اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
یہ گھر جس محلے میں واقع تھا، میرے بڑے ماموں اکثربتایا کرتے تھے، ایک قبرستان پر آباد کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر ہر گھر کی زمین میں ایک قبر موجود تھی۔ جب بھی کسی کے گھر کی زمین کو گہرے کھودے جانے کا موقع آتا تو مزدوروں کا پھاوڑا کسی نہ کسی ہڈیوں کے ڈھانچے سے جاکر ضرو رٹکراتا۔ محلّے کے باشندوں کے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ وہ سب اس کے عادی ہو چکے تھے۔
گلیوں میں بھی جگہ جگہ پکّی قبریں نظر آتیں جن کے تکیوں پر آورہ لونڈے دن بھر بیٹھے ہڑڈنگ مچاتے نظر آتے۔ رات میں انھیں قبروں پر بیٹھ کر جو ا بھی کھیلا جاتا۔ کچھ قبریں ایسی بھی تھیں جنہیں مزار کہا جاتا تھا اور ہر جمعرات کو وہاں چادریں چڑھائی جاتی تھیں۔ اگربتّی اور لوبان کے دھوئیں سلگتے، کھیلیں اور بتاشے تقسیم ہوتے اور قوّالیاں بھی ہوتیں۔ ہر گھر میں نیاز نذر کا ماحول تھا اور دوسرے مسلک والوں کا حقہ پانی یہاں بند تھا۔
اُس پار کھیتوں کے ایک لمبے سلسلے کے بعد جو محلہ تھا وہاں دوسرے مسلک اور عقیدے والے لوگ رہتے تھے۔ ا دھر کا آدمی اُدھر اور اُدھر کا آدمی اِدھر آکر مسجد میں نماز تک پڑھنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ ہمارے محلے کے بعض گھروں کی لڑکیاں زندگی بھر کنواری رہیں اوربوڑھی ہوگئیں، صرف اس وجہ سے کہ اپنے عقیدے کے لوگوں میں اُنہیں اپنے معیار کے مطابق رشتہ نہ مل سکا اور بد عقیدوں میں شادی ہوجانے سے بہتراُن کا زندگی بھر کنوارا رہنا ہی تھا۔
ہماراگھر بھی انھیں میںسے ایک تھا۔ نورجہاں خالہ، ثروت پھوپھی، شاہین باجی اورنہ جانے کون کون تمام عمر کنواری رہیں۔ اور اُن سب کا بڑھاپا یقینا بہت خراب گزرا ہوگا اگرچہ اس بارے میں مجھے بہت زیادہ علم نہیں ہے۔
گھرمیں ہر وقت شور سا مچا رہتا۔گرمیوں کی دوپہر اور رات کے وقفے کو چھوڑ کر بس آوازیں ہی آوازیں تھیں۔ زنانہ، مردانہ، جوان اور بوڑھی آوازوں کا ایک سیلاب تھا جس سے گھر کی دیواریں چٹخی جاتی تھیں۔ ہاں وہاں بچّوں کی آوازیں نہ تھیں۔ بچّہ تو صر ف میں تھا۔ اکیلا بچّہ مگر جس زمانے کا میں ذکر کررہا ہوں، اُس وقت تک تو میری آواز بھی بچّے کی نہ رہی ہوگی۔ یوں بھی میں نے اپنے آپ کو کبھی بچّہ نہ سمجھا۔ باورچی خانے اورانجم باجی کی گود نے مجھے اپنے اندر ایک کینہ پرور اور خطرناک مرد کے وجود سے شاید ہوش سنبھالتے ہی روشناس کر دیا تھا۔
ہر جمعرات کو گھر میں عصر اور مغرب کے درمیان فاتحہ ہوتی اور لازمی طو رپر گوشت کا سالن پکایا جاتا۔ زیادہ تر بڑے ماموں ہی بیٹھ کر سر پر تولیہ ڈال کر فاتحہ دیتے۔ کبھی انجم باجی، کبھی نورجہاں خالہ اور کبھی ثروت پھوپھی جمعرات کا کھانا پکاتیں۔ یوں تو بہت سی عورتیں جن میں ممانیاں، خالائیں اوراُن کی لڑکیاں اور کچھ خادمائیں بھی باورچی خانے میں کچھ نہ کچھ کام کرتی نظر آتیں، مگر چند خاص کھانے جو ہر جمعرات کو اہتمام کے ساتھ پکائے جاتے، ان کا ذمہ انجم باجی،نورجہاں خالہ اور ثروت پھوپھی کے ہی سر تھا۔
بڑے ماموں کا کہنا تھا کہ جمعرات کی شام کو، مغرب سے پہلے گھر کے آبائو اجداد کی روحیں اپنی اپنی قبر کے باہر بیٹھ کر فاتحہ کے کھانے کا انتظار کرتی ہیں۔ اورجن کے پیارے اُنہیں بھول چکے ہیں اور فاتحہ نہیں دلاتے اُن روحوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بڑے ماموں یہ بھی بتاتے تھے کہ رات میں کسی نہ کسی وقت گھر کے مکینوں کی روحیں گھر میں گشت کرنے کے لیے ضرور آتی ہیں۔
میں فاتحہ کے وقت بڑے ماموں کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ اگر بتّی کے دھوئیں میں پیالوںمیں رکھا سالن صاف صاف نظر نہیں آتا تھا۔ اُس وقت کچھ بھی صاف صاف نظرنہیں آتا تھا۔ دونوں وقت مل رہے ہوتے۔ سارے ماحول پر ایک ناقابل فہم دھند سی پھیل جاتی اور جب مغرب کی اذان ہونے لگتی تو میں شدّت سے اُداس ہو جاتا۔ اُس وقت چاروں اطراف میں اُداسی پھیل جاتی اور میں قبروں کے باہر، اپنے اپنے کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے مُردوں کے بارے میں سوچنے لگتا۔ وہاں کون کون ہوگا؟ کیا میرے ماں باپ بھی؟
مگر کچھ ہی دیر بعد یہ منظر ایک حیرت انگیز خاموشی کے ساتھ وہاں سے سرک کر نہ جانے کہاں چلا جاتا، داسے میں لالٹین روشن ہوجاتی۔ گھر میں رونق ہی رونق پھیل جاتی اور باورچی خانہ چوڑیوں کی جھنکار سے گونجنے لگتا۔
مجھے صرف انجم باجی کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا پسند تھا۔
ہاتھ؟
دراصل ہاتھوں کی اپنی شخصیت ہوتی ہے۔ یہ مجھے اب معلوم ہوا ہے، ہاتھ تو انسان کے دماغ سے بھی پہلے قوت نمو حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہاتھوں کی ایک ایک انگلی کی اپنی ایک الگ داستان ہے۔ انسان کے ہاتھوں کا لگاتار ارتقا ہو رہا ہے مگر ممکن ہے کہ ہاتھوں کا یہ ارتقا ایک معکوسی ارتقا ثابت ہو اور انسانی ہاتھ انجام کار ایک روز آکٹوپس کے ہاتھ پاؤں میں تبدیل ہو جائیں۔
غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہاتھوں سے زیادہ گنجان ہڈیوں کے گچھّے جسم میں اور کہیں نہیں پائے جاتے۔ ہاتھ انسان سے الگ ہیں، کبھی کبھی تو اُس کے ذہن و دماغ اور جسم کے لیے یکسر اجنبی اور بیگانے۔
یہی سبب تھا کہ وہاں الگ الگ ہاتھوں کے الگ الگ کھانے تھے، اُن کے ذائقے الگ، ان کی خوشبوئیں الگ اور اُن کی شکلیں الگ۔ باورچی خانہ ان ہاتھوں کی حرکات و سکنات کا ایک عجائب گھر تھا۔
مجھے یاد ہے کہ کچھ دنوں کے لیے ہمارے یہاں ایک باورچی بھی رکھا گیا تھا۔ جو پیروں سے لہسن چھیلتا تھا اور سب اُسے انگشت بدنداں دیکھتے تھے، مگر ایک بار جب اُس نے پیروں سے کھانا پکانے کی خواہش ظاہر کی تو ہر شخص نے اِس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ کھانا ایک پاک صاف شئے ہے۔ اس کا احترام کرنا چاہئیے۔ چاہے حلق سے اُترتے ہی وہ ناپاک کیوں نہ ہو جائے اور بڑی آنت میں جاکر فضلے کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے۔ اس لیے باورچی خانے کے سرکس میں کوئی بھی اُس غریب کا یہ کرتب دیکھنے پر آمادہ نہ ہوا۔ باورچی کو بے عزتی ہونے کا احساس ہوا۔ اپنے سے زیادہ اپنے آرٹ کی۔ وہ نوکری چھوڑ کر فوراً ہی چلا گیا مگر جاتے وقت اُس نے یہ ضرو رکہا تھا کہ افسوس وہ لوگ نہیں جانتے کہ کبھی کبھی کچھ انسانوں کے ہاتھ اُن کے پائوں میں اُتر آتے ہیں۔ یہ ایک مرض بھی ہو سکتا ہے جس طرح آدمی کی آنت اُترجاتی ہے، اس لیے میں باربار یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہاتھوں کی اپنی ایک الگ ہی پُراسرار دنیا ہے۔ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کہیں بھی جاسکتے ہیں، وہ کسی کا سر سہلا سکتے ہیں، کسی کے آنسو پونچھ سکتے ہیں اور گال پر تھپّڑ بھی رسید کر سکتے ہیں۔ ہاتھ قتل تک کر سکتے ہیں۔
باورچی خانے میں الگ الگ ہاتھوں سے ایک ہی قسم کی اشیا ایک ہی جگہ پر الگ الگ انداز سے رکھی جاتی تھیں، وہی نمک کا ڈبہ تھا، وہی سوکھے دھنیے کا۔ پسی ہوئی مرچوں کا اور ہلدی کا مگر ہر ہاتھ اُنہیں ایک نئے ڈھب کے ساتھ استعمال کرتا تھا۔ اُنہیں کھولتا، بند کرتا اور رکھتا تھا۔ کھرنجے کے فرش پر کسی کے ہاتھ سے جھاڑو دینے پر کوڑا بچا رہتا تھا اور کوئی دوسرا ہاتھ جھاڑو دیتا تو فرش آئینے کی طرح چمکنے لگتا، اپنی بوسیدگی کے باوجود ہر ہاتھ کا اپنا تماشہ تھا، اور ہر تماشے کو اپنے اداکاروں پر ناز تھا، اداکار جو صرف ہاتھ تھے۔
باورچی خانہ ایک متوازی دنیا تھا جس پر حکومت کرنے کے لیے عورتیں آپس میں جھگڑا کرتی تھیں، چلّاتی تھیں، ایک دوسرے پر مارنے کے لیے برتن اُٹھا لیتی تھیں، پھر ٹسوے بہاتی تھیں اور چولہے کی گرم بھوبل کو اپنے سر میں بھر لینے کی دھمکیاں دیتی تھیں اور وہ ہاتھ جن میں کبھی چوڑیاں کھنکتی تھیں اور کبھی وہ گھونسے کی شکل میں فضا میں تنتے۔ وہ ایک دوسرے کے دوست تھے۔ وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے۔
باورچی خانے کی اس چھوٹی سی دنیا میں ایک گھسمان مگر زنانہ رن برپا تھا۔
گھر کے مرداِس جنگ سے بالکل متاثرنہ تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ جہاں چار برتن ہوتے ہیں تو آپس میں ٹکراتے ہی ہیں، اس گھر کے افراد کو اپنی پرانی (چھین لی گئی زمینداری) زمینداری، اعلیٰ حسب و نسب اور مدّتوں سے چلی آرہی مشترکہ خاندان کی روایت پر بے حد غرور اور گھمنڈ تھا۔ انھیں باورچی خانے کی پُراسرار دنیا کا کوئی علم ہی نہیں تھا۔ باورچی خانے کے دھوئیں سے، وقت سے پہلے جالے بھرتی ہوئی اور اندھی ہوتی آنکھوں، جلتے ہوئے ہاتھوں اور سُن ہوتے ہوئے گھٹنوں سے وہ انجان تھے۔
بس ایک میں تھا، ایک اکیلا۔ بڑا ہوتا ہوا ایک بچّہ۔ جو باورچی خانے کے تماشے کا ایک عینی شاہد تھا۔ یا اُس عدالت کا جو روز وہاں لگتی تھی اور جس کے کٹہرے میں ایک دن مجھے بھی مجرم بن کر کھڑا ہوجانا تھا۔
انسان اپنے مقدّرسے بچ کر نہیں جاسکتا۔ مقدّر تو خود چل کر اُس کے پاس آتا ہے۔ ٹیڑھے میڑھے راستوں اور بھول بھلیّوں سے نکل کر اچانک کسی آسیب کی صورت آپ اپنے مقدّر کو اپنے سامنے کھڑا دانت نکالے ہوئے دیکھتے ہیں۔ آپ کے پیر پتھّر کے ہو جاتے ہیں۔
بارہ تیرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے مجھے اُردو کے جاسوسی ناولوں کا چسکہ لگ گیا۔ یہ چسکہ بھی مجھے بڑے ماموں نے ہی لگایا تھا۔ ساٹھ کی دہائی کا زمانہ اُردو کے مقبول عام ادب کا زمانہ تھا۔ میں بری طرح اس ادب کا شکار ہوگیا۔ جاسوسی ناولوں کے ساتھ ساتھ میں نے ہر قسم کے رومانی ناول بھی چاٹ ڈالے۔ فلموں کا بھی شائق ہو گیا۔ اگرچہ فلمیں دیکھنے کو کم ملتی تھیں، مگر فلمی رسائل گھر میں پابندی کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ اور پھر ریڈیو تھا، اُس پر فلمی گانے آتے رہتے تھے۔
سچ بات تویہ ہے کہ میری شخصیت کی تشکیل میں جاسوسی ناول، گھٹیا قسم کے رومانی ناول اور چونّی والی فلموں اور اُ ن کے گانوں کا زبردست ہاتھ رہا ہے۔
گھر سے نکل کر بائیں طرف دس بارہ قدم چلنے کے بعد ٹوٹی پھوٹی تین چار قبریں پڑتی ہیں، اُن قبروں کے پار انجم آپا کا مکان تھا۔ انجم آپا ہماری دور کی رشتہ دار تھیں اور عمر میں مجھ سے آٹھ نو برس بڑی تھیں۔ ان کا خاندان ہمارے مقابلے معاشی اعتبار سے کمتر تھا اور اُن کا باورچی خانہ بھی بہت چھوٹا سا تھا۔ جس میں سامان رکھنے کے لیے کوئی اندھیری کوٹھری نہیں تھی برتن بھی بہت کم تھے۔ اُن کے یہاں چولہے میں زیاد تر اُپلے ہی استعمال کیے جاتے تھے یا پھر ایک زنگ آلود بھدا سا مٹّی کے تیل کا اسٹوو تھا۔ مٹّی کے تیل کی انجم باجی کے یہاں بہتات تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے والد کی سرکاری راشن کی دوکان تھی۔ جہاں گیہوں، چاول،شکر، سستے کپڑے کے ساتھ ساتھ مٹّی کا تیل بھی رعایتی داموں پر فروخت ہوتا تھا۔ وہ آج کی طرح بازاری معیشت کا دورنہیں تھا اور اس چھوٹے سے شہر میں ایسی دوکانوں کی بہتات تھی۔ انجم آپا کو بھی فلموں سے اورجاسوسی ناولوں سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ محلے کی لائبریری اور کتابوں کی دوکانوں سے دو آنہ کرایہ پر لے لے کر ناول اور رسائل پڑھا کرتی تھیں۔ میں اُن کو محبوب ناول ہائوس سے کرایہ پر لا لا کر ناول دینے لگا اور مشترکہ شوق کے باعث دوپہر میں میرا زیادہ تر وقت اُن کے ساتھ باورچی خانے میں گزرنے لگا۔ جہاں وہ اکثر مجھے گھر میں پلی ہوئی بکری کے دودھ کی چائے بناکر پلاتی تھیں۔ اُپلوں پربنی ہوئی چائے، فطرت کے زیادہ قریب مگر مقدّر—؟ ہاں مقدّر آہستہ آہستہ وقت کی لکیروں کے ساتھ رینگتا ہوا میرے پاس آرہا تھا۔ پتہ نہیں جاسوسی ناولوں کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے۔ میں نے اپنے اندر ایک چھٹی حس کو آہستہ آہستہ پروان چڑھتا پایا۔ مجھے اپنے اندر ایک خطرناک صلاحیت ہونے کے وجود کا خوفناک انکشاف ہوا۔
اس خطرناک صلاحیت یا خوفناک علم کی خبر سب سے پہلے مجھے میری آنتوں نے دی تھی۔ آنتوں کی وہ چکنائی جو میرے منھ سے نکلی، یہ اُسی کا دیا ہوا ایک وردان تھا یا کہ شاپ، ایک دُعا یا بددُعا؟ یہ تومیں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا مگر تمام عمر اس دُعا یا بددُعا کو سود کے ساتھ ادا کرتا رہا ہوں، بچپن سے اب تک۔ اِس عمر تک پہنچ جانے کے باوجود۔
میں ریاضی میں کتنا کمزور تھا، نہ عدد سمجھ میں آتے تھے، نہ ہندسے اور نہ اُن کے آپسی رشتے اور اُلجھاوے۔ مگر یہ ایک دوسری ریاضی تھی۔ ایک دوسرا حساب جس میں سوال کو حل کرنے کے لیے کھانے کے مختلف اقسام ہندسوں میں بدل گئے تھے اور باورچی خانہ ہی وہ منحوس جگہ تھی جہاں سے اِس علم میں علّت و معلول کے بظاہر مضحکہ خیز اور ناقابل تشریح سراغ ملنا شروع ہو جاتے تھے۔
یہ سب اچانک شروع ہوا تھا، ایک واقعہ کے بعد جو انجم آپا کے باورچی خانے میں پیش آیا تھا۔ اِس پُراسرار صلاحیت کی ابتدا انجم آپا کے باورچی خانے میں فرش پر رکھی ایک بنا ڈھکی بدقلعی دیگچی سے ہوئی تھی۔