Laaltain

سپاہ صحابہ سے تعلق؛ پنجاب یونیورسٹی کے دو اساتذہ اور ایک طالب علم گرفتار

15 دسمبر، 2015
پنجاب یونیورسٹی اپنے اساتذہ کی وجہ سے آج کل خبروں کی زینت ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ اساتذہ تحقیق، تصنیف یاتالیف کے میدان میں کارہائے نمایاں کی بجائے دہشت گرد مذہبی تنظیموں کے ساتھ روابط کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے 14 دسمبر کی صبح کارروائی کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے دواساتذہ اور ایک طالب علم کو کالعدم قرار دی گئی تکفیری دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ سے تعلق کی بناء پر گرفتار کیا ہے۔ کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ پنجاب نے انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریشن سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر عامر سعید، بوائز ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ اور کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیکچرار عمر نواز اور لاء کالج میں ساتویں سیمسٹر کے طالب علم وقار(بعض اطلاعات کے مطابق وقاص) کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔

 

کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے 14 دسمبر کی صبح کارروائی کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے دواساتذہ اور ایک طالب علم کو کالعدم سپاہ صحابہ سے تعلق کی بناء پر گرفتار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سی ٹی ڈی نے اسسٹنٹ پروفیسر عامر سعید کو مرد اساتذہ کے لیے مخصوص ہاسٹل سے گرفتار کیا جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ لیکچرر عمر نواز کو بوائز ہاسٹل کے سپرٹنڈنٹ ہاوس سے حراست میں لیا گیا۔ طالب علم وقار کو بھی یونیورسٹی حدود میں سے ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی ترجمان کے مطابق چھاپہ صبح کے وقت پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس پر مارا گیا جس کی اطلاع انتظامیہ کو پہلے نہیں دی گئی تھی۔ اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن نے اس کارروائی کی مذمت کی ہے اور اسے “تعلیمی سلسلے کو متاثر کرنے والا اقدام” قرار دیا ہے۔

 

ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ معاشرے میں اساتذہ کا ایک وقار ہے اگر ان سے کسی بھی قسم کی تفتیش کرنا درکار ہے تو اس کے لیے مناسب طریقہ اختیار کرنا چاہیئے۔ اس طرح کے چھاپوں سے نہ صرف اساتذہ بلکہ کیمپس میں موجود طلبہ بھی ہراساں ہوتے ہیں اور ان کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوتا ہے۔ تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے پنجاب یونیورسٹی میں ایسے مزید اساتذہ یا طلبہ کی نشاندہی، ان کے خلاف کارروائی اور یونیورسٹی حدود میں ایسی تنظیموں کی سرگرمیاں روکنے کے لیے تاحال کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے گزشتہ بیس سال سے وابستہ ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لالٹین سے بات کرتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹی میں اس حوالے سے کبھی کوئی سنجیدہ بات چیت نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی کسی کالعدم تنظیم سے روابط کو برا سمجھا گیا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اگرچہ گزشتہ کئی برس سے یونیورسٹی میں کھلے عام کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں نہیں ہو رہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ درپردہ خفیہ طور پر ان تنظیموں کے ہمدرد موجود ہیں۔

 

یونیورسٹی انتظامیہ نے پنجاب یونیورسٹی میں ایسے مزید اساتذہ یا طلبہ کی موجودگی اور یونیورسٹی حدود میں کالعدم مذہبی دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں روکنے کے لیے تاحال کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا۔
سپاہ صحابہ ایک تکفیری دہشت گرد تنظیم ہے جو اہل تشیع کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں اس پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد اس تحریک نے اہل سنت و الجماعت کی شکل اختیار کر لی۔ حال ہی میں اہل سنت و الجماعت پر پابندیوں کے بعد اس جماعت نے راہ حق پارٹی کی شکل میں انتخابات می حصہ لیا ہے۔
عامر سعید، عمر نواب اور وقاص کی گرفتاری سے قبل قبل 7 دسمبر کو انسٹی ٹیوٹ آف آیڈمنسٹریٹو سٹڈیز کے ایک اور استاد غالب عطا کو کالعدم تنظیم حزب التحریر سے روابط کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔

 

اس سے قبل رواں برس 20 اپریل کو پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل نمبر 14 کی کینٹین پر حزب التحریر پنجاب کا سربراہ بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ستمبر 2013 میں حساس اداروں نے القاعدہ کے ایک رکن کو بھی پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 1 سے گرفتار کیا تھا۔ شدت پسند جہادی تنظیموں کا اثر صرف پنجاب یونیورسٹی میں ہی موجود نہیں ان کے اراکین پاکستان کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی موجود ہیں۔ سانحہ صفورا کے ملزمان بھی پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *