Laaltain

سر سید باپ بیٹا والداولاد تاریخ

12 اگست، 2015
تم پوچھتے ہو کہ میرا باپ کون ہے؟
سر سید میرا باپ ہے
سراج منیر تو غلام نسلوں کی
بغاوتوں کے
آخری لشکروں کا سپاہی تھا
اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے
میں اس کی اولاد ضرور ہوں
میں اس کا بیٹا نہیں ہوں

 

گو میری چمڑی
سڑی ہوئی گندم جیسی ہے
مگر سفید فام، موٹے خداؤں کی قسم لے لو
میری روح سفید ہے
میری سوچ سفید ہے
میرا لفظ بھی سفید ہے
مجھے ادھیڑ کر دیکھو
میرا خون بھی سفید ہے

 

سر سید کی نسل میں سے ہوں
میں چہرے پر چونا مل کر
اپنی تاریخ کو چونا لگا رہا ہوں
میں اپنے والد کی قبر پر کھڑا ہو کر
اپنی اولاد کو زنجیر ڈال رہا ہوں
کل اسی زنجیر کو دیکھ کر لوگ اس کو
سلام کریں گے
اس کی انگریزی سوچوں کے رعب میں آکر
اپنی نیندیں
اور اپنی اولادیں
حرام کریں گے
یہ شہنشاہِ وقت، صاحب بہادر، قبلہ امریکہ
جو یورپ دیوی کا
اور اس کی پانچ چھ صدیوں کی طویل رات کے کرب و اضطراب کا
ناجائز بیٹا ہے
یہ زنجیر مجھے اس نے دی ہے
کہ میں اپنی اولاد کو پہنا کر
اسے آزاد کر سکوں
مجھ سے میری اولاد کی خوشی نہیں دیکھی جاتی

 

کاش مجھ میں ابراہیمی روح ہوتی
اور خدا کے پاس
مینڈھے ختم ہو جاتے
مگر میں بزدل ہوں
بزدل تو میری اولاد بھی ہے
چھری تو اس کے ہاتھ میں بھی ہے
گردن میری بھی انتظار میں ہے
وہ میری سڑی ہوئی گندمی چمڑی کے پیچھے
میری شرمندہ سفیدی دیکھ رہا ہے
اسکو بھی پتا ہے میں نے
اپنی تاریخ کو خاموشی کے مقدمے میں
لپیٹ کر
اپنے والد کی قبر میں
اسکی سڑی ہوئی روح کے ساتھ
پھینک دیا تھا
میرا والد بہادر آدمی تھا
اس کو اپنی اولاد اور اسکی اولاد کی طرح
کانپنا نہیں آتا تھا
اسی لیے میں نے
ایسا باپ بنایا ہے
جو کانپتا رہا ہمیشہ

 

اب میں
سر سید کے مقبرے پر جا کر
بلکہ ان کے ٹومب پر جا کر
باپ باپ کرتا ہوں

3 Responses

  1. معاف کیجیے گا، انگریز کے سامنے کانپنے اور ضیا الحق کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے. بس یہ ہے کہ آج ہمارے بچے اتنے توانا ہیں کہ ہم ان کے سامنے لاف زنی کر سکتے ہیں اور ہم آپ انٹرنیٹ پر بیٹھے سرسید کی تذلیل کر پارہے ہیں، تو یہ سرسید ہی کی روایت کی پیروی کی بنا پر ممکن ہوا. کہیں سراج منیر مرحوم کے فکری مرشدین کے راستے پر چلنا لازم ٹھہرتا تو اس وقت زمین پر آلتی پالتی مارے تختی لکھ رہے ہوتے اور اپنے آس پاس بچوں کو پولیو اور چیچک سے مرتا دیکھ رہے ہوتے.

  2. Aap ki ghu­laam soch ko salaam. Zia ul Haq ko har muam­lay main kisi tarhan khench lanay ka fan bhi har kisi kai bas ki baat nhi hai. Lib­er­al halqay ka yaqeenan pasandeedah kaam hai. Aap ki galat feh­mi hai kai sir syed ki per­wi na kar­nay sai hum dun­ya sai peechai reh jatay. Cap­i­tal­ist nai aap kai haath main Lap­tops wagaira phir bhi thama denai thay.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

3 Responses

  1. معاف کیجیے گا، انگریز کے سامنے کانپنے اور ضیا الحق کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے. بس یہ ہے کہ آج ہمارے بچے اتنے توانا ہیں کہ ہم ان کے سامنے لاف زنی کر سکتے ہیں اور ہم آپ انٹرنیٹ پر بیٹھے سرسید کی تذلیل کر پارہے ہیں، تو یہ سرسید ہی کی روایت کی پیروی کی بنا پر ممکن ہوا. کہیں سراج منیر مرحوم کے فکری مرشدین کے راستے پر چلنا لازم ٹھہرتا تو اس وقت زمین پر آلتی پالتی مارے تختی لکھ رہے ہوتے اور اپنے آس پاس بچوں کو پولیو اور چیچک سے مرتا دیکھ رہے ہوتے.

  2. Aap ki ghu­laam soch ko salaam. Zia ul Haq ko har muam­lay main kisi tarhan khench lanay ka fan bhi har kisi kai bas ki baat nhi hai. Lib­er­al halqay ka yaqeenan pasandeedah kaam hai. Aap ki galat feh­mi hai kai sir syed ki per­wi na kar­nay sai hum dun­ya sai peechai reh jatay. Cap­i­tal­ist nai aap kai haath main Lap­tops wagaira phir bhi thama denai thay.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *