Laaltain

گنیش

28 دسمبر، 2015

[blockquote style=”3″]

پران ہندوستانی دیو مالا اور اساطیر کے قدیم ترین مجموعے ہیں۔ ہندوستانی ذہن و مزاج کی، آریائی اور دراوڑی عقائد اور نظریات کے ادغام کی، اور قدیم ترین قبل تاریخ زمانے کی جیسی ترجمانی پرانوں کے ذریعے ہوتی ہے، کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ یہ الہامی کتابوں سے بھی زیادہ مقبول اور ہر دل عزیز ہیں۔ مشہور رزمیہ نظموں رامائن اور مہابھارت کو بھی لوک کتھاؤں کے مآخذ کے اعتبار سے اسی زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان میں اس برصغیر میں نسل انسانی کے ارتقا کی داستان اور اس کے اجتماعی لاشعور کے اولین نقوش کچھ اس طرح محفوظ ہوگئے ہیں کہ ان کو جانے اور سمجھے بغیر ہندوستان کی روح کی گہرائیوں تک پہنچنا مشکل ہے۔
تاریخی اعتبار سے پران ہندو مذہب کے ارتقا کی اس منزل کی ترجمانی کرتے ہیں، جب بدھ مت سے مقابلے کے لیے ہندو مذہب تجدید اور احیا کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس سے پہلے ویدوں کی رسوم پرستی اور برہمنیت کے خلاف ردعمل کے طور پر بدھ مت اپنی سادگی، معاشرتی عدل اور عملی روح کی وجہ سے قبول عام حاصل کرچکا تھا۔ لیکن بدھ مت میں خدا کا تصور نہیں تھا۔ اپنشدوں کا برہمہ (مصدر ہستی)کا تصور بھی انتہائی تجریدی اور فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہر تھا۔ ہندو مذہب نے اس کمی کو اوتاروں کے آسانی سے دل نشین ہونے والے عقیدے سے پورا کیا اور رام اور کرشن جیسے مثالی کرداروں کو پیش کرکے عوام کے دلوں کو کھینچنا شروع کردیا۔ یہ انہیں کی شخصیت کا فیض تھا کہ ہندو مذہب کو پھرسے فروغ حاصل ہوا۔ پران اسی دور تجدید کی یادگار ہیں، اور انہیں نے ایک بار پھر مذہب کو عوام کے دل کی دھڑکنوں کا رازدار بنایا۔
پرانوں کی کہانیوں میں برہما، وشنو، شو، پاروتی، اُما، درگا، لکشمی کے علاوہ دیوی دیوتاؤں اور رشیوں منیوں کے سینکڑوں کردار ایسے ہیں جو بار بار رونما ہوتے ہیں، ورُن، اگنی، اِندر، مارکنڈے، نارد، دُرواسا، سرسوتی، اوشا، ستیہ، ویاس، مارتنڈ، منو، مینکا، اُروشی، کَپِلا، راہو، کیتو،کام، کالندی، دکش، کادمبری، ہوتری، ماروتی، اشونی وغیرہ۔ ان میں سے کچھ تو انسانی کردار ہیں جو ایک بار سامنے آکر ختم ہوجاتے ہیں لیکن کچھ آسمانی کردار ہیں جو وقت کے محور پر ہمیشہ زندہ ہیں، اور جو کسی بھی یُگ یا کلپ میں رونما ہوسکتے ہیں۔ آسمانی اور زمینی کرداروں کے اس باہمی عمل سے ان کہانیوں کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ ان کرداروں کی تاریخی حیثیت سے سروکار نہیں۔ اصل چیز ان کی معنویت ہے۔ ان کی تکرار سے ان سے منسوب صفات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے۔ ہر کردار رمز ہے، علامت ہے، کسی تصور یا کسی قدر کی، جس کے ذریعے ذہن انسانی اپنے عالم طفولیت میں بدی اور نیکی کی طاقتوں کی حشر خیز کشمکش کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
(گوپی چند نارنگ)

[/blockquote]

مزید ہندوستانی کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
دوسری روایت یوں ہے کہ ایک دن پاروتی اشنان کر رہی تھیں۔ انہوں نے گنیش جی سے کہا کہ دروازے پر رہیں اور اند کسی کو نہ آنے دیں۔ اتنے میں شو جی آئے اور اندر جانا چاہا۔ گنیش نے انہیں ٹوکا۔ غصے میں انہوں نے گنیش کا سر اڑادیا۔
گنیش جی کو بہت مبارک خیال کیا جاتا ہے۔ وہ شو جی اور پاروتی کے بیٹے ہیں۔ گنیش کامطلب ہے ’گنوں کی ایش‘ یعنی کئی دیوتاؤں کے دیوتا۔ عام روایتوں کے مطابق انہیں عقل و دانش کا دیوتا کہا جاتا ہے، جو رکاوٹوں کو دور کرتا ہے۔ چنانچہ اکثر ہرکام کی ابتدا ’شری گنیشایہ نمہ’ کہہ کر یعنی گنیش جی کا نام لے کر کی جاتی ہے۔ کتابوں کا آغاز بھی گنیش جی کے نام سے کیا جاتا ہے۔روایت ہے کہ مہابھارت کا پہلا نسخہ ویاس جی کے بولنے پر گنیش جی نے لکھا تھا۔ شکل و صورت کے اعتبار سے بھی گنیش جی بہت دل چسپ ہیں۔ ناٹا قد، موٹا بدن، سنہرا رنگ، توندنکلی ہوئی، چار گول ہاتھ، ہاتھی کا سر اور انسان کا دھڑ۔ گنیش جی کے ایک ہاتھ میں شنکھ، دوسرے میں چکر تیسرے میں گرز اور چوتھے میں کنول کا پھول ہوتا ہے۔ اکثر یہ چوہے پر سوار ہوتے ہیں یا چوہے ان کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں۔ ان کے ہاتھی کے سر اور انسان کے جسم کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ ایک یوں ہے کہ ان کی ماں پاروتی ایک بار انہیں اکیلا چھوڑ کر کہیں کام سے گئیں کہ سنیچر کی ایک نظر بچے کو جلا کر رکھ دے گی۔ چنانچہ یہی ہوا اور بچے کا سر راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔ پاروتی نے برہما سے شکایت کی۔انہوں نے کہا۔ ‘جو ہونا تھا، وہ تو ہو گیا۔اب راستے میں جو بھی جاندار سب سے پہلے ملے، اس کا سر کاٹ کر گنیش جی کے لگادو۔’ پاروتی کو سب سے پہلے ہاتھی دکھائی دیا۔ چنانچہ اسی کا سر کاٹ کر گنیش جی کے لگادیا گیا۔ دوسری روایت یوں ہے کہ ایک دن پاروتی اشنان کر رہی تھیں۔ انہوں نے گنیش جی سے کہا کہ دروازے پر رہیں اور اند کسی کو نہ آنے دیں۔ اتنے میں شو جی آئے اور اندر جانا چاہا۔ گنیش نے انہیں ٹوکا۔ غصے میں انہوں نے گنیش کا سر اڑادیا۔ بعد میں پاروتی کو راضی کرنے کے لیے انہوں نے ایک ہاتھی کا سر کاٹا جو انہیں سب سے پہلے نظر آیا اور گنیش جی کے لگادیا۔ ایک اور روایت یوں ہے کہ شو جی نے سورج کے بیٹے ادتیہ کو ایک بار غلطی سے قتل کردیا جسے بعد میں زندہ کرنا پڑا۔ اس غلطی کی سزا کے طور شو جی کو بد دعا دی گئی کہ ان کے بیٹے کا سر جاتا رہے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعد میں اندر کے ہاتھی کا سر کاٹ کے گنیش کے لگادیا گیا۔گنیش جی کے ایک دانت کے بارے میں روایت ہے کہ ایک بار مشہور جانباز بہادر پرشو رام، کیلاش (ہمالیہ) پر شو جی سے ملنے گئے۔ شو جی سو رہے تھے۔اس لیے گنیش نے انہیں دروازے پر روکا۔ دونوں میں جھگڑا شروع ہوگیا۔ گنیش نے پرشو رام کو اپنی سونڈ سے اٹھا کر دے مارا۔ انہوں نے جواباً اپنی کلہاڑی گنیش جی پر پھینکی جو دراصل شو جی ہی کی دی ہوئی تھی۔ اپنے باپ کے ہتھیار کو سر جھکاکر قبول کرنے کے لیے گنیش جی نے جونہی سونڈ نیچی کی، کلہاڑی دانت پر آکر لگی اور گنیش جی کا ایک دانت جاتا رہا۔ گنیش جی کو گجانند وردوئی دیہا یعنی ہاتھیوں کے سرتاج اور دو جسموں والا بھی کہتے ہیں۔

 

(ماخوذ از پرانوں کی کہانیاں، مرتبہ گوپی چند نارنگ)

 

لالٹین پر ہندوستانی کہانیوں کا یہ سلسلہ تصنیف حیدر (ادبی دنیا) کے تعاون سے پیش کیا جا رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *