Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

میرے قاتل میرے دلدار

test-ghori

test-ghori

17 اپریل, 2015

youth-yell-featured

جب اپنی قوم اور معاشرے کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے ماسوا ئے چند گنے چنے لوگوں کے ہم بھی فیض صاحب کے مصرعے کے مصداق اپنے قاتلوں کو دلدار بنا کرانید محبت میں بری طرح مبتلا ہیں۔ جن لوگوں نے بار بار ہمارے اعتماد کا خون کیا اور جو ہمیں اس حال تک پہنچانے کے براہ راست ذمہ دار ہیں ہم بخوشی نہ صرف انکی چاکری کرنے کوتیار ہیں بلکہ اپنے ہی جیسے مظلوموں کو انکے شکنجے میں پھنسانے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں۔
اگست 1973 میں سویڈن کے دارلحکومت سٹاک ہوم کے ایک بنک کے عملے کو کچھ ڈاکووں نے 6 دن کے لیے یرغمال بنا لیا، رہائی کے بعد مشاہدہ ہوا کہ مغوی نہ صرف مجرموں کے ہمدرد بن چکے ہیں بلکہ وہ انکے نقطہ نظر کو اس حد تک درست جاننے اور حق ماننے لگے تھے کہ انہوں نے حکام کی مدد لینے سے بھی انکار کر دیا۔ اس عجیب و غریب حالت کو بعد میں ایک نفسیاتی بیماری سٹاک ہوم سنڈروم کا نام دیا گیا۔ یہ ایک ایسی ذہنی حالت ہے جس میں شکار اپنے شکاری کا مخالف نہیں بلکہ مونس وغم خوار بن جاتا ہے اور جو کوئی اسے شکار ہونے سے بچانا چاہے وہ اس کے بھی خلاف ہو جاتا ہے۔
کرکٹ کے جوئے میں پکڑے جانے والے کھلاڑی، جعلی ڈگری کے بل بوتے پر ڈاکٹر کہلانے والے نام نہاد سیاستدان اور مسخروں جیسے علمائے دین ہرروز ہمیں الو بناتے ہیں اور ہم کھلی آنکھوں سے ان کے ہاتھوں دھوکہ کھاکے بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔
غور کیا جائے تو ہم اجتماعی طور پر اس بیماری کا شکار ہیں۔ نفسیاتی بیماریاں صرف افراد ہی نہیں بلکہ قوم اور معاشرے کو بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ ہم تو اپنااستحصال کرنے والوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ نہ صرف انکا بت بنا کر پوجا پاٹ کرتے ہیں بلکہ دوسروں سے بھی اسی کی توقع رکھتے ہیں۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ کسی کو بے وقوف بنانا آسان ہے مگر کسی کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ اسے بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔
ہمارا استحصال کرنے والے گروہ در گروہ ہمیں لوٹتے ہیں اور ہم مزاحمت کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ استحصالی نہ ہمیں جینے دیتے ہیں نہ مرنے۔۔۔۔۔۔۔مگر آفرین جائیں اس مغوی معاشرے پر جواپنے استحصالی گروہ کی بھیڑیے جیسی درندگی، لومڑی جیسی مکاری اور گدھ جیسی مردارخوری کا علم ہونے کے باوجود بھی راضی بالرضا ہے۔اپنے آس پاس دیکھ لیں ہم بخوشی کس کس کے ہاتھ مر رہے ہیں اور مسلسل مر رہے ہیں۔
 
یہ زمیندار یہ جاگیردار کیا، ہمارے معاشرے کے سب سے بڑے ناسور نہیں؟
 
یہ درگاہوں کے گدی نشین،یہ ملا، یہ مفتی، کیا ہماری گردنوں پر پاوں رکھ کر اونچے نہیں کھڑے؟
 
یہ صنعتکار و زردار کس کے خون پسینے کی کمائی سے تجوریاں بھر کر بیٹھے ہیں؟
 
یہ سول اور فوجی حکام کس کی خدمت کے نام پر آتے ہیں؟
 
یہ نام نہاد دانشور اپنا دکھ اور ہمدردی کس کے لیے دکھاتے ہیں اور فائدہ کہاں سے اٹھاتے ہیں؟
 
لیکن مسئلہ لوٹنے والوں کا نہیں بلکہ سٹاک ہوم سنڈروم اور نسیان کا شکار اس قوم کا ہے۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم سے جھوٹ بولا جارہا ہے اپنے قاتلوں کی وکالت اور دفاع کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمیں لوٹنے والے رہزن رہنماوں کے بھیس میں ہمیں صدیوں سے ہانک رہے ہیں لیکن ہم تو ان بازی گروں کو بھی سینے سے لگانے پر مصر ہیں جن کا جھوٹ سورج کی طرح صاف سامنے آ چکا ہے۔ کرکٹ کے جوئے میں پکڑے جانے والے کھلاڑی، جعلی ڈگری کے بل بوتے پر ڈاکٹر کہلانے والے نام نہاد سیاستدان اور مسخروں جیسے علمائے دین ہرروز ہمیں الو بناتے ہیں اور ہم کھلی آنکھوں سے ان کے ہاتھوں دھوکہ کھاکے بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ سوچیں کہیں ایسا تو نہیںکہ اس بوسیدہ معاشرے، دم توڑتی انسانیت اور بھوک و ننگ میں مبتلا لوگوں کو اس حال تک پہنچانے ذمہ دار ہم خود تو نہیں؟ اور کہیں ہماری خاموشی یا زبانی و عملی حمایت نے ہمیں سٹاک ہوم سنڈروم کا ایسا مریض تو نہیں بنا دیا جو اپنے اصلی دشمن کی پہچان کھو بیٹھا ہے ۔
وہ کون ہے جو ہم سے تنقید کا حق چھیننا چاہتا ہے؟کون ہے جو ہماری نظروں میں لکھے سوالوں سےکترا کر ہم سے سوال کرنے کا حق چھیننا چاہتا ہے؟ کون ہے جو قانون کی اوٹ میں چھپ کر اپنی غیر قانونی سرگرمیاں چھپانا چاہتا ہے؟
ہم سب کے اپنے اپنے من گھڑت دشمن ہیں ؛کسی کو یہود و ہنود و نصاری سے بغض ہے تو کسی کو شیع سنی مخاصمت کا عارضہ ہے کوئی احمدیوں کو غدار قرار دیتا ہے تو کوئی روشن خیالوں کی ہجو میں مصروف ہے، کسی کو ہر معاملے میں ہندوستان، اسرائیل، امریکہ اور یورپ کا ہاتھ دکھتا ہے اوربعض عرب ایران جھگڑے کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ اگر نہیں لیتے تو ہم ان اغواکاروں کا نام نہیں لیتے جنہوں نے ہمارے معاشرے کو یرغمال بنا کر، دوسروں کے ہاتھ بیچ کراور ہماری انفرادی زندگی اور اجتماعی عزت کی قیمت لگا کر اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی سنواری۔مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہ ناخدا جو پہلے ہمارے جسم و جان کے مالک تھے وہ اب ہماری سوچ اور روح کے مالک بنے جارہے ہیں۔اگر آپ مجھے جھٹلانا چاہتے ہیں توخوشی سے جھٹلائیں مگر پہلے ایک لمحہ اپنے اردگرد بسنے والے ان ناخداوں پر نظر ڈال لیں اور یہ بتا دیں کہ وہ کون ہے جو ہم سے تنقید کا حق چھیننا چاہتا ہے؟ کون ہے جو ہماری نظروں میں لکھے سوالوں سے کترا کر ہم سے سوال کرنے کا حق چھیننا چاہتا ہے؟ کون ہے جو قانون کی اوٹ میں چھپ کر اپنی غیر قانونی سرگرمیاں چھپانا چاہتا ہے؟