[blockquote style=”3″]
[/blockquote]
(32)
ولیم کو جلال آباد سے چھٹی پر لاہور آئے دودن ہو گئے تھے۔ اگلے دو دن نولکھی کوٹھی پر گزارنے تھے۔ جس کے لیے اُس نے اپنی ماما اور بہن لورین کو بھی تیار کر لیا۔ لورین ممبئی سے لاہور اپنی ماما کو ملنے کے لیے آئی تھی اورپچھلے دس دن سے یہیں تھی۔ اب جو ولیم آیا تو لورین کو بھی اپنی جنم بھومی یا د آ گئی۔ جہاں بگھیوں پر بیٹھ کر وہ دونوں رینالہ کی نہری کوٹھی اور مچلز کے باغوں میں جامنوں اور پاپلر کے پیڑوں کی گنگناتی لوریاں سنتے تھے۔ پھر وہاں سے محافظوں کی پلتنوں میں خراماں خراماں نولکھی کوٹھی آجاتے۔ اس سیر میں اُن کے دوست ایشلے،سمتھ اور ڈینی اکثر اُن کے ساتھ ہوتے۔ ایشلے جو اُس وقت بھی اُلٹی سیدھی نظمیں لکھ لکھ کر سناتا تھا اب بہت بڑا شاعر بن گیا تھا۔ یہ تمام زمین اُن کی اپنی ملکیت تھی لیکن رینالہ اور ستگھرہ اسٹیٹ کے درمیان اوکاڑہ کے پاس کلیانہ اسٹیٹ کی زمین اور آموں کے باغ میں گھری ہوئی نولکھی کوٹھی سے اُنہیں خاص اُنسیت تھی۔ کیونکہ اِسی کوٹھی میں وہ پیدا ہوا تھا۔ بڑی نہر جسے دوآبہ کہتے ہیں،کے دونوں کناروں پر دور تک پیپلوں کے اُونچے اُونچے درختوں نے نہر کے صاٖ ف پانی پر اپنی چھتریوں کا سایہ کر کے اُسے جنت سے نکالی گئی نہروں سے ٹھنڈا اور بہشت آفرین بنا دیا تھا۔ پیپلوں سے ہٹ کر نہر کے دونوں طرف کی زمین پر آموں کے باغ اگر ایک طرف سے مچلز کو چھوتے تھے تو دوسری طرف اوکاڑہ کینال بنگلوں کے ساتھ جا لگتے تھے۔ نہر لوئر باری دوآب،جس کا پاٹ اور پانی کا بہاؤ دریاوں کی ناک کاٹتا تھا،کے دونوں کناروں پر کھڑے گھنے درختوں کی چھاؤں کے نیچے چوڑی اور سخت پٹڑی پر چلتی ہوئی بگھی کی روانی پانی کی روانی سے کم نہ تھی۔ مارچ کا آغاز تھا اور یہ دن لاہور میں غارت کرنے کا اُس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اِس کے ساتھ اُسے اپنی والدہ اور لورین کے ساتھ کچھ وقت صرف کرنے کی بھی خواہش تھی۔ کیونکہ کافی عرصے سے آبائی گھر میں پورے خاندان کو مل کر بیٹھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ ولیم آٹھ سال لندن رہا۔ اُس کی غیر حاضری میں ہی لورین بیاہ کر ممبئی جا پہنچی۔ جبکہ جانسن صاحب کا لاہور تبادلہ ہونے کی وجہ سے اُس کی والدہ بھی وہیں منتقل ہو گئی۔ اس طرح نولکھی کوٹھی،نہری کوٹھی،آموں کے وسیع باغ اورنہر کے آس پاس دور تک لہلہاتی سرسبز فصلیں اپنے مالکوں کا منہ دیکھنے کو ترس گئی تھیں۔ ولیم نے اپنی ماں اور باپ جانسن صاحب کو بھی تیار کر لیا کہ چھیٹوں کے دو دن اوکاڑہ گھر میں گزار لیں۔ لورین تو پہلے ہی بے تاب تھی۔ اب جانسن صاحب نے بھی تیاری پکڑ لی۔ اس طرح یہ چار افراد کا قافلہ سرکاری جیپوں پر لاہور سے اوکاڑہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ قافلے کی نگرانی اور پروٹو کول کے لیے دو مزید جیپیں ساتھ تھیں۔ جن پر حفاظتی پولیس اور دیگر عملہ سوار تھا۔ نولکھی کوٹھی پر پچیس تیس ملازم جانسن کی غیر حاضری میں بھی ہر وقت موجود رہتے تاکہ مویشی فارم،اصطبل،کوٹھی اور باغ کی حفاظت رہے۔ لیکن اُن کے کوٹھی پر جانے سے ملازم کم پڑ سکتے تھے۔ اس لیے جانسن نے ڈپٹی کمشنر منٹگمری کو اپنے آنے کی اطلاع کر دی۔ اُسے کہہ دیا کہ کچھ ملازم بھی وہاں بھیج دیے جائیں۔ چنانچہ رات ہی اُن کے استقبال کے لیے پچاس ساٹھ افراد مزید نو لکھی کوٹھی پر پہنچ گئے تھے۔ موسم کافی خوشگوار تھا اور ولیم بھی بہت دنوں کے بعد جارہا تھا۔ اس لیے اُسے کچھ زیادہ ہی لطف محسوس ہو رہا تھا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں اور روشن دن میں ولیم اور اُس کی فیملی نولکھی کوٹھی پہنچی تو دن کے دس بج رہے تھے۔ ادھر اُدھر بندوقیں تھامیں سنتری اور محافظ اِس طرح پھیلے تھے جیسے وائسرائے کا دورہ ہو۔ ان کے علاوہ دیسی عوام اور کاشت کار ستگھرہ روڈ پر دور تک سڑک کے کنارے سلامی کو حاضر ہوئے تھے۔ اِن میں نوئے فی صد تو وہ تھے جو جانسن صاحب کی زمین کی دیکھ بھا ل اور کاشت کرتے تھے۔ باقی کے بھی بالواسطہ انہی کے دامن سے بندھے اپنی روٹی پیدا کرتے تھے اور خوش اس لیے تھے کہ مقامی مالکان کی نسبت جانسن صاحب کا رویہ ان مزارعین کے ساتھ کافی بہتر تھا۔ نولکھی کوٹھی ایک فرلانگ رہ گئی تو ولیم نے خواہش ظاہر کی کہ وہ گاڑی سے اُتر کر اپنے گھر جائے۔ ولیم کی اس تجویز پر اُس کی والدہ،لورین اور بذاتِ خود جانسن صاحب بھی گاڑی سے اُتر گئے۔ اِن کو دیکھتے ہوئے باقی عملہ بھی احتراماً جیپوں سے اُتر گیا اور پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ولیم فیملی کے ساتھ آہستہ آہستہ گھر کے باغات کے درمیان چھوٹی نہر پر بچھی صاف سڑک پر جا رہا تھا۔ جبکہ مقامی چودھری،سرداراور سیاستدان کلے دار پگڑیاں سروں پر باندھے اور مزارع لوگ دھوتیاں،جانگیے پہنے،ہاتھ باندھے،استقبال میں چپ چاپ ولیم اور اُن کے خاندان کو گزرتے دیکھ رہے تھے۔ ان مقامیوں کے سیاہ رنگ کے چہرے،گال پچکے ہوئے اور سکڑی ہوئی کالی ٹانگیں بتا رہی تھیں کہ غلاموں کی حقیقی تصویر انہی لباسوں میں بنتی ہے۔ انہیں دیکھ کرولیم نے ایک لمحے کے لیے خدا وند یسوع مسیح کا شکر ادا کیا کہ اُس کی رگوں میں بہر حال انگریزی خون دوڑتا ہے۔ لیکن پھراُن کی دل جوئی کے لیے اچانک ولیم نے اپنا ہاتھ اُوپر کر کے اُن مقامی مزارعوں کو سلام کر دیا۔ ولیم کے اِس عمل کو دیکھ کر سارے کا سارا عملہ،اُس کا باپ جانسن،ولیم کی والدہ،ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر،تحصیلدار صاحب حتیٰ کہ دوسرا تمام عملہ بھی سکتے میں آگیا۔ ولیم نے مقامیوں کو سلام کر کے پورے انگریزی وقار کو ہی داؤ پر نہیں لگایا تھا بلکہ اپنی ملازمت سے بھی کھیل گیا تھا۔ اُس کے اس عمل سے دیسی لوگ بہت خوش ہوئے لیکن معاملہ بہر حال خطر ناک تھا۔ جسے ولیم بھی فوراً ہی بھانپ گیا اور اپنے آپ میں شرمندہ ہونے لگا۔ ایک اضطراب انگیز خاموشی میں چلتے ہوئے نولکھی کوٹھی کے صحن میں پہنچ گئے۔ صحن میں پہنچ کر جانسن صاحب نے جلدی سے سب کو رخصت کیا اور کوٹھی کے اندر داخل ہو گیا۔ ولیم جانسن صاحب کے اندر اُٹھنے والے طوفان کو جانتا تھا کہ وہ اُس کے اس عمل پر کتنا پریشان ہو گیا تھا۔ اُسے معلوم تھا،اگر یہ رپورٹ کمشنر صاحب کو پہنچ گئی تو ولیم کے لیے کیا خرابی پیش آ سکتی ہے۔ جانسن کو اُس وقت ہر گز کوئی پریشانی نہ ہو تی،اگر یہ کام ولیم کی بجائے کوئی دوسرا انگریز افسر کرتا۔ ولیم اُس کا بیٹا تھا اور یہ بات ولیم بھی جانتا تھا کہ اُس کا باپ ڈپٹی کمشنر ہوتے ہوئے اس عمل کو کتنا ناگوار سمجھ رہا ہے۔ اب گھر میں خلوت کے دوران اُس کی سرزنش ہونے کا وقت قریب تھا۔ اِس کے باوجود اسے یہ حوصلہ تھا کہ ابھی اُسے اپنے ہی باپ سے واسطہ تھا،جو سر زنش کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتا تھا۔ اُسے اس بات پر بھی حیرت ہو رہی تھی کہ آخر اُس سے اچانک یہ غیر معمولی حرکت سر زد کیسے ہو گئی تھی۔
کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں داخل ہو کر صوفوں اور کرسیوں پر بیٹھ چکے تو ولیم اپنے باپ کی زبان سے شکوہ سننے کو تیار ہو گیا۔ وہ مدت کے بعد نولکھی کوٹھی میں داخل ہوا تھا اور نہیں چاہتا تھا اُس کا باپ ایسی بات کرے جو سارے مزے کو کر کرا کر دے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ اُسے اپنے باپ سے نصیحتوں کا باب سنتے ہی بننی تھی۔ اِس کے بر عکس جانسن نے ولیم کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی بیگم کو مخاطب کیا اور بولا،حنا باورچی سے کہو چائے کا سامان لگائے،اِتنے میں میں نہا لوں۔ یہ کہ کر جانسن باتھ روم میں داخل ہو گیا۔ ولیم وہیں بیٹھا لورین سے باتیں کرنے لگا۔ ولیم جانتا تھا جانسن صاحب نے نصیحت فی الحال معطل کی ہے بھلائی نہیں۔ لیکن فی الوقت تو جان چھٹی۔ حِنًانے باورچی کو چائے لگانے کے لیے آواز دی۔ پھر بیٹے اور بیٹی کے پاس آ بیٹھی۔ ولیم نے بھر پور نظر سے ماں کی طرف دیکھا اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ حِنًا کی عمر پچاس سے تجاوز کر چکی تھی لیکن اُس کے جسم میں ابھی اتنی جازبیت اور کشش تھی جو کسی بھی مرد کو ایک دفعہ چونکا دینے کے لیے کافی تھی۔ وہ ایک لحظے کے لیے باپ کی قسمت پر رشک کرنے لگا۔ لیکن چند ثانیوں بعد ہی ایک لرزش سی لے کر اُس نے یہ خیال جھٹک دیا اور لورین سے بولا،لورین کیوں نہ ہم آج ایشلے،سمتھ اور ڈینی کو بھی یہیں بُلا لیں،مل کر فلاش کھیلیں اور ایشلے سے شاعری سنیں؟
لورین نے نہایت جوش میں آکر ولیم کی بات سے اتفاق کیا اور کہا،ولیم یہ آئیڈیا آپ نے بہت عمدہ پیش کیا ہے لیکن اِس کے ساتھ ایک اورکام بھی ہو جائے،آج رات طوفانی قسم کی چاندی ہو گی۔ کیوں نہ نہر دواب کے بہتے پانی میں تختے بچھا کر رات وہاں پر ہی چاندنی کا نظارہ کیا جائے،وہیں پر فلیش کھیلی جائے اور ایشلے سے شاعری سنی جائے؟
لورین کیا دن یاد کرا دیے،ولیم نے بالکل لڑکپن کا سا انداز اپناتے ہوئے لورین کے شانے پر ہاتھ مارا۔
دونوں کی گرم جوشیاں دیکھ کر حِنًا بھی گفتگو میں شریک ہو گئی اور بولی،تم دونوں اپنے باپ پر بالکل نہیں گئے۔ عین میرا دماغ پایا ہے،مکمل عیاش اور بے تکا،لیکن پیارو یہی زندگی ہے۔
حِنًا کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ جانسن صاحب باتھ روم سے وارد ہوگئے۔ انہوں نے حنا کی قریباً پوری بات سُن لی تھی۔ مسکراتے ہوئے بولے،ڈارلنگ حِنًا عیاشیاں تو ہم نے آپ کو کرائی ہیں۔ یاد کرو جب تم لندن چھوڑنے پر آمادہ ہی نہیں تھی اور ہم کتنی مشکل سے آپ کو بہلا پھسلا کر یہاں کھینچ لائے۔ اب ہمیں اتنا بھی خشک نہ جانو۔ یہ سب کچھ آپ کو اور آپ کے بچوں کو ہمیں نے سکھایا۔ یہ میرا پردادا مارٹن ہی تھا،جو سوتی کپڑا لینے آیا اور کمپنی کا داماد بن گیا۔ پھر ایک دنیا نکل گئی لیکن ہم نے دیکھ لیا تھا کہ اصل میں ملٹن کی جنت گم گشتہ یہی ہے۔ جو اب ہماری پشتوں میں چلے گی۔ اِس لیے ہم نہ نکلے اور دانتوں سے ہندوستان کی ریشمی گرہ پکڑلی۔ اِسی کا نتیجہ ہے کہ تم باغوں میں بیٹھی ہو۔ ورنہ کئی انگریز تو ابھی بھی ممبئی میں ٹین کے ڈِبوں میں بیٹھے ہیں اور دن رات بدبو اور پسینے سے کھیلتے ہیں۔
جانسن صاحب کی بات سن کر حِنًا سمیت سب ہنس دیے۔ اتنے میں باورچی چائے لگا کر ہاتھ باندھے ایک طرف کھڑا ہو گیا تھا۔ جانسن صاحب سیدھے چائے کی میز ہی کی طرف لپکے اور ایک نشست پر بیٹھ گئے۔ اُن کے بعد حنا،ولیم اور لورین بھی میز کی طرف بڑھے۔ اِس وقت سب کا موڈ خوش گوار تھا،اسلیے کھل کر باتیں ہونے لگیں۔ لورین نے جانسن صاحب سے کہا،پاپا آج ہمارا پروگرام فلیش اور شاعری کا بنا ہے۔ وہ بھی نہر دواب کے بہتے پانی پر تخت بچھا کر کینال بنگلہ کے پاس پیپلوں کی چھاؤں میں۔ کیسا رہے گا؟
بھئی آپ نے خیال تو کمال کا سوچا ہے،جانسن صاحب نے کہا،میرا خیال ہے یہ منصوبہ بھی برخوردار اسسٹنٹ کمشنر جناب ولیم صاحب کی اختراع ہے۔ یہ ہمارا شاعر مزاج بیٹا کچھ نہ کچھ کر کے رہے گا۔
نو پاپا،ولیم بولا،یہ شاعرانہ اختراع آپ کی بیٹی کی ہے،ولیم شاید جانسن کی طرف سے اس منصوبے کی ذمہ داری قبول کر لیتا لیکن وہ جانتا تھا دراصل جانسن صاحب نے ولیم پر چوٹ کی تھی۔ جو اُس نے اپنے مزارعین کو سلام کرنے کی ایجاد کی تھی۔
جی،لورین نے مُکا لہراتے ہوئے کہا،پاپا یہ منصوبہ میرے دماغ کا سرمایہ ہے،جو میں نے جناب میں گزار اہے۔
حِنًابولی،لوبھئی اب تو سارا گھر ہی شاعر ہو گیا ہے۔ ایشلے کی صحبت میں کچھ تو ہونا ہی تھا۔
جبکہ سارا گھر نواب پہلے ہی تھا۔ اب لکھنؤ لُٹنے میں کیا کسر باقی رہ گئی؟ جانسن صاحب نے لقمہ دیا،اس کے بعد ایک اور قہقہ لگا۔
چائے ختم ہو چکی تو جانسن صاحب نے نائب تحصیل دار کو طلب کیا جس کی ڈیوٹی جانسن صاحب اور اُس کی فیملی کے اوکاڑہ میں قیام تک اُن کے ساتھ لگ چکی تھی۔ نائب تحصیلدار جانسن صاحب کا بلاوا سنتے ہی بھاگتا ہوا اندر داخل ہواور حکم سننے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ جانسن کے چہرے پر نہایت سنجیدہ افسرانہ تمکنت سمٹ آئی،جو ایک ڈپٹی کمشنر کی طبیعت کواِس وقت لازم تھی۔ مسٹر،لورین جوکچھ کہتی ہے،وہ غور سے سنو اور اُس پر جلدی عمل کرو۔ اب جانسن صاحب نے لورین کی طرف دیکھا جس کا مطلب تھا کہ وہ اپنی بات تحصیل دار کو سمجھادے۔ لورین نے تحصیل دار کو وہ تمام ہدایات جاری کردیں جس کا آئیڈیاپہلے وہ بیان کر چکی تھی۔ تحصیل دار ہدایات سن کر جیسے ہی مڑا ولیم نے اُسے دوبارہ آواز دی،سنیے مسٹر،رینالہ سے ایشلے اورڈینی کو اطلاع کر دو،اُن کے دوست ولیم اور لورین نولکھی کوٹھی پہنچ گئے ہیں اور آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ سہ پہر تک آ جائیں ہم کھانا اُن کے ساتھ کھائیں گے۔ اس کے علاوہ کچھ بٹیروں اورمر غابیوں کے گوشت کا بندوبست بھی کرا دو۔
جی بہتر سر،تحصیل دار نے فرمانبرداری سے حکم سنا۔
حکم دینے کے بعد جانسن پھر حِنًاکی طرف متوجہ ہو گیا اوراُس کے ساتھ دوبارہ بات کرنے لگا،اس کا مطلب تھا کہ تحصیل دار صاحب جا سکتا ہے۔ اُس نے ہلکاسا ہاتھ اُٹھا کر ماتھے پر رکھا اور صحن سے باہر نکل گیا۔
اس وقت تک ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔ اب جانسن نے اپنے خاص منشی تفضل شاہ کو بلانے کا ارادہ کیا،جو جانسن کی تمام زمینوں کا ذمہ دار تھا اور مزارعین کے ساتھ سارے حساب کتاب کا کھاتہ بھی اُسی کے پاس تھا۔ خانساماں نے کچھ ہی دیر بعد تفضل شاہ کو بلا لیا۔ تفضل شاہ پچاس پچپن سال کا نہایت شستہ آدمی تھا۔ وہ جانسن کے سامنے اپنے سادات پن کا وقار بر قرار رکھنے کے لیے جھکنے سے گریز ہی کرتا،جس کا احساس جانسن کو بھی تھا۔ اورجانسن کو شاہ صاحب کا اتنا سا نخرہ اُن کی ایمانداری کی وجہ سے قبول تھا۔ ویسے بھی ہندوستان میں سادات کا جو احترام تھا،جانسن اُس سے خوب واقف تھا۔ اِدھر جانسن شاہ صاحب سے زمینوں کے حساب کتاب میں جُت گئے اُدھر ولیم،لورین اور اُن کی والدہ حِنًا مویشی فارم کا دورہ کرنے کے لیے چل پڑے،جو صرف دو سو قدم کے فاصلے پر نولکھی کوٹھی کے پچھواڑے واقع تھا۔ اِس فارم میں اعلی قسم کی ساہیوال نسل کی گائیں اور نیلی کی سینکڑوں بھینسیں تھیں۔ ان گائیں اور بھینسوں کا دودھ اور مکھن سارا سال ہندوستان کے انگریز دوست احباب کے علاوہ انگلنڈ تک بھی جاتا۔ اکثر دفعہ نوابوں اور مہاراجاؤں کی خدمت میں بھی مکھن مہر بستہ بھیجا جاتا۔ جس کے عوض داد اور صلے حاصل کیے جاتے۔ فارم میں گائیں اور بھینسوں کے علاوہ شرطوں پر دوڑنے والے بیل اور گھوڑے بھی تھے۔ جن میں میم صاحبہ کی تو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ البتہ وہ جانسن کے شوق تھے اور بھرپور شوق تھے۔ فارم اور اُس کے مضافات میں پھیلی ہوئی تمام چیزیں باور کراتی تھیں کہ صاحب نوابوں سے کسی طرح بھی کم نہ تھے۔ بہت سے انگریز افسروں کو اس فیملی کے یہ نخرے اور نوابی انداز کھٹکتے تھے لیکن جانسن صاحب اور اُس کا باپ اور دادا ایسے چالاک تھے کہ جس افسر کی طرف سے اُنہیں حسد اور نقصان کا اندیشہ ہوتا اُسے اتنے زیادہ تحفے اور گھی مکھن بھیج دیتے کہ اُس بچارے کو مروتاً خاموش ہونا ہی پڑ جاتا۔ ایک دو دفعہ تو انتہائی مہنگے قسم کے دو گھوڑے بھی گورنر لاہور کی نذر کیے گئے۔ اصل پوچھو تو اسی کی وجہ سے جانسن صاحب اتنی جلدی اس اہم عہدے پر جا کر کھڑے ہو گئے تھے اور انہیں اُن کی مرضی کے بغیر کہیں ہلایا بھی نہیں گیاتھا۔
تینوں برٹش ماں،بیٹا اور بیٹی فارم کا دورہ کرتے جا رہے تھے جبکہ ملازم اُن کے ادھر اُدھر دوڑتے ہوئے ایک ایک مویشی کے متعلق معلومات دیتے جاتے۔ لیکن وہ ان سے ذرا فاصلے پر ہی چلتے،مبادا بدبو یا کسی دوسری حرکت سے میم صاحب اور ولیم صاحب ناراض نہ ہو جائیں۔ نیم اور پیپلوں کے لا تعداد درختوں کے سائے میں نہر کے کنارے کنارے یہ فارم ایک مثالی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کو دوسری طرف دور تک آموں،مالٹے،امرود اور جامنوں کے باغوں نے اپنی پناہ میں لے رکھا تھا۔ اِن باغوں کے درمیان سے لہریں لیتی صاف پانی کی ایک چھوٹی سی نہر تھی۔ جس کا بیان پہلے ہو چکا ہے۔ اُس کے کناروں پر بھی نیم اور پاپلر کے اُونچے پیڑوں کی سبز چھاؤں نے نہر کا دماغ نہر شداد کے پلے تک پہنچا رکھاتھا۔ یہی وجہ تھی ولیم اپنی زندگی کے فسانے انہی بستیوں کے حوالے رکھنا چاہتا تھا۔ فارم کے تمام مویشی انتہائی صحت مند تھے۔ نہ تو کسی کی ہڈیاں نظر آ رہی تھیں اور نہ ہی کسی جانور کے جسم پر میل کچیل تھا۔ ہر ایک مویشی لکڑی کی بنی ہوئی کُھرلیوں میں منہ دیے چارہ کھانے میں اور لمبی پوچھلیں ادھر اُدھر چلانے میں مگن تھا۔ اِسی طرح چھوٹے کٹوں اور بچھڑوں کی کُھرلیاں الگ تھیں۔ جن پر یہ اگرچہ بندھے تھے لیکن بندھے ہوئے بھی دڑنگے مارنے سے باز نہیں آتے تھے۔ اس طرح یہ اور بھی زیادہ بھلے لگتے تھے۔ بھینسوں کے جسم اتنے کالے اور شفاف تھے،چاہے تو منہ دیکھ لو۔ جبکہ گائیں گلابی رنگ کی بڑی بڑی ہرنیاں لگتی تھیں۔ لورین چلتے چلتے کسی جانور کی دم کو ہاتھ لگاتی تو وہ ایک دم اچھل پڑتا مگر اتنے میں لورین شرارت کر کے پیچھے ہٹ چکی ہوتی۔ دور کھڑے ملازمین کے لیے ہر چند یہ معمولی بات تھی لیکن وہ محض لورین کو خوش کرنے کے لیے ایک بڑاسا قہقہ لگا دیتے۔ جیسے اُس نے کوئی بڑاکارنامہ سر انجام دے دیا ہو۔
فارم کو عبور کر کے ولیم،لورین اور حنا نہر کے دامن میں چلنے لگے تو ایسے لگا جیسے تین گلابی سرو باغوں کے سائے سائے چلے جاتے ہوں۔ مقامی وہیں رک گئے تھے کہ وہ اِس سیر میں ہم قدمی کے قابل نہیں تھے۔ یہ بات ولیم اور دیسی سب ہی جانتے تھے۔
ولیم کے ذہن میں بچپن ہی سے ایک خیال تھا لیکن اُس پر واضح نہیں ہو رہاتھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے اور جو سوچ رہا ہے وہ ٹھیک بھی ہے کہ نہیں۔ جس کا عملی مظاہرہ گاہے گاہے کرتا بھی رہا ہے۔ اِسی ذہنی کیفیت کے تحت یا مقامی لوگوں کے چہروں کو دیکھتے ہوئے اُس نے چلتے چلتے حناًسے ایک سوال کر ہی دیا،ماما کیا ایسا نہیں ہو سکتا اِن دیسی لوگوں کے لیے ایک انگریزی سکول قائم کر دیں،جہاں اِن کی جاہل اولاد یں کچھ پڑھ لکھ کر اپنی حالت سیدھی کر لیں؟ پھر حناًکے جواب دینے سے پہلے ہی خود دوبارہ بولا،میرا مطلب ہے اُس کی نگرانی ہم کیتھی کے حوالے کر دیں،کہ وہ یہاں آکر فارغ تو نہیں بیٹھے گی،گویا ثابت کرنا تھا کہ دراصل وہ یہ مقامیوں کے لیے نہیں کیتھی کے لیے کرنا چاہتا ہے۔
حنا نے ایک نظر ولیم کی آنکھوں میں جھانکا اور بولی،ولیم میرا خیال ہے تمھیں کیتھی سے زیادہ ان کالوں فکر ہے۔ تم ان کے بارے میں حاکم بن کر کیوں نہیں سوچتے؟خدا وند یسوع مسیح نے تم پر ایک برکت ناز ل کر کے کمشنر بنا دیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو وہ اپنی برکت واپس لے لے اور تم انہی کالوں کے ساتھ عذاب میں گرفتار ہو جاؤ۔ کیونکہ اِنہیں ایسی حالت میں ہم نے نہیں خدا وند یسوع مسیح نے رکھا ہے۔ اب اِن کو نہ یسوع مسیح جانتا ہے اور نہ یہ اُس کو جانتے ہیں۔ اس لیے ان سے دور رہو اور خدا برکتوں کو ضائع نہ کرو۔ جانسن صاحب تمھارے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ وہ کہ رہے تھے فیروز پور سے بھی ان کی رپورٹس اچھی نہیں آ رہیں اور یہ کہ ولیم گورنمنٹ سے زیادہ رعایا کا وفادار ہے۔ اِس بات کے اثرات اِس کی ملازمت پر بُرے پڑیں گے۔
ولیم کو اپنی ماں کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے یسوع مسیح غریبوں اور ناداروں کا ساتھ دینے کے خلاف ہو۔ اگر یہ بات ٹھیک تھی تو پھر ہندوستان کے جتنے شودر اور دلت ہیں،یسوع مسیح کو مان کر اُن کی حالت کیوں ٹھیک نہیں ہوئی؟ وہ تو اِن مسلمانوں اور سکھوں سے کہیں زیادہ بدترحالت میں ہیں۔ اور یہ ہندوستان کے نوابین،جن کی حالت ہم سے بھی کہیں بہتر ہے،یہ کس یسوع مسیح کو مانتے ہیں؟لیکن یہ وہ باتیں تھیں،جن کے سمجھنے کی حناً صاحبہ کو ضرورت نہیں تھی۔ اِس لیے ولیم نے اپنی ماں کی بجائے چلتے چلتے ایک لمحے کے لیے لورین کی طرف دیکھا اور بولا،لورین میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اگر پورا ہندوستان اِسی طرح کا ہو جائے،جس طرح ہمارا یہ فارم اور زمینیں اور باغات ہیں تو گورنمنٹ کا کیا نقصان ہو گا۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں اُس کے خراج اور مالیے میں اضافہ ہو گا۔ اور جہاں برطانیہ میں آج یہاں سے دس روپے جاتے ہیں،وہاں اسے سو پونڈ جانے لگیں گے۔
لورین نے ولیم کی اس بات پر غیر استفہامی انداز میں سر جھٹکا اور بولی،ولیم مجھے ایسی باتیں سمجھ نہیں آتی۔ تم یہ بتاؤ کیتھی کو کب یہاں لا رہے ہو؟ اب وہ بے چاری کب تک سردی میں ٹھٹھرتی رہے گی۔ میں چاہتی ہوں اُسے ان آموں کے موسم تک بیاہ کر لے ہی آؤ۔
ولیم نے کاندھے اُچکائے اور حِنًا کی طرف دیکھا اور بولا،یہ بات تو ماما ہی طے کریں گی،اُسے کب لانا ہے؟ پھر مسکراتے ہوئے،میں نے تو اپنا کام مکمل کر دیا ہے۔
حنا نے ولیم کی طرف دیکھا اور بولی،ولیم تمھارے اشارے کی بات ہے۔ مَیں کمشنر صاحب سے ابھی بات کر لیتی ہوں لیکن پہلے یہ طے کرو اُس کے لیے کون سی قیام گاہ آپ کے حوالے کی جائے؟
ماما میرا تو خیال ہے اِس جگہ سے بہتر کوئی ٹھکانہ نہیں۔ وہ یہاں بہت خوش رہے گی۔ میں چاہتا ہوں میں اُس کے لیے یہاں ایک جدید اسکول قائم کر دوں،جہاں چھوٹے پیمانے پر مقامی عیسائی اور مسلمان بچوں کی تعلیم کا انتظام ہو جائے۔ وہ ویسے بھی اس کام کو پسند کرتی ہے۔
اوکے،جیسے آپ کی مرضی،لیکن میرا خیال ہے آپ پہلے اُسے بیاہ لاؤ۔ اُس کے بعد دوسرے منصوبوں پر عمل کر لینا،حنا نے ولیم کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
نہر اب مالٹوں کے باغ سے آموں کے باغ کی طرف نکل گئی تھی۔ اِس لیے ولیم،لورین اور حنا نے اپنا راستہ بدل کر شرینہہ کے بڑے بڑے درختوں کے درمیان سے دوبارہ نولکھی کوٹھی کی طرف پھیر لیا۔ بہار شروع ہورہی تھی۔ شرینہہ کی شاخوں پر پھوٹتی ہوئی تازہ پتوں کی کونپلیں ایسی میٹھی خوشبو چھوڑ رہیں تھیں،جن کے آگے سارے جہان کے پرفیوم ماند تھے۔ ولیم اور لورین اِن دھیمی خوشبووں کے درمیان لمبے لمبے سانس لینے لگے اور سینہ پھلا کر آکسیجن اندر کھینچنے لگے۔ آہستہ آہستہ اِسی طرح سیر کرتے ہوئے وہ سرسوں اور برسن کے کھیتوں میں کھڑے ہوئے میٹھے کے پیڑوں کے بیچ سے نولکھی کوٹھی میں آ نکلے۔ جہاں میٹھے کے پیڑ کے تیز خوشبو والے سفید سفید پھول لورین کو اتنے بھائے کہ اُس نے مٹھی بھر پھول توڑ کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیے اور نولکھی کوٹھی کے صحن میں پڑی خوبصورت لکڑی کی کرسیوں پر ایک دم گر کے بیٹھ گئی۔ اِسی صحن میں کچھ فاصلے پر جانسن صاحب تفضل شاہ سے حساب کتاب کر کے ابھی ابھی فارغ ہوئے تھے اور اب وہ اُٹھ رہے تھے۔ ڈیڑھ بج چکا تھا اور بھوک بھی خوب چمک گئی تھی،جس پر فارم کے بیچوں بیچ لمبی سَیر نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ لورین نے وہیں باورچی کو طلب کر کے لنچ کے بارے میں پوچھا،باورچی نے نہایت ادب سے جواب دیا،میم صاحبہ آپ کا ہی انتظار ہے،لنچ تو کافی دیر کا لگ چکا ہے۔ باورچی کی طرف سے کھانے کا سن کر سب ایک ہی دفعہ کوٹھی کے وسیع ڈائیننگ ہال کی طرف اُٹھ کھڑے ہوئے۔
ڈائیننگ ہال کم از کم تیس فٹ لمبا اٹھارہ فٹ چوڑا اور پچیس فٹ اُونچی چھت پر محیط تھا۔ دیواروں کے ساتھ بڑے بڑے طاق اور طاقوں میں سجے ہوئے فانوس،جھاڑ اورآتش دان لگے تھے۔ آتش دان کی خاص ضرورت تو نہیں تھی۔ کبھی کبھی ہی سخت سردی میں جلتا تھا لیکن انگریزی طرز تعمیر کے مطابق اُس کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ کمرے کے درمیان میں ایک بڑی اور صندلی ٹیبل،جس پر ریشمی دسترخوان اِس طرح بچھا تھا کہ اُس کے کنارے نیچے پاؤں تک چُھوتے تھے۔ چھت پر لٹکے ہوئے فانوس اور اُن کے درمیان بجلی کے پنکھے ڈائیننگ ہال کو ایک نوابی شان سے دو چار کرتے تھے،بجلی رینالہ بجلی گھر بن جانے سے کافی مقدار میں دستیاب تھی۔ اِس لیے بعض اور بھی چیزیں بجلی پر چلنے والی مہیا کی گئیں۔ جن میں سے اکثر اِسی ڈائیننگ ہال اور ڈرائنگ روم میں موجود تھیں۔ مثلاًگراموں فون،ریکارڈر سسٹم،بھاپ دان،کھانا پکانے کے لیے ہیٹر اور اِسی طرح کی بیشتر چیزیں۔ ڈائننگ ہال میں بچھا ہوا قالین بھی اپنی مثال آپ تھا،جو سپیشل نواب صاحب آف بہاولپور نے جانسن صاحب کو اُن کی بہاولپورریاست میں تعیناتی پر تحفہ دیا تھا۔ اِس کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں مختلف جگہوں سے تحفہ میں آئی ہوئی ڈائننگ ہال اور ڈرائنگ روم میں موجود تھیں۔ اِن سب چیزوں کو انہی دو کمروں میں رکھنے سے جانسن صاحب کے نوابوں اور مہاراجوں سے تعلقات اپنے شریکے کے انگریزوں پر اچھی طرح کھل جاتے تھے۔ جن کی بعض انگریز افسر حسرت ہی کر کے رہ جاتے۔ کھانا میز پر دور تک چینی،کانچ اور سٹیل کے برتنوں میں سجا تھا۔ دوپہر کا یہ کھانا دودھ،مکھن،جیم،اچار،پلاؤ،روغنی روٹیاں،کھیر،جوس اور دو تین قسم کے گوشت پر منحصر تھا۔ سوئر کا گوشت اِس خاندان نے عرصہ پہلے چھوڑ رکھا تھا۔ اِس لیے اُس کا میز پر کوئی انتظام نہیں تھا۔ اِس معاملے میں جانسن اور ولیم کے اُن انگریز دوستوں کو کوفت ہوتی تھی جنہیں یہ گاہے بگاہے کھانے پر بلاتے لیکن باقی چیزیں کافی مزیدار ہوتیں اور کھانا بد مزانہ ہو پاتا اور سوئر کے بغیر بھی اُن کا گزارا چل ہی جاتا۔ ویسے بھی نولکھی کوٹھی پر اکثر اُن کے رینالہ اسٹیٹ،ستگھرہ اسٹیٹ اور مچلز والے انگریز مہمان ہی آتے تھے،جو خود بھی دیسی کھانوں میں رچ بس گئے تھے۔
کھانے کی میز پر بھی کافی گپ شپ رہی لیکن یہاں بھی جانسن صاحب نے ولیم سے اُس کی جلال آباد میں تعیناتی اور ملازمت کے تجربات سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا۔ اِس پر ولیم حیران تھا لیکن خوش بھی تھا کہ ایسے خوشگوار ماحول میں اِس طرح کی گفتگونامناسب تھی۔
دس پندرہ منٹ میں ہلکی وائین کے ساتھ مزیدار کھانا کھا کر سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے کیونکہ چار بجے رینالہ سے ولیم کے بچپن کے دوست ایشلے کے آ جانے پر اُس کا استقبال بھی کرنا تھا۔ جس سے پچھلے سات سال سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ لندن سے آنے کے بعد ولیم کو مسلسل نوکری کے بکھیڑوں میں اتنا وقت ہی نہ مل سکا کہ وہ دوستوں کے ساتھ مل کر کچھ دیر گپ شپ کی چہلیں کر لے اور ایشلے سے اُس کی شاعری سن لے،جو بچپن کے وقت تو محض دل بہلانے کی ہوتی تھی لیکن بعد میں جب اُس نے ولیم کو اپنی نظمیں لندن بھیجیں تو وہ بہت عمدہ تھیں۔ آج ایشلے سے ہونے والی ملاقات کے تصور میں اُسے عجب سرشاری کا لطف محسوس ہو رہا تھا۔ لندن میں اُسے کیتھی نے کسی بھی قسم کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی لیکن ایشلے کی بات ہی کچھ اور تھی۔ اِنہی احساسات میں اُسے اپنے اور ایشلے کے ساتھ گزارے ہوئے ایسے وقت کی جھلکیاں یاد آنے لگیں،جنہیں یاد کر کے وہ کچھ شرما سا گیا لیکن وہی جھلکیاں اُسے مزید لطف اندوز کرنے لگیں اور وہ ایشلے کی ملاقات کے لیے بے چین سا ہو گیا۔ لندن سے آنے کے بعد اُس سے ملاقات اس لیے بھی نہ ہو سکی تھی کہ وہ جب ہندوستان آیا تو ایشلے کلکتے میں ایک کالج میں بطور پروفیسر تقرری کے لیے اپنے آڈر لینے جا چکا تھا۔ اُس کے بعد ولیم لاہور سے فیروز پور چلا گیا۔ یوں اب تک دونوں میں دوری بر قرار رہی تھی لیکن خوش قسمتی سے اب دونوں ہی اوکاڑہ میں موجود تھے اور ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کے لیے بے چین تھے،جو چند لمحو ں کے بعد ہونے والی تھی۔ جانسن صاحب قیلولے کے لیے جاچکے تھے لیکن ولیم باہر نکل کر صحن میں ٹہلنے لگا۔ ،تھوڑی دیر ٹہلتے ٹہلتے اُس نے باورچی کو آواز دے کر کافی بنانے کے لیے کہا اور پھر اُسی طرح ٹہلنے لگ گیا۔ اگرچہ اُس کا چہل قدمی کرنے کو دل نہیں چاہ تھا لیکن اُسے بس ایشلے سے ملنے کی بے چینی لگی ہوئی تھی۔ اِسی کیفیت میں ولیم کو پندرہ منٹ گزرگئے۔ اتنے میں باورچی کافی بنا کر لے آیا اوروہ کوٹھی کے وسیع لان میں پڑی ہوئی کُرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر کافی کی چسکیاں لینے لگا۔ ابھی اُس نے دو ہی گھونٹ لیے تھے کہ دور سے گاڑی کے ا ٓنے کی آواز سنائی دی۔ ولیم کافی کا کپ وہیں رکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور آموں کے باغ کے دوسری طرف سے آنے والی گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ چند ہی لمحوں میں اُسے ایشلے اور ڈینی کے چہرے نظر آ گئے جنہیں اِتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پہچاننے میں دقت نہیں ہوئی۔ اُس نے دور ہی سے دونوں کی شکلوں میں واضع فرق کو محسوس کر لیا تھا۔ جیسے ہی جیپ پیپل کے درخت کے نیچے پکی انیٹوں کی سڑک پر آکر رُکی،ولیم ملنے کے لیے تیز ی سے اُس طرف چل پڑا۔ اُدھر سے ایشلے اور ڈینی بھی گاڑی سے چھلانگ مارکر ولیم کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ اِس تیزی میں ڈینی کا کنٹوپ سر سے گرتے گرتے بچا۔ اِس اشتیاق میں سب نے ملازموں کے سامنے اپنے پورے انگریزی وقار کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ دیا اور ایک دوسرے کو بے انتہا جوش کے ساتھ گلے ملنے لگے۔ رہ رہ کر لپٹنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کے بوسے بھی لے لیے۔ ان کے اس انداز کو دیکھ کر ملازم حیران رہ گئے۔ اُن کی نظر میں یہ فعل انتہائی غیر اخلاقی اور تعجب انگیز تھا اور یہ بات راسخ کر دینے کے لیے کافی تھا کہ فرنگی قوم بہت زیادہ فحاشی پھیلانے والی ہے۔ کچھ دیر وہیں کھڑے اپنے اشتیاق کو کم کرنے کے بعد تینوں اسی جگہ لان میں بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے۔ اِس جذباتی ملاقات میں ولیم کو یہ بھی نہ یاد رہا کہ دوستوں کو چائے ہی پوچھ لے۔ کچھ دیر چہلیں کرنے کے بعد اُس کو خیال آہی گیااور اُس نے ملازم کو آواز دے کر کافی بنانے کے لیے کہا۔ ایشلے جو ولیم کا اصل میں جی کا دوست تھا،کچھ دیر جی بھر کے ولیم کی طرف دیکھتے ہوئے بچپن کے نظاروں میں کھو گیا پھر بولا،دوست میں نے تو خیال کیا تھا،آپ لندن کے ہو کر رہ گئے،ہندوستان نہیں لوٹو گے اور یہاں ہم آپ کی روح ہی تلاش کریں گے۔
ولیم ایشلے کی سبزی مائل نیلی آنکھوں میں دیکھ کر بولا،ڈیئر میں آپ کو ایک بات بتا دوں،آپ صر ف شاعری کرتے ہیں لیکن اُس پر عمل مَیں کرتا ہوں۔ دیکھنا ایک روز آئے گا آپ میری روح ہندوستان کی خوشبووں میں ڈھونڈو گے (پھر آموں کے باغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )اِن درختوں کے پتوں کی رگوں میں میری سانس چلتی ہے۔
ڈینی ولیم کو جذباتی ہوتے دیکھ کر بولا،چھوڑ یار آپ تو شاعری میں بات کرنا شروع کر دیتے ہو۔ یہ کام ایشلے کے لیے رہنے دے۔ تم نے ایک سال سول سروس میں گزار لیا ہے۔ کوئی اُن تجربوں کا حال سنا،کیسا لگا اِس نوکری میں آنا آپ کو؟ ولیم نے ڈینی کی بات کامزالیتے ہوئے ایشلے کی طرف دیکھا اور بولا،ایشلے،یہ ڈینی عجیب آدمی ہے،کوئی موضوع چھیڑو،یہ بات دوسری طرف گھمانے کی کرتا ہے۔ اچھی بھلی بچپن کی محفل جمنے لگی ہے تو یہ چاہتا ہے،مَیں ملازمت کے کریہہ پیشے کی الف لیلیٰ چھیڑ دوں۔ دوست یہ ایک ایسی ملازمت ہے جس میں اپنی طرف سے صر ف ڈانس کر سکتے ہو۔ ہدایات کہیں اور سے ملتی ہیں۔ تم اِس ساری بکواس کو ایک طرف رکھو اور میری سنو،لورین بھی آئی ہوئی ہے۔ ہمارا پروگرام آج نہر کے پانی پر تخت بچھا کر رات کی سفید چاندنی میں فلاش کھیلنے اور ایشلے سے شاعری سننے کا ہے۔ یہ وہی نہر ہے ایشلے،جس میں آپ آٹھ سال کی عمر میں یسوع مسیح کے حوالے ہونے لگے تھے۔ پھر میری چیخ نے ایک ملازم کو چھلانگ لگانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اِسی نہر میں آج رات ہم لکڑی کے تختوں پر جھولا جھولیں گے۔ یہ آئیڈیا لورین نے پیش کیا ہے۔ بتاؤکیسا رہے گا؟
ایشلے اُچھلتے ہوئے کھڑا ہو گیا اور بولا،ارے کمال ہے ولیم،لورین کے آنے کی خبر دے کر آپ نے صحرا ئے دل میں شبنم بھر دی۔ بہتی ہوئی نہر کے درمیان بیٹھ کر لورین سے باتیں کرنے کا لطف تو خوب آئے گا۔ لیکن یہ بتاؤ،اُس کا خاوند تو ساتھ نہیں ہے؟پھر باتیں کھل کر نہیں ہو سکیں گی( چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے )لیکن وہ نظر نہیں آرہی۔
اِس وقت سو رہی ہے۔ تھکی ہوئی تھی۔ ولیم نے وضاحت کی،اُس کاخاوند اُسے کچھ دنوں کے لیے یہاں چھوڑ کر بنارس گیا ہے کسی نواب کے کیس کی تاریخ پر عدالتی معاملے میں۔ اور ہاں آپ کو اگر نہانا دھونا ہے اور آرام کر نا ہے تو کر لیں۔ ابھی ساڑھے تین ہوئے ہیں،رات آٹھ بجے ہم وہاں جائیں گے۔
آرام کی ضرورت نہیں ہے جناب کمشنر صاحب،ایشلے نے ولیم کو طنز کرتے ہوئے کہا،اِس طرح کے چونچلے سول سروس والوں کے ہوتے ہیں۔ ہم تو ٹھہرے مست شاعر۔ رات کی تنہائیوں میں پہروں پھرنے والے اور خوبصورت شکلوں پر نغمے کہنے والے۔ یاد ہے ناآپ کو؟ آپ پر اور لورین پر بھی کئی کئی نظمیں کہ رکھی ہیں۔ کیا لورین ویسی ہی ہے؟ مجھے تو اُس کو دیکھے بھی تین سال ہو گئے۔ ممبئی کیا گئی ہماری ذات ہی بھول گئی۔
ہاں ہاں ویسی ہی ہے،ولیم نے زور دے کر کہا۔
تینوں دوست کوٹھی کے صحن میں بیٹھے کافی کے ساتھ باتوں کے طوطے اُڑاتے رہے۔ بیچ بیچ میں ایشلے اپنی نظمیں بھی سناتا رہا،جن میں یورپ اور ہندوستانی فضاؤں کا امتزاج تھا۔ اِتنے میں دور سے آوازے لگاتی ہوئی لورین بھاگی آئی اور ایشلے کے آتے ہی گلے لگ گئی۔ اُس کے بعد ڈینی کو ملی اور بیٹھتے ہی ایشلے سے بولی،ایشلے آپ بہت یاد آتے ہو،ممبئی میں آپ کی نظمیں اکثر گنگناتی ہوں۔
ایشلے نے ولیم کی طرف دیکھ کر کہا،لیجیے ایک اور جھوٹ سن لیں۔ ایک خط تک لکھا نہیں اور لگیں مجھے یاد کرنے۔
لورین نے ڈینی کی ایک چٹکی لیتے ہوئے کہا،ڈینی،یہ ایشلے نرا شاعر ہے،احمق شاعر۔ ہم سے شادی کر لیتا،شاعری کے لیے اِسے دوسرے موضوع کی تلاش نہ کرنی پڑتی۔ جتنی چاہتا ہم پر نظمیں کہہ لیتا۔
لورین کے اس چھیڑخانی والے جملے پر سب نے بلند قہقہ لگا یا۔ اِس کے بعد لورین نے ولیم کی طرف دیکھ کر کہا،ولیم،ایشلے سے ذرا وہ کبوتروں والی نظم سنیے،بہت عمدہ ہے۔ جب آپ لندن میں تھے اِس نے مجھے سنائی تھی۔
ارے ایشلے کوئی ایسی نظم بھی لکھی ہے جو لورین کو بھی پسند آگئی؟،ذرا سنیں تو سہی،ڈینی نے ایشلے سے کہا۔
ایشلے نے اپنا ہیٹ اُتار کر میز پر رکھا اور شاعرانہ انداز سے ایک طرف پہلو بدلتے ہوئے نظم شروع کردی۔ ڈینی،لورین اور ولیم ہمہ تن گوش ہو گئے۔
اپریل کا آسمان بلند ہے
ایک بڑے زمرًد کے انڈے کی طرح
نیلا اور شفاف
اس کی پہنائیوں میں اُڑتے کبوتروں کا
سفید رنگ سفید ہی نظر آتا ہے
اور پنجوں کے ناخن گلابی
مجھے اپنی آنکھوں پر کبھی اعتبار نہیں رہا
مگر میں اپریل کے آسمان سے دھوکا نہیں کھا سکتا
میں نے اسے پچیس بہاروں میں دیکھا
اُس وقت جب پرندے اُڑتے ہیں
اور پریاں ہواؤں میں پَر پھیلاتی ہیں
تمھیں خبر ہے،مَیں اِسے کبوتروں والا آسمان کہتا ہوں
چراگاہوں میں چرتے مویشوں کے درمیان دیکھتا ہوں
جب وہ چرتے چرتے اپنامنہ سبز چارے سے اُوپر اٹھا کر
خدا کو دیکھتے ہیں
کبوتروں کی پرواز کو دیکھتے ہیں
یہ کبوترہمیشہ اُڑتے رہیں گے
اُس وقت بھی جب میں نہیں ہوں گا
میرا یقین اعلان کرتا ہے
بڑے آسمان کے کبوتر ہی خدا ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب شام کے پانچ بج چکے تھے اورشفق کا سورج لال روشنی چھوڑ رہا تھا۔ اِس کے ساتھ ہی لان کے سبزے میں سیاہ مچھر تیرنے لگے جو اُڑ اُڑ کر آنکھوں کو آتے تھے لیکن ہوا ایسی خوشگوار اور رومان پرور تھی کہ ہر ایک کو غش آرہا تھا۔ اتنے میں جانسن صاحب بھی باہر نکل آئے۔ اُن کے ساتھ حنا بھی تھیں۔ جانسن کے لان میں آتے ہی تمام لوگ اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ڈینی اور ایشلے نے آگے بڑھ کر جانسن صاحب کو سلام کیا اور ہاتھ ملایا،۔ جانسن نے اُنہیں مربیانہ انداز میں سلام کا جواب دیا اور کہا،لڑکو ! آپ کے لیے نہر پر تخت بچھا دیے گئے ہیں۔ مَیں اور حَنًا بھی ڈنر آپ کے ساتھ ہی نہر پر کریں گے۔ اِس لیے تیار ہو جاؤ۔ اِتنا کہ کر جانسن صاحب نے آگے قدم بڑھائے اور مالٹوں کے سفید چمکتے ہوئے پھولوں کی طرف بڑھ گئے جبکہ باقی دوبارہ وہیں بیٹھ گئے۔ اُن کے ساتھ حَنًابھی وہیں بیٹھ گئی،پھر دوبارہ باتیں اور شاعری شروع ہو گئی۔ مدتوں کے بعد ولیم کو اس طرح کی محفل پہلی دفعہ میسر آئی تھی۔ اِس لیے وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہ ہوا۔ حتیٰ کہ جانسن صاحب جو کچھ دیر ہی پہلے مالٹوں کے باغ میں نکل گئے تھے،دوبارہ نمودار ہوئے اور بولے،آپ ابھی تک یہیں بیٹھے ہیں؟ بھلے آدمیو اب تو ساڑے چھ بج چکے ہیں۔ جانسن صاحب کے ہوش دلانے پر سب ایک ہی دم کھڑے ہو گئے۔ دیکھا تو صحن کے باہر خادمان اور مامائیں اور انتظامیہ کا عملہ اُن کے انتظار میں کھڑا تھا۔ ایشلے نے جانسن صاحب کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا،سر،ہم آپ کے غصہ سے مستثنیٰ ہیں کہ شاعر ہونے کے ناتے اتنا تو حق رکھتے ہیں (پھر ولیم کی طرف دیکھ کر) جناب کمشنر صاحب،کیا ہم آپ کی اجازت سے نہا کر کپڑے بدل لیں۔
ولیم نے سر سے ہیٹ اُتار کر جواب دیتے ہوئے سر جھکایا اور کہا،مہاراج اب جلدی کریں ورنہ میں آپ کی اسٹیٹ ضبط کر لوں گا۔ سول سروس آپ کے خیال میں مذاق ہے؟اس فقرے پر سب ہنس دیے۔
اسکے بعد ولیم،جانسن،ڈینی اور لورین تیار ہونے کے لیے کوٹھی میں چلے گئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رات کے دو بجے تک نہر کے چلتے پانی پر چاندنی رات میں شراب،بٹیروں اور مرغابیوں کے کباب،فلیش اور شاعری کرتے اور گاہے گاہے ہندوستان اور یورپ کی زندگی کا جائزہ لیتے سب ہی اتنا تھک چکے تھے کہ صبح گیارہ بجے آنکھ کھلی۔ البتہ جانسن صاحب صبح چھ ہی بجے دوبارہ جاگ گئے تھے اور فارم کی سیر کرتے ہوئے دور تک نکل گئے۔ گیارہ بجے اُٹھ کر سب نے نہایا اور کافی لی۔ حتیٰ کہ لنچ کا وقت ہو گیا۔ لنچ کے بعد ولیم نے اعلان کیا،دوستومیں نے ابھی براستہ ہیڈ سلیمان کی جلال آباد نکلنا ہے،اِس لیے میری رخصت کا وقت آرہا ہے۔ انشاء اللہ اگلے سینچر دوبارہ ملاقات ہو گی۔ آپ چاہیں تو یہاں رہیں اور چاہیں تو رینالہ جائیں۔ یہ کہ کر تیاری میں مصروف ہو گیا۔ دو بجے کے قریب جب ولیم بالکل تیار ہو گیااور ڈینی اور ایشلے کو ملنے کے لیے باہر نکلا تو وہ دو نوں بھی پیپل کے سائے تلے کھڑی اپنی گاڑی کے پاس رینالہ جانے کے لیے تیار تھے۔ ولیم دوستوں کے پاس جا کھڑا ہوگیا،جہاں لورین پہلے ہی موجود تھی۔ جانسن صاحب نے ولیم کو مخاطب کر کے کہا،ولیم دوستوں کو رخصت کر کے ذرا اندر آئیں۔
ولیم ڈرائینگ روم میں پہنچا تو جانسن صاحب اور حَنًا دونوں بیٹھے اُس کا انتظار کررہے تھے۔ ولیم ہیٹ اُتار کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا اور جانسن کی بات سننے کے لیے تیار ہو گیا۔
جانسن نے بلا کسی تمہید کے بات شروع کی،ولیم یہ ڈرانئگ روم میں جتنی تصویریں دیکھ رہے ہو،یہ سب آپ کے اجداد کی ہیں۔ اِن میں سے کوئی ایسانہیں جس کی خدمات خاندان اور گورنمنٹ کے لیے یکساں فخر کا باعث نہ ہو۔ یہ ہندوستان،جس کے رومان میں آپ مبتلا ہو،یہ ہمیں بھی اتنا ہی اپنی طرف کھینچتا ہے جتنا آپ کو،لیکن اِس کی محبت کے کچھ آداب ہیں اور وہ آداب تمھارے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے،کالے اور سفید لوگوں کے درمیان ایک لکیر ہے۔ اُسے جب بھی عبور کیا جائے گا،اُسی وقت یہ زمین اپنے گلے سے ہمارے اقتدار کی رسی کاٹ دے گی۔ میں بھی اِس حق میں ہوں کہ کالوں کی غربت اور جہالت ختم ہونی چاہیے۔ اُسے بہت حد تک ہم نے ختم کیا بھی ہے،لیکن کیا آپ اِس بات کو بھول گئے کہ ہماری اِن پر حکومت کا سبب اِن کی یہی جہالت ہے۔ چنانچہ اُسے ایک حد تک ان پر مسلط رکھنا ضروری ہے۔
ولیم نے جانسن کی بات سنتے سنتے اپنا پہلو بدلا، جسے دیکھ کر جانسن نے بات جاری رکھی،آپ کے جانے کا وقت ہو رہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک دو باتیں اس وقت آپ کو بتا دینا بہت ضروری ہیں۔ ہم کچھ کام میں آزاد ہیں اور کچھ میں مجبور۔ یہ فارم اور یہاں جگہ جگہ ہماری نشانیاں،جو ہم نے اِس زمین پر ثبت کی ہیں،ہم چاہتے ہیں وہ ہمارے نام پر برقرار رہیں۔ حالات کے فیصلے ضروری نہیں ہمارے فیصلوں سے اتفاق کریں مگر ہم اپنی کوشش جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم خود اپنے پاؤں کاٹناشروع کر دیں،جیسا کہ آپ کی طرح انسانیت کا درد رکھنے والے کئی انگریزافسر کر رہے ہیں،تو ہمیں اپنی قسمتوں پر شکوہ نہیں کر نا چاہیے۔ مجھے آپ کے متعلق کمشنر ہاؤس سے کچھ شکایات وصول ہوئی ہیں،جو بہت خطرناک ہیں۔ اپنے پیروں کی زمین دیکھ کر قدم اُٹھاو۔ ایسا نہ ہو اگلے قدم پر زمین ختم ہو جائے۔ تمھارا کام اِس وقت صرف نوکری کرنا ہے۔ فیصلے کرنا گورنمنٹ کے بڑوں کا کام ہے۔ میں چاہتا ہوں،آپ بڑوں میں شامل ہو جاؤ لیکن اُس وقت کا انتظار کرو۔ جو آپ کے پاس موجود ہے،اُس کو بچاؤ۔ میری نوکری تین سال رہ گئی ہے۔ اُس کے بعد مَیں بھی تمھارے رحم و کرم پر ہوں۔ اِس سے آگے میں آپ کو کچھ نہیں سمجھا سکتا۔ (پھر بات بدلتے ہوئے ) میں یہ چاہتا ہوں،کیتھرین کو جلد بیاہ لیا جائے۔ یہ کوٹھی آپ کی ہے۔ آپ اس کے وارث ہو۔ جب چاہو،اُسے یہاں اُتار سکتے ہو۔ جلال آباد جاکر پہلا کام اُسے تار بھیج کر بُلانے کا کرو۔ میں اگست تک اُسے یہاں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اِتنا کہ کر جانسن اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس کے بعد ولیم بھی باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا،جو سفر کے لیے تیار کھڑی تھی۔