[blockquote style=”3″]
[/blockquote]
(43)
غلام حیدر اپنی روپوشی کے دن مستقل مزاجی سے گزار رہا تھا اور وطن واپسی کے لیے کسی معجزے کا منتظر تھا۔ اُسے جلال آباد سے نکلے دس سال ہو چکے تھے۔ اُس کے لیے اتنے طویل عرصہ کی روپوشی قید سے کم نہیں تھی مگر کیا کرتا؟ دوسری صورت میں تو فوراًسزائے موت تھی جبکہ غلام حیدر کو ابھی اپنی زندگی عزیز تھی۔ وہ بلاوجہ ریشمی رسہ گلے کی زینت نہیں بنانا چاہتا تھا۔ پہلے ایک دو سال اُسے جلال آبا د اور لاہور بہت یاد آتے رہے۔ اُس کے بعد دل کو ٹھہراؤ آنے لگا اور وہ روپوشی کی جگہ کو گھر تصور کرنے لگا۔ اُس کی اطلاع سوائے نواب ممدوٹ کے کسی کو نہ تھی۔ حتیٰ کہ غلام حیدر کے عزیز ترین رشتہ داروں کو بھی۔ اُس نے اپنی والدہ کو بھی اپنے پاس بلا لیا تھا،جس کے اصرار پر وہیں شادی بھی کر لی اور کچھ نواب صاحب کا خرچہ کچھ اپنی بچی کھچی دولت کو احتیاط سے برت رہا تھا،جو پان چھ کلو سونے اور ایک لاکھ چاندی کے روپوں کی شکل میں تھی۔ یہ دولت غلام حیدر نے سودھا سنگھ کے قتل سے پہلے ہی ٹھکانے لگا دی تھی۔
یہ جگہ،جہاں غلام حیدر روپوش تھا،پنجاب سے باہر کشمیر کے دور دراز کے علاقے میں تھی۔ جہاں نہ تو سواری جاتی تھی اور نہ ہی پیدل کسی میں طاقت تھی۔ یہ ایسا دشوار گزار علاقہ تھا،جس کے شمال جنوب کی خود غلام حیدر کو بھی خبر نہ تھی۔ اُس رستے کو وہ خود اکیلا بھی طے نہ کر سکتا تھا۔ اُس کا یہ گھر دریا کے کنارے چھوٹی سی بستی میں تھا،جس کے مالکانہ حقوق نواب ممدوٹ کی ماں کے پاس تھے،جو اَب نواب ممدوٹ کو منتقل ہو چکے تھے۔ وہاں کی مقامی آبادی بھی ایک طرح سے نواب ممدوٹ کی رعیت ہی تھی۔ نواب صاحب سال بعد یہاں چکر لگا جاتے تھے اور غلام حیدر کو دلاسے کے ساتھ جلال آباد،غلام حیدر کی رعیت،کیس کی نوعیت اور علاقے کی پوری صورت حال کے بارے میں آگاہ کر جاتے تھے۔ سچ پوچھیں تو اِس تنگی کے پورے عرصے غلام حیدر کی دوستی کا نواب ممدوٹ نے حق ادا کر دیا تھا۔ خرچے پانی کے علاوہ کسی چڑیا کو بھی پتا نہیں چلنے دیا کہ غلام حیدر کہاں ہے۔ اس بات کا غلام حیدر کو دل ہی دل میں احساس تھا اور وہ چاہتا تھا،کسی طرح اِس احسان کا بدلہ اُتارے مگر وہ دن بھی نواب کی کوششوں کے بغیر نہیں آ سکتا تھا۔ زندگی کے دن گزرتے جا رہے تھے اور کوئی صورت پیدا نہیں ہو رہی تھی۔ اِدھر عدالت نے اُس کی غیر حاضری میں اُسے سزائے موت سنادی تھی۔ جس کی اپیل کا وقت بھی مدتیں ہوئیں گزر چکا تھا۔ اِس کے باوجود نواب ممدوٹ غلام حیدر کو مسلسل دلاسے دیے جا رہا تھا کہ وہ اُس کی معافی کی کوشش کر رہا ہے،جس کا وقت بہت قریب ہے۔ ان دلاسوں کی شدت پچھلے ایک سال سے کافی زیادہ ہو گئی تھی۔ غلام حیدر پہلے پہل تو یہی خیال کرتا رہا تھا کہ وہ کبھی جلال آباد واپس نہیں جا سکے گا۔ مگر نواب افتخار ممدوٹ نے جو کچھ صورت حال انگریزوں اور ہندوستان کی بتائی تھی،اُس سے ثابت ہوتا تھا،واقعی کچھ نہ کچھ خدا راہ نکالنے والا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو اُسے یقین ہونے لگتا کہ یہ انقلاب صرف اور صرف اُسی کے لیے برپا ہونے والا ہے۔ جس میں سرا سر دخل اُس کی ماں کی دن رات تہجد کی دعاوں کا ہے۔ اِسی عرصہ میں غلام حیدر کے دو بیٹے بھی پیدا ہو چکے تھے۔ جن میں سے ایک کی عمر چار سال تھی اور ایک دو سال کا تھا۔ رائفل اب بھی غلام حیدر کے پاس تھی،جو اُسے مسلسل وہ دن یاد دلاتی،جس دن اُس نے سردار سودھا سنگھ کا نقشہ برباد کیا تھا۔ وہ اُس واقعے کو یاد کر کے پُر سکون سا ہو جاتا۔ حالانکہ اُسے یہ بالکل خبر نہیں تھی کہ امیر سبحانی نے اُس کی بہادری پر ایک نہایت دلچسپ کمشری تیار لی تھی۔ جسے اُس نے جلال آباداور فیروز پور کے علاوہ دور نزدیک کی دوسری تحصیلوں کے دور دور گاؤں تک بھی پھیلا دیا تھا۔ وہ یہ قصہ لوگوں کو بڑے دلنشیں انداز میں سنا سنا کر اپنی روزی روٹی کا بھی سامان پیدا کرلیتا۔ اُس کمشری کی وجہ سے ہر گھر میں غلام حیدر کا تذکرہ ایک سورمے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ لوگ بڑے فخر سے اُسے اپنی بیٹھکوں اور چوپالوں میں سُنتے۔ غلام حیدر پنجاب کے ان لوگوں کے لیے ایک ایسا اسطیری ہیرو بن گیا،جس کی بندوق امیر حمزہ کی تلوار کی قائم مقام بن چکی تھی۔ اِدھر غلام حیدر سب کچھ سے بے خبر اِس کوہ قاف میں نواب صاحب کی آمد کا شدت سے منتظر رہنے لگا،جسے اب آئے ہوئے دس ماہ ہو چکے تھے۔ اُس کے علاوہ اس جگہ پر کسی دوسری خبر کا پہنچنا جوئے شیر کے پہنچنے سے کم نہیں تھا اور دن تھے کہ عمر کی طرح مسلسل نکلے جا رہے تھے۔ اِس بار اُسے اس لیے بھی انتظار زیادہ تھا کہ جب سے اُس کی آزادی کا گمان یقین میں بدلا تھا،بے چینی اور اضطراب بھی شدید ہو گیا تھا اور حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ خدا نا خواستہ خبر ملتی کہ روپوشی ختم نہیں ہو سکتی تو غلام حیدر اِس جگہ سے نکل کر کہیں اور جانے کی سوچ لیتا۔ بھلے اِس میں اُس کی زندگی کو خطرہ ہی ہو جاتا۔ وہ پنجاب کارخ ضرور کرتا،جہاں دشمن اُس کی بُو کتوں کی طرح اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی سونگھ رہے تھے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جناح صاحب کو نواب و لاز لاہور میں ٹھہرے دو روز ہو گئے تھے اور نواب افتخار صاحب ممدوٹ کی جرات نہیں ہو رہی تھی،وہ جناح کے ساتھ اِس مسئلے پر بات کرے۔ وہ یہ بھی سوچ رہا تھا،اگر اب بھی جناح سے اس معاملے میں بات نہ کی،پھر یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہو سکے گا۔ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ اس معاملے میں تھوڑی سی بھی استقامت پیدا کرے،تو کچھ ہی دیر میں سب ٹھیک ہو سکتا تھا۔ چنانچہ آج نواب افتخار نے غلام حیدر کا معاملہ جناح صاحب کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ نواب نے سوچا،نتیجہ جو بھی نکلے،آج کا دن ضائع نہیں ہونے دے گا۔ اِنہیں خیالوں کے ساتھ اپنی کوٹھی کے وسیع لان میں چہل قدمی میں مصروف تھا۔ دل ہی دل میں وسواس اور خدشوں کو اِدھر سے اُدھر دھکیل رہا تھا اور سوچ رہا تھا،اگر آج ابا جان زندہ ہوتے تو آسانی سے اُن کے ذریعے جناح صاحب کو کہلوا دیتا۔ صبح سفید روشنی دور تک پھیلی تھی۔ یہ ٹھنڈی روشنی اور سفید صبح کتنی حسین ہوجائے،اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے۔
جناح صاحب کچھ ہی دیر میں ناشتہ کر کے باہر نکلنے والے تھے۔ اسی انتظار میں وہ آنے والی گھڑیوں کو دیکھ رہا تھا اور اِس معاملے پر دل ہی دل میں بدل بدل کر اُن سے مکالمہ کرتا،پھر خود ہی جناح کی طرف سے اپنی باتوں کا جواب دے کر مشق کرنے لگا۔ وہ خوب جانتا تھا،جناح کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ اگر ایک دفعہ اُنہوں نے،نہیں،میں سر ہلا دیا تو ہر چیز گڑبڑ ہو جائے گی۔ پھر اُنہیں قیامت تک قائل نہیں کیا جا سکے گا۔ لہذا بات کرنے میں کہیں جھول نہ رہ جائے اور جواز جس قدر مضبوط بنا لیا جائے،بہتر ہے۔ اِسی وجہ سے نواب صاحب آج اذان کے وقت ہی اُٹھ کر ٹہلنے لگ گئے تھے اور اب تو دن صاف نکل آیا تھا۔ چنانچہ بات کے ہر پہلو پر غور کرتے ہوئے نواب افتخار اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بنا کر تیار ہوچکا تھا اور اب بے چینی سے قائد کے باہر نکلنے کے منتظر تھا۔
یہ سردیوں کے عظیم اور مصروف دن تھے۔ ہلکی ہلکی دھوپ صحن میں پر پھیلا رہی تھی،ایسے محسوس ہو رہاتھا،دھوپ نواب کی منصوبہ بندی کو تقویت دینے میں کافی مفید ہو گی۔ سردی میں اِس طرح کی دھوپ بات کرنے کے جذبے کو بڑھاوا اور تاثیر دیتی ہے۔ نواب ولاز کے اُونچے اور لمبے چھتناروں کے رہائشی پرندے،اِس ساری کشمکش سے بے نیاز بوڑھے درختوں کی شاخوں پر اِدھر سے اُدھر پھدکتے اور پر چہلیں کرتے نظر آ رہے تھے۔ اُن کے پَروں کے بال دھوپ کی روشنی میں کبھی سنہری نظر آتے،کبھی دوسرا رنگ اختیار کر لیتے۔ کافی دیر بے چینی سے ٹہلنے کے بعدنواب صحن میں پڑی صندل کی لکڑی کی کُرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا اور دل میں منصوبے کی چوہلیں ہر طرح سے ٹھیک بٹھا لیں۔ اِسی طرح بیٹھے،اُنہیں دس منٹ گزر گئے۔ خدا خدا کر کے جناح صاحب باہر آتے دکھائی دیے۔ نواب نے دیکھا اُن کی صحت قدموں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ لیکن چال میں ایسی طمطراقی موجود تھی،جس کے آگے نواب تو ایک طرف گورنر تک کی شخصیت ماند پڑ جاتی۔ سُرمئی رنگ کے انتہائی نفیس اور صاف ستھرے تھری پیس سوٹ میں دُبلا پتلا جسم پُر وقار چال کے ساتھ سامنے آرہا تھا۔ پاؤں میں سیاہ جوتے ایسے متوازن تسموں سے کَسے ہوئے،اِتنے چمکدار اورداغ دھبے سے مبرا تھے کہ اُن کی چمک میں اندھا بھی اپنا منہ دیکھ سکتا تھا۔ ایسا نہیں کہ جناح کے جوتے اور سوٹ خاص لندن سے بن کر آتے تھے،اِس لیے اُن میں اتنی نفاست تھی۔ بہت سے اُمرا اور لیڈر اپنے پہننے کا سامان خاص لندن ہی میں آڈر سے بنواتے تھے لیکن اُن میں اِس طرح کی نفاست کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی،اُن کے سامنے بڑے سے بڑا پھنے خاں بھی مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کا اندازہ غیر شعوری طور پر نواب ممدوٹ کو بھی تھا۔ جناح سے اُس کا تعلق ایک عرصے سے تھا۔ وہ اُس کا لحاظ بھی رکھتے تھے۔ لیکن اِس قربت کے باوجود نواب ممدوٹ کی جرات نہیں تھی،وہ جناح سے بے تکلف ہونے کی جسارت کرتا۔ یہ جسارت تو لیاقت علی خاں وغیرہ بھی نہیں کر سکتے تھے اور جنہوں نے کی تھی،وہ برصغیر کے مسلمانوں کی نظر میں اِس طرح بے وقار ہو کر رہ گئے گویا اُن کا وجود ہی نہ ہو۔
سگار کے ہلکے ہلکے کش لیتے ہوئے وہ کھلے لان کے مرکز کی طرف بڑھ رہے تھے۔ نواب کو اُن کے عینک کے شیشوں کے اندر سے پپوٹوں کی جھریاں صاف نظر آ رہی تھیں جو چہرے کو اُن کی نقاہت کے باوجود پر شکوہ کر رہی تھیں۔ جناح کو آتے دیکھ کر نواب فوراً اُٹھ کر کھڑا ہو گیااور نہایت ادب سے اُن کے استقبال کو آگے بڑھا۔ لان کافی کھلا اور بڑا تھا،اس لیے نواب کو آٹھ دس قدم آگے جانا پڑا۔ جناح کے برابر پہنچا تو ہاتھ ملانے کی بجائے واپسی ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ جناح نے سگار کا دھواں ہوا کی آغوش کو سونپتے ہوئے نہائت آہستگی سے گُڈ مارننگ کہا اور بغیر قدم روکے کُرسیوں کی طرف بڑھتے چلا گیا۔ چند لمحوں بعد جناح نے کُرسی پر بیٹھ کر ایک ٹانگ دوسری کے اُوپر ر کھ لی۔ اِس طرح بیٹھنے سے اُن کے جوتوں کی چمک میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ کیونکہ دھوپ دھند اور غبار سے بے عیب تھی اور جوتے گرد سے۔ نواب افتخار ایسے ایک طرف کھڑا ہو گیا جیسے پریشانی کے آثار چہرے سے نظر آرہے ہوں۔ لیکن جناح نے نواب کے پریشان چہرے کی طرف کچھ توجہ نہیں دی۔ وہ خموشی سے سگار پیتے رہے اور چند لمحے اِسی طرح گزر گئے۔ نواب افتخار جناح کا منتظر تھا کہ کب وہ پنجاب کی صورت حال پر بات کرے اور یہ سُرخ لوہے پر ضرب لگائے۔ پنجاب مسلم لیگ کے لیے سب سے اہم صوبہ تھا،جس میں سکھوں اور ہندؤوں کی بڑی تعداد موجود ہونے کی وجہ سے پیچ در پیچ ہزاروں مسائل تھے۔ اُن کو حل کرنے کے لیے جس آدمی کی سب سے زیادہ اہمیت جناح کی نظر میں تھی،وہ نواب ہی تھا۔ لہذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ مسلم لیگ کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے پنجاب کو نظر انداز کر جائیں اور اُس میں نواب کی مشاورت سے گریز کریں۔ کافی دیر خموش بیٹھے رہنے کے بعد جناح نے آخر سکوت توڑ دیا۔
افتخار،آپ کی طرف سے ابھی تک اپنے علاقے کے بارے میں کوئی صورت حال سامنے نہیں آئی،خموشی کیوں ہے؟
سر پنجاب میں ہر طرف حالات مسلم لیگ کے حق میں ہیں،جیسا کہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ لیکن مشرقی پنجاب کے کچھ علاقوں میں پوزیشن ٹھیک نظر نہیں آتی۔ اندیشہ ہے،تحصیل جلال آباد،تحصیل مکھسر اور تحصیل فیروز پور سے ہم الیکشن ہار جائیں گے،مجھے یہی پریشانی اس وقت بھی ہے۔
ایسا کس لیے ہے؟،جناح نے نہایت اطمنان اور بغیر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا،اُن کا یہ رویہ نواب کے بنائے ہوئے منصوبے کے لیے بہتر نہیں تھا۔
فیروزپور کی انتظامیہ کانگرس کے ساتھ مل کر ہمیں شکست سے دوچار کرنا چاہتی ہے ( نواب نے اب کے اپنے چہرے پر ایک کرب ناک پریشانی طاری کرلی) پورے علاقے میں غیر تحریری طور پر ہمیں جلسے کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ عوام پر ایک خفیہ دباؤ موجود ہے۔ کانگرس کچھ سکھ سرداروں کے ساتھ مل کر غنڈہ گردی کر رہی ہے۔ مسلمانوں کوبلا جواز ڈرایا جا رہا ہے۔ یہ عوام غریب غربا بے زمین لوگوں پر مشتمل ہیں اور زیادہ تعداد بالواسطہ طور پر سکھ زمینداروں کی رعایا ہیں۔ یہ لوگ ووٹ تو مسلم لیگ کو ہی دینا چاہتے ہیں،لیکن ڈر کی وجہ سے ہو سکتا ہے،الیکشن کے دن گھر وں سے ہی باہر نہ نکلیں۔ بلکہ جو لوگ سکھوں کے مزارع ہیں،اگر اُن پر دباؤ بڑھ گیا تو وہ ہمارے خلاف بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔ اِس لحاظ سے ہم مزید مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔
آپ نے پہلے آگاہ نہیں کیا؟ اب جناح نے قدرے بات کو سنجیدہ لیتے ہوئے پوچھا۔ البتہ چہرے پر پریشانی کے آثار پھر بھی ظاہر نہیں ہونے دیے،مگر نواب ایک عرصے کی رفاقت کے بعد سمجھ گیا تھا کہ اُن کے اندر ہل چل ہو چکی ہے۔
سر،کچھ فائدہ نہیں تھا۔ معاملات اور بھی زیادہ خراب ہو جاتے۔ انتظامیہ جس قدر عذراور تاویلات کی ماہر ہے،ہمارا کوئی بھی قدم اُس کے آگے غیر موثر ثابت ہو گا۔ نواب نے ایک اور ضرب لگائی۔
پھر بھی ہمیں اِس کا حل نکالنا ہے( جناح کا اطمنان گڑبڑا گیا تھالیکن وہ بات اب بھی بے پناہ تحمل کے ساتھ کر رہے تھا )وہاں تمھاری شکست کا مطلب مسلم لیگ کی پنجاب میں شکست ہے۔ ہمارے لوگ بددل ہو جائیں گے۔ فیروز پور میں ہر حالت اپنی پوزیشن بہتر کرو۔
جناح کا یہ جملہ ایسا تھا جو نواب افتخار کے لیے اپنی بات منوانے کی بنیاد فراہم کرتا تھا۔ لہذا نواب نے بغیر وقت ضائع کیے،جس کا انتظار وہ کئی مہینوں سے کر رہے تھے،اپنا مدعا سامنے ر کھ دیا،سر میرے کئی آدمیوں اور ذاتی دوستوں پر فیروزپورپولیس کی طرف سے ایک عرصے سے قتل اور ڈکیتی کے مقدمات درج ہیں۔ جن کے پس پشت گورنمنٹ کی مسلم لیگ دشمنی کار فرما ہے،جو مشرقی پنجاب میں آج کل تو بہت فعال ہو چکی ہے۔ مَیں اُس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوں۔ مثلاً؟ جناح نے وضاحت چاہی۔
مثلاًمیرا ایک دوست غلام حیدر ہے(نواب نے منصوبے کے مطابق اب کہانی شروع کی) جس نے میرے ساتھ ایچی سن کالج سے بی اے کیا ہے۔ وہ مسلم لیگ کا انتہائی سر گرم رکن ہے۔ اُس پر اُسی دن سے پورے پندرہ بندوں کے قتل کا مقدمہ درج ہے،جس دن اُس نے مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی۔ اِس کی وجہ سے وہ پچھلے دس سال سے روپوش ہے اور اپنے علاقے میں داخل نہیں ہو سکا۔ عدالت اُس کی غیر موجودگی میں اُسے سزائے موت سنا چکی ہے۔ بچاراپتہ نہیں کہاں جان بچاتا پھر رہا ہے۔ اُس کا مال اور جائداد ضبط کی جا چکی ہے۔ پڑھالکھا اور شریف زمیندار ہونے کے ساتھ علاقے میں اُس کی حیثیت ایک بااثر مسلم لیگ کے کار کن کی ہے۔ اُس کی شرافت اور ہر دل عزیزی کی وجہ سے ہزاروں ووٹ اُس کی جیب میں ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں،جب اِتنے اہم شخص کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے تو پھراُ ن کی کیا حیثیت ہے؟ اُس پر بلاجواز مقدمات درج کر کے فیروزپور میں مسلم لیگ کی تحریک کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سرور بہکاں والے کو مجھ پر سوار کرایا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے،جب تک میری گاڑی میں غلام حیدر نہیں بیٹھ جا تا اور میرے جلسوں میں شریک نہیں ہو جاتا،مجھے الیکشن نہیں لڑنا چاہیے۔ ورنہ ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا۔
کیا غلام حیدر کے علاوہ یہ جگہ کوئی اور نہیں پُرکر سکتا؟ جناح نے سگار پینا مسلسل جاری رکھا۔
اول تو ایسا کوئی آدمی وہاں موجود نہیں ہے۔ اگر ہو بھی،تو اِن حالات میں،جبکہ ہم اُن کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کر سکتے،کوئی اور کیونکر رسک لے سکتا ہے؟ نواب نے اب بات فیصلہ کن انداز میں جناح صاحب کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی۔
اوکے دیکھتے ہیں،جناح نے اُٹھتے ہوئے کہا،تم الیکشن کی تیاری کرو،میری تین تاریخ کو مونٹ بیٹن سے ملا قات ہے۔
اتنا کہ کر جناح صاحب دوبارہ اپنے کمرے کی طرف چل پڑے اور مزید ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہ کیا۔
نواب افتخار جناح کے اُٹھتے ہی خود بھی جلدی سے تکریم کے لیے کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور اُسے جاتے ہوئے دیکھنے لگا۔ جناح کا کہنا،تم الیکشن کی تیاری کرو،کا مطلب تھا،کام اسی فیصد تک ہو چکا ہے اور واقعی وہی کچھ ہوا دو ہفتے بعد ہی جلال آباد تحصیل میں غلام حیدر کی سزا کی معافی اور اُس کی تمام جائداد کی واپسی کا حکم پہنچ گیا۔ یہ ایک ایسا معجزہ تھا،جو فی الحال کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ اِتنے زیادہ قتل کا مقدمہ،جس میں غلام حیدر کے اشتہاری ہونے کے بعد اُس کو سزائے موت ہو چکی تھی،کا آسانی سے ختم ہوجانا سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ بھی انگریز سرکا ر میں۔ بعض لوگوں نے سمجھا،یہ حکومت کی چال ہے اور اُسے روپوشی سے باہر نکالنے کا ایک ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے ہی غلام حیدر سامنے آئے گا،اُسے دھر لیا جائے گا۔ لیکن جب غلام حیدر واقعی دس سال بعد جلال آباد اپنی حویلی میں آیا اور پولیس نے کوئی پوچھ گچھ نہ کی تو لوگوں کو یقین آ گیا کہ امیر سبحانی کی بات تو بھائی سچ ہے۔
ہوا یہ کہ جناح صاحب کو مونٹ بیٹن کے ساتھ ملاقات میں نواب افتخار کی تمام بات یاد تھی۔ اُنہوں نے اِس تشویش کا اظہار لارڈ صاحب سے کر دیا کہ گورنمنٹ پنجاب اُن کے خلاف سازش بُن رہی ہے۔ اِس بات کا لارڈ صاحب نے فوراً انکار کر دیا اور کہا اِس کا ثبوت دیں۔ جناح نے نواب افتخار کے حوالے سے غلام حیدر پر مقدمات کا ذکر کر دیا،جس کی تفصیل بعد میں اُنہوں نے خود معلوم کر لی تھی۔ مونٹ بیٹن نے غلام حیدر کی خوش بختی سے،وہیں بیٹھے جناح صاحب کی تشویش دور کرنے کے لیے گورنر صاحب کو فون کر مارا اور کسی لہر میں آ کر یہ بات کر دی،غلام حیدر پر سے تمام مقدمات فوری طور پر اُٹھا لیے جائیں۔ گورنمنٹ اُس کی سزائے موت معاف کرتے ہوئے اُسے بری کرتی ہے۔ لہذا غلام حیدر ولد شیر حیدر کی سزا کے متعلق فیصلے کی فائل بلا تاخیر اُنہیں دہلی رو انہ کر دی جائے۔ یہ تھی ساری کہانی،جس میں مونٹ بیٹن نے محض جناح صاحب کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اپنی طرف سے یہ چھوٹا سا کام آناً فاناً کر دیا۔
غلام حیدر جلال آباد میں کچھ ایسی دھوم دھام سے داخل ہوا کہ اُس کے سامنے جلال آباد والوں کی نظر میں نواب افتخار کی کیا اہمیت تھی۔ سفارش کا یہ قدم شاید جناح صاحب کبھی نہ اُٹھا تے لیکن اُن کی نظر میں نواب افتخار کی بھی ایک اہمیت تھی۔ شروع دن سے ہی ممدوٹ خاندان محمد علی جناح کا دست وبازو تھا۔ وہ پنجاب میں سب سے زیادہ اعتبار اُنہیں پر کرتے۔ لاہور آتے تو ممدوٹ ولا زکے سوا کہیں قیام نہ فرماتے۔ حتیٰ کہ فاطمہ جناح بھی اُن کے ہمراہ ہوتیں تو وہ بھی ممدوٹ ولاز میں ٹھہرا کر تیں-انیس سو چھ میں سرشاہنواز خان ممدوٹ نے پنجاب میں مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تھی اور مسلم لیگ کو مضبوط و فعال بنانے کے لئے انتھک کوششیں کیں اور اپنی دولت خرچ کی تھی۔ یہ اُنہی کی کاوشیں تھیں کہ قرار داد پاکستان ممدوٹ ولازکے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بنائی گئی- منٹوپارک کا جلسہ اور اُس کی کامیابی بھی سرشاہنواز خان ممدوٹ کے سرجاتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو جہاں دُشواری پیش آتی،نواب ممدوٹ اپنی تجوری کی چابیاں اُن کے حوالے کر دیتے۔