• انسانی خلوص ایک نوع کا ڈھونگ ہے، اس کے پیچھے کسی نہ کسی قسم کی کمزوری کام کرتی ہے۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو اس کے اخلاص میں واقعتاً کوئی نہ کوئی لالچ کام کرتا ہے۔ عیون کی بیماری اور اس کی کمزوری، اس کو عدلیہ سے مخلص رہنے پر مجبور کر رہی تھی۔ لہذا جوں ہی اس کے خوف کا احساس ذرا سا دبا اور وہ اپنے ماضی کی خود مختار صورت حال میں لوٹ گئی۔ ایسا عام طور پر ہماری زندگی میں ہوتا ہے،لیکن اس واقعے کو سمجھ پانا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ انسانی اخلاق اور خلوص واقعتاً کیا ہے اس کی طرف خود اس مخلص اور با اخلاق انسان کی نگاہ نہیں جاتی جو ایک نوع کے تصنع میں زندگی گزارتا چلا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کی زندگیاں تو ایسے حالات کا شکار ہی نہیں ہوتیں جس میں ان کو اپنی اصل شخصیت کا ادراک حاصل ہوسکے۔ نجیب محفوظ نے انسانی احساسات کی ایک نہایت عمدہ تصویر اپنی کہانی ملاقات میں تحریر کی ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی ایک حادثہ یا واقعہ آپ کو اس بات کا احساس دلا دے کہ آپ واقعتاً کیا ہیں۔ پھر نجیب محفوظ نے ایک بڑا کارنامہ اس کہانی میں یہ بھی کیا ہے کہ عیون کے ماضی کی تصویر پیش کر دی ہے۔ اس کی اصل حقیقت کا راز کھول دیا ہے اور جھوٹی سچی صورت حال کو واضح کرتے چلے گئے ہیں۔ عیون کا خاموش ہو جانا۔ دل ہی دل میں عدلیہ سے چڑنا۔اس کی خدمات کا باعث مجبوری اعتراف کرنا اور اس کی زندگی کی حقیقتوں کو مالکانہ انانیت کے باعث نظر انداز کرنا۔ان سب باتوں سے جو ماجرا کہانی کے اختتام پر ابھرتا ہےاس کی ایک ہلکی سی جھلک بشنہ سے گفتگو کے دوران بھی نظر آ جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان رشتوں کی عدم موجود گی اور معذوری کے عالم میں ذہنی طور پر کئی طرح کی کیفیات کا شکار ہوجاتا ہے۔ کسی ایک مقام پر ٹھہرنا اور کسی ایک صورت حال کو خوش اسلوبی سے قبول کر لینا،اس کی اہلیت اس میں بالکل ختم ہو جاتی ہے، اس کے باوجود اس کہانی سے ہمیں انسانی مزاج کے اس پہلو کا علم ہوتا ہے کہ وہ کتنا حصول صفت ہے۔ نجیب محفوظ نے بہت عمدگی سے پوری کہانی کو بنا ہے اور ایک کردار شیخ طلہ کے مکالمے سے کہانی کی فضا بدل دی ہے۔ عیون اور عدلیہ کے کرداروں سے ملتی جلتی ایک کہانی پر ہندوستان میں ایک فلم گزارش کے نام سے 2010 میں بنی تھی جسے مشہور ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی نے ڈائریکٹ کیا تھا اورجس میں بنیادی کردار رہتک روشن نے ادا کیا تھا اور عدلیہ جیسا کردار ایشوریہ رائے نے۔حالاں کہ گزارش،ملاقات سے الگ ایک جادوگر کی کہانی ہے جس کا پورہ بدن مفلوج ہو جاتا ہے اور جو حکومت ہند سے مرسی کلنگ کی مانگ کرتا ہے۔مگرعیون اور رہتک روشن کے کردار میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ عیون خانم اور رہتک روشن کےحالات میں فرق ہے مگر صورت حال ایک جیسی ہے۔

• وہ دھیرے دھیرے پادری کے کہے ہوئے الفاظ دہراتا رہا۔اسے خیال آ رہا تھا کہ اگر آدمی سب کی بات مانتا رہے اور کسی کو ناراض نہ کرے تو نہایت اطمینان سے زندگی گزارتا ہے۔ "اگر یہاں ایسا ہوتا ہے،”اس نے سوچا،”تو وہاں بھی ایسا ہی ہوتاہوگا۔”(1)الیوشا عرف (پیالا)کو اس کی مصروفیت اور فرمابرداری نے نہ پیار کرنے کا حق دیا اور نہ شادی کا۔ تانیا اور الیوشا جیسے لوگوں کی زندگی پر حکومت کرنے والے انہیں صرف ایک صورت حال میں دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ صورت حال اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ ان کے کتنے کام آ رہے ہیں۔ حقیت میں دنیا اتنی ہی سفاک ہے کہ یہاں کوئی رشتہ اور کوئی تعلق مفاد پرستی کے دائرے سے باہر نہیں۔ الیوشا کاباپ اس کی واضح مثال ہے۔ ایسا عام طور پر ہوتا ہے کہ غریب اور مزدور طبقوں میں سعادت مند اولادیں خود غرض اور لالچی باپوں کی خواہشات کی نذر ہو جاتی ہیں۔ الیوشا کو اس بات کا احساس تھا کہ سب اس سے کیوں خوش رہتے ہیں اس کے باپ سمیت۔ اسے زندگی کی حقیقت کا ادراک حاصل تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ جن حالات میں پیدا ہوا ہے یا جن حالات میں اس نے اپنی زندگی گزاری ہے اس کا بہترین ساتھی سوائے محنت اور کام کے کوئی نہیں۔ تانیا سے اپنے عشق پر دو آنسو بہانے کا قلق اور تاجر،اس کی بیوی اور اپنے باپ کو ناراض کردینے کا احساس اس کے دل میں اتنا گھر کر گیا کہ مرتے وقت اس پر زندگی کا راز کھل گیا۔ ایک نہایت عمدہ کہانی جسے ٹالسٹائی نے ایک دلچسپ خیال پر ختم کیا ہے، کہ "اگر یہاں ایسا ہوتا ہے،”،”تو وہاں بھی ایسا ہی ہوتاہوگا۔”اس کہانی کا ترجمہ صغیر ملال نے کیا ہے۔

• بعض کہانیاں بہت دیر تک قاری پر اپنا اثر قائم رکھتی ہیں، بنا ابہام کے بھی وہ قاری کی ذہنی سطح پر دیر تک گردش کرتی رہتی ہیں، ان کے معنی واضح ہوتے ہیں،جملے صاف اور کہی ہوئی بات سٹیک۔ مگر ان میں احساس کی سطح پر ایک نوع کا ارتعاش ہوتا ہے۔ وہ قاری کو مایوس کرتی ہیں، اتنا مایوس کے اسے مایوسی کی حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے۔ زندگی، موت، خیال، عشق، ہوس، نئے مناظر اور نئی دنیاوں کی اصلیت قاری پر واضح ہو جاتی ہےاور وہ دیر تک اس کہانی کے متن کے پیدا کیے ہوئے اثرات میں چکر لگاتا رہتا ہے۔ ایسی کہانیاں کم ہوتی ہیں۔ ایک واضح اور صاف پیکر میں تو بہت ہی کم۔ کیم مونزو کی کہانی” جہاں گرد "بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے۔ یقیناً کیم نے ایک نفسیاتی کیفیت کو اپنی کہانی میں خلق کیا ہے، مگر اس میں اصلیت کی رو اس خوبی سے پیدا کی ہے کہ قاری کا ذہن کسی الجھن کا شکار ہوئے بنا کہانی کے متن میں غرق ہو جاتا ہے۔ کیم مونزو کی اس کہانی میں حیرانی کا نہیں بلکہ فکر کا عنصر شامل ہے اور ایسا شدید اضطراب کہ پڑھنے والا اس کی زد میں آئے بنا نہیں رہتا۔ کہانی چھوٹی اور دلچسپ ہے مگر اتنی ہی سخت بھی۔ زینت حسام نے اس کہانی کا انگریزی سے اچھا ترجمہ کیا ہے اوراجمل کمال نے مصنف کیم مونزو کے متعلق تھوڑی سی معلومات بھی فراہم کر دی ہیں جس کو میں یہاں من و عن نقل کر رہا ہوں :
کیم مونزو(Quim Monzo)

1952 میں بارسلونا (اسپین ) میں پیدا ہوئے،سولہ سال تک گرافک ڈیزائنر کے طور پر کام کیا۔ ستر کی دہائی میں بارسلونا کے روز ناموں کے لیے شمالی آئر لینڈ، ویت نام اور کمبوڈیا کی جنگوں کی رپورٹنگ کی۔ اپنی کہانیوں سے زیادہ شہرت پائی، لیکن فلموں میں مکالمہ نگاری،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی اسکرپٹ نگاری اور ناولوں کے ترجمے بھی کر چکے ہیں۔ کہانیوں کے ساتھ مجموعےشائع ہو چکے ہیں۔1981 میں کتالان کریٹکس پرائز حاصل کیا۔ان کی کہانیوں کے انگریزی ترجموں کا مجموعہ O’Clock1986میں امریکا سے شائع ہوا۔(2)

• اردو کے ہر پڑھنے والے پر موجودہ عہد میں یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اردو کی مخدوش صورت حال کے تناظر میں جتنی تحریریں لکھی گئی ہیں انہیں تلاش کر کر کے پڑھے۔ ان سے سیکھے، جانے اور ایک لائحہ عمل بنائے جس سے اردو زبان و ادب کی تباہ ہوتی ہوئی صورت حال میں کچھ کمی آ سکے۔ اس ضمن میں مظفر علی سید کا مضمون اردو ادب کی موجودہ صور ت حال کا مطالعہ ہر اردو زبان و ادب کے قاری پر فرض ہو جاتا ہے۔اس مختصر سے مضمون میں مظفر علی سید نے چند نہایت اہم باتوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ کیا صورت ہے جس سے ہم اردو ادب کے نظام نشر و اشاعت اور تخلیق و تحریر کو بہتر بنا سکتے ہیں۔کس طرح کی ابتر حالت میں ہم کن انحطاطی رویوں کا شکار ہیں۔ ہمیں کیا مسائل در پیش ہیں اور ہمارا تعلیمی نظام کس نوعیت کا ہے؟ جس سے ادب کی صورت حال پر کیسا فرق پڑ رہا ہے۔ یا کون سی ایسی شکل ہے جس سے ہم ایک بہتر حالت پر لوٹنے کی سعی کر سکتے ہیں ؟ ایسی بنیادی باتوں کو مظفر علی سید نے اپنے اس مضمون میں تحریر کیا ہے۔ اس مضمون میں کئی ایسی باتیں ہیں جو ہر سنجیدہ ادیب کو پر یشان کرتی ہیں۔ مظفر علی سید نے ان خیالات کو زبان دی ہے۔ حالاں کہ ان کا یہ مضمون اب سے اٹھائیس بر س پہلے اجمل کمال نے آج میں شائع کیا تھا، مگر اس میں کوئی ایسا نکتہ نہیں ہے جو اب اہم نہیں رہا۔

• فہمیدہ ریاض کی شاعری میں تسلسل اور روانی کے ساتھ فکر کابہاو بھی شامل ہوتا ہے۔ وہ کسی ایک فلسفیانہ نکتے کو اچھی طرح سے بیان کرنے پر قادر معلوم ہوتی ہیں۔ ان کی ایسی کئی نظمیں ہیں جو بظاہر ثقیل نظر آتی ہیں مگر ان کو ذرا ٹھہر کر پڑھو تو شاعری کے حسین اور خوش مزاج مکالموں سے قاری کا رشتہ بن جاتا ہے۔ اس میں الجھن نہیں بلکہ شعر کے نرم رویوں کا احساس پوشیدہ ہوتا ہے، آج کے دوسرے شمارے میں ان کی چند نظمیں روجین کے عنوان سے شامل ہیں، ان کو ایک نظم بھی کہا جا سکتا ہے اور مختلف بھی کیوں کہ ان کے مکالموں میں تسلسل اپنے مختلف حلقوں میں بٹا ہوا ہے۔ پہلی نظم میں ایک عورت کی آواز ہمیں اس کے اندر کی رنگین اور اداس دنیاوں کی جھلک دکھلاتی ہے، دوسری نظم میں شکوہ، بے بضاعتی، حقارت، سوز دروں کے ساتھ احساس توصل کی گراں مائیگی نظر آتی ہے۔ تیسری میں نفرت، کرب، بے حسی اور تعلق کی گھٹن دکھائی دیتی ہے۔چوتھی میں جھوٹی محبت اور مصنوعی احساسات کا تماشہ نظم کیا گیا ہے اور پانچویں نظم میں وحشت اور متذبذب کیفیت کے آثار۔ ان نظموں میں فہمیدہ ریاض نے عورت کی مختلف نفسیات کو بہکے ہوئے مترنم انداز میں شاعری بنایا ہے۔ ان کی ان نظموں میں کوئی گہرا فلسفہ نہیں بلکہ عام زندگی کی بلیغ سچائیاں متجذب نظر آتی ہیں۔

• شاعر کا یہ ہی کمال ہے کہ وہ زندگی کی حقیقتوں کو متاثر کن انداز میں بیان کر دے اور ایسی باتیں کہہ جائے جس تک عام ذہن نہیں پہنچ پاتا۔ میں نے اکثر اچھے شعرا کے یہاں ایسی کئی غزلیں اور نظمیں دیکھی ہیں جن میں شاعر ایک خاص جذباتی لہر میں بہہ کر سطحی رویوں کے اظہار پر اکتفا کر لیتا ہے۔ ایسے شاعر اپنے تشخص کو مجروح کرتے ہیں۔ عام رویوں اور سطحی رویوں میں فرق کر پانا یہ ہی شاعر کا فن ہے۔عذرا عباس کی یہ تین نظمیں جن کے پہلے مصرعے "نیند میرے کندھوں پر ٹوٹ رہی ہے”،”ایک بار تم نے مجھے” اور "ہر دن میں تمہارے اور اپنے درمیان ایک اینٹ رکھ دیتی ہوں”ہیں۔ اعلی درجے کی بلاغت کے ساتھ خلق کی گئی ہیں۔ انہوں نے اپنی نظموں میں عورت کے ان خیالات کا اظہار کیا ہے جو عام ہوتے ہوئےاظہار کی سطح پر مشکل ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ان کو عورت کے ساتھ مردوں کے جذباتی اظہار کی بہترین نظمیں بھی کہا جا سکتا ہے۔

• میں نے احمد فواد کی غزلیں پڑھیں ہیں جنہیں آصف فرخی نے دنیا زاد کے شمارہ نمبر 31 میں شامل کیا تھا، اچھی غزلیں تھی، لفظیات بھی غزل کے عام لہجے سے ذرا مختلف تھیں، مگر ان کی نظموں کے مطالعے نے مجھے ان کی مزید انوکھی اور نئی لفظیات سے متعارف کروایا اور ساتھ ہی ان کے تخلیقی اور فکری نظام سے بھی۔اس شمارے میں ان کی نظموں کے تقریباً چھیالیس منتخب حصے شامل ہیں، جن کی میری دانست میں کوئی واضح ترتیب نہیں، مجھے اس کا بھی علم نہیں کہ یہ نظمیں مکمل صورت میں کہیں موجود ہیں بھی یا نہیں یا یہ یوں ہی ہیں، میرے سامنے جو متن موجود ہے اس سے میں نے جو کچھ حاصل کیا وہ یہ ہے کہ احمد فواد کے یہ اقتباسات ایک نظر میں اکثر پڑھنے والوں کو سمجھ میں نہیں آ سکتے۔اس کے لیے انہیں الٹ پلٹ کر اور ادھر، ادھر سے،پڑھنا پڑتا ہے۔پہلے اقتباس سے آخری اقتباس تک تمام باتوں کو ایک ساتھ بیان نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ہر اقتباس کا اپنا اک حسن ہے۔

 پہلی نظم کے اقتباس کا پہلا مصرع پڑ ھ کر اس کا آخری سے پہلا مصرع پڑھ کر پھر الٹی ترتیب سے نظم پڑھی تو ایک مکمل واقعہ نظر آیا۔ شاعر کا بیان کچھ صاف معلوم ہوا اور ایسا لگا کہ اس سے میرا ایک تعلق ہے، آسا پاس کے نظاروں سے ہمارا روز کا سحر انگیز تعلق ایساہی ہے، متن کے ساتھ دور تک جائیے تو بھی یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے عام حالات کی ترتیب کو مناظر فطرت اور دنیا میں بسا کر خلق کیا ہے۔
 دوسری نظم کا اقتباس ذرا بھی سمجھ میں نہیں آتا۔
 تیسری نظم کے اقتباس میں بھی ترتیب کی الٹ پھیر کی جائے تو معنی کا ایک نظام قائم ہو جاتا ہے۔
 پانچویں نظم کا اقتباس بہت آسان ہے، بلکہ غزل نما ہے۔
 چھٹی نظم کا اقتباس غزل کا اچھا شعر ہے۔
 آٹھویں نظم کا اقتباس قرآن کی ایک آیت ہے۔
 گیارویں نظم کے اقتباس کے معنی تک بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
 پندویں نظم کا اقتباس بہت اعلی ہے۔
 تیسویں نظم کے اقتباس میں بے چینی کی سحر انگیز کہانی بیان کی گئی ہے۔ شاعر کی لفظیات بتاتی ہیں کہ وہ کسی نظام میں نہیں رہنا چاہتا۔بس اکاونٹ کا لفظ ابھرا ہوا سا محسوس ہوا۔
 آخری نظم کا اقتباس ایک عام سا تجربہ ہے۔

• ہندوستان کی سرسری تاریخ محمد خالد اختر کی لاجواب تحریر ہے۔ حیرت ہے کہ ایسی نایاب تحریروں کو اردو کے ادبی اور علمی حلقوں میں زیادہ شہرت نصیب نہیں ہوتی۔ اس پورے انشائیے میں مصنف نے اردو نثر کا اعلی نمونہ پیش کیا ہے۔اسے انشائیہ ہی کہنا بہتر ہے، ان معنوں میں کہ یہ ایک خالص تحریر ہے۔ کسی بھی صنف کے لیبل سے آزاد۔ محمد خالد اختر نے یقیناً ہندوستان کی تاریخ کے ابتدائی حالات کا عمیق مطالعہ کیا ہے، جس کے بعد ان کے ذہن میں بعض باتوں کے متعلق کچھ مضحکہ خیز اور کچھ سنجیدہ سوالات پیدا ہوئے، مصنف نے ان کو اچھی نثر اور دلچسپ پیرائے میں بیان کر دیا۔ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے ان کی روانی کا احساس کئی مرتبہ ہوا۔ جو روانی ان کی تحریر، فکری نظام اور اسلوب بیان کا حصہ ہے۔ اولاً تو اردو میں ایسی تحریریں بہت کم لکھی گئی ہیں اور اگر لکھی بھی گئی ہیں تو ان میں اس طرح کی روانی بہت کم نظر آتی ہے۔محمدخالد اختر بات بنانے کے ہنر سے واقف ہیں۔لطیف مزاح کے ساتھ ساتھ وہ کسی بھی سچویشن کو بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اس تحریر میں بھی ماضی کی باتیں کرتے کرتے موجودہ حالات کا ذکر کر کے انہوں نے بعض جگہوں پر لطیف مزاح پیدا کر دیا ہے۔مثلاً ایک مقام پر دراوڑوں کی اور جنوبی ہندوستان کی بات کرتے کرتے سری لنکا کے تیسرے صدرمسٹر پریما داساکا تذکرہ کر گئے ہیں، وادی سند ھ کی برہنہ رقاصہ کی مورتی اور اس کی تہذیب کا تذکرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے لیڈر مولانافلاح الدین کو درمیان میں کھینچ لائے، قدیم کھیلوں کا جدید کھیلوں سے تقابل کرتے چلے گئے ہیں اور رام اور سیتا کی تاریخ بیان کرتے کرتے وی شانتا رام کی فلم سیتا کی دلیل لے آئے ہیں۔ ایسے برجستہ جملوں اور غیر متوقع بیانات پر پڑھنے والا بے ساختہ مسکرا دیتا ہے اور مجھ جیسا تو کھل کر ہنسنے لگتا ہے۔ پوری تحریر میں کسی مقام پر اضافی باتیں نہیں ہیں۔ کہیں کہیں ناموں کی غلطی ہو گئی ہے، مثلاً دشرت (दशरथ)کودھسترا لکھ گئے ہیں یا پانڈو(पाण्डु) اور پانڈھو میں فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ کون سا لفظ درست ہے۔جبکہ صحیح تلفظ (पाण्डु) ہی ہے۔ اس کے علاوہ بلیوں(بیلوں نہیں) سے ہل چلوانے اور کلچر اور ایگری کلچر کے لطیفوں کو وضع کرنے میں بھی انہوں نے اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا ہےاورتحریر کے آخری حصے میں جوسوالات قائم کیے ہیں وہ توحاصل تحریر ہیں۔

• اس شمارے کی سب سے آخری کہانی "سوا نیزے پر سورج” اکرام اللہ کا ناولٹ ہے،بظاہر ہم جنس پرستی اس کا موضوع معلوم ہوتا ہے، مگر ذرا غور کرو تو اندا زہ ہوتا ہے کہ اس میں زندگی کے مختلف حالات اور پہلووں پر فلسفیانہ اور فکر انگیز گفتگو موجود ہے۔ کسی ایک موضوع پر نہ یہ ناولٹ ہوسکتا تھا اور نہ ہے، ناولٹ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں انسانی زندگی کی اصل صورت حال کو بہت واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ فکری مباحث بھی بوجھل اور غیر ضروری اصطلاحات سے پر نہیں، بلکہ سیدھے اور سچے واقعات اور بیانئے کے ذریعے پیش کیے گئے ہیں، اکرام اللہ کا تخلیقی ہنر ذرا بہکا بہکا سا معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ وہ ایک بات سے دوسری بات اور دوسری سے تیسری بات نکالتے چلے جاتے ہیں، حالاں کے کسی بھی مرکزی نکتے کو بہت دیر تک نظر انداز نہیں کرتے اور لوٹ گھوم کر آخر کار اسی پر آتے ہیں۔ اس ناول کے اہم کردار جو کہ سات نوجوان لڑکے ہیں جن کی عمریں تقریباً 17 سے بیس برس کے قریب ہیں۔ ان کے نام بھی خاصے دلچسپ ہیں۔خرے عیسیٰ،زاغ،چوزہ،بوم،خچر،چتراورفیزنٹ۔ پوری کہانی انہیں سات دوستوں کے سفر کی داستان ہے، جو انہوں نے زندگی کے بوجھل لمحات سے تنگ آکر اختیار کیا ہے۔(مرکزی کردار چوزے کو کہا جاسکتا ہے۔) ایک پہاڑی علاقے کا سفر ہے جہاں یہ ساتوں دوست ٹرین کےایک خاص ڈبے میں جمع ہو کر جا رہے ہیں، سفر کے حالات اور درمیانی مکاملے نہایت ہی دلچسپ ہیں، جس کو پڑھتے وقت ناولٹ کے پڑھتے چلے جانے کا احساس ہی زائل ہو جاتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی اسی ڈبے میں موجود ان کج بحثوں اور شرارتی دوستوں کے حلقے کا ایک حصہ ہیں۔ منظر نگاری میں اکرام صاحب کو کمال حاصل ہے۔کہانی کا بیانیہ بھی خاصہ اچھوتا ہے، مثلاً بیان کرنے والا کردار خود کو ان احباب میں شمار بتاتا ہے، تمام حالات میں خود کو شریک رکھتا ہے، سفر کی صعوبتوں اور اس کی دلچسپیوں کو بھی ایسے ہی پیش کرتا ہے گویا خود ان کے بیچ ہے، مگر اپنے آپ کو کسی کردار کے طور پر ظاہر نہیں کرتا اور نہ ہی ان سات دوستوں میں کہیں نظر آتا ہے۔ ایسا بیانیہ اردو کے شائد ہی کچھ ناولوں میں پایا جاتا ہو۔ ان سات کردارو ں کے علاوہ بھی اس کہانی میں چند ایک جزوقتی کریکٹر پائے جاتے ہیں جن میں پہلوان،سعیدہ اورجمیلہ(دو طوائفیں)ہیلن اور مارتھا،جوجی اور سیمی،بخشو،اور فقیر شاہ کا شمار ہوتا ہے۔ فقیر شاہ شمس کے واقعات پیغمبر اسلام ذکریہ علیہ السلام اور مشہور صوفی شمس تبری علیہ رحمہ سے ملتے جلتے ہیں(یہ ایک طرح کا علامتی کردار ہے جس کے واقعے سے متاثر ہو کرناولٹ کا عنوان رکھا گیا ہے۔)۔اس کے علاوہ بھی ناول میں کئی مشرقی تہذیب کے نمائندہ اور مشہور واقعات اور محاوروں کو شامل رکھا گیا ہے۔ ہندوستان اور خاص کر اسلامی تہذیب کی چند باتیں بھی اس ناول میں ایسی پائی جاتی ہیں جو ہندوستان کے مسلم گھرانوں میں ابتدائی تعلیم اور تربیت کے دوران بچوں کو ازبر کرائی جاتی ہیں۔ ناول کے درمیان میں چند ایک خاصی مشہور مشرقی اور مغربی ادب و ثقافت کی نشانیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے، مثلاً گیتا دت(مشہور ہندوستانی سنگر)،Alexandre Dumas (دی تھری مسکیٹیر کا تذکرہ:جو1844 میں لکھا گیا ایک تاریخی ناول تھا۔)ھنستے بدھ(Laughing Buddha)، جہانگیر کی محبت اورغالب کےاشعار وغیرہ کا تذکرہ۔کہیں کہیں اپنی ملتانی یا پھر سرائیکی میں چندشعر یا جملے بھی رقم کر گئے ہیں یا غالبا یہ انہیں دونوں سے ملتی جلتی کوئی اورزبان ہے(وللہ علم بالصواب)۔ اکرام اللہ کا مطالعہ بہت وسیع تھا اس کا احسا س بھی اس ناولٹ کے مطالعے سے ہوتا ہے،ساتھ ہی انہیں ہندی فلموں سے بھی لگاو تھا اس کا بھی۔ ایک ہندی فلم "ندیا کے پار "کا تذکرہ انہوں نے اپنے اس ناولٹ میں کیا ہے،لیکن خیال رہے کہ ص 118 پہ جس ہندی فلم "ندیا کے پار” کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ 1948 میں ریلیز ہوئی تھی جس میں دلپ کمار اور کامنی کوشل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، جبکہ اسی نام کی دوسری فلم 1982 میں بھی بنی تھی جس میں سچن اور سادھنا سنگھ نے بنیادی کردار ادا کیے تھے، دونوں فلموں کی کہانی ایک دوسرے سےالگ ہے۔کہیں کہیں پروف کی اغلاط بھی ہیں مثلاً ص85پر "پاو بھر گوشت پوٹلی میں باندھ کر درخت لٹکا دیا کریں” میں پہ یا پرچھوٹ گیا ہے۔اسی طرح ص 117 پر "چیتھڑوں میں نیم ننگے بیٹھے ٹ” میں ٹ اضافی ہو گیا ہے اور ایک جملے میں "بیٹھے” دو مرتبہ آ گیا ہے۔ایک جگہ لفظ ہفے(3) لکھ گیے ہیں غالباً یہ لفظ ہانپے ہیں۔

حوالہ:
1۔ص۔23،پیالہ، لیو ٹالسٹائی، ترجمہ:صغیر ملال، آج:شمارہ نمبر 2، 1990
2۔ص۔27،آج،شمارہ نمبر 2، 1990
3۔ص۔81، آج،شمارہ نمبر 2، 1990

Leave a Reply