پروفیسر غالب عطا کو اپنے ساتھی پروفیسروں میں حزب التحریر کا جہادی لٹریچر بانٹنے کی اطلاعات پر گرفتار کیا گیا ہے۔ غالب عطا اپنے طلبہ کی ذہن سازی میں بھی مصروف تھے اور بعض طلبہ کو جمہوریت سے متنفر کرنے اور خلافت کی جانب مائل کرنے کی کوشش کر تے رہے ہیں۔
پاکستانی تعلیمی اداروں میں شدت پسند رحجانات نئے نہیں ہیں۔ ماضی میں پاکستانی تعلیمی اداروں کے طلبہ افغان جہاد کے لیے بھرتی کیے جاتے رہے ہیں اور بعٰض مذہبی تبلیغی تنظیمو ں کے زیراثر بہت سے طلبہ اور اساتذہ مذہب کی جانب مائل ہونے کے بعد کالعدم تنظیموں میں شامل ہوئے ہیں۔ کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے 7 دسمبر کی رات کارروائی کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹو اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر غالب عطا کو کالعدم تنظیم حزب التحریر کے ساتھ روابط کے جرم میں گرفتار کر لیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 48 سالہ غالب عطا کو رضا بلاک علامہ اقبال ٹاون میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کیا ہے، کارروائی کے دوران ان کی گاڑی اور گھر کی تلاشی بھی لی گئی ہے۔ گرفتاری کے بعد انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

پروفیسر غالب عطا کو اپنے ساتھی پروفیسروں میں حزب التحریر کا جہادی لٹریچر بانٹنے کی اطلاعات پر گرفتار کیا گیا ہے۔ غالب عطا اپنے طلبہ کی ذہن سازی میں بھی مصروف تھے اور بعض طلبہ کو جمہوریت سے متنفر کرنے اور خلافت کی جانب مائل کرنے کی کوشش کر تے رہے ہیں۔ ادارے کے ایک سابق طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ’پروفیسر غالب جمہوریت کے خلاف باتیں کرتے تھے اور مجھے ووٹ ڈالنے سے منع کرتے کہ یہ غیر اسلامی ہے اور تنظیم میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے۔‘ پروفیسر غالب عطا تنظیم الاسلامی کے پلیٹ فارم سے خلافت کے حق میں پروگرام بھی کرتے رہے ہیں۔ تنظیم اسلامی کا دفتر فردوس مارکیٹ گلبرگ لاہور میں واقع ہے۔

غالب عطا میں نظریاتی تبدیلی بتدریج واقع ہوئی۔ عالم گیر سنی خلافت کے قیام کے لیے کوشاں حزب التحریر میں شمولیت سے قبل غالب عطا مذہب کی جانب مائل ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے کالعدم حزب التحریر میں شمولیت اختیار کی۔
غالب عطا میں نظریاتی تبدیلی بتدریج واقع ہوئی۔ عالم گیر سنی خلافت کے قیام کے لیے کوشاں حزب التحریر میں شمولیت سے قبل غالب عطا مذہب کی جانب مائل ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے کالعدم حزب التحریر میں شمولیت اختیار کی۔ ڈان اردو کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پروفیسر غالب عطا کے ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ ’جس وقت غالب عطا نے یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی تھی وہ ایک کلین شیو نوجوان تھے، لیکن کچھ سالوں پہلے انہوں نے داڑھی بڑھائی اور مذہبی تنظیم میں شامل ہو کر تبلیغی دورے کرنے لگے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پروفیسر عطا کی جانب سے ملک میں جمہوریت پر تنقید اور خلافت کو قائم کرنے کی باتوں پر ان کے ساتھی اساتذہ اور شاگردوں میں تشویش پائی جاتی تھی۔

پروفیسر غالب عطا کی حزب التحریر سے وابستگی کے بارے میں دیگر اساتذہ اور طلبہ کو بھی علم تھا تاہم خلافت اور اس کے قیام کے حوالے سے مسلح یا نظریاتی جدوجہد کے قیام کو حاصل معاشرتی قبولیت کے باعث ان کی سرگرمیوں سے متعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے گرفتاری کی تصدیق کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ حساس اداروں کو پروفیسر عطا کو کالعدم تنظیم سے تعلق کی وجہ سے ضرور گرفتار کرنا چاہیئے۔ ہم ان کے معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے ایک سرکلر جاری کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی کے کسی بھی پروگرام اور سیمینار میں متنازع شخص کو بلانے کی پابندی ہوگی۔‘
Ghalib Ata in one of the Programs of Tanzeem-e-Islami

Ghalib Ata in one of the Programs of Tanzeem-e-Islami

اس سے قبل رواں برس 20 اپریل کو پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل نمبر 14 کی کینٹین پر حزب التحریر پنجاب کا سربراہ بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ستمبر 2013 میں حساس اداروں نے القاعدہ کے ایک رکن کو بھی پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 1 سے گرفتار کیا تھا۔ شدت پسند جہادی تنظیموں کا اثر صرف پنجاب یونیورسٹی میں ہی موجود نہیں ان کے اراکین پاکستان کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی موجود ہیں۔ سانحہ صفورا کے ملزمان بھی پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے رہے ہیں۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: