[divider]رزمِ دروں[/divider]
اندر کہیں
گہرائیوں میں
ایک سپولا ہے
اور ایک نیولا، شاطر سا
دن رات، جو باہم
لڑتے بِھڑتے
کٹتے مرتے رہتے ہیں
اور اپنے
اِن افسونی تماشوں میں
روز کے
خونیں معرکوں میں
اندرون میرا
لہو لہان کیے جاتے ہیں
جاں کے معصوم احاطوں میں
ایک بحران کیے جاتے ہیں۔
[divider]نظم[/divider]
یہ بے نور
اور بے حدت سی
موسمی حرارتیں سہتے سہتے
اندر کے
یخ بستہ خزینے
پگھل نہ جائیں
کہیں بکھر نہ جائیں
کہ تم
زندگی سنوارنے کو
سروساماں ڈھونڈھنے میں رہو
اور
وقت کا چور دبے پاؤں آ کر
انگلیوں کی پوروں سے
جیون کی شادابی اڑا لے جائے
اور بدلے میں
سپنسرہُڈ کا بے شکلا تحفہ
ہاتھوں میں تھما جائے
[divider]لاک ڈاون[/divider]
رابطے
راستے
سب منقطع تھے
سو میں نے آج
اپنا سارا وقت
اپنے ساتھ گزارا
دن اُبھرا
دوپہر ڈھلی
شام اتری
اور
اولِ شب یہ کھلا
کہ اندر
کوئی انجان سا شخص رہتا ہے
مہکتے، چہکتے جزیرے میں
ایک حیران سا شخص رہتا ہے
[divider] ایک عہد عنکبوتی کاحصار[/divider]
یہ جاں بدوش لمحے
جو، برسوں سے
میرا واحد رختِ سفر ہیں
اور جن کے نرم و نازک پروں پہ
میرے آئندہ سفر کی
ساری حکمتیں، سب راستے، کل اثاثے
کندہ ہیں
ان کا تحفظ
تمہارا بھی تو، مری جاں
فرضِ اولین تھا
پھر
ہواوں کے ہلکے سے جھٹکے نے
کیوں کر
اور کیسے
تمہاری مضبوط مٹھیوں سے
وہ لمحے گرا دیئے
یا پھر
تم نے ہی وہ
کہیں رکھ کر بھلا دیے ہیں
[divider] سراب، زندگی[/divider]
سرابوں کی بھیڑ سے
بچتے بچاتے
جو یہاں پہنچا ہوں
تو آگے
ایک سمندر ہے
پھر نئے سرابوں کا
[divider] وقت کے اس پار[/divider]
بیتے وقتوں کی
جب بہت یاد آتی ہے
تو
ہم لوگ
آوارگی کا دامن تھامے
مستقبل کی سیر پہ نکل جاتے ہیں
جہاں
ماضی کے
ان گنت آوارہ سپنے
بادلوں کی صورت
پھر سے
برسنے پہ آمادہ مل جاتے ہیں
اور
خوابوں کے
ایک نئے جلو میں سمٹے ہوئے
ہم لوگ
وقت کے
اس پار پھسل جاتے ہیں