[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
گورا قبرستان
[/vc_column_text][vc_column_text]
یہ کیسی بستی ہے
جس میں حدِّ نگاہ تک بس مجسّمے ہیں۔۔۔
تنی ہوئی گردنیں ہیں کاندھوں پہ ایستادہ
جو دونوں ہاتھوں میں اپنی ہی اک خفیف مورت اُٹھائے
خود ہی زمانے بھر کو دکھا رہے ہیں
یہ کیسا جادو جگا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
مجسّمے بڑھتے جا رہے ہیں
جس میں حدِّ نگاہ تک بس مجسّمے ہیں۔۔۔
تنی ہوئی گردنیں ہیں کاندھوں پہ ایستادہ
جو دونوں ہاتھوں میں اپنی ہی اک خفیف مورت اُٹھائے
خود ہی زمانے بھر کو دکھا رہے ہیں
یہ کیسا جادو جگا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
مجسّمے بڑھتے جا رہے ہیں
جہاں سے دیکھو
وہیں سے باقی تمام بُت
لگ رہے ہیں بونے
ڈھلکتا سورج ٗ گواہ گویا ہر ایک کا ہے
جو بے بسی سے مچلتی کرنیں
سروں پہ ٗ آنکھوں میں جھونکتا ہے
غروب ہوتا دیا جو سائے بڑھا رہا ہے
تو یہ بھی منظر دکھا رہا ہے
کہ شہرِ مرقد میں ڈھل رہی ہے تمام بستی
وہیں سے باقی تمام بُت
لگ رہے ہیں بونے
ڈھلکتا سورج ٗ گواہ گویا ہر ایک کا ہے
جو بے بسی سے مچلتی کرنیں
سروں پہ ٗ آنکھوں میں جھونکتا ہے
غروب ہوتا دیا جو سائے بڑھا رہا ہے
تو یہ بھی منظر دکھا رہا ہے
کہ شہرِ مرقد میں ڈھل رہی ہے تمام بستی
صلیب اُٹھائے ٗ
میں اپنے مرقد سے سر اُٹھا کر جو دیکھتا ہوں
تو دیکھتا ہوں !۔
سجی ہوئی ہیں قطار اندر قطار قبریں
مزار اندر مزار حدِّ نگاہ تک ہیں
اُٹھے ہوئے ہاتھ ٗ گردنیں تو
صلیب و گنبد میں ڈھل رہے ہیں
نئے نئے سائے تازہ قبروں سے بے خودی میں نکل رہے ہیں
اور اس دھوئیں کی کثافتوں میں
تمام منظر پگھل رہے ہیں
میں اپنے مرقد سے سر اُٹھا کر جو دیکھتا ہوں
تو دیکھتا ہوں !۔
سجی ہوئی ہیں قطار اندر قطار قبریں
مزار اندر مزار حدِّ نگاہ تک ہیں
اُٹھے ہوئے ہاتھ ٗ گردنیں تو
صلیب و گنبد میں ڈھل رہے ہیں
نئے نئے سائے تازہ قبروں سے بے خودی میں نکل رہے ہیں
اور اس دھوئیں کی کثافتوں میں
تمام منظر پگھل رہے ہیں
Image: S. M. Rafique
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]