آپ نے کبھی ٹھہرے ہوئے پانی کا حسن دیکھا ہے، ایسا شفاف اور گہری نیند میں ڈوبا ہوا پانی، جس کی ریشمی چادر پر پوروں کی گرماہٹ سے جھریاں ڈالنے کی جرات کرنا بھی ناممکن ہو۔ جب کبھی انسان اس طرح کی سرور میں لپٹی ہوئی، سماج اور اس کی بھیانک دوپہریوں سے کوسوں دورسرمئی شام کے آسمانی طلسم میں ڈوبتا ہے تو ہوش کاناخن دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کرپاتا۔ مقبول بھی نہیں کرپارہا تھا، وہ بھی عام انسانوں کی طرح تعلق کی زنجیر سے بندھ چکا تھا۔ حالانکہ یہ تعلق بظاہر بس ایک رات کا تھا،ایک رات، جس کی کوئی صبح نہیں، جس کا کوئی مستقبل نہیں، مگر زندگی کی کچھ راتیں ہزار صبحوں سے زیادہ خوبصورت اور ہزار فتنوں سے زیادہ رنگین ہوتی ہیں۔ یہ بھی ایک ایسی ہی رات کی داستان ہے۔

یہ کہانی دو لوگوں کی ہے یا یوں کہیے کہ دو جذبوں کی ہے۔ سیتاپور کے قریب کہیں کوئی گمنام سا ایک گاؤں ہے، نام ہے ساہنی۔ گاؤں میں مسلمانوں کی آبادی ستر بہتر فی صد ہوگی۔ اس لیے مسجدیں زیادہ تھیں، صبح شام اللہ اکبر کی آوازوں سے محلے کے محلے گونجا کرتے تھے، یوں تو مسجدوں کا چیخ چیخ کر گلا چھل جاتا، مگر جمعہ کے علاوہ بازاروں، گلیوں اور سڑکوں پر ایسی رونق نظر نہ آتی۔ البتہ جمعہ کے روز طرح طرح سے نمازیوں کے غول کے غول نکل پڑتے، اتنے کہ ان بہت سی مسجدوں کی جگہ بھی تنگ پڑ جاتی، راستے پر صفیں بچھی ہوئی دکھائی دیتیں۔ سورج جب اپنی تند و تیز شعاعوں کے سہرے کی جھالر ہٹاکر نظر دوڑاتا تو گول گول رنگ برنگی ٹوپیوں کی بہت سی قطاریں دکھائی دیتیں۔ مختلف مسلک، فرقے، جھگڑے، بحثیں، چلے، مزاریں الغرض ساہنی ایک ایسی آبادی پر مشتمل گاؤں بنتا جارہا تھا جوبرصغیر ہند میں اسلامی دعوت کے مختلف جغرافیائی نتیجوں اور طریقوں کا عکس کہا جاسکتا تھا۔ قصائیوں کی دوکانیں، ان کے پاس منڈراتے کتے، چھیچھڑوں پر لڑتی بلیاں، تنگ گلیاں، قاسمی، بدایونی، گلاؤٹھی اور نہ جانے کس کس قماش کی بریانیاں، گنے کا رس نکالتی ہوئی سبز مشینیں، برقعوں اور کرتے پاجاموں کے ساتھ ساتھ مغربی طرز کے نام پر شرٹ اور جینز جیسےلباس میں ملبوس نوجوانوں کی رنگ رلیاں۔ اس گاؤں کے لوگ معلوم ہوتا تھا، کھانے اور پہننے کے کافی شوقین ہیں۔ اس لیے بازار میں ضرورت کی دوسری چیزوں کو ڈھونڈنے لیے نگاہوں کو زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی۔ گاؤں میں دوسری اٹھائیس فی صد آبادی ہندوؤں کی تھی۔ اور ان میں بھی زیادہ تر اونچی ذاتوں سے تعلق نہ رکھتے تھے۔ مگر جو بات دونوں قوموں کو اس گاؤں میں ایک ہی مشترک نکتے پر لاکھڑا کرتی تھی وہ تھی یہاں کی لاعلمی اورجہالت۔ لوگوں نے مذہبی تہواروں میں طرح طرح کی پائپیں لگا کر رسموں کی سہولتوں کا پانی اپنے اپنے گھروں تک پہنچادیا تھا۔ وقت گزر رہا تھا، ترقی کے نام پر ملک تھری جی اور فور جی کے نت نئے تکنیکی تاروں سے خود کو جوڑ رہا تھا، مگر یہاں کا جو حال تھا سو تھا، پڑھائی کے نام پر گاؤں میں چند دسویں جماعت تک کی تعلیم دینے والے سکول اور دو کالج تھے، جن میں گریجویشن کی منزل تک پہنچایا جاتا تھا۔ یہاں کی بیشتر آبادی برسوں سے پانچویں اور دسویں کے بیچ میں جھول رہی تھی، جو کالج کا منہ دیکھتے تھے، وہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد اکثر شہروں کا رخ کرلیا کرتے تھے۔ دور سے دیکھنے پر یہ جگہ یکجتہی کی مثال معلوم ہوتی تھی، مگر گھروں، محلوں میں آئے دن لڑکوں میں سر پھٹول ہوتا ہی رہتا تھا۔ لیکن اچھی بات یہ تھی کہ ہندو مسلم فساد کی نوبت یہاں بہت کم آئی تھی۔ دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے رویے سے کوئی خاص شکایت نہیں تھی۔

ظفر چوک یہاں کا سب سے بارونق محلہ تھا۔ اسی کے چھوٹے سے بازار میں ایک قصائی کی دوکان پر صبح کے نو بجے تازہ تازہ گوشت کانٹوں میں لٹکا ہوا تھا، کچھ پر چاندی کا ورق بھی لگا تھا۔ اندر سل پر ایک بوڑھا خون آلود شرٹ اور لنگی پہنے اکڑوں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے پڑا تھا ایک گول ٹھیہا۔ اس ٹھیہے پر رکھے ہوئے گوشت کو اس کا مشاق ہاتھ تیزدھار چاقو سے کاٹ کاٹ کر چھوٹی اور صاف بوٹیاں تراش رہا تھا۔ باہر پانچ چھ گاہک کھڑے اپنی اپنی پسند کا گوشت نکلوارہے تھے۔ کسی کے گھر پسندے بننے تھے، کہیں قورمہ، کہیں پلاؤ کا اہتمام ہونا تھا تو کہیں کوفتے کے لیے قیمے کی ضرورت تھی۔ اسی سل پر آگے کی طرف تنگ سی جگہ پر ایک جوان لڑکا پلوتھی مارے بیٹھا مشین سے قیمہ نکال رہا تھا، وہ ایک طرف سے کٹے ہوئے پتلے گوشت کی پھانکیں مشین میں ڈالتا اور دوسری جانب سے باریک قیمہ کی شکل میں گوشت باہر برآمد ہوتا جاتا۔ بوڑھے کا نام مشتاق تھا اور وہ اس پررونق بازار کا سب سے مصروف قصائی تھا، اس کے برابر بیٹھا جوان لڑکا تھا صادق، جس کی عمر اندازے سے بتائی جائے تو پچیس کے پیٹے میں ہو گی۔ ساتھ ہی ساتھ ایک اور لڑکا، جو گاہکوں کے تیار شدہ گوشت کو کالی تھیلیوں میں بھر بھر کر انہیں تھماتا جارہا تھا، اپنی عمر سے کوئی سترہ برس کا معلوم ہوتا تھا۔ ابھی ایک سال پہلے نویں جماعت میں دو بار فیل ہونے کی وجہ سے اس کو سکول سے اٹھا کر دوکان پر ہاتھ بٹانے کے لیے ساتھ لگالیا گیا تھا۔

مقبول کی فطرت میں زیادہ کجی نہیں تھی، کانسے جیسا اس کا رنگ، مونچھیں پھوٹتی ہوئی، بال کانوں پر اترے ہوئے، قلمیں ٹیڑھی بانکی۔ گھر اور باہر کے کام کاج میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کا کالر کچھ زیادہ ہی میلا رہا کرتا تھا۔ نہ کوئی دوست، نہ ہمنوا۔ جتنے برس سکول میں رہا، وہاں بھی پڑھائی میں اپنے بودے ہونے کے احساس نے اسے دوسرے لڑکوں سے دور رکھا۔ گھر پر ایسی کوئی سختی نہ تھی۔ باپ کا اصول تھا کہ جتنا کام کہہ دیا جائے، بس وہ وقت پر ہوجائے تو ہاتھ اٹھانے کی زحمت ہی نہ کرنی پڑے،اس لیے زیادہ تر وہ کئی کام اشاروں کی زبان میں ڈھلتے ہی مکمل کردیا کرتا۔ ماں تو مٹی کی مادھو تھی، گھر کا کام، سلائی کڑھائی سے اسے زیادہ فرصت نہ ملتی۔ گھر اور دوکان دونوں جگہوں پر صاف صفائی کا کوئی زیادہ اہتمام نہیں تھا۔ گھر میں ایک بوڑھی دادی بھی تھیں جو مقبول کو چاہتی تو تھیں مگر وقت نے ان کی زبان گنگ کردی تھی۔ زیادہ تر اشاروں میں اپنی باتیں بتایا کرتیں اور شرمندگی سے بچنے کے لیے اس سے بھی زیادہ وقت خاموش رہا کرتیں۔ صادق اپنے کام سے کام رکھنے والا لڑکا تھا، محلے میں اس کے کئی دوست تھے، ایک محبوبہ تھی۔ جو کہ اکثر گھر بھی آیا کرتی تھی۔ نام تھا رابعہ۔ چھریرا بدن، لمبوترا چہرہ، رنگ اتنا گورا جیسے درخت کی الٹی چھال ہو۔ اس لیے صادق کو مقبول کے ساتھ وقت بتانے کا نہ کبھی خیال آتا تھا، نہ کبھی فرصت ملتی تھی۔ دوکان سے شام کو فارغ ہوتے ہی وہ نئی موٹر سائیکل لے کر اپنے دوستوں کے ساتھ نہ جانے کہاں کے لیے نکل جاتا اور جب گھر آتا تب تک تو مقبول کے فرشتے بھی سوچکے ہوتے تھے۔

مقبول صبح صبح دوکان پہنچتا تو اس کی پہلی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ حاجی فدا علی کے گھر گوشت پہنچا کر آنے کی۔ ان کا گھر تھا پانچ میل دور اور کسی دن کا ناغہ نہیں، مقبول چونکہ موٹر سائیکل چلانا نہیں جانتا تھا اس لیے وہ پیدل پیدل ہی باپ کا حکم سرآنکھوں پررکھ کر چل پڑتا۔ فدا علی کے گھر کی جانب جانے والا راستہ گاؤں کے ایسے کنارے پر تھا، جہاں آبادی برائے نام بھی نہ تھی۔ راستے میں کتے جگہ جگہ ڈیرہ ڈالے اونگھتے رہا کرتے، رات بھر کی ان کی چونچالیوں کی تھکن ان کی بجھی ہوئی تھوتھنیوں میں اتر آتی۔ کوئی ٹوٹے پھوٹے بوسیدہ ٹھیلے کے نیچے لیٹا سو رہا ہے، کوئی کسی پیڑ کی چھاؤں میں آرام فرما ہے، یہاں تک کہ فدا علی کی کوٹھی کے باہر سیمنٹ کے ایک اوبڑ کھابڑ اوٹے پر بھی دو تین کتے اپنی پسلیوں کو پھلاتے، پچکاتے، آنکھیں بند کیے دنیا و مافیہا سے بے خبر نظر آتے۔ دھوپ ہو، بادل منڈراتے ہوں یا برسات کی جھڑی لگی ہو۔ گوشت ہرحال اور ہر موسم میں حاجی جی کے گھر ضرور پہنچایا جاتا تھا۔ راستے میں ایک جگہ پر چھوٹے سے ایک خوبصورت قدرتی تالاب میں بطخیں تیر رہی ہوتیں، کنول کے پتے پانی پر ایسے رقص کر رہے ہوتے جیسے بڑے بڑے سمندروں کے خاموش آبی پردے پر جہازی دیویاں ڈولا کرتی ہیں۔ یہیں ایک بڑے سے پتھر پر وہ روزانہ تھوڑی دیر سستانے کے لیے آتے جاتے بیٹھ جایا کرتا تھا۔ اس کے دن بھر کی پھیکی روکھی زندگی میں یہ ایک سرسبز لمحہ تھا، جس میں خود کو ان تمام درختوں، سایوں، ہواؤں، تالاب، بطخوں اور کنول کے پتوں کا بادشاہ تصور کرتا تھا۔ یہ شاید دنیا کی ان چند خوش نصیب جگہوں میں سے ایک جگہ تھی، جن پر موسم کی سختی اپنا کوئی برااثر نہیں ڈال سکتی۔ اس کو محسوس ہوتا جیسے پانی میں تیرتی ہوئی بطخوں کی ٹرٹر میں کوئی گیت ہے، جو ہواؤں کی بالیوں سے ٹکراکر ایک ترنگ پیدا کرتا ہے، ایسا سرور، جو شاید گوشت کی تازہ، مہین اور خوبصورت پھانک کو دیکھنے پر بھی نہ ملتا ہو۔ اس نے اپنے اس چھوٹے سے مسحور کن اڈے کا نام ‘ہوائی’رکھ دیا تھا۔

ایک روز کا ذکر ہے، مقبول گوشت دے کر واپس لوٹ رہا تھا۔ موسم بڑا خوشگوار تھا، وہ دل ہی دل میں یہ سوچ کرخوش ہورہا تھا کہ آج ہوائی پر پہنچ کر زیادہ ہی لطف آئے گا۔ ممکن ہے کہ ہلکی پھلکی برسات بھی ہو۔ اس سے پہلے ایسا سوندھا اور دھنک میں لپٹا ہوا موسم ابھی تک ہوائی پر سے نہ گزرا تھا۔ کم از کم مقبول کے مشاہدے میں تو یہ بات نہ آئی تھی۔ وہ آج سارے منظر کو گھول کر پی جانا چاہتا تھا۔ اس کے ایک ایک گھونٹ کو بڑی آہستگی سے اپنے حلق سے اتارنا چاہتا تھا۔ آس پاس چڑیائیں چہچہارہی تھیں، ہواؤں کے غول اس کے سر پر سے شرارتیں کرتے اڑے جارہے تھے، وہ بادلوں کے بنتے بگڑتے چہرے دیکھتا، نشے کی سی چال میں آگے بڑھ رہا تھا۔ ہوائی کے جس پتھر پر وہ بیٹھا کرتا، وہ اسے دور ہی سے دکھ جایا کرتا تھا۔ یہ ایک کالا، بڑا سا پتھر تھا، جو زمین پر کسی پیڑ کی طرح اگا ہوا تھا، معلوم ہوتا تھا اس کی جڑیں بھی اندر ہی اندر دوسرے درختوں کی شاخوں کے ساتھ پانی جذب کرکر کے مضبوط ہوتی چلی گئی ہیں۔ اچانک مقبول کی نظر جب اس پتھر پر پڑی تو پہلے تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ ایک سفید رنگ کی آدمی نما سی کوئی شے اس بڑے سے کالے پتھر پر بیٹھی ہوئی خلا میں گھور رہی تھی۔ یہ آج کیا ہوا؟ ادھر، اس کی مملکت میں، کیسے کوئی دوسرا ذی نفس درآیا تھا۔ کس طرح کسی دوسرے انسان کو اس چھپی ہوئی دولت کا علم ہوا تھا۔ اس کے اندر یک بہ یک رقابت اور جلن کے مادے نے آنکھیں کھول دیں اور وہ کسی آتش فشاں کے ساتھ ابلنے والے لاوے کی طرح بہتا ہوا تیزی سے اپنے اڈے کی جانب بڑھنے لگا۔ ہانپتے ہوئے سینے کے ساتھ جب وہ یہاں پہنچاتو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ذی نفس اصل میں ایک عورت ہے۔ جو سفید ساڑھی باندھے اس پتھر پر بڑے آرام سے براجمان ہے۔ اس کے کھلے ہوئے بال، کمرسے کچھ اوپر تک پھیلے ہوئے ہیں، بلاؤز کے نیچے سے جھانکتی ہوئی شفاف بادامی کمرآرام سے بیٹھی موسم کی خوشگواری اور نظارے کی خوبصورتی کو مقابلے کے لیے للکار رہی ہے۔ بوندوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ بادلوں کا سینہ چیر کر اتر آئیں اور اس چمکتی ہوئی بادامی نہر میں ڈوب کر اس کا بوسہ لے لیں۔ مقبول کی نگاہوں کی تپن تھی یا پھر اس کی ہانپ کا اثر، عورت نے محسوس کرلیا کہ پیچھے کوئی کھڑا ہے، یکدم اس نے پلٹ کر دیکھا اور سامنے کھڑے ایک سترہ سالہ لڑکے کو دیکھ کر وہ حیرانی سے تاکتی رہ گئی۔ وہ اس سے عمر میں دوگنی ہو گی۔

‘اے لڑکے! یہاں کیسے؟’عورت نے سوال داغا۔
‘م۔ ۔ م۔ ۔ میں تو یہاں روز آتا ہوں۔ ۔ ۔ آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

عورت نے اس کا الھڑ سا ہمت آمیز جواب سن کر مسکرانے کو ترجیح دی۔ اشارے سے اسے برابر کے ایک کم قدآور پتھر پر بیٹھنے کا حکم دیا۔ مقبول نے اپنی فطرت کے مطابق حکم کو مان لینے میں کوئی دیر نہ لگائی۔ تھوڑی دیر تک خاموشی رہی، پھر عورت نے کہنا شروع کیا۔

‘میں یہاں بچپن میں بہت کھیلا کرتی تھی، میں ہی کیا میری سہیلیاں بھی۔ یہ جو سامنے پیڑ دیکھ رہے ہونا۔ ۔ ۔ اسی کی چھالوں سے لٹک کرہم برساتوں میں پینگیں بھرا کرتے تھے۔ گانے گایا کرتے، بڑا مزہ آتا۔ دور دور تک نہ کوئی آدمی نہ آدم زاد۔ ایسی جگہ روز روز کہاں ملتی ہے۔ تم ہی بتاؤ۔ میں اور میری دو سہیلیاں تھیں، سارہ اور جوہی۔ ہم روز ہی آیا کرتے، پھر ایک دن معلوم ہوا کہ سارہ اور جوہی، جو کہ بہنیں بھی تھیں، دوسرے گاؤں چلی گئی ہیں، میرا من بہت اداس ہوا، مگر اس جگہ آتے ہی، اس کی گود میں اکیلے بیٹھ کر، اس سے اٹکھیلیاں کرتے میں سارا دکھ بھول گئی۔ تالاب میں کود گئی، دیر تک نہائی، بطوں سے چھیڑ چھاڑ کرتی رہی، باہر نکلی تو شام کا جھٹپٹا ہورہا تھا، گھر بھی جانا تھامگر دل میں دو تین پینگیں بھرنے کا لالچ آیا۔ ایک چھال سے لٹک کر مزے میں جھولا جھول رہی تھی، کہ ڈال ہی ٹوٹ گئی اور دھاڑ سے زمین پر آرہی۔ اس دن بھی موسم کچھ ایسا ہی تھا،بادلوں کے کجرارے نین،یونہی اداس ٹپک پڑنے کو بے قرار ہورہے تھے۔ میں گری تو موچ آگئی، چکر آیا اور وہیں ایک پتھر سے سر ٹکا کر لیٹ گئی، پوری رات سر سے گزر گئی، اگلا دن بیت گیا مگر کوئی پوچھنے یا لینے نہ آیا۔ آتا بھی کیسے؟ انہیں تو کوئی خبر ہی نہ تھی کہ میں یہاں ہوں، آخر اگلی شام گھسٹتے گھساٹتے جب گھر پہنچی تو بخار چڑھ آیا۔ کئی دن کی منتوں، پٹیوں اور پوجاؤں کے بعد ہوش آیا تو دوسرے گاؤں میں تھی۔ میری ماں نے مجھے اپنی موسی کے یہاں بھیج دیا تھا۔ بتاتے ہیں کہ معیادی بخار تھا، ٹوٹتے ٹوٹتے اکیس دن لے گیا۔ میں کب اس خوبصورت جنت سے نکل کر ایک بھری پری اصل اور بدصورت دنیا میں پہنچ گئی، مجھے پتہ ہی نہ چلا۔ ماں نے بھی اس بیچ میں گاؤں چھوڑ دیا۔ اب یہاں واپسی کا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔ یہ تالاب، بطخیں، ہوائیں، جھولے، پیڑ، پودے سب میرے لیے بس ایک کہانی بن کر رہ گئے تھے۔ سارہ اور جوہی سے کبھی ملنا ہی نہ ہوا۔ شادی ہوئی، بچے ہوئے، لیکن جیے نہیں۔ اسی لیے تنگ آکر میرے پتی نے مجھے چھوڑ دیا۔ گھر سے نکالی گئی تو کوئی اور جگہ سمجھ نہ آئی، اس لیے سیدھی یہیں چلی آئی ہوں۔ حیرت ہے کہ دنیا دن بدن بدل رہی ہے، لوگ اور زیادہ دھن دولت کمانے کی فکر میں ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں، مار رہے ہیں، ٹھگ رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر ہر وقت کچھ حاصل کرنے کی ہیبت نظر آتی ہے، مگر یہ جگہ۔ ۔ ۔ یہ جگہ آج بھی اتنی ہی شانت، اتنی ہی پرسکون ہے۔ اس میں اب بھی کوئی ہیبت نہیں، جیسے یہ اس دنیا کا حصہ ہی نہیں۔ ‘

مقبول اس کی باتیں دھیان سے سن رہا تھا، اچانک اسے دھیان آیا کہ باتوں ہی باتوں میں اتنا وقت بیت گیا ہے کہ اس کے ابا کو تشویش ہونی شروع ہوگئی ہوگی۔ اب تک تو اسے دوکان پر ہونا چاہیے تھا، وہ اٹھا اور کچھ بولے بغیر ہی جلدی جلدی قدم بڑھاتا ہوااپنے راستے پر ہولیا۔ عورت اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی، اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔ جاتے وقت مقبول نے ایک ہلکی سی آواز سنی، عورت نے فریاد کی تھی کہ ممکن ہو تو مقبول اسے کچھ کھانے کے لیے لادے۔ مگر وہ رک نہیں سکتا تھا۔ وہ دوکان پہنچا تو حسب توقع باپ نے سوالات کی بوچھاڑ کردی، اتنی دیر کہاں لگادی، سب خیریت تو رہی، گوشت پہنچ گیا یا نہیں؟فلاں فلاں۔ سوالوں سے تو وہ بچ نکلا مگر اس عورت کے خیال اور اس کے حسن کے اثر نے اسے سارے دن اپنا گرویدہ رکھا۔ شام کو جب دوکان سے گھر آیا تو نہاتے دھوتے، کھاتے اور سوتے وقت بھی اسی عورت کا خیال سر پر منڈرارہا تھا۔ پوراد ن بیت گیا، کیا اس عورت نے کچھ کھایا ہوگا؟ کیا وہ اب تک وہیں بیٹھی ہوگی؟ جس طرح اس نے جھولے سے گرنے کے بعد اپنے بچپن کی ایک پوری کالی رات اس جگہ بتادی تھی اور کوئی اسے پوچھنے بھی نہ آیا تھا، کیا آج بھی وہ اسی طرح بھوک اور تڑپ سے نڈھال کسی پتھر سے سرٹکاکر کسی بھولے بھٹکے راہ گیر کی چاپ پر کان ٹکائے ہوگی؟ بچپن کے حادثے کے وقت تو کوئی بھی اس بات سے باخبر نہیں تھا، مگر آج تو وہ اس عورت کی ساری کہانی جانتا تھا۔

رات کے قریب ساڑھے دس بجے وہ اپنے کمرے سے نکلا، باہر ہلکی پھلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔ صادق اور ابا دونوں ہی گھر میں نہیں تھے، ماں اپنے کمرے کی بتی بجھا کر گہری نیند سورہی تھی۔ دادی کا کہیں اتا پتہ نہ تھا، شاید وہ بھی اپنے کمرے میں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہوگی۔ مقبول خاموشی سے کچن میں داخل ہوا، لائٹ جلانے ہی لگا تھا کہ نیچے رکھے کسی برتن سے اس کا پیر ٹکرایا اور چھن کی آواز پورے گھر میں گونج گئی، وہ دانت پر دانت رکھے، چپکے سے اس آواز کے ردعمل کا انتظار کرنے لگا۔ مگر بیس تیس سکینڈ گزر جانے پر بھی کچھ نہ ہوا۔ ماں کی آنکھ یا تو کھلی ہی نہ ہوگی اور اگر کھلی ہوگی تو اس نے سوچا ہوگا کہ کوئی بلی ولی آئی ہوگی۔ پتیلیوں میں جھانکا تو چھلکوں والی مسور کی کالی دال پیندے سے لگی ہوئی تھی، اس نے ایک چھوٹے ڈونگے میں دال الٹ دی، اور اسی میں دو پراٹھے رکھ کر، اسے ڈھکنی سے بند کیا۔ پھر کمرے میں جا کر اپنے سکول بیگ کو اچھی طرح جھاڑا، جو قریب سال بھر سے نہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے کاٹھ کباڑ کی چیزوں کی طرح گردآلود ہوگیا تھا، ڈونگا بیگ میں رکھ وہ دروازہ کھول کر باہرآیا، دروازہ بھیڑ کر، جب وہ سیڑھیاں اتررہا تھا تو اس نے دور سے اپنے بھائی صادق کی موٹر سائیکل کو آتے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ صادق یہاں پہنچتا وہ تیزی سے سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔ صادق کے سیڑھیوں پر قدم رکھنے سے پہلے وہ گلی کے باہر تھا۔

کالی رات بھائیں بھائیں کرتی ہوئی ہواؤں کے ساتھ مل جل کر کالا جادو کر رہی تھی۔ جیسے کوئی بھبھوت لگا ہوا سادھو مرگھٹ پر بیٹھا کوئی شیطانی منتر پڑھ پھونک رہا ہو۔ سنسان راستے پر کتوں کی بھونکائیاں، سیاروں کی چمکتی ہوئی آنکھیں، جھکڑوں کے چڑیلوں جیسے پنجے۔ الغرض وہ ڈرتا سہمتا، کندھے سے بیگ لٹکائے، دونوں ہاتھوں میں پتھر اٹھائے، ٹی شرٹ اور ہاف پینٹ میں آگے بڑھتا جارہا تھا، اتنے اندھیرے میں ممکن تھا اسے ہوائی نظر ہی نہ آتی، مگر ایسا ہوا نہیں، کچھ دیر بعد موسم بہتر معلوم ہونے لگا، ہوائیں خوش گوار ہوگئیں، کہیں سے کوئی آسمانی اجالا دور تک پھیلے ہوئے منظر کو ایک نیلی روشنی میں ڈبوتا چلا گیا تھا۔ مقبول سمجھ گیا کہ ہوائی نزدیک ہے۔ اس نے اسی روشنی کی مدد سے اس بڑے سے پتھر کو دیکھ لیا، وہاں اب عورت نہیں تھی، وہ قریب قریب دوڑتا ہوا پہنچا، ادھر ادھر دیکھا، اچانک اس کی نظر پیڑ کے نیچے لیٹے ہوئے ایک سفید ہیولے پر پڑی۔ وہ آگے بڑھا، عورت اپنے بھوکے اور نڈھال وجود کو سنبھالے پیڑ سے لگی نہ جانے کیسے سورہی تھی، سو بھی رہی تھی یا خود کو دھوکا دے رہی تھی۔ کیا پتہ؟ مقبول نے اس کے کندھے کو ہلکے سے ہلایا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اس اندھیرے منظر میں بھی، اس کی آنکھیں کسی نیل گائے کی مدھ بھری نگاہوں کی مانند بڑی اور جھیل جیسی دکھائی دے رہی تھیں، اس کے گورے گالوں اور ہلکے گلابی ہونٹوں پر پانی کی چھینٹیں ایسے پڑی تھیں، جیسے قیمے کی دھدھکتی ہوئی تیزی پر چھڑکا ہوا نیبو کا عرق ہو۔ کسی بے باک اور تند چھری کی طرح اس کا سینہ نکیلا اور دھار دار تھا۔ پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں، جن سے شفاف سفیدیوں کے دھارے ابلتے ہوئے ہری گھاس کی بوڑھی جھائیوں میں جذب ہوتے جارہے تھے، جیسے حاجی جی کے کمپاؤنڈ میں لگا ہوا فوارہ نت نئےآبی گل کھلا کر پھر خود کو زمین کی بھوری نگاہوں میں انڈیل دیتا ہے۔

عورت حیرت سے دیکھ رہی تھی، اس کا ایک ہاتھ مضبوطی سے مقبول کے ہاتھ کو تھامے ہوئے تھا۔ مقبول نے نیچے بیٹھ کر اپنے بیگ سے ڈونگا نکالا اور ایک ایک نوالہ بنا کر اسے پیار سے کھلاتا رہا۔ عورت درخت سے ٹیک لگاکر نیم دراز ہوگئی تھی،ایک نوالے پر اسے دھانسہ لگا تو مقبول بھاگ کر تالاب سے چلو میں بھر کر پانی لایا اور اسے پلا دیا۔ ہر نوالہ پہلے سے زیادہ، عورت کی آنکھوں کی کھوئی ہوئی چمک کو لوٹا رہا تھا، جیسے اس میں کوئی برقی رو بھرتی جارہی ہو۔ کھانا کھلا کر مقبول نے تالاب میں ہاتھ دھوئے، عورت نے بھی وہیں پہنچ کر پانی پیا۔ اب وہ دونوں اسی درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ اچانک بادلوں میں گڑگڑاہٹ شروع ہوئی اور برسات نے دھاوا بول دیا۔ مقبول کے چہرے پر بیک وقت خوشی اور اداسی کا سا سماں چھاگیا۔ خوشی اس بات کی کہ موسم خوشگوار ہے،ہر طرح کی خوبصورتی اور تنہائی کی آغوش میں بیٹھا وہ اپنے نصیب کی چمک اور اپنی تنہائی پسندی کے اعزاز پر فخر کرسکتا ہے اور اداسی اس بات کی کہ اگر ابا یا صادق کو گھر پر اس کی غیر موجودگی کا علم ہوگیا تو ڈھونڈ پڑجائے گی اور اس بات کا مطلب اس کی شامت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ مگر اب کچھ کیا نہیں جا سکتا تھا۔ مقبول، عورت کے برابر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا، وہ عورت بھی ایسے ہی انہماک سے مقبول کو دیکھے جارہی تھی۔ دونوں کی نگاہیں گتھم گتھا تھیں، اچانک عورت نے آگے بڑھ کر اپنے بھیگے ہونٹوں کی شبنم کو مقبول کی زبان پرر کھ دیا۔ مقبول کو ایسا لگا جیسے اس نے اپنی زبان کو کسی لبلبلے اور تازہ بکرے کی ران سے بھڑا دیا ہو۔ وہ اپنی بھیگی اور ہلکی نگاہوں سے عورت کے اس پہلے لمس کو اس کی گردن پر پھیلتے ہوئے پانی کے ساتھ لمحہ لمحہ دیکھنا چاہتا تھا، عورت کی آنکھیں بند تھیں، مگر اس نے اپنے وجود کی ساری آنکھیں کھول دی تھیں۔ عورت نے اسے لٹادیا اور خود اس کے بدن پر کسی سائے کی طرح پھیل گئی، اب اس کی ساڑی اتر چکی تھی،سینے کے دو تیز دریا مقبول کی مٹھی میں تھے اور مقبول کی سانسیں تیزی سے اوپر نیچے دوڑ رہی تھیں۔ خون کا دوران اور دل کی دھڑکن اتنی تیز ہوگئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا بدن ابھی پھٹ پڑے گا۔ عورت کے بالوں سے ڈھکے ہوئے اپنے چہرے کو اس نے اس سے پہلے اتنا شاداب اور ایسا فرحاں کبھی محسوس نہیں کیا تھا، یہ کیسی خوشی تھی جو رگ رگ سے پھوٹی پڑرہی تھی، جس سے خوف بھی آرہا تھااور جس سے جدا ہونے کا دل بھی نہ چاہتا تھا،مقبول کے دل میں اس عورت کی جھیل جیسی نگاہوں کو دیکھنے کی للک تیزی سے سوار ہوئی، اس نے اپنے ہاتھ کو عورت کی کمرپر سے رینگتے ہوئے اوپر کی جانب کھسکایا، بال سرکائے تو دیکھا کہ عورت اس کے سینے پر سر رکھےبے خبری کے عالم میں سورہی ہے۔ مقبول نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک نیم دائرہ بنا کر اس کے پورے بھرے بدن کو اپنے حصار میں لے لیا۔ آج اس کی مملکت میں ایک بیگم بھی شامل ہوگئی تھی۔ وہ اطمینان سے آنکھیں بند کرکے اس خواب سرا کی سبز قالین پر خود بھی سوگیا۔ جب آنکھ کھلی تو اذان کی ہلکی سی آواز اس کے کان میں آرہی تھی، برسات رک چکی تھی، بادلوں کی ٹولیاں ویسے ہی آسمان کی چھالوں سے لٹکی پینگیں بھررہی تھیں، وہ جانتا تھا کہ گھر پر ڈھونڈ پڑ گئی ہوگی، مسجدوں سے اعلان کروادیے ہوں گے، اس کی گمشدگی کی خبر دور و نزدیک گاؤں میں ہر طرف اب تک پھیل چکی ہوگی، ماں کا رو رو کر برا حال ہوگا، صادق اپنے دوستوں کے ساتھ موٹرسائیکلوں کی مدد سے جگہ جگہ اسے تلاش کررہا ہوگا، بوڑھا باپ یہاں سے وہاں پریشانی کے عالم میں ٹہل رہا ہوگا، دادی کی گونگی زبان اس کی ہلکی سی خبر مل جانے کی دعائیں مانگ مانگ کر سوکھ گئی ہوگی، اس کی زندگی سے جڑے تمام لوگوں کی رات اتھل پتھل ہوگئی ہوگی مگر یہاں اس کی ایک رات کی انتہائی خوبصورت بیگم، سفید ساڑی سے بے نیازبے خبر اس کے سینے پر لیٹی ہوئی تھی اور مقبول میں اتنی جرات نہیں تھی کہ اس کی جوان نیند کے کندھوں کو تھپتھپاکراسے ہوشیار کردے،اس نے دیکھا بھرپور نیند کے عالم میں بیگم صاحبہ کے ہونٹ نیم وا ہوگئے تھے، مقبول نے ایک گہری سانس بھری اور بائیں ہاتھ کی انگلی سے ان ادھ کھلے ہونٹوں کو آہستگی سے بند کردیا۔

Leave a Reply