وہی رات ہے مگر اداس سی
وہی جگہ ہے مگر سونی سی
وہی گھڑی کی ٹک ٹک مگر روئی سی
شام کے 5 بجے تھے
جب روح تن سے جدا ہو کے پلٹی تھی
وہ سیڑھیاں چڑھا
ٹک ٹک سے ٹھوکر لگی
میں الوادعی بوسے کے ساتھ سوئی تھی
نیند کے پاؤں میں الجھتی بھاگی
میری گلیوں سے جانے والے کو کوئی موڑ لائے
وہ میری گلیوں کی بھول بھلیوں میں کھو کر
اپنے گھر کا رستہ بھول جائے
ہوا !!!
صحرا سے ریت لاؤ
اسے سراب بناؤ
وہ سرکٹ ہاؤس سے ہوتا
پگڈنڈیوں پہ چلتا
میرے گھر کی دہلیز پہ رکھ دے قدم
سنو!!!
میں نے سر شام ہی
ریت کے ہر ذرے میں سورج رکھ دیا ہے
یہ سورج میرا ہے
جب رستہ بھولو
یہ ہر ذرہ میں اگے گا
ذرے سے پھوٹتی کرنیں
گلی کی نکڑ پہ کھڑے
تمھیں رستہ دکھائیں گی
مگر رکو
میں خود تمھیں لینے آتی ہوں
پلٹنا نہ
میں اک پل سے پہلے آتی ہوں
یہ کیا۔۔۔؟
رات کا ایک بجا ہے
تم بستر کے سفر میں ہو
اس سے دو راتوں کی دوری کی کہانی سنتے
دو راتوں کے رت جگے کا کاجل
میری آنکھوں سے بہتے دیکھ کر روئے ہو
سونے سے پہلے یاد رکھنا
تم مجھے سرکٹ ہاؤس میں تنہا چھوڑ گئے ہو
Image: Henn Kim