[blockquote style=”3″]
علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔
ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔
[/blockquote]
علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔
(27)
ہیلے نے آہستگی سے سلور کی دھات کے بنے ہوئے نہایت نفیس اور خوبصورت سگار کیس سے ایک سگار نکالا،اُ س کو دو تین دفعہ ناک کے قریب لے جا کر ہلکے ہلکے اپنی سانس اوپر کھینچ کر پہلے سگار کے خوشبو دار تمباکو کا سرور لیا پھر اُسے لیمپ کی آگ دے کر جلا لیا۔ اس کے بعد دو تین چھوٹے چھوٹے کش لے کر میز کے دوسری طرف بیٹھے ولیم کو دیکھنے لگا۔ ولیم اس سارے عمل میں خاموش بیٹھا ہیلے کی فطرت کا جائزہ لیتا رہا۔ ہیلے کی عینک کے شیشے نہایت چمکدار اور باریک تھے۔ کمانیاں اور کمانیوں کی زنجیر سنہری دھات کی تھیں۔ اُن کے بارے میں ولیم فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ سونے کی ہیں یا محض سونے کے رنگ میں تیار ہوئی ہیں۔ نیلے رنگ کی ٹائی پر چھوٹے چھوٹے زرد پھول بنے تھے۔ کوٹ کے بٹن کُھلے ہو ئے تھے اس لیے ٹائی اُس کی ناف تک لٹکی ہوئی صاف نظر آ رہی تھی۔ شرٹ بھی ہلکے نیلے رنگ کی بہت ہی عمدہ کپڑے سے بنی تھی،جو ولیم کے قدرے اُبھرے ہوئے پیٹ پر کافی جچ رہی تھی۔ شرٹ کے اُوپر کوٹ سُرمئی رنگ کا تھا،جس پر ہاتھی دانت کے بڑے بڑے بٹن تھے۔ یہ بٹن کوٹ کے ساتھ سلے ہوئے نہیں تھے بلکہ الگ سے نتھی کیے گئے تھے تاکہ دوسرا کوٹ پہننا ہو تو اُتار کر اُس کے ساتھ لگا لیے جائیں۔ ہیلے کی مونچھیں اتنہائی سیاہ اور نوکدار تھیں مگر مونچھیں بھاری نہیں تھیں۔ منہ کا دہانہ کھلا ہوا اور چوڑا تھا اور آنکھیں خوفناک حد تک چمک دار تھیں۔ ایسی شخصیت جوانی میں زیادہ خوبصورت نہیں لگتی مگر اِس عمر میں،جس میں اب ہیلے پہنچ چکا تھا،کافی دیدہ زیب ہو جاتی ہے اور سامنے والے کو رعب میں دبا لیتی ہے۔ پچھلی ملاقات میں و لیم کو ہیلے کے چہرے میں ایک سادگی نظر آ ئی تھی۔ اُس کا تاثر اس دفعہ بدل رہا تھا۔ ہیلے کی آنکھوں اور ماتھے کی تیوریوں میں ایک کٹیلی عیاری اور اُس کے ساتھ اپنے جونیئر سے ایک قسم کی بے نیازی کاتاثر اُبھر رہا تھا۔ جس کا مطلب تھا ہیلے ولیم کو اپنے عہدے کی حیثیت سے خبردار کرنے کے لیے تیار ہوچکا ہے۔ ولیم کواپنے باپ دادا کی سروس سے مشاہدہ تھا کہ ایک ضلع میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ اُسے یہ بھی خوب علم تھا کہ ہندوستانی سول سروس کے انگریزبرطانیہ میں موجود سول سروس کے لوگوں کے سامنے احساس کمتری کا شکار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لاشعوری طور پرہر نئے آنے والے آفیسر کو اپنے سینئر ہونے کا باور کرانا ضروری سمجھتے۔ اس سلسلے میں اُن سے عجیب عجیب حرکات سر زد ہوتیں۔ کبھی ضرورت سے زیادہ نصیحتیں،کبھی ڈانٹ اور کبھی اپنی ضروری اور غیر ضروری معلومات کا وقت بے وقت اظہار۔ ہندوستانی سول سروس میں موجود دیسی لوگوں کی تو خیر اُن کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں تھی کہ وہ تو افسر ہو کر بھی اُن کے غلام تھے اور انگریز افسر کی سینیارٹی کو ضرورت سے زیادہ قبول کر لیتے مگر نئے انگریز افسر یہاں آکر بھی برطانوی شہریوں جیسی حرکتیں کر تے۔ اِس کی وجہ سے ہندوستانی سول سروس کی نوکری میں بزرگ انگریز افسروں کو اپنی عزت اور وقار پر ضرب پڑتی محسوس ہوتی،جو برطانیہ میں افسری کرنے والوں پرممکن نہیں تھی۔ وہ مرکز میں ہونے کی وجہ سے فیصلے صادر کرنے والوں میں سے تھے اور اکثر شُرفا ہوتے جبکہ ہندوستان میں تو نچلی قوموں کے افسروں کی بہتات ہوچکی تھی اور اس بات کا اندازہ برطانیہ میں موجود بیوروکریسی کو تھا۔ بلکہ ہندوستانی بیوروکریسی کو بھی بخوبی تھا۔ ولیم کو ہیلے اب ویسا ہی احساس کمتری کا شکار آفیسر لگ رہا تھا اور یہ بات ولیم کے لیے خطرناک تھی۔ کیونکہ احساس کمتری میں مبتلا افسر کے ہاتھ سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ اب ولیم کو ہیلے سے کچھ کچھ ڈر محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ اِس انتظار میں تھا کہ جلد از جلد ہیلے اپنا منہ کھولے اور بات سامنے آئے۔ اُسے اندیشہ تھا،اُسے جلال آباد میں امن وامان کے حوالے سے ضرور ڈانٹ پلائی جائے گی۔
ہیلے نے کچھ دیر کی خموشی کے بعد بالآخر مُہر توڑی اور بولا،نوجوان آپ فیلڈ میں آ کر کیا محسوس کر رہے ہیں ؟
بہت اچھا سر،مزا آرہا ہے کام کرنے کا،ولیم نے تحمل سے جواب دیا۔
ہیلے نے کچھ دیر کی خموشی کے بعد بالآخر مُہر توڑی اور بولا،نوجوان آپ فیلڈ میں آ کر کیا محسوس کر رہے ہیں ؟
بہت اچھا سر،مزا آرہا ہے کام کرنے کا،ولیم نے تحمل سے جواب دیا۔
میں نے آج تک آپ کی بھیجی گئی تمام فائلوں کا مطالعہ کیا ہے،ہیلے نے گفتگو میں اطمنان پیدا کرتے ہوئے کہا،ولیم آپ بہت تیز دوڑ رہے ہیں۔ اِس میں ساتھ دینے والے ہانپ جائیں گے یا شاید آپ کی ہی سانس اُکھڑ جائے،اس کے بعد اس نے میز کے ایک کونے پر پڑی تانبے کی
خوبصورت گھنٹی کا بٹن دبا دیا جس کے بعد فوراً ایک ہندو ملاز م اندر داخل ہوا،تحصل جلال آباد کی فائلیں لاؤ۔
ملازم ہیلے کا حکم سن کر باہر نکل گیا۔ ولیم نے سوچا ہیلے کا خاص جلال آباد تحصیل کا نام لینے کا مطلب یہ باور کرانا ہے کہ اُس کے ما تحت فیروز پور کی پوری پانچ تحصیلیں ہیں۔ جن میں سے ایک جلال آباد کی تحصیل بھی ہے۔ چناچہ ولیم سمجھ لے کہ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر میں بہت فرق ہے۔ ولیم انہی خیالات میں تھا کہ ہیلے کی دوبارہ آواز سُنائی دی،میں نے آپ کی تمام فائلوں کا مطالعہ کیا ہے۔ آپ بہت عمدہ کام کر رہے ہیں لیکن ہمیں بہت سے کام ایک ہی وقت میں نہیں چھیڑدینے چاہییں۔
ولیم نے سر اُٹھا کر دیکھا تو جلال آباد سے بھیجی گئیں چاروں فائلیں میز پر پڑی تھیں،جنہیں ملازم چند ثانیے پہلے رکھ کر جا چکا تھا اور اُن پر ہیلے اب گفتگو کرنا چاہ رہا تھا۔ ولیم نے ایک لمحے کے لیے ہیلے کی طرف دیکھا اور اپنے لہجے میں تھوڑی سی خوشامد کانمک ڈال کر بولا،سر میرا کام تو صرف یہ ہے کہ میں تحصیل میں گورنمنٹ اور عوام کے جو مسائل موجود ہیں،اُن پر آپ کی توجہ مبذول کرا دوں۔ باقی تو جو آپ کہیں گے وہی ہو گا،میں تیز دوڑوں گا بھی تو تحصیل سے باہر نہیں جا سکتا۔
ہیلے ولیم کے اس جواب سے ہلکا سا مسکرا دیا اور دوبارہ بولا،ولیم جانتے ہو؟ مجھے اُس وقت اپنی خوشامد اچھی لگتی ہے جب کوئی میرا انگریز جونیر کرتا ہے ورنہ دیسی افسر تو بنے ہی خوشامد کے لیے ہیں۔ بہر حال یہ ایک بات تھی،ہم اپنے مقصد کی طرف آتے ہیں۔ آپ سرِ دست اپنی ترجیحا ت ایک یا دو کامو ں کو دو۔ ہم جانتے ہیں،اِن علاقوں میں اتنے مسائل ہیں جن پر برطانیہ حکومت اگر دو سو سال تک مسلسل کام کرے تو بھی وہ ان کے رنگ کی طرح صاف نہیں ہو سکتے لیکن یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ میں ایک فائل آپ کو دے رہا ہوں (ولیم کی طرف ایک فائل بڑھاتے ہوئے،جسے ولیم نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا اور کھولنے لگا) اِس میں کچھ ہندو بنیوں کے نجی سود در سود کے نظام اور اُن کے ہاتھوں پنجاب کے غریب دیہاتیوں کے استحصال کی کار گزاریاں ہیں۔ یہ وہ لعنت ہے جس کی ہم نے سختی سے حوصلہ شکنی کرنی ہے۔ یہ بنیے ناصرف پورے پنجاب کے غریب اور مالدار لوگوں کو رہن رکھے ہوئے ہیں بلکہ ہندوستان بھر میں اِن کی قینچیاں نوابوں سمیت ہر ایک کی جیب پر چل رہی ہیں۔ اس کے بعد ہیلے ولیم کی طرف جھکتے ہوئے بولا،میں یہ بات آپ کو نہ تو فائل پر لکھ کر دے سکتا ہوں اور نہ ہی کسی اور طرح سے سمجھا سکتا ہوں،صرف زبانی کہ سکتا ہوں۔ لیکن اس کو لکھے ہوئے احکام سے زیادہ اہم سمجھو۔ تمھیں یہاں بلانے کا سب سے اہم مقصد یہی تھا۔
ولیم ہیلے کی خوشامد والی طنز سے اتنا گھبرا گیا تھا کہ کچھ لمحے اُس کا دماغ بھی ٹھکانے پر نہیں رہا تھا لیکن جب ہیلے نے اپنی گفتگو آگے بڑھائی تو اُس کی خجالت جلد ہی صاف ہوگئی۔ اُسے اس گفتگو سے ایک گونہ اطمنان سا ہوا۔ وہ جس واقعے سے ڈر رہا تھا،اُس کے متعلق خوف رفع ہو گیا اور اب بغیر جھجھک کے بولا،سر عوام کا استحصال تو اور بھی کئی رنگ میں جاری ہے لیکن ان بنیوں پر ہی خاص توجہ دینے کی ایسی کون سی مجبوری لاحق ہو گئی۔
بہت سی،ہیلے نے وضاحت کرتے ہوئے کہا،ان کی وجہ سے حکومت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ زمین داروں سے سود کی رقم ادا نہیں ہو پاتی،نتیجہ یہ کہ ان کا کیس عدالت میں آجاتا ہے اور عدالت قرضے کے عوض زمینداروں کے مالیاتی حقوق بنیوں کے نام کر دیتی ہے۔ بنیے خود زمین داری سے واقف نہیں۔ وہ سب کچھ مزارعوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ مزارع وہی ہوتے ہیں،جو ان بنیوں کے مقروض ہیں۔ چنانچہ یہی لوگ اُن زمینوں کی کاشت کرتے ہیں لیکن انہیں فصل سے بہت کم حصہ ملتا ہے اور اُن زمینوں میں مزارع دلچسپی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے علاقے میں کاشتکاری کانظام آگے پنپ نہیں رہا۔ دوسرا بڑا نقصان یہ کہ اِن کے نجی بنکاری نظام نے سرکاری بنکوں کے نظام میں خلل ڈال رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی بنکو ں کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ اس عمل سے گائے کا دودھ بکری کے تھنوں میں منتقل ہو رہا ہے۔
تو سر اس میں مَیں کس طرح اپنا وجود ثابت کر سکتا ہوں؟،ولیم سمجھ گیا تھا کہ عوام کا استحصال تو خیر ایک بات تھی۔ اصل مقصد تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے آخر میں بتایا لیکن اُس نے سوچا مُردے کی وراثت پانے والوں سے بچ کر مرنے والے کا اُسترا بھی گورکن کو مل جائے تو یہ بھی غنیمت ہے۔
تم مالیات کے نظام میں پٹواری کے دخل اور زمین کی خریدو فروخت میں ٹیکس کو جتنا ہو سکے زیادہ فروغ دو۔ اگرچہ اِس کے نفاذ کے معاملے میں آپ کو تمام ہدایات تحریری ہی وصول ہوں گی۔ لیکن ایسا ہوتا ہے کہ لوگ باہر ہی باہر زمین فروخت کر دیتے ہیں،جس کا اندراج کاغذات میں نہیں ہوتا۔ ہوتا یہ ہے کہ نہری پانی کا مالیہ وہ ادا کرنا شروع کر دیتا ہے جس نے زمین مول لے لی ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ زمین خود بخود مالیہ ادا کرنے والے کے نام ہو جاتی ہے،جو عموماً بنیا ہوتا ہے۔ ہم اس نظام کو مشکل بنا رہے ہیں اور ہر حالت میں زمین خریدنے والے پر بھاری ٹیکس لگا رہے ہیں۔ وہ کسی بھی صورت میں بغیر گورنمنٹ کو ٹیکس دیے زمین اپنے نام نہیں کروا سکتا۔ دوسری طرف بہت سے فیصلے چونکہ تحصیل سطح پر آپ نے خود ہی کرنے ہیں۔ اِس لیے کوشش کرنا کہ بنیوں کو کم سے کم اُن فیصلو ں میں فائدہ پہنچے۔ باقی تمام معاملات اِس بارے میں مالی تحصیل دار کو پتا ہے۔ وہ آپ کو مشورے دیتا رہے گا۔
ولیم تھوڑی دیر کے لیے چُپ بیٹھا رہا پھر مسکرا کر بولا،سر ایک کافی کا کپ مزید مل جائے گا ؟
وائے ناٹ،ہیلے نے ایک بار پھر گھنٹی کا بٹن دباتے ہوئے کہا،اور ہاں ایک بات یاد آئی،آپ کوئی بھی کام براہِ راست خود کرنے کی کوشش نہ کیا کریں،مختلف کاموں کے لیے آپ کے پاس مختلف آفیسر ہیں بس انہی سے سروکار رکھیں اور زیادہ دوروں سے پر ہیز کریں۔ چوری ڈکیتی اور امن و امان پولیس کا کام ہے۔ آپ اُن کے لیے تمام ہدایات ڈی ایس پی کو دیا کریں۔ مَیں حیران ہوں یہ تمام چیزیں آپ کی ٹریننگ کا حصہ تھیں لیکن آپ پھر بھی جودھا پور اور جھنڈو والا کے چکر لگاتے پھرے۔ یہ پولیس کا کام ہے اُن کو کرنے دیں۔
ولیم کو ہیلے کے یہ جملے سُن کر ایک دفعہ پسینہ آ گیا اور اُسے لگا جیسے اصل میں اسی لیے بلایا گیا ہے،باقی سب باتیں بہانہ تھیں۔ لیکن یہ بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آیا ڈپٹی کمشنر صاحب ملزمان کی مدد کرنا چاہتے یا اُسے کسی نقصان سے بچانے کے پیش نظرسرزنش کر رہے ہیں۔ ولیم نے اس بات کو ذرا کھول دینا مناسب سمجھا اور کہا،سر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے،کچھ دنوں سے جلال آباد میں شرپسندوں نے قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ میں نے اُس کے لیے ڈی ایس پی لوئیس کو کچھ احکامات جاری کیے ہیں،جن میں سودھا سنگھ کے مال کو ضبط کرنے کے احکام بھی ہیں۔ اُن کے لیے آپ کی منظوری چاہیے،یہ کہ کر ولیم نے سودھا سنگھ کی فائل جو ڈی ایس پی لوئیس نے آج صبح ہی ولیم کے حوالے کی تھی،ہیلے صاحب کے آگے کر دی اورولیم اُس وقت حیران رہ گیا جب ہیلے نے اُس پر بلا تردد دستخط کر دیے،تو گویا ملزموں کی پشت خالی تھی۔
فائل پر دستخط کے بعد ولیم قدرے پُر سکون ہو گیا۔ اُس نے کافی کی چسکیوں کے ساتھ دوسرے مسائل پر گفتگو شروع کردی،جن میں دو مسئلے سب سے اہم تھے اور انہی پر ولیم اصل میں کام کرنا چاہتا تھا۔ اُن میں سے ایک تعلیم اور دوسرا جلال آباد میں نہری نظام کی مزید بہتری اور بڑے پیمانے پر کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے بنگلہ نہر کی تجویز۔ جسے ہیلے نے بہت سراہا اور اُس پر جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ وہ چاہے گا،اسی ماہ کی چیف سیکرٹری صاحب سے ملاقات پر اُن سے اس کی منظوری لے لے۔ الغرض اِن مسائل پر ایک گھنٹے تک دونوں کے درمیان بات چیت ہوئی،جو نہایت خوشگوار ماحول میں تھی۔ اُس کے بعد ولیم نے اجازت چاہی اور ابھی اُٹھنے ہی لگا تھا کہ ہیلے نے ولیم کو روک کر پھر ایک جملہ کہ دیا۔
ولیم کیا نام ہے اُس لڑکے کا،،غلام حیدر،،ہاں اُس کو انصاف ملنا چاہیے۔ لیکن اُس کی ریفل دو مہینے کے لیے قبضے میں لے لو اور اُس پر خاص نظر رکھو۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ملزموں کے ساتھ نرمی برتو۔ شر پسندوں کو سختی سے دبادو۔ یہ کہ کر ڈپٹی کمشنر صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور ساتھ ہی ولیم بھی اُٹھ گیا۔
ولیم کیا نام ہے اُس لڑکے کا،،غلام حیدر،،ہاں اُس کو انصاف ملنا چاہیے۔ لیکن اُس کی ریفل دو مہینے کے لیے قبضے میں لے لو اور اُس پر خاص نظر رکھو۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ملزموں کے ساتھ نرمی برتو۔ شر پسندوں کو سختی سے دبادو۔ یہ کہ کر ڈپٹی کمشنر صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور ساتھ ہی ولیم بھی اُٹھ گیا۔
اب بارہ بج گئے تھے اور کھانے کا وقت ہو چکا تھا۔ اس لیے دونوں کھانے کے کمرے کی طرف چل دیے۔ اِسی دوران ولیم سوچنے لگا کہ خدا کی پناہ ہیلے کتنا چالاک آدمی ہے۔ اُس نے ہر گز پتا نہیں چلنے دیا کہ اصل میں اُسے کس لیے بلایا گیاہے۔ تمام اہم مسائل پر اُس نے اس طرح گفتگو کی کہ وہ اُس کے اصل ارادوں سے بالکل بھی واقف نہیں ہو سکا۔
(28)
ٍڈی ایس پی لوئیس کی گھڑی صبح کے چھ بجا رہی تھی جب اُنہوں نے جھنڈو والا پر یلغار کی۔ اس بات کا پولیس کو پتا تھا کہ دما کے قتل کی خبر سنتے ہی سردار سودھا سنگھ پٹیالہ جا چکا ہے اور فی الحال اُس کے گرفتار ہونے کے امکانات صفر ہیں۔ لیکن پرچے میں کچھ اور لوگوں کے نام بھی درج تھے اس کے علاوہ سردار سودھا سنگھ کا بھائی سردار نتھا سنگھ بھی وہیں موجود تھا،جس کی گرفتاری اِس کیس میں کافی کار آمد ثابت ہو سکتی تھی۔ علاوہ ازیں جھنڈووالا پر یہ چھاپہ اوربھی بہت سے عوامل کو سامنے لا سکتا تھا۔ اگر اس وقت بھی چھاپہ نہ مارا جاتا توپورے علاقے میں لا اینڈ آڈر کا خطرناک تاثر پیدا ہو جاتا اور کہا جاتا کہ پولیس سردار سودھا سنگھ پر ہاتھ ڈالنا تو ایک طرف جھنڈووالا میں وارنٹ گرفتاری لے کر داخل بھی نہ ہو سکی۔
لوئیس صاحب خود جیپ پر سوار تھے جن کے ساتھ انسپکٹر متھرا،انسپکٹر مدن لال اور تھانیدار بلرام تھا۔ اِن کے علاوہ چار تھانوں کے چالیس گھوڑ اسوار تھے،جن میں سب انسپیکٹر،حوالدار اور سپاہی سب شامل تھے۔ پولیس کے سپاہی گھوڑوں پر اسوار کچھ جھنڈو والا کے باہر ناکہ لگا کر کھڑے ہو گئے تاکہ ملزم بھاگ نہ سکیں اور باقی گاوں کے اندر گلیوں میں پھیل گئے۔ ڈی ایس پی لوئیس اور باقی تمام عملے نے سودھا سنگھ کی حویلی کا گھیراو کر لیا۔ جھنڈو والا میں اِس قدر انگریزی افسر اور دیسی پولیس لوگوں نے پوری زندگی تو کیا خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔
اِکا دُکا لوگ جاگ اُٹھے تھے،جو ادھر اُدھر کام میں اور اپنی فصلوں میں ہل وغیرہ جوتنے کے لیے نکل رہے تھے۔ اِن لوگوں میں سے کچھ اُٹھنے کے باوجود نیند کے خمار میں تھے۔ اُن کی آنکھیں ابھی پوری طرح نہیں کھلی تھیں۔ کچھ بیل ہنکا کر لے جا رہے تھے۔ کوئی کسئی اور درانتی لے کر اور گدھی پر واہنا رکھے آنکھیں ملتے سانجرے ہی سانجرے چارہ لینے جا رہا تھا۔ اِنہیں اِس ناگہانی آفت کا کچھ پتا نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے ؟جب جاگنے والوں نے جیپ کی آواز اور گھوڑوں کی دڑ دڑ سُنی تو اُنہوں نے سونے والوں کو جلدی جلدی اُٹھایا اور سب لوگ باہر کی طرف بھاگنے لگے۔ باہر ہر طرف فرنگی پولیس کے پہرے اور کالی نال والی بندوقیں ہی بندوقیں تھیں۔ پولیس مخبروں کی دی ہوئی اطلاع کے مطابق کئی گھروں میں گھوڑوں سمیت داخل ہو رہی تھی اور بندوں کو گھسیٹ کر باہر نکال رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ بیتوں اور چابکوں سے اُن کی پٹائی بھی جاری تھی۔ اِن گرفتار ہونے والوں میں تھانیدار بلرام کے مطابق وہ لوگ تھے،جو جودھا پور کے چراغ دین کے قتل اور مونگی کی تباہی میں شامل تھے۔ اِن کے ناموں اور گھروں کی مخبری دیدار سنگھ کی رپورٹ کے مطابق جھنڈو والا ہی کے ایک شخص نے کی تھی۔
ملزموں کو نہایت بے دردی سے پیٹا بھی جا رہا تھاکہ اُن پر انگریزی قانون کی اچھی طرح سے دہشت طاری ہو جائے اور مکمل خوف و ہراس پھیل جائے۔ جھنڈو والا میں ایک طرح سے یک دم قیامت برپا ہو چکی تھی۔ حملے کی شدت اور خوف سے عورتوں نے اونچی اونچی چیخنا اور رونا دھونا شروع کر دیا۔ مرد ادھر اُدھر بھاگنے لگے لیکن اب پولیس بھی،جو ہاتھ میں آتا پکڑ پکڑ کر کوٹاپا پھیرنے لگی۔
ملزموں کو نہایت بے دردی سے پیٹا بھی جا رہا تھاکہ اُن پر انگریزی قانون کی اچھی طرح سے دہشت طاری ہو جائے اور مکمل خوف و ہراس پھیل جائے۔ جھنڈو والا میں ایک طرح سے یک دم قیامت برپا ہو چکی تھی۔ حملے کی شدت اور خوف سے عورتوں نے اونچی اونچی چیخنا اور رونا دھونا شروع کر دیا۔ مرد ادھر اُدھر بھاگنے لگے لیکن اب پولیس بھی،جو ہاتھ میں آتا پکڑ پکڑ کر کوٹاپا پھیرنے لگی۔
اس سارے عمل کے دوران ڈی ایس پی لوئیس سودھا سنگھ کے گھر کے سامنے سات آٹھ افراد کے عملے کی حفاظت میں کھڑا آ رام سے اِس پورے منظر سے محظوظ ہو رہا تھا۔ جبکہ سنتری ملزموں کو پکڑ پکڑ کر اُس سے کچھ فاصلے پر ڈھیر کر رہے تھے۔ چھ سات سپاہی اور تھانیدارسودھا سنگھ کی حویلی میں داخل ہو چکے تھے تاکہ گھر کی مکمل تلاشی لی جائے۔ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ سودھا سنگھ وہیں پر موجود ہو اور یہ ہوائی اُڑا دی گئی ہو کہ وہ پٹیالا چلا گیا ہے۔ یقیناً تھانیدار اکیلا آتا تو اُس کی جرات نہیں تھی کہ وہ سودھا سنگھ کی حویلی میں داخل ہو تا لیکن اب تو تحصیل کا سب سے بڑا انگریز پولیس افسر اُن کے ساتھ تھا۔ اِس لیے سپاہی،حوالدار اور تھانیدار سب ہی دلیر ہو گئے۔ وہ سودھا سنگھ کی حویلی کی چار پائیاں اور موڑھے اُلٹ پلٹ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں سودھا سنگھ کے بھائی نتھا سنگھ کو بھی ڈپٹی صاحب کے سامنے لا کر پھینک دیا،جس کا ڈیل ڈول یوں تو بھائی ہی کی طرح تھا لیکن شخصیت میں رعب خاک نہیں تھا۔ فقط داڑھی کی لمبائی اتنی تھی کہ سودھا سنگھ کی داڑھی اُس کے نصف میں ہو گی۔ نتھا سنگھ لوئیس کے قدموں میں اِس طرح پڑا تھا جیسے چھوٹا سا بچہ پیاس سے بلک رہا ہو اور یہ ایسی گستاخی تھی،جس کو دیکھ کر پورے گاؤں والوں کے پسینے چھوٹ گئے۔ اُن کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ انگریز سرکار اِتنے غصے میں ہو گی۔ ابھی لوئیس صاحب نتھا سنگھ کی طرف متوجہ ہی تھے کہ کچھ سپاہی پیت سنگھ کو بودیوں سے پکڑ کر لے آئے۔
اب دن کا سورج سامنے چمک رہا تھا اور پندرہ بندے ہاتھ بندھے لوئیس صاحب کے آگے پڑے تھے،جن پر ڈنڈوں اور چابکوں کی لگاتاربارش نے اُن کے جسم بھی اُدھیڑ کر رکھ دیے تھے۔ جھنڈو والا کے لوگوں کو یہ تو پتا تھا کہ پولیس کسی دن اُن پر ضرور چڑھائی کرے گی لیکن اُنہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ معاملہ اِتنا سنجیدہ ہو جائے گا اور فرنگی اُن پر یوں لوہے کے گھوڑے اور آگ کے چابک لے کر چڑھ دوڑیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ اب ضرورت سے زیادہ حوصلہ چھوڑ بیٹھے۔ انگریز سرکار کی اتنی سختی دیکھ کر اُن کے اوسان جاتے رہے اور پیشاب خطا ہو گئے۔ سوائے رونے چیخنے اور واویلا کرنے کے اُنہیں اب کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
چھاپے کے شروع میں ایک دو عورتوں نے سپاہیوں کے ساتھ ہاتھا پائی کرنے کی کوشش بھی کی لیکن جب اُن پر بھی ڈنڈے چل گئے تو وہ بھی سہم کر چُپ ہو بیٹھیں۔ وہ سوچ رہے تھے،اچھا ہی ہوا سودھا سنگھ پٹیالا چلا گیا ورنہ آج اُس کی ساری عزت اور رعب فرنگی سرکار پاجامے کے رستے نکال دیتی پھر جھنڈو والا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ لوگ اگر کسی کی ذلت کی مثال دیتے تو وہ جھنڈو والا کا نام لیتے۔
اب دن کا سورج سامنے چمک رہا تھا اور پندرہ بندے ہاتھ بندھے لوئیس صاحب کے آگے پڑے تھے،جن پر ڈنڈوں اور چابکوں کی لگاتاربارش نے اُن کے جسم بھی اُدھیڑ کر رکھ دیے تھے۔ جھنڈو والا کے لوگوں کو یہ تو پتا تھا کہ پولیس کسی دن اُن پر ضرور چڑھائی کرے گی لیکن اُنہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ معاملہ اِتنا سنجیدہ ہو جائے گا اور فرنگی اُن پر یوں لوہے کے گھوڑے اور آگ کے چابک لے کر چڑھ دوڑیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ اب ضرورت سے زیادہ حوصلہ چھوڑ بیٹھے۔ انگریز سرکار کی اتنی سختی دیکھ کر اُن کے اوسان جاتے رہے اور پیشاب خطا ہو گئے۔ سوائے رونے چیخنے اور واویلا کرنے کے اُنہیں اب کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
چھاپے کے شروع میں ایک دو عورتوں نے سپاہیوں کے ساتھ ہاتھا پائی کرنے کی کوشش بھی کی لیکن جب اُن پر بھی ڈنڈے چل گئے تو وہ بھی سہم کر چُپ ہو بیٹھیں۔ وہ سوچ رہے تھے،اچھا ہی ہوا سودھا سنگھ پٹیالا چلا گیا ورنہ آج اُس کی ساری عزت اور رعب فرنگی سرکار پاجامے کے رستے نکال دیتی پھر جھنڈو والا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ لوگ اگر کسی کی ذلت کی مثال دیتے تو وہ جھنڈو والا کا نام لیتے۔
پولیس کا چھاپہ انتہائی صبح کے وقت پڑا تھا،اس لیے کافی لوگ سوئے ہوئے اچانک دبوچے گئے۔ بعض کو پولیس کی اتنی زیادہ نفری کے سامنے بھاگنے کی بھی جرات نہیں ہوئی۔ وہ جتنا بھی تیز دوڑتے،گھوڑوں سے آگے نہیں نکل سکتے تھے اور ہاتھ آنے پر پولیس کا غصہ بر داشت کرنے کے قابل نہیں تھے۔ پھر وہ پٹائی ہوتی کہ گرو جی بھی دنگ رہ جاتے۔ اِس کے علاوہ پکے مجرم بھی سمجھ لیے جاتے۔ چنانچہ اُنہوں نے بھی نہ بھاگنے میں ہی مصلحت جانی۔
کافی دیر تک یوں ہی پکڑ دھکڑ جاری رہنے کے بعد جب گاؤں کے مرکز میں ایک مجمع لگ گیا تو لوئیس صاحب نے تھانیدار کو حکم دیا کہ سودھا سنگھ،جگبیر سنگھ اور دوسرے نامزد مجرموں کامال مویشی اور جو مخبری کے مطابق مشکوک مجرم ہاتھ نہیں آ سکے،اُن کا بھی مال آگے رکھ کے پھاٹک لے چلو۔ جو ملزم پکڑے گئے ہیں،اُن کا مال لے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
جب سب کچھ نپٹا لیا گیا تو لوئیس صاحب،جن کے سر پر پولیس کی ستارے والی ٹوپی اتنی بارعب ہو چکی تھی کہ اب اُسے بھنگی بھی پہن لیتا تو واہگرو سے زیادہ باعزت سمجھاجاتا،اُس نے اپنے دائیں پاؤں کے جوتے پر ہاتھ میں پکڑی ہوئی بیت سے ٹھوہکا لگاتے ہوئے گاؤں وا لوں کو مخاطب کر کے کہا،اہلیانِ جھنڈو والا،مَیں آپ کو دو دن کا وقت مزیددیتا ہوں،جن ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں،تھانیدار اُن کے نام آپ کو پڑھ کر سُنا رہا ہے۔ اگر اُنہوں نے دو دن تک اپنی گرفتاری نہ دی تو یاد رکھو،سرکار اُن کا مال لے کر جا رہی ہے۔ سرکار اُن کا یہ مال نیلام کرنے کی مجاز ہوگی اور اُس کی رقم اپنے خزانے میں داخل کرلے گی۔ اِس کے علاوہ اُن کے گھروں کو کھُدوا دیا جائے گا اوربیوی بچوں کو جلال آباد تھانے لے جا کر بند کر دیا جائے گا۔ یہ کہ کر لوئیس صاحب انسپیکڑ متھرا کی طرف مُڑے اور بولے،متھراصاحب آپ اِن سب کو اپنی نگرانی میں تھانے پہنچاؤ اور کل میٹنگ کے لیے تھانیدار کو ساتھ لے کر پہنچ جاؤ۔ ہم دیکھتے ہیں،کس طرح گورنمنٹ کے قانون کے ساتھ مذاق اُڑایا جاتا ہے اور سودھا سنگھ کتنا بڑا سورما ہے۔
جب سب کچھ نپٹا لیا گیا تو لوئیس صاحب،جن کے سر پر پولیس کی ستارے والی ٹوپی اتنی بارعب ہو چکی تھی کہ اب اُسے بھنگی بھی پہن لیتا تو واہگرو سے زیادہ باعزت سمجھاجاتا،اُس نے اپنے دائیں پاؤں کے جوتے پر ہاتھ میں پکڑی ہوئی بیت سے ٹھوہکا لگاتے ہوئے گاؤں وا لوں کو مخاطب کر کے کہا،اہلیانِ جھنڈو والا،مَیں آپ کو دو دن کا وقت مزیددیتا ہوں،جن ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں،تھانیدار اُن کے نام آپ کو پڑھ کر سُنا رہا ہے۔ اگر اُنہوں نے دو دن تک اپنی گرفتاری نہ دی تو یاد رکھو،سرکار اُن کا مال لے کر جا رہی ہے۔ سرکار اُن کا یہ مال نیلام کرنے کی مجاز ہوگی اور اُس کی رقم اپنے خزانے میں داخل کرلے گی۔ اِس کے علاوہ اُن کے گھروں کو کھُدوا دیا جائے گا اوربیوی بچوں کو جلال آباد تھانے لے جا کر بند کر دیا جائے گا۔ یہ کہ کر لوئیس صاحب انسپیکڑ متھرا کی طرف مُڑے اور بولے،متھراصاحب آپ اِن سب کو اپنی نگرانی میں تھانے پہنچاؤ اور کل میٹنگ کے لیے تھانیدار کو ساتھ لے کر پہنچ جاؤ۔ ہم دیکھتے ہیں،کس طرح گورنمنٹ کے قانون کے ساتھ مذاق اُڑایا جاتا ہے اور سودھا سنگھ کتنا بڑا سورما ہے۔
اس کے بعدلوئیس صاحب جیپ پر بیٹھ گئے اور ڈرائیورنے انجن کی گراری کارسًہ کھینچ دیا اور پورے بارہ بجے پولیس مجرموں کے قافلے کے ساتھ جلال آباد روانہ ہو گئی۔
تمام مجرم ہاتھ بندھے ایک گڈ پر بٹھا لیے۔ جس کے آگے دو بیل جُتے ہوئے تھے،جو اُسی گاؤں سے لیے تھے۔ گَڈے کو بیس گھڑ سوار سپاہیوں کی نگرانی میں دے دیا گیا۔ جن میں سے اکثر کے پاس لمبی نال والی توڑے دار بندوقیں تھیں۔ جب سپاہی فوجاسیو کے گھر کے سامنے سے گزرے تو فوجا سیو دروازے کے باہر کھڑا اُنہیں دیکھ رہا تھا۔ حقیقت میں اُنہیں اِس طرح قید میں بندھے ہوئے جاتے دیکھ کر فوجا سیو کا جی اندر سے زار زار رو رہا تھا۔ جیسے کہ رہا ہو دیکھا،میں نہ کہتا تھا اِس کا نتیجہ بہت بُرا ہو گا لیکن کیا کیا جائے۔ اگر سرداروں کو شراب پینے کے بعد کچھ ہوش بھی رہتا تو آج اِس گَڈ میں سرداروں کی بجائے فرنگی سوار ہوتے لیکن اب تو اِس کی حسرت ہی کی جا سکتی تھی۔ وقت گزر جائے تو سوائے سیاپے کی چوٹوں کے کچھ نہیں بچتا۔ اور حقیقت میں یہ مصیبت اُن پر جگبیر کی وجہ سے آئی تھی اور اب وہ حرامی سودھا سنگھ کے ساتھ پٹیالا میں بیٹھا مزے کر رہا تھا اور اِن غریبوں کو پھنسا دیا۔ پولیس مال مویشی اور ملزموں سمیت جھنڈو والا سے نکل گئی تو عورتوں کو رونے کا موقع مل گیا۔ اُنہوں نے بین کر کر کے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ بعض دو ہتھڑ پیٹنے لگیں۔ پورے گاؤں کی فضا انتہائی سوگوار ہو چکی تھی،جیسے سب گھروں میں ماتمی صفیں بچھ گئی ہو ں۔ یہ دیکھ کر فوجا سیو آہستہ آہستہ چلتا ہوا گاؤں کے اُسی مرکز میں آیا جہاں تھوڑی دیر پہلے سب سے بڑا پولیس والا فرنگی کھڑا تھا۔ فوجا سئیو کو دیکھتے ہی اُس کے گرد تمام گاؤں کا مجمع لگ گیا۔ خاص کر عورتیں پیٹ پیٹ کر اپنا بُرا حال کر رہی تھیں۔ باقی لوگ یا تو طرح طرح کے تبصرے کر رہے تھے یا بولنے والو ں کو فقط ٹک ٹک دیکھے جا رہے تھے۔ اس تمام صورت حال میں صرف فوجا سیو ہی تھا جس کے ہوش کچھ ٹھکانے پر تھے اور گاؤں والوں کے لیے دلاسے اور ڈھارس کی جگہ تھی۔ فوجا سیو نے جب دیکھا کہ سب اُسی کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ اب جو اُپا کرنا ہے،اُس کے بارے میں بتائے،تو فوجا سیو تمام متروں کی طرف دیکھ کر تلخی سے بولا،مترو،ہُن شیر بنو،جو کجھ تسیں کرنا سی،اوہ کر لیا،ہن تاں شریکاں دی واری آ،ہن واری دی سٹ مرد بن کے سہوو۔ پھر تھوڑی دیر چپ کرنے کے بعد دوبارہ بولا،بیرو گھبران دی کوئی گل نہیں۔ ہُن آپاں مرداں طرحاں مقابلہ کراں گے۔ اَتے جلد ہی اپنے متراں نوں فرنگیاں کولوں لے کے آجاں گے۔ مَیں اَج ہی سردار ہرے سنگھ نوں جا کے مل ناں۔ باقی مال تاں آن جان آلی شے آ۔ اوندا دکھ نئیں کرنا۔ اِس کے بعد سردار فوجا سئیو نے دیون سیو کو آواز دے کر کہا،دیون پُت میری گھوڑی تے ساز کس دے۔ مینوں ہُن فیروز پور جانا ای پے گیا۔ بھجیاں باہواں تاں سیاناں کیہیا وا گل نوں ای اوندیاں۔ اُس نے سکھ عورتوں کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا،کوئی گل نئیں دھیؤ جے سودھا سنگھ اَتے جگبیر تُہانوں مشکل وچ چھڈ کے پٹیالا نس گئے نے۔ مَیں تہاڈے باپو دی تھاں تہاڈے نال آں۔ سردار ہرے سنگھ کولوں اودوں ہی اُٹھاں گا۔ جَد مال تے بندے جھنڈو والا اپنے گھر آ جان گے،تسیں فکر ناں کرو۔