ان کے بچے،عورتیں اور مرد اپنے اپنے جھاڑو اور ضروری سامان لے کر گلی، محلوں اور سڑکوں پرنکل ٓاتے ہیں تاکہ انسانوں کی پھیلائی ہوئی گندگی صاف کر سکیں۔
وہ صبح سویرے اٹھتے ہیں جب سورج کی کرنیں ابھی اس دنیا سے کہیں دوراپنے نمودار ہونے کی منتظر ہوتی ہیں اور ہم نیند کی گود میں اپنے اپنے شبستانوں میں محو خواب ہوتے ہیں۔ ان کے بچے،عورتیں اور مرد اپنے اپنے جھاڑو اور ضروری سامان لے کر گلی، محلوں اور سڑکوں پرنکل ٓاتے ہیں تاکہ انسانوں کی پھیلائی ہوئی گندگی صاف کر سکیں۔ ہمارے اٹھنے ، دفاتر،بازاروں اور درس گاہوں کو روانہ ہونے سے پہلے وہ گلیوں ، محلوں، چوراہوں اور سڑکوں کی صفائی کر چکے ہوتے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ ہمارے لیے کرتے ہیں کہ ہماری صحت اور طبیعت پر اچھے اثرات مرتب ہوں اور ہم اچھا محسوس کر سکیں۔مگر ہم اپنے معمولات میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ شاید ہی کبھی ان سینیٹری ورکرز کی زندگیوں پر غور کرنے کے لیے وقت نکالا ہو ۔اس نام نہاد مصروف زندگی سے چند لمحے نکالنا ہماری طبعیتوں پر گراں گزرتا ہے۔ہم ان کے لیے تھوڑا سا وقت نکالنا اوریہ دیکھنا کہ ہمارے ماحول کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے والوں کو کن مسائل کا سامنا ہے گوارا نہیں کرتے۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ کہ وہ کن حالات میں زندگی کی گاڑی دھکیل رہے ہیں، ان کو اتنے مشکل کام کے بدلے کیا ملتا ہے،انہیں اجرت وقت پہ ملتی بھی ہے کہ نہیں،ان کی صحت پر اس کام کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔ ہم سب انجان راستوں کی طرف تیز دوڑتی ہوئی زندگی سے وقت ہی نہیں نکال پاتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ہمارے نصف ایمان کے محافظ ہیں مگر ان کی تکالیف اور دکھوں کا ہمیں ذرا بھی ادراک نہیں ۔
سماجی پستی کا یہ عالم ہے کہ انہیں محتلف حقارت ٓامیز ناموں سےپکارا جاتا ہے ۔جب وہ صفائی کر رہے ہوں تو لوگ ان سے اپنا دامن بچا کے چلتے ہیں
سینیٹری ورکرز کا تعلق عموماً غیر مسلم اقلیتوں سے ہوتا ہے اور یہ نہایت پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک تو اقلیت، دوسرا انتہائی نچلے طبقے سے تعلق اورتیسراا ن کے کام کو سراہنے کی بجائے انہیں نہایت حقارت سے دیکھا جاتا ہے ؛ایسے میں ان کی معاشی اور سماجی حالت کا انداز ہ ا ٓپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ان کے لیے ہمارے سماجی رویے انتہائی پست اور غیر انسانی ہیں ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ ایک دن اپنا کام روک دیں تو ہم گلی، محلّوں اور سڑکوں پر چلنے کے قابل نہ رہیں۔ سماجی پستی کا یہ عالم ہے کہ انہیں محتلف حقارت ٓامیز ناموں سےپکارا جاتا ہے ۔جب وہ صفائی کر رہے ہوں تو لوگ ان سے اپنا دامن بچا کے چلتے ہیں۔اگر وہ کسی کے گھر یا کسی گلی محلے میں صفائی کرتے ہوئے کسی سے پانی یا چائے مانگ لیں توصاف انکار کر دیا جاتا ہے۔اور اگر کسی کے دل میں کچھ رحم آ بھی جا ئےتو گھر کے کونے کھدرے میں پڑے کسی برتن میں انہیں چائے پانی دیا جاتا ہے اور بعد میں یا تو وہ برتن پھینک دیا جاتا ہے یا کئی کئی بار دھویا جاتا ہے۔ جس چیز کو وہ ہاتھ لگا لیں اسے ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ناپاک وہ برتن نہیں بلکہ ناپاکی ان بیمار ذہنوں میں ہے جو ان برتنوں کو ناپاک سمجھتے ہیں۔
حفاظتی سامان اور اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے سینیٹری ورکرز میں ایڈز، ہیپا ٹائٹس، ٹی بی، دمہ، ٹائیفائڈ اورجلدی بیماریاں عام ہیں۔ سیوریج کی بند لائینں اور گٹر کھولتے ہوئے زہریلی گیسوں کی وجہ سے ان کی اموات عام ہیں۔
ان کی معاشی حالت بھی نہایت ناگفتہ بہ ہوتی ہے۔ان کی تنخواہیں انتہائی کم اور ان کی ادائیگی میں تاخیر بھی معمول کا حصہ ہے۔ان کی رہائش گاہوں کی حالت بھی انتہائی خراب ہوتی ہے۔ان میں اکثر و بیشتر تو یومیہ اجرت پرکام کرتے ہیں ۔انہیں جب کام سے نکا ل دیا جاتا ہے تو ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست بھی مشکل ہو جاتاہے۔ ان کے ساتھ ان کے افسران بالا کا رویہ بھی انتہائی تضحیک ٓامیز ہوتا ہے۔ افسران کی گالیاں سننا تو ان کی زندگی کا مستقل حصہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کام میں ٹھیکیداری جیسا استحصالی نظام بھی ان کی معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس نظام کی آڑ میں ان پر سرکاری نوکریوں کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ مسلم سینیٹری ورکرز کی نسبت غیر مسلم سینیٹری ورکرز کے لیے حالات کہیں زیادہ مشکل ہیں۔مسلم سینیٹری ورکرز عموماً گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں جبکہ کام غیر مسلم اہلکاروں سے لیا جاتا ہے۔
خاکروبوں کو صحت کے سنگین مسائل کا سامنا رہتاہے۔ مختلف سروے رپورٹس کے مطابق وہ اپنے کام کی وجہ سی محتلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حفاظتی سامان اور اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے سینیٹری ورکرز میں ایڈز، ہیپا ٹائٹس، ٹی بی، دمہ، ٹائیفائڈ اورجلدی بیماریاں عام ہیں۔ سیوریج کی بند لائینں اور گٹر کھولتے ہوئے زہریلی گیسوں کی وجہ سے ان کی اموات عام ہیں۔
ہمیں معا شرے کے دوسرے کمزور طبقات کی طرح ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا بھی ضروری ہے۔ معاشرے اور ریاست کو ان کا معیار زندگی بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ حکومت،میڈیا اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کمزور اور پسماندہ طبقے کی دادرسی کریں اور ان کو معاشرے میں ان کا جائز حق دلوائیں۔ اس ضمن میں اقلیتی اور مزدور نمائندے بھی نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جو کہ ان کے نام پر طاقت کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔اس حوالے سے بہتر سماجی رویے اپنانے کی بھی ضرورت ہے ۔
خاکروبوں کو صحت کے سنگین مسائل کا سامنا رہتاہے۔ مختلف سروے رپورٹس کے مطابق وہ اپنے کام کی وجہ سی محتلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حفاظتی سامان اور اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے سینیٹری ورکرز میں ایڈز، ہیپا ٹائٹس، ٹی بی، دمہ، ٹائیفائڈ اورجلدی بیماریاں عام ہیں۔ سیوریج کی بند لائینں اور گٹر کھولتے ہوئے زہریلی گیسوں کی وجہ سے ان کی اموات عام ہیں۔
ہمیں معا شرے کے دوسرے کمزور طبقات کی طرح ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا بھی ضروری ہے۔ معاشرے اور ریاست کو ان کا معیار زندگی بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ حکومت،میڈیا اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کمزور اور پسماندہ طبقے کی دادرسی کریں اور ان کو معاشرے میں ان کا جائز حق دلوائیں۔ اس ضمن میں اقلیتی اور مزدور نمائندے بھی نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جو کہ ان کے نام پر طاقت کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔اس حوالے سے بہتر سماجی رویے اپنانے کی بھی ضرورت ہے ۔