Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

یہ دلّی تھی، یہ لاہور تھا

test-ghori

test-ghori

06 اکتوبر, 2016

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

یہ دلّی تھی، یہ لاہور تھا
(ایک نامراد فینٹسی)

[/vc_column_text][vc_column_text]

پُرسا دینے کی تفصیل میں کیوں جاؤں میں؟
آنسو کس کے پونچھوں، سوگ مناؤں کس کا؟
آہ، اُف، تعزیت، ماتم
وائے، حیف ، افسوس، عزا داری کے جملے۔۔۔۔۔
میرا کلیجہ پھٹ جانے سے خوں شوئی میں بہہ نکلے ہیں
میں نا شکرا، اُس دھرتی کا بیٹا جس نے
مجھ جیسے نا خلف کو جیون دان دیا تھا
آج کے اس منحوس لگن میں
بوم شوم کے اس بد فال ا گھن میں
ایک اگھور وقت کے ان منحوس پلوں میں
ہنستے بستے شہروں کی سکراتِ مرگ کو دیکھ رہا ہوں!

 

کاش کہ میں نا بینا ہوتا
پھوٹ گئی ہوتیں یہ آنکھیں، جو یہ منظر دیکھ رہی ہیں!
یہ دلّی ہے، یہ لاہور ہے
یہ دلّی تھی، یہ لاہور تھا!

 

امریکا میں بیٹھا میں بھی
لاکھوں دیگراپنے ملکوں کے پرواسی لوگوں جیسا
ٹی وی پر یہ منظر نامہ دیکھ رہا ہوں
شہر کہاں ہیں؟
عمارات، مینار، منارے کہاں گئے ہیں؟
ریل گاڑیاں،میٹرو کے اسٹیشن، کاریں
بجلی کے کھمبے اور تاریں
کس دریا میں غرق ہوئے ہیں؟
پنکھ پکھیرو، جانور، انسان کہاں ہیں؟
گدلی تاریکی میں باقی کچھ بھی نہیں ہے
ڈھیر راکھ کے، اڑتی دھول، بگولے زہریلی گیسوں کے
کوئی بھی عضوی باقیات، ذی روح نمو
حیوانی، خلقی اُپج نہیں ہے
پاشیدہ، مالیدہ، رسپیدہ ہے سب کچھ!

 

اب تو راکھ کے ڈھیر ہیں، لیکن
کل تک یہ دلّی تھی، یہ لاہور تھا!!

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]