16 دسمبرکو پاکستان کی تاریخ کاالمناک دن شمار کیا جاتا ہے جب پاکستان کا مشرقی بازوہمیشہ کیلئے جدا ہو گیا،جسے پاکستان کی تاریخ میں سقوط ڈھاکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگراسی روز سر زمین بنگال کے باسیوں کیلئے مکتی جدھو(جنگ آزدی) کا سورج طلوع ہوا۔ سرزمین پاکستان میں یہ ایک قومی المیے کا دن ہے جبکہ بنگالیوں کیلئے خوشی و مسرت کا، لیکن یہ اپنے اندرایک پوری داستان سموئے ہوئے ہے جس کا صحیح ادراک نہ پاکستانیوں کو ہےاور نہ بنگالیوں کو۔
جب پاکستان کا مشرقی بازوہمیشہ کیلئے جدا ہو گیا،جسے پاکستان کی تاریخ میں سقوط ڈھاکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگراسی روز سر زمین بنگال کے باسیوں کیلئے مکتی جدھو(جنگ آزدی) کا سورج طلوع ہوا۔
اس جنگ کی ابتدا26مارچ1971ء کو ہوئی جس کے محرکات بنگالیوں کی محرومیاں، ان سے کی جانے والی زیادتیاں اور سب سے بڑھ کرسیاسی اقتدار میں عدم شمولیت اور مقتدرطبقہ کا ناروا رویہ گردانے جاتے ہیں،مگر حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں بھارتی مداخلت، انا پرستی ،الیکشن مینڈیٹ کااحترام نہ کیاجانااوغیرجمہوری قوتوں کا برسر اقتدار رہنابھی شامل ہیں۔ پاک فوج کی بنگالیوں کےعسکری ونگ مکتی باہنی کے خلاف آپریشن کے نتیجےمیں مقامی گوریلا گروہ اوربنگالی تربیت یافتہ فوجیوں نے افواج پاکستان اوروفاق پاکستان کے خلاف بھر پور کارروائیاں شروع کر دیں۔ بنگالیوں کے بقول پاک فوج نے بنگالیوں،خاص کر ہندوؤں کا قتل عام کیا اور جنسی زیادتی کو جنگی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ پاکستان کے سرکاری مورخین کے مطابق مارچ 1971 میں شروع ہونے والا آپریشن بھارت کی حمایت اورعسکری، مالی اور سفارتی مدد سے بننے والی مکتی باہنی کے خلاف تھا۔ بعدازاں دسمبر میں عملی طور پر پاکستان کی حدود میں گھس کر کارروائیاں شروع کر کے جنگ کا باقاعدہ آغاز کر دیااور بالآخر افواج پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا ۔ اس طرح بنگلہ دیش کی آزادی کے نتیجے میں پاکستان رقبے اورآبادی دونوں کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیا۔ دونوں طرف کے مورخین میں پایا جانے والے اختلاف رائے کے باوجود دونوں کا یوم آزادی جانب آزادی اور آزادی سے متعلق خوابوں کی ملتی جلتی تصویر پیش کرتا ہے۔
پچھلے سال16 دسمبرکا دن مجھے وہاں گزارنے کا موقع ملا، علی الصبح میرے ایک بنگالی دوست جہانگیرعالم کبیرنے میری رہائش گاہ کے دروازے پردستک دی اوراونچی آواز سے مجھے پکارا پاکستانی بھائی اٹھوتقریب شروع ہونے والی ہے۔ میں دروازے پے پہنچا اور پوچھا کہ کیسی تقریب اور کہاں ہے تقریب ، اس نے کہا کہ آپ کو پتا نہیں کہ آج مکتی جدھو کا دن ہے۔ میں نے کہا کہ کیا آج یوم سقوط ڈھاکہ ہے۔ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ درست تھے،میرا اوراس کادن ایک ہی تھا مگر داستان الگ الگ۔ نہ اس دن کی حقیقت سے وہ آشنا تھا اور نہ ہی اس حقیقت کا ادراک مجھے تھا۔ میں نے کہا تھوڑا ٹھہرو میں تیاری کر لوں پھر چلتے ہیں ،جیسے ہی میں تیار ہوا تو بہت سارے بنگالی بچے رنگ برنگےنئے لباس زیب تن کیے، ہاتھوں میں سرخ و سبز رنگ کے قومی جھنڈے لیے میرے گھر کے باہرجمع تھےکہ پاکستانی بھائی جلدی کروتقریب شروع ہونے والی ہے ۔
پچھلے سال16 دسمبرکا دن مجھے وہاں گزارنے کا موقع ملا، علی الصبح میرے ایک بنگالی دوست جہانگیرعالم کبیرنے میری رہائش گاہ کے دروازے پردستک دی اوراونچی آواز سے مجھے پکارا پاکستانی بھائی اٹھوتقریب شروع ہونے والی ہے۔ میں دروازے پے پہنچا اور پوچھا کہ کیسی تقریب اور کہاں ہے تقریب ، اس نے کہا کہ آپ کو پتا نہیں کہ آج مکتی جدھو کا دن ہے۔ میں نے کہا کہ کیا آج یوم سقوط ڈھاکہ ہے۔ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ درست تھے،میرا اوراس کادن ایک ہی تھا مگر داستان الگ الگ۔ نہ اس دن کی حقیقت سے وہ آشنا تھا اور نہ ہی اس حقیقت کا ادراک مجھے تھا۔ میں نے کہا تھوڑا ٹھہرو میں تیاری کر لوں پھر چلتے ہیں ،جیسے ہی میں تیار ہوا تو بہت سارے بنگالی بچے رنگ برنگےنئے لباس زیب تن کیے، ہاتھوں میں سرخ و سبز رنگ کے قومی جھنڈے لیے میرے گھر کے باہرجمع تھےکہ پاکستانی بھائی جلدی کروتقریب شروع ہونے والی ہے ۔
تقریب کے اختتام پر میں نے سوال پوچھا کہ کیا آپ لوگ پاکستان سے نفرت کرتے ہو تو سب چپ ہو گئے،مجھے ایسا لگا کہ نصابی تاریخ بنگالی ہو یا پھر پاکستانی، دونوں طرف نفرت کو ہوا دینے میں ناکام رہی ہے۔
پس ہم سب خرامہ خرامہ کالج گراونڈ کی طرف چل پڑے ۔ سائیکلوں، موٹرسائیکلوں ، کاروں، موٹر رکشوں ، سائیکل رکشوں پر سوار بچے، بڑے، مردوزن سب کالج گراونڈ کی طرف رواں دواں تھے۔ ان میں سے کافی چہرے میرے شناسا تھےجو کہ مجھے بڑے پیارسے پاکستانی بھائی کہہ کرسلام کرتےاورآگے بڑھ جاتے۔ کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد ہم لوگ کالج گراونڈ پہنچ گئے جہاں مختلف کالجوں، سکولوں کے طلبہ و طالبات، عام لوگ شہری، سیاسی جماعتوں کے راہنما، سول سرونٹس وہاں موجود تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں سے میری جان پہچان تھی تووہ بڑے پرتپاک اندازمیں مجھے ملنے کیلئے آگے بڑھ رہے تھے۔ کچھ کہنے لگے کہ بھائی آپ کو اس پروگرام میں نہیں آنا چاہیے تھا ہو سکتا ہے کچھ باتیں آپ کو ناگوار گزریں کیونکہ آج کا دن پاکستان سے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کا دن ہے، اسی اثناء میں ایک بنگالی بولا ، “بھائیو کیسی آزادی ، کون سی آزادی ؟”
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک اور بنگالی قومی ترانے سے ہوا اور اس کے بعد سکولوں اور کالجوں کے بچوں نے روایتی انداز میں اپنے خاکے اور ڈرامے پیش کیے۔ جس میں لنگی اور بنیان میں ملبوس بچےمکتی باہنی( بنگالی عسکری گوریلا گروہ) اور خاکی وردی میں ملبوس کچھ بچے پاکستانی آرمی کا منظر پیش کرتے رہے اوردھواں، پٹاخے، آگ نا جانے کیا کیا چیزیں اس 1971 کی جنگ کا منظر پیش کرنے کیلئے استعمال کی گئیں۔ اس کے بعد دھواں دار تقریریں اور آزادی کے نغمے گونج اٹھے۔ اس ماحول کے کچھ پہلو میرے لیے یقینا دلخراش ضرور تھے مگر ایک اطمینان کا پہلو یہ تھا کہ سب میرے اردگرد جمع تھے اور پیارومحبت کا اظہا ر کرتے نظرآ رہے تھے۔ تقریب کے اختتام پر میں نے سوال پوچھا کہ کیا آپ لوگ پاکستان سے نفرت کرتے ہو تو سب چپ ہو گئے،مجھے ایسا لگا کہ نصابی تاریخ بنگالی ہو یا پھر پاکستانی، دونوں طرف نفرت کو ہوا دینے میں ناکام رہی ہے۔
وہاں پے موجود زیادہ تر لوگوں کا موقف تھا کہ ہم پاکستان سے کب نفرت کرتے ہیں،ہمیں توصرف پاکستان کی فوج سے گلہ ہے۔ یہی وجہ کے کرکٹ کے میدان میں اکژ بنگالی نوجوان پاکستانی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔ اسی اثنا ء میں ایک دراز قد بنگالی نوجوان کہنے لگا کہ بھائی بات یہ ہے نا تو بنگلہ دیش کا غریب، مزدور، ہندوؤں مسلم، عیسائی کسان غربت و مفلسی سے آزاد ہوا ہےاور نا ہی پاکستان کا۔ ہاں اگرآزاد اور بے لگام ہوا تو وہ استحصالی طاقت ورحکمران طبقہ جو آج بھی مزدرروں، کسانوں، محنت کشوں کے حقوق کو سلب کیے ہوئے ہے۔ ایک اورادھیڑعمر بنگالی بولا کہ کیسی آزادی، پاکستانی بھائی پہلے ہم پاکستان کی ایک کالونی کی حیثیت سے جی رہے تھے اب ہندوستان کی کالونی کی حیثیت سے۔ اپنی آزادی تو بس ایک سراب ہے جو نظرآتا ہےوہ حقیقت میں نہیں ہوتا بس نظر کا دھوکہ ہے ۔ اس بنگالی کی بات میرے دل کولگی کہ کیاواقعی ہم آزاد ہو گئے ہیں یاپھرابھی آزادی کی حقیقی منزل باقی ہے؟
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک اور بنگالی قومی ترانے سے ہوا اور اس کے بعد سکولوں اور کالجوں کے بچوں نے روایتی انداز میں اپنے خاکے اور ڈرامے پیش کیے۔ جس میں لنگی اور بنیان میں ملبوس بچےمکتی باہنی( بنگالی عسکری گوریلا گروہ) اور خاکی وردی میں ملبوس کچھ بچے پاکستانی آرمی کا منظر پیش کرتے رہے اوردھواں، پٹاخے، آگ نا جانے کیا کیا چیزیں اس 1971 کی جنگ کا منظر پیش کرنے کیلئے استعمال کی گئیں۔ اس کے بعد دھواں دار تقریریں اور آزادی کے نغمے گونج اٹھے۔ اس ماحول کے کچھ پہلو میرے لیے یقینا دلخراش ضرور تھے مگر ایک اطمینان کا پہلو یہ تھا کہ سب میرے اردگرد جمع تھے اور پیارومحبت کا اظہا ر کرتے نظرآ رہے تھے۔ تقریب کے اختتام پر میں نے سوال پوچھا کہ کیا آپ لوگ پاکستان سے نفرت کرتے ہو تو سب چپ ہو گئے،مجھے ایسا لگا کہ نصابی تاریخ بنگالی ہو یا پھر پاکستانی، دونوں طرف نفرت کو ہوا دینے میں ناکام رہی ہے۔
وہاں پے موجود زیادہ تر لوگوں کا موقف تھا کہ ہم پاکستان سے کب نفرت کرتے ہیں،ہمیں توصرف پاکستان کی فوج سے گلہ ہے۔ یہی وجہ کے کرکٹ کے میدان میں اکژ بنگالی نوجوان پاکستانی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔ اسی اثنا ء میں ایک دراز قد بنگالی نوجوان کہنے لگا کہ بھائی بات یہ ہے نا تو بنگلہ دیش کا غریب، مزدور، ہندوؤں مسلم، عیسائی کسان غربت و مفلسی سے آزاد ہوا ہےاور نا ہی پاکستان کا۔ ہاں اگرآزاد اور بے لگام ہوا تو وہ استحصالی طاقت ورحکمران طبقہ جو آج بھی مزدرروں، کسانوں، محنت کشوں کے حقوق کو سلب کیے ہوئے ہے۔ ایک اورادھیڑعمر بنگالی بولا کہ کیسی آزادی، پاکستانی بھائی پہلے ہم پاکستان کی ایک کالونی کی حیثیت سے جی رہے تھے اب ہندوستان کی کالونی کی حیثیت سے۔ اپنی آزادی تو بس ایک سراب ہے جو نظرآتا ہےوہ حقیقت میں نہیں ہوتا بس نظر کا دھوکہ ہے ۔ اس بنگالی کی بات میرے دل کولگی کہ کیاواقعی ہم آزاد ہو گئے ہیں یاپھرابھی آزادی کی حقیقی منزل باقی ہے؟