پیتے ۔ کام یہ تھا کہ میں مختلف شہروں کی فوٹیج دیکھ کر وائس اوور بولتا جاتا تھا اور گورو اسے ہندی میں اسکرپٹ کے طور پر ٹائپ کرتا رہتا تھا۔ وہ مجھ سے کہتا تھا کہ جن شہروں میں تم گئے نہیں، جنہیں تم نے دیکھا نہیں، محسوس نہیں کیا، ان کے بارے میں کیسے اتنی ساری باتیں کرلیتے ہو۔ میں نے اس سے کہا کہ میری بیشتر باتیں جھوٹ ہوتی ہیں، ویسے بھی یہ پروگرامز دوردرشن اردو پر دکھائے جانے والے ہیں، جو کہ اپنے آپ میں ایک مکمل دروغ گو چینل ہے۔ اس پر ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب، آپسی بھائی چارے، گاڑھے السلام و علیکم وغیرہ اور بھڑکیلے کپڑوں اور نہ جانے کن کن باتوں کا جھوٹ گڑھا اور سنایا جاتا ہے۔

 

گورو سے جب میں ملا تو وہ پہلا ہندو تھا،جس نے کبھی میرے مذہب، مسلمانوں کے کردار، ان کے حلیے، ان کی شناخت، ان کے تہذیبی مسئلے اور ان کے کسی بھی تعمیری یا تخریبی پہلو پر گفتگو نہیں کی، وہ ایک سخت گیر مذہبی سماج سے تعلق رکھنے والا شخص ہے، اس کے ماں باپ نے عمر کے ایک بڑے حصے تک اپنے بچوں کی چوٹی کا خیال رکھا، پوجا پاٹھ، کیرتن بھجن اور ہر وہ چیز جس سے مذہبی تقدس کا بھرم یا شناخت قائم رہے، گورو کے گھر میں زندہ تھی۔ مگر دہلی آنے کے بعد اس نے بال کٹوانا ہی چھوڑ دیے تھے، وہ کہتا تھا کہ وقت نہیں ملتا، مگر سچ یہ تھا کہ اسے لمبے بالوں کا چسکا لگ گیا تھا۔ گورو اپنی طبیعت اور اپنے مزاج سے کبھی کسی معاملے میں سخت آدمی بن ہی نہیں سکا، میں نے ان دس سالوں میں کئی بار اس کے دیے ہوئے کاموں کو ٹال دیا، اپنی بہن کی شادی میں اسے بہت پریشان کیا، اس کے گھر پر رکتا رہا، اس سے کھانے بنوا بنوا کر کھائے، راتوں کو اس کے ساتھ یوسف سرائے میں ٹہلیں لگائیں، اسے گالیاں دیں، ہنسی مذاق کیا، مگر وہ کبھی مجھے آج تک غصے میں نہیں دکھائی دیا۔ یہ اس کا مزاج تھا، اس کی زندگی سختیوں سے بھری ہوئی ہے، وہ آج بھی ایک چینل میں اسسٹنٹ یا ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کی پوسٹ پر کام تو کر رہا ہے، مگر تنخواہ حسب توقع نہیں اور کام کی پخ دن رات لگی ہوئی ہے۔

 

مسلمانوں کے تعلق سے اسی گھر میں رہنے کے بعد مجھے یقین ہوا کہ دس طرح کی غلط فہمیاں خاص طور پر ان ہندو گھرانوں میں ہیں، جہاں آج تک کسی ڈھنگ کی مسلم فیملی سے سابقہ نہیں پڑا ہے۔
گورو کے گھر جب میں جانے لگا تو وہاں رہنے والے دوسرے لڑکوں سے بھی میری ملاقات ہونے لگی، ابھیشیک ورما، جو کہ ایک پنجابی چینل میں ایڈیٹر تھا(اب پتہ نہیں کہاں ہے)، اوستھی جی جو کہ لائیو انڈیا نیوز چینل کے رپورٹر ہیں، اروت راج، قابل ایڈیٹر اورپروڈیوسر اور ان سب کے ساتھ گورو کا چھوٹا بھائی ستیندر، جسے ہم چھوٹو کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ابھیشیک کی باتوں میں اول اول تعصب کی بو آتی تھی، ہندوستان میں مسلمانوں کو یوپی کے ایک خاص طرز میں، ان کے ختنے کی وجہ سے کٹوا کہہ کر پکارا جاتا ہے۔جیسا کہ سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا کے ناول بلیسر بکری والا کے مرکزی کردار کے چھوٹے بھائی کا نام تھا، اور انہیں یہ نام اس لیے ملا تھا کیونکہ معلوم ہوتا تھا وہ خدا کے یہاں سے ہی ختنہ کراکر آئے ہیں۔میرے لیے یہ لفظ بے حد نیا نہیں تھا، مگر جو چیز آپ کبھی کبھار سنتے آئے ہوں، اس کا پہلی بار آپ کے ساتھ تجربہ ہونا بڑی عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ابھیشیک مجھے کبھی کبھار’کٹوا’کہہ کر بلایا کرتا تھا، لیکن بڑی عجیب بات تھی کہ وہی شخص عید، بقرعید میرے گھر آ کر بڑے چھوٹے کا تمیز کیے بغیر بریانی بھی کھا لیا کرتا تھا، حالانکہ گورو نے نہ تو کبھی گوشت کو ہاتھ لگایا اور نہ کبھی اسے کھانے کی کسی خواہش کا ذکر کیا۔ وہ ایک زمانے میں انڈا کھا چکا تھا، مگر بعد میں اس نے وہ بھی ترک کر دیا تھا۔ مسلمانوں کے تعلق سے اسی گھر میں رہنے کے بعد مجھے یقین ہوا کہ دس طرح کی غلط فہمیاں خاص طور پر ان ہندو گھرانوں میں ہیں، جہاں آج تک کسی ڈھنگ کی مسلم فیملی سے سابقہ نہیں پڑا ہے۔ یوپی میں آج بھی بہت سے گھر ایسے ہیں، جہاں کتا آکر برتن چاٹ جائے تو اسے دھو لیا جائے گا مگر مسلمان نے اگر کسی پلیٹ میں کھانا کھا لیا ہے، تو ہندووں کے یہاں وہ ناپاک تصور کرکے یا تو صرف کسی مسلمان کے استعمال کے لیے مخصوص کردی جائے گی یا پھر اسے پھینک وینک دیا جائے گا۔

 

ہندوستان چونکہ ایک متنوع قسم کا ملک ہے، اس لیے یہاں اس تقسیم پر مبنی سوچ کے ہوتے ہوئے بھی، کئی ایسے سخت ہندو گھرانوں کے لڑکوں، لڑکیوں سے مسلمانوں کے تعلقات بہت بہتر اور خوبصورت طرز پر استوار ہوگئے ہیں۔لیکن یوپی کے گاوں وغیرہ کو چھوڑ دیجیے تو شہروں میں صورت حال اس کے بالکل برعکس بھی معلوم ہوتی ہے۔شہریوں کے یہاں یعنی خاص طور پر دہلی میں، میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ لوگوں کا مذہب سے ایک خارجی قسم کا تعلق ہے، وہ ماتھا ٹیکیں گے، پھول چڑھائیں گے،جمعہ قضا نہیں کریں گے، مگر ان کے معاشی، سماجی معاملات میں انہیں تعلقات بڑھانے ہوتے ہیں،کیونکہ شہروںمیں زیادہ تعلقات کا مطلب ہے، زیادہ مواقع، زیادہ سہولیات۔اس لیے لوگ یہاں مذہب کو دیکھ کر ، ایک دوسرے کی ذات پوچھ کر تعلق نہیں بناتے، بس ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں،اور رہنا چاہتے ہیں کیونکہ پتہ نہیں کب، کون کہاں کام آجائے۔اب ایسی صورت حال میں بہت سے تعلقات بغیر کسی فائدے کی ہوس کے بھی بن جاتے ہیں۔گورو سے میرا تعلق ایسا ہی تھا۔خدا کے ساتھ شہر والوں کا رویہ بہت صاف اور دو ٹوک ہے، یعنی بقول ظفر اقبال

 

ادھر ادھر یونہی منہ مارتے بھی ہیں لیکن
یہ مانتے بھی ہیں دل سے کہ ہم کو تو ہے بہت

 

شہروں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ یہاں ایک دہریے کا خدا سے گہرا رشتہ ہے، ایک غیر مذہبی کا مذہب سے اور ایک پاکدامن کا فریب کاری سے۔
یہ بات سچ ہے کہ جو لوگ جس چیز سے بے نیاز ہوتے ہیں، وہ سچے ہوتے ہیں، مگر جو لوگ بے نیاز ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں،ان کا رشتہ انہی چیزوں سے زیادہ ہونے لگتا ہے۔ شہروں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔یہاں ایک دہریے کا خدا سے گہرا رشتہ ہے، ایک غیر مذہبی کا مذہب سے اور ایک پاکدامن کا فریب کاری سے۔ مجھے ہی دیکھ لیجیے، اس اب تک کی تحریر میں مذہب زیادہ شامل ہوگیا ہے، گورو کہیں کم ہوگیا۔جبکہ گورو اگر یہ تحریر لکھتا تو اس میں صرف تصنیف ہوتا، اس کی مذہبی شناخت کا مسئلہ نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ چیزوں کو میں جیسے دیکھ رہا تھا، ویسے گورو نہیں دیکھتا۔ وہ دوست ہے، بس ایک عدد دوست، جو مشکل میں ہر شخص کے کام آنا چاہتا ہے، دوست کے لیے قربانیاں دے سکتا ہے۔وقت کا کوئی نفع و ضرر دیکھے بغیر اسے اپنوں پر قربان کرسکتا ہے۔گورو کے ساتھ میں نے زندگی کو الگ الگ روپ میں دیکھا۔وہ سالا بہت ہینڈسم قسم کا آدمی ہے، بس ذرا سا ‘ہبڑا’ ہےیعنی سامنے کے دانت تھوڑے سے آگے ہیں۔مگر رنگ گورا، ماتھا چوڑا، ہونٹ، اودے اور گلابی رنگ کی ملی جلی مٹی سے گوندھے ہوئے۔گالوں میں پڑتے ہوئے گڑھے، ہلکی بھوری آنکھیں اور بالکل ملائم بالوں کے ساتھ ایک بغیر توند والا، تندرست بدن۔اب تو خیر اس کی شادی ہوگئی ہے، اور شادی کے بعد کچھ ہی روز میں آدمی کی ہیت اور قسمت دونوں میں گراوٹ آنے لگتی ہے۔مرد اور عورت ایک سستے ایگریمنٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔بہرحال صنف نازک کے معاملے میں مجھ میں اور گورو میں ایک بات مشترک ہے کہ ہمیں ہمیشہ خوبصورت لڑکیوں سے مراسم بڑھانے کا شوق رہا ہے۔وجیا سے تو اس کی شادی شاید ایک سال پہلے ہوئی ہے، مگر اس سے پہلے وہ ایک پہاڑن پر عاشق تھا،اس کا نام کیا تھا۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔ویشالی۔۔۔گورو اب اس کا ذکر بھی سننا نہیں چاہتا۔وجہ یہ تھی کہ ویشالی، گورو کو کسی طرح مل گئی تھی، اسی لائن میں struggleکررہی تھی، بلا کی خوبصورت، لمبے کالے بال، بھرا ہوا بدن، نہ زیادہ پتلا، نہ زیادہ موٹا، سنہری رنگت، بڑی آنکھیں اور نازک سی آواز، خوش مزاج لڑکی تھی۔گورو نے اس سے دوستی کی، شاید کسی معاملے میں مدد کرنے کے بہانے۔اب رفتہ رفتہ ان کا حال یہ ہوا کہ یہ اس کے گھر کا سامان لانے لگے، اسٹوو ٹھیک کرنے لگے، گیس کنکشن کے لیے بھاگ دوڑ کرنے اور اس کے کپڑے تک دھونے لگے، حالانکہ اب یہ سب باتیں اگر گورو کے سامنے آئیں گی تو وہ مانے گا نہیں۔ مگر ایک وقت تھا، جب وہ اس لڑکی کے لیے تقریبا ًپاگل تھا۔ میں نے ایک روز فون کیاتو اسی کے گھر پر تھا، میں نے پوچھا کیا کر رہے ہو، کہنے لگا ‘یار! آٹا گوندھ رہا ہوں۔’ میں نے کہا ‘زیادہ پانی مت ڈالو، پتلا ہوجائے گا’ مگر کمبخت نے شاید زیادہ پانی ہی ڈال دیا تھا۔

 

آسکر وائلڈ نے کہا ہے کہ عورت کو سمجھنا نہیں چاہیے، بس پیار کرنا چاہیے ، مگر یہ بات کیسے واضح ہو کہ عورت کو سمجھنے اور پیار کرنے کے درمیان میں بھی بہت سے مراحل ہیں
لڑکیوں کے ساتھ ایک نفسیاتی معاملہ یہ ہے کہ وہ جس سے کام لینا جانتی ہیں، اس کے ساتھ گھر بسانے کا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتیں۔ وہ جو استعمال میں آ جائے، ان کے نزدیک زیادہ تر وہ شادی کے لائق نہیں ہوتا۔آسکر وائلڈ نے کہا ہے کہ عورت کو سمجھنا نہیں چاہیے، بس پیار کرنا چاہیے ، مگر یہ بات کیسے واضح ہو کہ عورت کو سمجھنے اور پیار کرنے کے درمیان میں بھی بہت سے مراحل ہیں، اگر آسکر وائلڈ کو کبھی کسی لڑکی کے گھر اس کی محبت میں آٹا گوندھنے جیسا غیر عشقیہ عمل کرنا پڑتا تو شاید ان کے خیالات دوسرے قسم کے ہوتے۔ بہرحال، ایک روز جب گورو سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ ویشالی،اب اس سے بات نہیں کرنا چاہتی ہے، وہ شاید آسامی تھی، وہیں واپس رہنے چلی گئی ، اسے لگا کہ دہلی اس کے کسی کام کا نہیں۔لیکن اس سے زیادہ بھیانک بات یہ ہوئی تھی کہ گورو کے کسی شناسا نےا سے شراب پی کر کال کردیا تھا، اور اس لڑکی کو اپنے گھروالوں کے سامنے ،بقول اسی کے بڑی شرمندگی اٹھانی پڑی تھی،اس لیے اس نے گورو سے ہمیشہ ہمیشہ بات کرنے کے لیے منع کردیا تھا۔میری ویشالی سے صرف ایک ملاقات تھی، وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے میں ایڈمیشن لینا چاہتی تھی۔ گورو اسے میرے گھر لے آیا، ہم گھر پر نہیں ملے، پاس ہی کے ایک کمیونٹی سینٹر پر ملے، مجھے ویشالی کو دیکھ کر گورو سے حسد ہوئی، مگر دوستانہ جذبات کو قائم رکھتے ہوئے میں نے کوئی ایسی بات کہی نہیں جو اسے ناپسند ہوتی ۔ویشالی کے بعد گورو کی زندگی میں وجیا آئی، یہ تب کا ذکر ہے، جب وہ لائیو انڈیا میں ہی کام کرتا تھا۔وجیا وہاں بطور انٹرن آئی تھی، اس کی تین چار خاصیتیں تھیں، اول تو یہ کہ وہ بہت خوبصورت نہیں تھی، بس گوری تھی، قد ناٹا تھا، ہاتھ پیر چھوٹے چھوٹے اور دوسری یہ کہ وہ گورکھپور کی تھی۔اوستھی جی کہا کرتے تھے کہ گورکھپور کی لڑکی دانہ ڈالے اور آدمی نہ پھنسے ایسا ممکن نہیں۔ان کی بات سولہ آنے سچ ثابت ہوئی، میرا دوست ضائع ہوگیا۔ بہرحال اب وجیا ہماری بھابھی ہیں۔ان دونوں کی شادی ہو گئی ہے، اب دوسری بہت سی مصروفیات کی وجہ سے گورو سے ملنا بہت کم ہی ہوتا ہے، کبھی کبھار۔فون پر باتیں بھی کم ہوگئی ہیں۔ ورنہ ایک زمانے میں ہم رات رات بھر بتیاتے تھے۔گورو نے جس سے بھی محبت کی، ٹوٹ کر کی، سماج، خاندان، مذہب، ان سب کو بالائے طاق رکھ کر۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مذہب سے اس کا تعلق خارجی رسوم کے علاوہ ایسا گہرا نہیں تھا، اسے گیتا میں کتنے ادھیائے ہیں، ان تک کا علم نہیں، اور نہ وہ جاننا چاہتا ہے۔

 

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *