Laaltain

سلام (تحریر: شیریں نظام مافی، ترجمہ: مبشر میر)

13 مارچ، 2019
Picture of مبشر احمد میر

مبشر احمد میر

[blockquote style=”3″]

1999 میں جب بیسویں صدی رخصت ہو رہی تھی اور کرہ ارض کے باسی نئی صدی کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے، زرتشت کے سرزمین سے تعلق رکھنے والی بیس سالہ شیرین نظام مافی بھی بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں لیے ابھرتے سورج کی سرزمین پہنچ گئی۔ کوبے یونی ورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ میں داخلہ لیا، یونی ورسٹی میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ جاپانی زبان میں اتنی استعداد حاصل کر لی کہ اس کی ادب تخلیق کرنا شروع کر دیا۔ 2006 میں جاپان میں مقیم غیر ملکی طالب علموں کا ادبی انعام حاصل کیا۔ 2009 میں بنگاکیکائی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی وہ دوسری غیر جاپانی اور مشرق بعید سے تعلق نہ رکھنے والی پہلی مصنفہ ہیں۔

[/blockquote]

مسٹر تناکا نے ‘درخواست برائے ملاقات’ کے دو فارم پر کیے اور استقبالیہ کھڑکی میں جمع کرائے۔ چند منٹ بعد ہمارے سامنے لوہے کا ایک دروازہ کھلا اور پولیس کا ایک لمبا تڑنگا، ہٹا کٹا سپاہی نمودار ہوا، اس کا جسم اتنا گٹھیلا تھا جیسا کسی جاپانی کا ہونا چاہیے۔ اس کی مچھلیاں اس کی وردی میں پھنسی ہوئی تھیں۔

وہ بولا، “اس طرف آئیے۔”اس نے دروازے کی دوسری جانب ہماری راہ نمائی کی، پھر خود بھی اس جانب آیا اور دروازے کو تالا لگا دیا۔ ہم نے خود کو ایک طویل تاریک راہ داری میں پایا۔ دونوں جانب آہنی دروازوں کا سلسلہ تھا، جس میں کہیں کہیں چھوٹی کھڑکیاں تھیں، اگرچہ دن کا پہلا پہر تھا، لیکن بہت کم روشنی یہاں تک پہنچ پاتی تھی، جس کے نتیجے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ تاہم کہیں کہیں لگے ہوئے چھوٹے بلب صرف اتنی روشنی مہیا کرتے تھے کہ ہم صرف راستہ دیکھ سکتے تھے۔ یہ راہ داری رات کے وقت کسی ڈراؤنی فلم کی طرح اچھی خاصی خوفناک ہوتی ہو گی۔

جسیم سپاہی ہمیں راہ داری سے ملحق ایک کمرے میں لے گیا۔ کمرے کی دیواروں پر بہت سے لاکرز نصب تھے۔ ہمیں کہا گیا کہ اپنا سامان یہیں چھوڑ دیں۔ جس وقت ہم عمارت میں داخل ہوئے اس وقت بھی میرے بیگ کی تلاشی لی گئی تھی، ہم اپنے موبائل اور چابیاں وہاں جمع کروا آئے تھے، چناں چہ میں سمجھتی تھی کہ ہم تلاشی کے کسی اور مرحلے سے گزرے بغیر ملاقات والے کمرے یک پہنچ جائیں گے۔ مسٹر تناکا بدمزگی سے بڑبڑا رہے تھے۔ انھیں بغیر بیگ کے کئی فائلیں لے جانی تھیں، جو کافی مشکل کام تھا۔ ناگواری سے تلملاتے ہوئے انھوں نے اپنا بیگ خالی کیا۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ میرے بیگ کی تلاشی لی جائے گی تو اس میں کاسمیٹکس کا چمک دار گلابی پاؤچ یا نائلون کی اضافی جرابیں نہ لاتی۔ صرف یہی نہیں، نزلے سے میری ناک بَہ رہی تھی اور میرا بیگ استعمال شدہ ٹشوؤں سے بھرا ہوا تھا۔ جس وقت سپاہی کی نظر ان پر پڑی، میں شرم سے پانی پانی ہو گئی۔

میں نے اپنا ضرورت کی اشیا، لغت اور قلم، اٹھائیں اور کمرے سے باہر آ گئی۔ مسٹر تناکا نے اپنا بیگ ساتھ لے جانے پر بہت اصرار کیا لیکن آخر میں انھوں نے اپنا بیگ لاکر میں رکھا، اپنا قلم اور چند موٹی فائلیں اٹھا لیں۔ ہم جسیم سپاہی کی معیت میں راہ داری میں مزید آگے بڑھے، جہاں پولیس کا ایک اور سپاہی نمودار ہوا، اس نے مسٹر تناکا کا استقبال کیا، ہمارے سامنے والا دروازہ کھولا اور ہٹ کر ایک جانب کھڑا ہو گیا، تاکہ ہم اندر داخل ہو سکیں۔ مسٹر تناکا کے پیچھے میں بھی کمرے میں داخل ہوئی۔ ہمارے بعد جسیم سپاہی اندر آیا، دروازہ بند کیا اور نگرانی پر کھڑا ہو گیا۔

یہ کمرا نسبتاً اور چھوٹا اور باقی عمارت کی مانند تاریک تھا۔ شیشے کی ایک دیوار سے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے یہ کچھ زیادہ ہی چھوٹا لگتا تھا۔ شیشے کی دیوار کے ساتھ تین کرسیاں دھری تھیں۔ مسٹر تناکا نے ایک جانب کی کرسی منتخب کی، درمیانی کرسی خالی چھوڑتے ہوئے میں دوسری جانب بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد شیشے کی دیوار کے دوسری جانب والا دروازہ کھلا اور ایک سپاہی کمرے میں داخل ہوا، اس نے سر خم کر کے ہمیں تعظیم دی، پھر واپس مڑا اور کسی کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ اس کے پیچھے درمیانے قد کی ایک دبلی پتلی لڑکی، جس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں، کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ پرانے انداز کا ڈھیلا ڈھالا رنگین لباس پہنےہوئے تھی۔ مٹیالے رنگ کے ایک لمبے دوپٹے سے، جس پر چمک دار بیل کڑھی ہوئی تھی، اس نے اپنے بال سمیٹے ہوئے تھے۔ اسے دیکھ کر مجھےکہیں دور پار کی خانہ بدوش عورت یاد آگئی، جو آپ کو صرف فلموں میں دکھائی دیتی ہے۔ سپاہی نے دیوار کی دوسری جانب موجود اکلوتی کرسی کی جانب اشارہ کیا اور دروازے کے پاس اپنی مخصوص جگہ لوٹ گیا۔ اب وہ ایک لفظ ادا کیے بغیر، گود میں ہاتھ دھرے، بت بنی، بیٹھی تھی، وہ ہمیں نہیں بلکہ نیچے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایک مرتبہ بھی ہم سے آنکھیں نہیں ملائیں، حالاں کہ ہماری نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔

مسٹر تناکا نے کھنکھار کر اپنا گلا صاف کیا اور بات شروع کی۔

“سلام!” وہ دری زبان میں بولے تاکہ اجنبیت کا احساس نہ ہو۔ میری نظر ان کے قدموں میں فائلوں کے ایک شفاف فولڈر پر پڑی۔ جس میں بچوں کا ایک رنگین تعلیمی ورق نظر آ رہا تھا، جس پر “ملکوں ملکوں خیر سگالی کے الفاظ” چھپے ہوئے تھے۔
لڑکی نے کوئی ردِعمل ظاہر نہ کیا، نگاہیں اٹھائے بنا نیچے دیکھتے رہی۔

مسٹر تناکا نے میری جانب دیکھا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ ترجمے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

“میں تناکا ہوں۔” کچھ تذبذب کے ساتھ وہ بولے، “یقیناً! تمھیں بتا دیا گیا ہو گا کہ یہاں میں تمھارا دفاع کرنے کے لیے آیا ہوں۔ کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، چناں چہ ہمیں چاہیے کے ایک دوسرے سے مل کر کام کریں۔” خیر سگالی کا یہ خالص جاپانی انداز تھا۔ یہ الفاظ، جو وہ کہنا چاہتے تھے، کہنے کے بعد وہ مطمٔن نظر آنے لگے۔ وہ اپنی نشست پر مڑے اور مجھے دیکھا، لیکن جوں ہی میں نے ترجمہ شروع کیا، اچانک وہ، شاید خود سے مخاطب ہو کر “ارے، معاف کرنا” کہتے ہوئے، اپنی نشست سے اٹھے، اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب سے تعارفی کارڈ نکالا اور شیشے کی دیوار کے سوراخ سے دوسری جانب کھسکا دیا۔ ان کی اچانک حرکت پر وہ اپنی حیرت چھپا نہ سکی اور آنکھیں اٹھا کر اچٹتی ہوئی نظر ہم پر ڈالی۔

یہ صرف ایک لمحے کے لیے تھی، لیکن اس کے چہرے کے تاثرات سے میں لرز گئی۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں دھندلی اور ہر نوع کے تاثر سے محروم تھیں، جیسے ان کی چمک ختم ہو گئی ہو۔ وہ کسی پہلو سے زندہ انسان کی آنکھیں نہیں لگتی تھیں، کچھ ایسے، جیسے پلاسٹک سے بنی ہوں، ان میں کوئی تاثر نہیں تھا، کوئی حرکت نہیں تھی، اور میں سوچے بنا نہ رہ سکی کی کیا وہ ان آنکھوں سے دیکھ بھی سکتی ہے۔

“پلیز!”

مسٹر تناکا کی آواز سے میں اپنے آپ میں لوٹ آئی۔ جب انھوں نے میری جانب دیکھا، میں نے آہستہ آہستہ ان کے الفاظ کا ترجمہ شروع کیا، تاکہ اسے میرا تلفظ سمجھنے میں مشکل نہ ہو۔

اس نے کوئی ردِعمل ظاہر نہ کیا۔ میرا خیال تھا، ایک لمبے عرصے کے بعد دری سُن کر وہ خوش ہو گی لیکن اس نے کوئی دل چسپی ظاہر نہ کی۔ مسٹر تناکا نے مشکوک نظروں نے مجھے دیکھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔

“مل کر کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم میرے سب سوالوں کا جواب دو۔ مجھے تم سے بہت سی باتیں پوچھنی ہیں، ممکن ہے یہ سب تمھارے لیے مشکل ہو، لیکن یہ تمھارے فائدے کے لیے ہے۔ اس لیے کوشش کر کے جواب دو۔”

اب بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مسٹر تناکا نے ٹیڑھی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے دھیمی آواز میں احتجاج کیا، “جو آپ نے کہا، میں نے وہی ترجمہ کیا۔”

اس نے ایک ہاتھ میں مٹیالے دوپٹے کا پلو پکڑا اور اسے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے گرد لپیٹنے لگی۔ دھوپ سے جھلسائے ہوئے، جھریوں والے کھردرے ہاتھوں کی انگلیوں کی جلد پھٹی ہوئی تھی۔ اس کے چھوٹے ناخنوں کے سرے مٹی بھرنے سے سیاہ ہو چکے تھے۔ یہ ہاتھ کسی ایسے فرد کے تھے، جس نے کبھی ہینڈ کریم کا نام نہیں سنا تھا۔

ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھے یا مسٹر تناکا کو نہیں سُن رہی، ان کا تعارفی کارڈ اس کی توجہ سے محروم وہیں پڑا ہوا تھا۔ مسٹر تناکا نے اپنے شفاف فولڈر سے کاغذات کا ایک پلندہ نکالا اور سوالات کی فہرست پر نگاہ ڈالی۔
“تمھارا نام کیا ہےَ؟”

میں نے اس کے لیے ان الفاظ کا ترجمہ کیا۔ مختصر خاموشی کے بعد اس نے جواب دیا، “لیلیٰ۔” اس کی مشکل سے سنائی دینے والی آواز حیرت انگیز حد تک خشک اور بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یونی ورسٹی کے طالب عملوں کے لیے یہ کتنی دل فریب اور ہیجان خیز ہو گی۔ جوں ہی انھوں نے اس کا جواب سنا، مسٹر تناکا اس کی طرف جھکے، خوشی سے اسے دیکھا، پھر اپنے کاغذات کی جانب متوجہ ہوئے۔ انھوں نے دوسرا سوال کیا تو ان کے پرجوش لہجے سے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے ان کی بیٹری چارج ہو گئی ہو۔

“تمھارا خاندانی نام کیا ہے؟”
“غلام علی۔”
“تمھاری پیدائش کب ہوئی؟”
“گرمیوں میں۔”
“میرا مطلب ہے۔ تاریخ یا سال۔۔۔” انھوں نے میری جانب دیکھا۔ سیدھے سادے الفاظ “تاریخ پیدائش” کا دری متبادل میرے ذہن سے نکل گیا۔ میں نے جلدی جلدی لغت میں، جو میں بیگ سے نکال کر لائی تھی، اپنا مطلوبہ لفظ تلاش کیا۔ جب مجھے وہ لفظ مل گیا، میں نے مسٹر تناکا کا سوال دہرایا۔ میں نے لغت بند کر کے اپنی آنکھیں اٹھائیں تو اسے حیرت سے اپنی جانب تکتے پایا۔ شاید میرا الفاظ تلاش کرنے کا عمل اس کی دل چسپی کا باعث تھا۔ ہماری نظریں ٹکرائیں تو خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

“مجھے معلوم نہیں۔ میری ماں نے صرف اتنا بتایا ہے کہ میں گرمیوں میں پیدا ہوئی تھی۔”

لیلیٰ نے دوبارہ نظریں جھکا لیں۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔اس کے خوب صورت نقوش والے چہرے جلد دھوپ سے جھلسائی ہوئی تھی۔ وہ بولی تو اس کی آنکھوں اور دہانے کے گرد جھریاں نمایاں ہو گئیں۔ وہ جوانی کی حدود میں داخل ہو رہی تھی لیکن اس کی جلد تیس سال کی نظر آتی تھی۔ اس کی عمر زیادہ نہیں تھی مگر اس کی خشک جلد کسی ادھیڑ عمر محنت کش عورت سے زیادہ کھردری تھی۔

مسٹر تناکا متذبذب نظر آئے۔ “کیا تم جانتی ہو، تمھاری عمر کیا ہےَ؟”
اس نے اپنی بھویں اچکائیں۔ “سترہ یا شاید اٹھارہ سال۔”
“کون سی؟”
مسٹر تناکا اس بات پر مایوس دکھائی دیئے کہ ایسی لڑکی کا دفاع کیسے کریں، جو اتنا بھی نہیں جانتی کہ اس کی عمر کیا ہے۔
مجھے پَتا نہیں۔ میرے بھائی کا کہنا ہے، میں سترہ سال کی ہوں لیکن ماں نے ہمیشہ ایک سال زیادہ بتایا۔

پریشان ہو کر مسٹر تناکا نے دروازے کے سامنے کھڑے سپاہی کی طرف دیکھا، جیسے اس سے مدد مانگ رہے ہوں۔ سپاہی یقینی لہجے میں بولا۔ “بہت سے لوگوں کو اپنی عمر کا علم نہیں ہوتا۔ ان کے پاس کوئی مصدقہ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ نہیں ہوتا۔”
“اچھا! میں کیا کر سکتا ہوں؟”

مسٹر تناکا نے ایک ہاتھ سے اپنا سر پکڑ لیا، پھر تھوڑا سا جھکے، دوسرےہاتھ سے اپنے ٹراؤزر کی جیب سے دستی تولیہ نکالا اور اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھا۔

“اس قدر محتاط ہونے کی ضرورت نہیں، سب کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔” سپاہی جو اس نوع کے جوابات کا عادی تھا، کہنے لگا۔
“اچھا! تو سترہ لکھوں یا اس کی ماں کی مانوں اور اٹھارہ لکھوں؟”
انھوں نے اپنے سامنے رکھے کاغذ پر کچھ لکھاَ۔
“تمھاری پیدائش کہاں ہوئی؟”
“مزار شریف۔” اس نے مشکل سے سنائی دینے والی آہستہ آواز میں جواب دیا۔
“مزار۔۔۔” یقیناً، تم کٹھن حالات سے گزری ہو گی؟”
مسٹر تناکا نے اپنے کاغذات پر نظر ڈالی۔
“تم ہزارہ ہو۔ کیا ایسا نہیں؟”
وہ سمٹی، تھوڑی دیر ایک لفظ بولے بغیر اقرار میں سر ہلایا۔
“ٹھیک۔۔۔” مسٹر تناکا بڑبڑائے۔
“تمھارے والدین کہاں ہیں؟”
اس نے فرش کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ “ماں مر چکی ہےَ۔”
“اوہ! بڑا افسوس ہوا۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے۔”
اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے وہ ہم دردی کے دو لفظ ادا کرنا نہ بھولے۔ پھر وہ کچھ بڑبڑائے، جس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
“اور تمھارے والد؟”

میں سوال کا ترجمہ کیا تو لیلیٰ نے اچانک نظریں اٹھائیں اور اپنی پراسرار خالی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ میں نے اس رنگ کی آنکھیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ انھیں نہ تو بھورا کہا جا سکتا تھا اور نہ ہی کالا، البتہ اس کے بالوں کے گرد لپٹے مٹیالے دوپٹے کا عکس کہا جا سکتا ہے۔

مسٹر تناکا نے اس کی تشویش کو بھانپ لیا اور تیزی سے کہنے لگے، “تم تو جانتی ہو، ہم دوست ہیں۔ ہم یہاں تمھاری مدد کے لیے ہیں۔ اس لیے مجھے کچھ بتاتے ہوئے نہ گھبراؤ۔”

ترجمہ کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ میں بھی دوستوں کے اس حلقے میں شامل ہوں، جو ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ایک بے کار طالب علم اور ایک ٹھس وکیل، جو ہاتھوں کو ملائم کرنے والی کریم سے ناآشنا اس لڑکی کے دوست ہیں۔

” پاکستان میں ہیں۔”
اس نے اپنی انگلیوں کے درمیان مٹیالا کپڑا لپیٹنا چھوڑ دیا لیکن چمک سے محروم، بے حرکت، خالی آنکھوں سے وہ اب بھی کہیں دور دیکھ رہی تھی۔
“کس لیے؟”
“مجھے معلوم نہیں۔”
“وہ کیا کرتے ہیں؟”

لیلیٰ نے سر جھکا لیا۔ چند منٹ تک کوئی نہ بولا۔ظاہر ہے، وہ اپنے باپ کے بارے میں کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ مسٹر تناکا نے گہری سانس لی۔

“جب تک تم وہ سب نہیں بتاتیں، جو تم جانتی ہو، میں کچھ نہیں کر سکتا۔”
اس نے کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کیا۔ یقینی طور پر اس نے طے کر لیا تھا کہ اپنے باپ کے بارے میں کچھ نہیں بتائے گی۔
“تمھارے کوئی بھائی بہنیں ہیں؟”
باپ کو چھوڑ کر مسٹر تناکا موضوع بدل چکے تھے۔
“مجھ سے بڑے دو بھائی ہیں۔”
“اب وہ کہاں ہیں؟”
“ایک مر چکا ہے۔ دوسرا والد کے ساتھ ہے۔”
“اوہ! بہت افسوس ہوا۔ کیا تم بتا سکتی ہو، اس کی موت کیسی ہوئی؟”
“جنگ میں، بم کا ایک ٹکڑا اس کے سر پر لگا تھا۔ میں نے اس کی لاش نہیں دیکھی۔”
جس وقت میں اس کی بلا تاثر آواز میں سنائے گئےتلخ حقائق کا ترجمہ کر رہی تھی، میں نے اپنی ریڑھ کی ہڈی پر ٹھنڈا پسینہ بہتا محسوس کیا۔
“تمھارا بھائی، والد کے ساتھ کیا کرتا ہے؟”
“وہ میرے والد کی مدد کرتا ہے۔”
“کیا کام کی تفصیل بتا سکتی ہو؟”
ایک مرتبہ پھر لیلیٰ کے کوئی لفظ ادا کیے بغیر کئی منٹ گزر گئے۔
مسٹر تناکا نے اپنی گھڑی پر نگاہ ڈالی۔
“وقت ہو گیا ہے۔”

میں نے ان کی نگاہ کے تعاقب میں ان کی گھڑی دیکھی۔ اتنا وقت ہو گیا! دو گھنٹے گزر چکے تھے لیکن وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا تھا۔ ملاقات کے بارے میں جو ہمارا خیال تھا، اس طرح نہیں ہوا۔ مسٹر تناکا نے مجھے متنبہ کیا تھا کہ پہلی ملاقات ہمیشہ تھکا دینے والی ہوتی ہے۔ اس کا مقصد بہت سی معلومات حاصل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اعتماد قائم کرنا ہوتا ہے۔

عموماً لوگ پسند نہیں کرتے کہ وکیل ان سے سوالات کریں۔ آپ کو کسی ایسے شخص کے تابڑ توڑ سوالات کا سامنا ہوتا ہے، جسے حقیقت میں آپ نہیں جانتے۔ ان سوالات کا معین جواب درکار ہوتا ہے، جس کے لیے زبردست یاداشت ضروری ہوتی ہے۔ وکیل، جوتوں سمیت آپ کی نجی زندگی میں گھس جاتے ہیں، تاکہ ان معلومات کو حاصل کر لیں، جو عدالت کا متاثر کر سکیں۔ تاہم، آپ نے دیکھا، سوالات اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں کوئی معاملہ نجی نہیں رہتا۔ وکیل نے موکل کا دفاع کرنا ہوتا ہے، اس لیے وہ سوالات کا جواب دیتا ہے، مگر وہ کبھی دل کی بات نہیں بتاتا۔ یقیناً مسٹر تناکا اپنے کام کو سمجھتے اور یہ جانتے ہوں گے کہ انھیں اپنا کام شائستگی سے کرنا ہو گا، تاکہ ان کی موکل اپنے ہاتھ باندھ کر سر ہلاتے ہوئے، منہ بند نہ کر لے۔ انھوں نے مجھے کہا تھا:

“ہم انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں، اس میں کچھ نوجوان اتنے غیر محتاط ہیں کہ اپنے موکل کی ذاتی معلومات اس کے سامنے کمپیوٹر پر ٹائپ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ انھیں اندازہ نہیں ہوتا کہ اس طرح وہ کتنے کٹھور اور سنگ دل دکھائی دیتے ہیں۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ کم از کم موکل کے سامنے معلومات کا اندراج نہیں کرتا۔ اگرچہ بعد میں یاداشتوں کو کمپیوٹر میں منتقل کرنے میں وقت ضائع ہوتا ہے، البتہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ میں قیمتی وقت موکل کے ساتھ، دوستوں کی مانند، باتیں کرنے میں گزارتا ہوں۔ یہ ضروری ہے کہ موکل کے ساتھ تعلقات قائم کیے جائیں۔ باتیں کرتے ہوئے موکل سے آنکھوں کے ذریعے رابطہ بہت ضروری ہے۔ جب آپ ایسا کریں گے تو اس قابل ہوں گے کہ مخاطب کےچہرے کے تاثرات اور ردِعمل کو سمجھ سکیں۔ اس کے بعد ہی آپ ہر موضوع پر گفتگو کر سکیں گے۔”

حیرت انگیز طور پر مسٹر تناکا نےاس ملاقات سے قبل پرجوش آواز میں موکلوں کے ساتھ کام کرنے کے اپنے طریقِ کار کے بارے میں بتایا تھا۔ مگر کیا یہ نسخہ شیشے کی دیوار کے اس پار اپنی نگاہیں جھکائے، انگلیوں کے گرد دوپٹے کا پلو لپیٹتی اس لڑکی پر بھی کار گر ہو گا؟
“آج میرے ساتھ بات کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ میرا ارادہ ہے اگلے منگل کے روز پھر چکر لگاؤں۔”
لیلیٰ سے بات کرتے ہوئے مسٹر تناکا نے اس کے عقب میں کھڑے سپاہی کی جانب دیکھا، جیسے تصدیق چاہ رہے ہوں، کیا یہ ٹھیک ہے۔
“بالکل! باہر ڈیوٹی پر موجود گارڈ کے پاس دراز میں اپنا نام اور وقت چھوڑ جائیں۔”
“شکریہ!” مسٹر تناکا اٹھ کھڑے ہوئے اور کچھ بڑبڑائے۔
سپاہی نے لیلیٰ کو اشارہ کیا اور کمرے کا عقبی دروازہ کھولا۔ وہ ایک لفظ بولے بغیر کھڑی ہوئی اور ہمارے طرف دیکھے بغیر دروازے کے پیچھے غائب ہو گئی۔

ہمارے پیچھے کھڑے سپاہی نے ہمارے دروازے کا تالا کھولا، تھوڑی دیر بعد ہم اس امانت خانے میں تھے، جہاں ہم پہلے آئے تھے۔ ہمارے موبائل اور چابیاں میز پر موجود تھیں۔ ہم نے اپنا سامان وصول کیا اور رجسٹر پر رسید دی۔ مسٹر تناکا نے مجھے اسٹیشن تک پہنچانے کی پیشکش کی۔ ہم دونوں عمارت سے اکٹھے نکلے اور ان کی کار میں بیٹھ گئے۔باہر نکلنے سے قبل صدر دروازے پر آخری مرتبہ تلاشی کے مرحلے سے گزرے۔ جہاں عقبی آئینے میں ہمارے پیچھے دیوار پر چمک دار روشن حروف میں کندہ “بارڈر ایجنسی” کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔

مسٹر تناکا نے مجھے اسٹیشن چھوڑا لیکن میں اسی وقت گاڑی میں سوار نہیں ہوئی۔ دن کے باقی حصے میں میری کوئی مصروفیت نہیں تھی۔ اس کا مطلب نہیں کہ میں جو چاہے کر سکتی تھی، لیکن میں واپس یونی ورسٹی نہیں جانا چاہتی تھی۔ مجھے تو بس بارڈر ایجنسی سنٹر کے کے باہر تازہ ہوا میں سانس لینے کی طلب تھی۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو رہا تھا چناں چہ سٹیشن کے وسیع شاپنگ مال میں لوگوں کا ہجوم تھا، طالب علم جو اپنی کلاسز سے جلد فارغ ہو گئے تھے، دیہاڑی دار جن کے پاس جن کے پاس کرنے کچھ زیادہ نہیں تھا اور نوکری پیشہ افراد کھانے کے ٹھکانے دیکھ رہے تھے، خانہ دار خواتین سپر مارکیٹ میں سودا سلف خرید رہی تھیں۔

صرف چند میل دور واقع تاریک، خوف ناک بارڈر ایجنسی سنٹر کی دنیا یہاں سے بالکل مختلف تھی۔ مصروف سٹیشن، روشن اور فراخ مصروف تھا، جس میں ایک چھوٹا باغیچہ اور پلے ایریا بھی تھا۔ ہر جانب مقابلے کے امتحانات کی تیاری کرانے والے اسکولوں اور انگریزی سکھانے والےکالجوں کے اشتہارات لگے ہوئے تھے۔ مختلف اقسام کے اتنے اسکول کہ یہ تصور کرنا بھی مشکل تھا کہ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر کوئی ایسی لڑکی ہےجو اپنی مادری زبان بھی پڑھ اور لکھ نہیں سکتی۔ وہاں ایزاکائس ، کراووک بار اور وڈیو گیمز سنٹر کے بورڈ آویزاں تھے۔ ان میں سے کسی کے بارے میں لیلیٰ نے سنا تک نہیں تھا۔ اس نے تو کبھی ہینڈ کریم بھی استعمال نہیں تھی۔

میں ایک چھوٹی کافی شاپ میں گھس گئی، کافی کا آرڈر دیا اور کھڑکی سے قریبی نشست پر بیٹھ گئی۔ بھنی ہوئی کافی کی خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔ کافی اتنی گرم تھی کہ اس وقت گھونٹ بھرنا مشکل تھا، اس کے تھوڑا ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرتے ہوئے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ وہاں پرسکون ماحول میں بیٹھے ہوئے میں حقیقت کی دنیا میں واپس پہنچ گئی۔ حقیقت کی وہ دنیا، جہاں میں ایک خوش حال ملک میں رہ رہی تھی۔ میں نے کافی کا مگ اٹھایا اور اسے اپنے ہونٹوں کے قریب لائی۔ اس کی مہک لاجواب تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *