[blockquote style=”3″]
ادارتی نوٹ: نعمت خان کا یہ مضمون دی فرائیڈے ٹائمز کے 29 مئی2015 کے شمارے میں (The Al Qaeda sleeper cells of Karachi) کے نام سے شائع کیا گیا تھا۔محترم نعمت خان کی اجازت سے یہ مضمون لالٹین قارئین کے لیے اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
چند برس قبل 28 دسمبر 2010 کوجامعہ کراچی میں شیعہ طلبہ تنظیم کے ایک سٹال کے باہر ہونے والے بم دھماکے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔ محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایک اعلیٰ عہدیدارراجہ عمر خطاب نے رپورٹروں کو جدید تعلیم دینے والی یونیورسٹیوں کے مذہبی تعلیم سے بے بہرہ طلبہ پر مشتمل ایک دہشت گرد گروہ کا سراغ ملنے سے متعلق آگاہ کیا۔ تاہم اس گروہ سے کہیں زیادہ مہلک دہشت گروہوں سے نبرد آزما قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ترجیحات میں ایسے طلبہ کا گروہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ رواں برس 19 مارچ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2010 میں دہشت گردحملے کی منصوبہ بندی کرنے پر کراچی یونیورسٹی میں فوڈ سائنسز کے طالب علم محمد عمر عرف چھوٹا اور بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم حفیظ اللہ عرف بلال کو 14 برس قید کی سزا سنائی ہے۔ اسی مقدمے کا ایک اور ملزم شاہد خان عرف قاری شاہد پولیس کے پرتشدد جرائم کے انسدادی سیل کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کی بیوہ صبیحہ نے تفتیش کاروں کو بتایاکہ شاہد مئی 2011 میں پی این ایس مہران، نومبر 2010 میں اس وقت کے کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ اور جنوری 2011 میں ملیر میں شیعہ عزاداروں پر ہونے والے موٹرسائیکل حملے کی منصوبہ بندی میں بھی ملوث تھا۔ تفتیش کاروں کو یقین ہے کہ 2000 میں شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی میں داخلہ لینے سے قبل سابق پاکستانی کپتان یونس خان کے ساتھ سٹیل ٹاون گراونڈ میں کرکٹ کھیلنے والے شاہد خان نے القاعدہ کے کئی خوابیدہ گروہوں کی بنیاد رکھی۔ پیشہ ورانہ ڈگریوں کے حامل طلبہ پر مشتمل یہ خوابیدہ گروہ ایسے شہری مراکز میں قائم کیے گئے تھے جہاں القاعدہ اپنی افزائش میں ناکام رہی تھی۔
تفتیش کاروں کو یقین ہے کہ 2000 میں شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی میں داخلہ لینے سے قبل سابق پاکستانی کپتان یونس خان کے ساتھ سٹیل ٹاون گراونڈ میں کرکٹ کھیلنے والے شاہد خان نے القاعدہ کے کئی خوابیدہ گروہوں کی بنیاد رکھی
صفورا قتل عام کے ملزمان سے تفتیش میں مصروف ایک پولیس اہلکار کے مطابق ،”یہ خیال کراچی میں مقیم نیورو سرجن ڈاکٹر ارشد وحید کی اختراع تھا جو افغانستان پر امریکی حملے کے بعدزخمی جنگجووں(مجاہدین) کے علاج کے لیے قندھار منتقل ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر ارشد کو بعد ازاں القاعدہ میں شامل کر لیا گیا اور مختلف پیشوں سے وابستہ نوجوانوں کو بھرتی اور منظم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ” 16 مارچ 2008 کوجنوبی وزیرستان میں ڈاکٹر ارشد وحید کی ہلاکت کے بعد شاہد خان نے اس ذمہ داری کو اپنے سر لیتے ہوئے مذہبی رحجانات رکھنے والے نوجوان طلبہ کو وزیرستان میں القاعدہ کے کیمپ میں ابتدائی تربیت کے لیے بھرتی کرنے کا سلسلہ شروع کیا، ان میں سے کئی ڈرون حملوں میں مارے گئے۔
"وہ(شاہدخان)تنظیم کے ساتھ سابقہ وابستگی اور بین الشعبہ جاتی کرکٹ مقابلوں میں نمایاں کارکردگی کے باعث مشہور ہونے کی وجہ سے اسلامی جمعیت طلبہ میں اثر ونفوذ کے لیے بہترین انتخاب تھا۔” پولیس افسر نے مزید بتایا۔ "لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کی قیادت کی مزاحمت کے باعث بھرتیوں کی تعداد دو درجن سے بڑھ نہیں پائی جو اپنی تنظیم کو القاعدہ کی نرسری نہیں بنانا چاہتی تھی۔ ”
شاہد خان سے متاثر ہونے والے طلبہ میں سے ایک کلیم فاروق(خاندان کی درخواست پراصل نام نہیں دیا جارہا) بھی تھا جس نے ٹی وی پروڈکشن کا پیشہ اپنانے کے لیے کراچی یونیورسٹی میں تعلیم کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ اس کے بھائی نے بتایا وہ بچوں کے پروگرام تیار کیا کرتا تھا یہاں تک کہ "ایک روز وہ اپنی بیوی اور دودھ پیتے بچے کے ہم راہ سامان باندھ کراپنے گھر والوں کو حیران و پریشان چھوڑ کر وزیرستان چل دیا”۔ اس کے بھائی کے مطابق "ہم نہیں جانتے کہ اے اچانک کیا ہوا۔اس نے سب گھر والوں کو اکٹھا کیا اور اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔”
این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے تعلیم یافتہ عبدالرحمن شجاعت نے بھی اس کی پیروی کی جس کے بعد کلیم کے کراچی یونیورسٹی کے چند اور دوست بھی وزیرستان گئے۔ انہی میں ارضیات کی تعلیم پانے اور سمندر میں تیل تلاش کرنے والے غیر ملکی اداروں کی ملازمت کرنے والا زہیر امتیاز قدوائی، شعبہ تاریخ سے نکالا جانے والا فیشن ڈیزائننگ کے کاروبار سے منسلک مصباح عثمانی، تاریخ کے مضمون میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک مقامی خبررساں ادارے سے بطور صحافی منسلک محمد شبیراورمکینیکل انجینئراور سویڈش انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ڈپلومہ حاصل کرنے والا عمران نذیر بھی شامل تھا۔ ان نوجوانوں کی شناخت کی تفصیلات مختلف ڈرون حملوں میں ان کی ہلاکت کے بعد سامنے آئیں۔ ایک "نامعلوم پیغام رساں” نے کراچی کے ایک پوش علاقے میں واقع کلیم فاروق کے گھر آ کر اس کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی اطلاع دی۔ اس کے اہلخانہ کے مطابق وہ ایک "عام، تفریح پسند لڑکا ” تھا۔
"وہ(شاہدخان)تنظیم کے ساتھ سابقہ وابستگی اور بین الشعبہ جاتی کرکٹ مقابلوں میں نمایاں کارکردگی کے باعث مشہور ہونے کی وجہ سے اسلامی جمعیت طلبہ میں اثر ونفوذ کے لیے بہترین انتخاب تھا۔” پولیس افسر نے مزید بتایا۔ "لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کی قیادت کی مزاحمت کے باعث بھرتیوں کی تعداد دو درجن سے بڑھ نہیں پائی جو اپنی تنظیم کو القاعدہ کی نرسری نہیں بنانا چاہتی تھی۔ ”
شاہد خان سے متاثر ہونے والے طلبہ میں سے ایک کلیم فاروق(خاندان کی درخواست پراصل نام نہیں دیا جارہا) بھی تھا جس نے ٹی وی پروڈکشن کا پیشہ اپنانے کے لیے کراچی یونیورسٹی میں تعلیم کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ اس کے بھائی نے بتایا وہ بچوں کے پروگرام تیار کیا کرتا تھا یہاں تک کہ "ایک روز وہ اپنی بیوی اور دودھ پیتے بچے کے ہم راہ سامان باندھ کراپنے گھر والوں کو حیران و پریشان چھوڑ کر وزیرستان چل دیا”۔ اس کے بھائی کے مطابق "ہم نہیں جانتے کہ اے اچانک کیا ہوا۔اس نے سب گھر والوں کو اکٹھا کیا اور اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔”
این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے تعلیم یافتہ عبدالرحمن شجاعت نے بھی اس کی پیروی کی جس کے بعد کلیم کے کراچی یونیورسٹی کے چند اور دوست بھی وزیرستان گئے۔ انہی میں ارضیات کی تعلیم پانے اور سمندر میں تیل تلاش کرنے والے غیر ملکی اداروں کی ملازمت کرنے والا زہیر امتیاز قدوائی، شعبہ تاریخ سے نکالا جانے والا فیشن ڈیزائننگ کے کاروبار سے منسلک مصباح عثمانی، تاریخ کے مضمون میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک مقامی خبررساں ادارے سے بطور صحافی منسلک محمد شبیراورمکینیکل انجینئراور سویڈش انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ڈپلومہ حاصل کرنے والا عمران نذیر بھی شامل تھا۔ ان نوجوانوں کی شناخت کی تفصیلات مختلف ڈرون حملوں میں ان کی ہلاکت کے بعد سامنے آئیں۔ ایک "نامعلوم پیغام رساں” نے کراچی کے ایک پوش علاقے میں واقع کلیم فاروق کے گھر آ کر اس کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی اطلاع دی۔ اس کے اہلخانہ کے مطابق وہ ایک "عام، تفریح پسند لڑکا ” تھا۔
سیکیورٹی تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کے مطابق امیر گھرانوں کے پڑھے لکھے افراد کا دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہونا کوئی نئی بات نہیں
پاکستان کی ایک بڑی سیل فون کمپنی میں کام کرنے والے رفقائے کار کے مطابق کراچی کی صفورا چورنگی میں اسماعیلی مسافروں سے بھری بس پر حملے کا ملزم محمد اظہر عشرت بھی ایک عام اور تفریح پسند نوجوان تھا۔ اظہر بھی پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی تحویل میں ہے۔ اس کے ایک دوست کے مطابق،”اظہر کے رویے میں شدت پسندی کی کوئی علامت کبھی نہیں دکھائی دی۔ وہ سب سے بڑی عاجزی سے ملتا تھا اور اپنے رفقائے کار کے ساتھ تعاون کرنے والا تھا۔”
لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف مہم چلانے والی انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کے قتل کا اعتراف کرنے والے سعد عزیز کے والد کے ریستوران کا عملہ اور معروف درسگاہ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں اس کے دوست بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک نرم خو آدمی کس طرح اس قدر سفاک ہو سکتا ہے۔
سانحہ صفورا کی تفتیش سے وابستہ ایک اور پولیس افسر کے مطابق "القاعدہ کے خوابیدہ گروہوں کی یہی حکمت عملی ہے کہ اس کے اراکین اپنے خیالات دوسروں سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔”پولیس افسر کا کہنا تھا،” وہ پراپیگنڈا، عسکریت اورمہلک حملوں کی خصوصی تربیت کے لیے وزیرستان جاتےرہے اور اپنی غیر موجودگی کے حوالے سے اپنے احباب، دوستوں اور افسران بالا سے غلط بیانی کرتے رہے ۔” کراچی واپسی کے بعد وہ اپنی سرگرمیاں محدود رکھتے تھے۔”وہ اردو اور انگریزی میں اپنی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے القاعدہ کے لیے پراپیگنڈا اور مزید بھرتیوں کے لیے گلشن معمار اور گلشن حدید جیسے علاقوں میں نوجوانو ں کی ذہن سازی کرتے رہے یہاں تک کہ انہیں حملہ کرنے کی ہدایات موصول ہوئیں”۔
یہ نوجوان ان حملوں پر اپنی پذیرائی کے بھی خواہشمند نہیں تھے ۔ اس کے برعکس اپریل میں امریکی پروفیسر ڈیبرالوبو پر حملے کے بعد انہوں نے جائے وقوعہ پر اپنے حریف دہشت گرد گروہ دولت اسلامیہ کے پمفلٹ گرائے ۔ ان پمفلٹوں پر اس حملے کو اپریل میں کیماڑی کے ساحلی علاقے میں القاعدہ اراکین کے طور پر شناخت کیے جانے والے پانچ افراد کی ہلاکت کا بدلہ قرار دیا گیا۔ لیکن دولت اسلامیہ القاعدہ جنگجووں کی ہلاکت کا انتقام کیوں لے گی؟”ایساقانون نافذ کرنے والے اداروں کے گمراہ کرنے کے لیے کیا گیا،” راجہ عمر خطاب نے مجھے اپریل میں بتایا۔ "اس حملے اور گزشتہ چار دہشت گردانہ حملوں میں گہری مماثت ہے۔” ان کا اشارہ اس برس کے آغاز میں رینجرز اور پولیس اہلکارو ں پر ہونے والے دو حملوں، بوہرہ برادری کی مسجد کے باہر ہونے والے موٹر سائیکل بم حملے اور ایک بوہرہ تاجر کی دکان کے باہر دستی بم حملے کی جانب تھا۔
لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف مہم چلانے والی انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کے قتل کا اعتراف کرنے والے سعد عزیز کے والد کے ریستوران کا عملہ اور معروف درسگاہ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں اس کے دوست بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک نرم خو آدمی کس طرح اس قدر سفاک ہو سکتا ہے۔
سانحہ صفورا کی تفتیش سے وابستہ ایک اور پولیس افسر کے مطابق "القاعدہ کے خوابیدہ گروہوں کی یہی حکمت عملی ہے کہ اس کے اراکین اپنے خیالات دوسروں سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔”پولیس افسر کا کہنا تھا،” وہ پراپیگنڈا، عسکریت اورمہلک حملوں کی خصوصی تربیت کے لیے وزیرستان جاتےرہے اور اپنی غیر موجودگی کے حوالے سے اپنے احباب، دوستوں اور افسران بالا سے غلط بیانی کرتے رہے ۔” کراچی واپسی کے بعد وہ اپنی سرگرمیاں محدود رکھتے تھے۔”وہ اردو اور انگریزی میں اپنی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے القاعدہ کے لیے پراپیگنڈا اور مزید بھرتیوں کے لیے گلشن معمار اور گلشن حدید جیسے علاقوں میں نوجوانو ں کی ذہن سازی کرتے رہے یہاں تک کہ انہیں حملہ کرنے کی ہدایات موصول ہوئیں”۔
یہ نوجوان ان حملوں پر اپنی پذیرائی کے بھی خواہشمند نہیں تھے ۔ اس کے برعکس اپریل میں امریکی پروفیسر ڈیبرالوبو پر حملے کے بعد انہوں نے جائے وقوعہ پر اپنے حریف دہشت گرد گروہ دولت اسلامیہ کے پمفلٹ گرائے ۔ ان پمفلٹوں پر اس حملے کو اپریل میں کیماڑی کے ساحلی علاقے میں القاعدہ اراکین کے طور پر شناخت کیے جانے والے پانچ افراد کی ہلاکت کا بدلہ قرار دیا گیا۔ لیکن دولت اسلامیہ القاعدہ جنگجووں کی ہلاکت کا انتقام کیوں لے گی؟”ایساقانون نافذ کرنے والے اداروں کے گمراہ کرنے کے لیے کیا گیا،” راجہ عمر خطاب نے مجھے اپریل میں بتایا۔ "اس حملے اور گزشتہ چار دہشت گردانہ حملوں میں گہری مماثت ہے۔” ان کا اشارہ اس برس کے آغاز میں رینجرز اور پولیس اہلکارو ں پر ہونے والے دو حملوں، بوہرہ برادری کی مسجد کے باہر ہونے والے موٹر سائیکل بم حملے اور ایک بوہرہ تاجر کی دکان کے باہر دستی بم حملے کی جانب تھا۔
اسماعیلی برادری کے حالیہ قتل عام کا منصوبہ سازطاہر منہاس مدرسے کا طالب علم رہا ہے۔ جبکہ حافظ ناصر نے جامعہ کراچی سے اسلامیات میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کررکھی تھی
امریکہ کی جانب سے جاری کردہ اسامہ بن لادن کی تحویل سے ملنے والی دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ اپنے جنگجووں کی بے احتیاطی اور سراغ چھوڑ دینے سے نالاں تھے۔ صفورا قتل عام کے بعد ملزمان کی حد درجہ احتیاط ہی انہیں مشکوک بنانے کا سبب بنی۔ ملزمان ایک نئی اور محفوظ اینڈرائڈ ایپ "ٹاکرے ” استعمال کر رہے تھے۔ حملے کے بعد پولیس پمفلٹ چھاپنے والے فرد کی نشاندہی میں کامیاب ہو ئی جس نے سعد عزیز، حافظ ناصر اور اظہر عشرت اور آخر کارحملوں کے منصوبہ ساز طاہر منہاس تک پہنچنے میں مدد دی۔ طاہر کا تعلق پنجاب سے ہے اور وہ 1998سے دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ وہ مبینہ طور پر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سے مل چکا ہے۔ جلد ہی طاہر کے بھائی کو حیدرآباد میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا گیا۔ کراچی پولیس کے سربراہ غلام قادر تھیبو نے اتوار کو چافر مزید مشتبہ افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا تاہم تحقیقات متاثر ہونے کے خدشے کے باعث ان کی شناخت ظاہر کرنے سے معذوری ظاہر کی۔
سیکیورٹی تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کے مطابق امیر گھرانوں کے پڑھے لکھے افراد کا دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی تعلیم یافتہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ڈینیئل پرل کا قاتل عمر سعید شیخ، ٹائمز اسکوائر بم حملے کا منصوبہ ساز فیصل شہزاد، ڈنمارک کے سفارت خانے پر بم حملہ کرنے والا حماد علئ اور کراچی کی بندرگاہ سے نیوی کا جہاز ہائی جیک کرنے والا اویس جاکھرانی بھی شامل ہیں۔ اویس جاکھرانی سابق ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس علی شیر جاکھرانی کا بیٹا تھا۔
ابتدا ءمیں القاعدہ اور حزب التحریر جیسی تنظیموں نے مذہبی جماعتوں کے اسلام زدہ کارکنان پر توجہ مرکوز رکھی اور انہیں اپنی ہی تنظیموں کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے خلاف بھڑکایا۔ مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں پر خبر رکھنے والے صحافی نعمان احمد کے مطابق،”2007 میں ابتدائی بھرتیوں کے بعد مذہبی جماعتوں نے القاعدہ میں شرکت اختیار کرنے والے کارکنان سے لاتعلقی کا اظہار کرنا شروع کردیا اور ان تنظیموں کی حمایت میں واضح کمی آئی”۔ اس کے نتیجے میں القاعدہ نے اپنی توجہ متوسط طبقے اور اشرافیہ کے اعلیٰ پائے کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نوجوانوں پر مرکوز کر دی۔
لیکن اس امر سے دہشت گرد کارروائیوں کے پیچھے بعض مدارس کےکردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وزیرستان کے قصبے لننگرام سے تعلق رکھنے والے سکیورٹی تجزیہ کار منور برکی کا کہنا ہے کہ ،”اسماعیلی برادری کے حالیہ قتل عام کا منصوبہ سازطاہر منہاس مدرسے کا طالب علم رہا ہے۔ جبکہ حافظ ناصر نے جامعہ کراچی سے اسلامیات میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کررکھی تھی ” ۔القاعدہ میں بھرتی کے لیے "متوقع کارکنان ” کے طور پر پراپیگنڈا مواد تک رسائی پانے والے نوجوانوں کا انٹرویو کرنے والےصحافی نعمان احمد کا کہنا ہے،”یہ تعلیم یافتہ نوجوان القاعدہ پراپیگنڈا کے لیے استعمال ہونے والا جو شدت پسند مواد فراہم کرتے تھے وہ اردو زبان میں پہلے ہی دستیاب ہے”۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی میڈیا بریفنگ کے مطابق القاعدہ کا پکڑا گیا (خوابیدہ ) گروہ تیس عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق القاعدے سے وابستہ عسکریت پسندوں کی کل تعداد اس کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ گرفتار ملزمان نے تفتیش کاروں کو بتایاہے کہ جنوبی وزیرستان میں مقیم القاعدہ کارکنان کو آپریشن ضرب عضب کے بعداپنے گھروں کو لوٹنے اور مزید احکامات موصول ہونے تک "معمول کی زندگی” گزارنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ان شدت پسندوں میں سے بعض بیرون ملک چلے گئے، کچھ نے مقامی اور کثیرالملکی اداروں میں ملازمتیں شروع کر دیں جبکہ بہت سے ملک کے بہترین کالجوں اور یونویرسٹیوں میں تعلیم پارہے ہیں۔
سیکیورٹی تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کے مطابق امیر گھرانوں کے پڑھے لکھے افراد کا دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی تعلیم یافتہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ڈینیئل پرل کا قاتل عمر سعید شیخ، ٹائمز اسکوائر بم حملے کا منصوبہ ساز فیصل شہزاد، ڈنمارک کے سفارت خانے پر بم حملہ کرنے والا حماد علئ اور کراچی کی بندرگاہ سے نیوی کا جہاز ہائی جیک کرنے والا اویس جاکھرانی بھی شامل ہیں۔ اویس جاکھرانی سابق ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس علی شیر جاکھرانی کا بیٹا تھا۔
ابتدا ءمیں القاعدہ اور حزب التحریر جیسی تنظیموں نے مذہبی جماعتوں کے اسلام زدہ کارکنان پر توجہ مرکوز رکھی اور انہیں اپنی ہی تنظیموں کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے خلاف بھڑکایا۔ مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں پر خبر رکھنے والے صحافی نعمان احمد کے مطابق،”2007 میں ابتدائی بھرتیوں کے بعد مذہبی جماعتوں نے القاعدہ میں شرکت اختیار کرنے والے کارکنان سے لاتعلقی کا اظہار کرنا شروع کردیا اور ان تنظیموں کی حمایت میں واضح کمی آئی”۔ اس کے نتیجے میں القاعدہ نے اپنی توجہ متوسط طبقے اور اشرافیہ کے اعلیٰ پائے کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نوجوانوں پر مرکوز کر دی۔
لیکن اس امر سے دہشت گرد کارروائیوں کے پیچھے بعض مدارس کےکردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وزیرستان کے قصبے لننگرام سے تعلق رکھنے والے سکیورٹی تجزیہ کار منور برکی کا کہنا ہے کہ ،”اسماعیلی برادری کے حالیہ قتل عام کا منصوبہ سازطاہر منہاس مدرسے کا طالب علم رہا ہے۔ جبکہ حافظ ناصر نے جامعہ کراچی سے اسلامیات میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کررکھی تھی ” ۔القاعدہ میں بھرتی کے لیے "متوقع کارکنان ” کے طور پر پراپیگنڈا مواد تک رسائی پانے والے نوجوانوں کا انٹرویو کرنے والےصحافی نعمان احمد کا کہنا ہے،”یہ تعلیم یافتہ نوجوان القاعدہ پراپیگنڈا کے لیے استعمال ہونے والا جو شدت پسند مواد فراہم کرتے تھے وہ اردو زبان میں پہلے ہی دستیاب ہے”۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی میڈیا بریفنگ کے مطابق القاعدہ کا پکڑا گیا (خوابیدہ ) گروہ تیس عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق القاعدے سے وابستہ عسکریت پسندوں کی کل تعداد اس کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ گرفتار ملزمان نے تفتیش کاروں کو بتایاہے کہ جنوبی وزیرستان میں مقیم القاعدہ کارکنان کو آپریشن ضرب عضب کے بعداپنے گھروں کو لوٹنے اور مزید احکامات موصول ہونے تک "معمول کی زندگی” گزارنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ان شدت پسندوں میں سے بعض بیرون ملک چلے گئے، کچھ نے مقامی اور کثیرالملکی اداروں میں ملازمتیں شروع کر دیں جبکہ بہت سے ملک کے بہترین کالجوں اور یونویرسٹیوں میں تعلیم پارہے ہیں۔
[…] […]