اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان پہلے کی نسبت زیادہ محفوظ ہوا ہے، امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور لوگ پہلے کی نسبت زیادہ پرامید ہیں لیکن اس کے باوجود حملوں کی حالیہ لہر نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان ابھی بھی پوری طرح سے اس خطرے سے محفوظ نہیں اور ابھی بہت کیا جانا باقی ہے۔ کوئٹہ کے پولیو سنٹر پر حملہ اور چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ پاکستانی فیصلہ سازوں کے لیے اپنی حکمت عملی پر غور کرنے کا ایک نادر موقع ہیں۔ اس وقت ہمیں ایک مرتبہ پھر آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد جیسے اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور اپنی حکمت عملی پر غور کر کے اپنے قلعے مضبوط بنانے ہیں۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں اور یقیناً ان خطرات کے حوالے پیشگی سدباب کے لیے کوشاں بھی ہیں لیکن پھر بھی یہ ضروری ہے کہ ہم اس جنگ میں اپنی سمت اور اہداف کا زیادہ واضح اور حقیت پسندانہ جائزہ لیں۔ اس وقت پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جیتنے کے لیے داخلی اور خارجی محاذوں پر ان گنت چیلنجز کا سامنا ہے جو پاکستان کے استحکام کی جانب سفر کارُخ کسی بھی وقت دوبارہ ایک ناکام ریاست کی جانب موڑ سکتے ہیں، امریکی صدر باراک اوبامہ نے بھی اپنے آخری سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اس جانب اشارہ کیا ہے اور پاکستان کے کئی دہائیوں تک عدم استحکام کا شکار رہنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اگر پاکستان اپنے وعدوں کے مطابق طالبان کو مذاکرات کی میز پر نہ لا سکا جس کا غالب امکان ہے تو پھر پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے افغانستان میں مقیم دھڑوں کے مسلسل حملوں کی زد میں رہے گا۔
1۔ ٹی ٹی پی، افغانستان اور حقانی نیٹ ورک
ایک زمانے میں افغانستان پاکستان پر جس قسم کے الزامات عائد کرتا تھا آج ہمیں بھی اسی قسم کی شکایات افغان انتظامیہ سے ہیں۔ ماضی قریب میں حامد کرزئی پاکستانی انتظامیہ پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو پناہ دینے اور افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، چارسدہ حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی اور افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا منترا پڑھا جا رہا ہے۔ گو پاکستان، افغانستان اور امریکہ کی جانب سے مل کر اس معاملے کو سلجھانے کی جانب پیش رفت کا آغاز ہو چکا ہے اور چین، پاکستان، افغانستان اور امریکہ پر مبنی چہار فریقی (Quadrilateral) مذاکرات ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ امر یقیناً اس ادراک اور شعور کا غماز ہے کہ ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ طالبان اس خطے کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور انہیں سیاسی عمل میں مولیت پر راضی کیے بناء کوئی چارہ نہیں۔ لیکن طالبان کے حوالے سے ہمارے نقطہ نظر میں یہ تبدیلی بے حد تاخیر سے ہوئی ہے اور پاکستان کی جانب سے ماضی میں اپنائی گئی دُہری حکمت عملی کے باعث جو بد اعتمادی افغانستان اور پاکستان اور امریکہ اور پاکستان کے مابین موجود ہے وہ اس راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔ اگر پاکستان اپنے وعدوں کے مطابق طالبان کو مذاکرات کی میز پر نہ لا سکا جس کا غالب امکان ہے تو پھر پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے افغانستان میں مقیم دھڑوں کے مسلسل حملوں کی زد میں رہے گا۔
2۔ ہمارے جہادی اثاثے
پاکستان نے افغانستان میں جہاد کے دوران جو جہادی اثاثے تشکیل دیئے تھے بدقسمتی سے وہ اب پاکستان کے اثرورسوخ میں اس قدر نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے “مفادات” کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں جس قدر ہمارا اندازہ یا توقع تھی۔ طالبان دور حکومت میں ہم انہی طالبان کو اپنا ہمدرد خیال کرتے تھے جب کہ وہ قبائلی علاقوں پر پاکستانی عملدآری قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ہمارے خیال میں جو جہادی اثاثے ہم بعدازاں ہمارے مفادات کے لیے کام کرنے والے تھے وہ اس کے برعکس دنیا بھر کے جہادیوں کے لیے پناہ گاہ بن گئے۔ کشمیر کے معاملے پر ہندوستان کو الجھانے کی جو حکمت عملی ہم نے اپنائی وہ بھی ہماری افغان حکمت عملی کی طرح ہی غلط ثابت ہوئی، اور اس غلطی کی تمام تر ذمہ داری فوجی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ جہادی اثاثے کسی بھی وقت طالبان ہی کی طرح پاکستان مخالف ہو سکتے ہیں جس طرح ان کے بعض دھڑوں نے ماضی میں پنجابی طالبان اور تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی۔ پاکستان اسی لیے تاحال ہندوستان کو یقین دہانی کرانے باوجود ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کو تیار نہیں۔ لیکن جلد یا بدیر جیسے پاکستانی طالبان کے خلاف سوات اور فاٹا میں مذاکرات کی حکمت عملی ناکام ہوئی ہے اسی طرح پاکستان کو کشمیر جہاد کے لیے تیار کی گئی تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کرنا پڑے گا اور ہم جس قدر جلد یہ فیصلہ کریں گے اسی قدر جلد ہم امن کی جانب بڑھنا شروع کریں گے۔
ہمارے خیال میں جو جہادی اثاثے بعدازاں ہمارے مفادات کے لیے کام کرنے والے تھے وہ اس کے برعکس دنیا بھر کے جہادیوں کے لیے پناہ گاہ بن گئے۔
3- دہشت گردی کے خلاف اتفاق رائے کی کمی
آرمی پبلک سکول حملے کے بعد بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں، عسکری قیادت اور عوام دہشت گردوں کے خلاف متحد ہیں لیکن درحقیقت یہ اتفاق رائے بے حد سطحی، عارضی اور محدود نوعیت کا ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں محض فوج کی مخالفت نہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کے خلاف ہیں، عمران خان، نواز شریف، فضل الرحمان اور جماعت اسلامی سمیت بیشتر سیاسی قوتیں دہشت گردوں کے یا ان کے چند دھڑوں کے تو خلاف ہیں لیکن دہشت گرد نظریات کے خلاف ان کا اتفاق رائے نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کیا یہ جماعتیں کل کلاں کو فوج کی طالبان سے متعلق حکمت عملی تبدیل ہونے کے بعد بھی دہشت گردوں کی مخالفت کو تیار ہوں گے یا نہیں۔
اس ضمن میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے کسی ٹھوس نظریاتی اور عملی صورت میں موجود ہے بھی یا نہیں۔ کراچی میں جاری مجرمانہ دہشت گردی، پاکستان بھر میں موجود مذہبی دہشت گردی اور بلوچستان میں جاری مسلح مزاحمت پر سیاسی جماعتوں کے درمیان کیا اتفاق رائے موجود ہے اور کس حد تک ہماری سیاسی قیادت سنجیدہ ہے، اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ ہر جماعت اور خود فوج بھی صرف اسی قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے جو اسے براہ راست نشانہ بنا سکتی ہے۔ تمام دھڑے صرف اسی قسم کی دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو تیار ہیں جو ان کے مفادات کو نقصان نہ پہنچائے۔ مثلاً پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف عرسے سے پرزور آواز اٹھا رہے ہیں لیکن کراچی میں موجود سیاسی جماعتوں کے مسلح جتھوں کے خلاف کارروائی کی مزاحمت کرتے آئے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کراچی آپریشن میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن پنجاب میں موجود دہشت گردوں کے مدارس اور پناہ گاہوں کے حوالے سے کچھ خاص سرگرم نہیں۔ عمران خان ایک عرصے تک دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر احتجاج کرتے چلے آئے ہیں اور این اے 122 کے انتخابات میں کالعدم تنظیموں سے ووٹ مانگنے سے بھی نہیں چُوکے۔ جماعت اسلامی اور مولوی فضل الرحمان بھی افغان طالبان اور مدارس کے خلاف کارروائی کو تیار نہیں۔ حتیٰ کہ فوج بھی لشکر طیبہ یا جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کام کرنے کو تیار نہیں۔ اس حوالے سے بھی معلومات موجود نہیں کہ فوج کے اندر طالبان اور جہاد کے حوالے سے پائے جانے والی حمایت کس حد تک کم ہوئی ہے۔ یہ اتفاق رائے عوامی سطح پر مزید مفقود ہے۔ ابھی بھی پاکستان میں ایک بڑی اکثریت دہشت گردوں کے مقاصد اور نعروں کی مخالفت کو تیار نظر نہیں آتی۔ خلافت، مذہبی حکومت اور شرعی نظام کے خلاف عوامی سطح پر بات کرنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ حال ہی میں بلدیاتی انتخابات کے دوران راہ حق پارٹی کے ساتھ مختلف جماعتوں کے سیاسی اتحاد سے بھی پاکستانی سیاستدانوں کے دہشت گردوں کے خلاف عزم کی قلعی کھل جاتی ہے۔
آرمی پبلک سکول حملے کے بعد بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں، عسکری قیادت اور عوام دہشت گردوں کے خلاف متحد ہیں لیکن درحقیقت یہ اتفاق رائے بے حد سطحی، عارضی اور محدود نوعیت کا ہے۔
4۔ سول اداروں اور سول قیادت کی عدم فعالیت
پاکستانی سیاسی قیادت اور سول ادارے تاحال خود کو اس قدر فعال اور مضبوط ثابت نہیں کر سکے کہ کیا وہ واقعی اس اہل ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کوتیار ہیں اور فوجی آپریشن کے خاتمے کے بعد کراچی، خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کا انتظام سنبھال سکیں گے۔ قومی سطح پر انسداد دہشت گردی کا ادارہ تاحال فعال نہیں بنایا جا سکا اور اس حوالے سے کوئی پیش رفت نظر نہیں اتی، وزیر داخلہ کا رویہ نہایت غیر پیشہ ورانہ ہے اور وہ اس حوالےسے سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ عدلیہ اور پولیس کا نظام بہتر بنانے کی بھی کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردون کو سول عدالتی نظام کے ذریعے سزا دینے کا کوئی امکان مستقبل قریب میں نہیں ہے۔ تاہم اس ضمن میں پنجاب میں کسی قدر پیش رفت گرفتاریوں اور چھاپوں کی حد تک نظر آتی ہے۔ سیاسی قیادت کا دہشت گردی کے خلاف فوج پر حد سے زیادہ انحصار ایک تشویش ناک امر ہے۔
5۔ متبادل مذہبی بیانیے اور مکالمے کا نہ ہونا
مذہبی حکومت، شرعی نظام، جہاد اور خلافت کے جو نعرے، مزہبی تشریحات، ایات اور احادیث دہشت گرد پیش کر رہے ہیں پاکستان میں اس کے ارتداد اور نفی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ محض یہ کہہ دینے سے کہ اسلام پرامن دین ہے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ہمیں ایک ایسے متبادل مذہبی بیانیے کی ضرورت ہے جو پاکستان میں ترقی پسند، لبرل، سیکولر اور جمہوری طرز حکومت اور معاشرت کے لیے جگہ پیدا کر سکے بلکہ نوجوانوں کو اپنی جانب راغب بھی کر سکے۔ نصاب کی تشکیل نو، نفرت آمیز تکفیری فکر کے پھیلاو کی روک تھام اور جدید جمہوری، تکثیری اور قومی ریاستوں سے ہم آہنگ مذہبی فکر کی تشکیل کے بغیر اس جنگ کو جیتنا ناممکن ہے۔ مدارس کی سطح پر مذہبی شدت پسند فکر کے خلاف کام ابھی شروع بھی نہیں کیا جا سکا، بہر طور دہشت گردی کی موجودہ شکل اسلام کے بنیاد پرست افکار اور ان کی تبلیغ کا نتیجہ ہے اور اسے رد کرنا مزہبی طبقات کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ہم عوامی سطح پر تاحال دہشت گردوں کے خلاف کوئی ایسا مضبوط بیانیہ رائج کرنے میں ناکام رہے ہیں جو دہشت گرد نظریات کو رد کرنے پر عام آدمی کو آمادہ کر سکے۔
6- سول ملٹری تعلقات
اگرچہ مسلم لیگ نواز اور تمام سیاسی جماعتیں اس وقت “عسکری بالادستی” کے ساتھ سمجھوتہ کر چکی ہیں لیکن یہ توازن کسی بھی وقت بگڑ سکتا ہے۔ خصوصاً کراچی، نیکٹا، نیشنل ایکشن پلان اور بلوچستان کے معاملے پر فوج اور سول قیادت کے دوران کسی قدر اختلافات نظر آتے ہیں۔ کراچی کے معاملات پر جس طرح کی کشمکش سول اور عسکری قیادت کے مابین دکھائی دے رہی ہے اسے حل کرنے میں ناکامی نواز شریف کے لیے بے حد بڑا دھچکہ ثابت ہو سکتی ہے اور اس کا براہ راست فائدہ مجرمانہ اور مذہبی دہشت گردی میں ملوث افراد کو ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں فوجی قیادت کی جانب سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے عوامی اور انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کا رویہ بھی تشویش ناک ہے اور رینجرز کی جانب سے اپنے اختیارات سے تجاوز، نیب کے ذریعے سیاستدانوں پر دباو اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے کردار کُشی کا معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ عسکری اداروں اور سول قیادت کو اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا سیکھنا ہو گا وگرنہ ہم دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا موقع گنوا دیں گے۔
ابھی بھی پاکستان میں ایک بڑی اکثریت دہشت گردوں کے مقاصد، مذہبی افکار اور نعروں کی مخالفت کو تیار نظر نہیں آتی۔ خلافت، مذہبی حکومت اور شرعی نظام سے متعلق عوامی سطح پر سنجیدہ مکالمے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔
7۔ توہین رسالت، ممتاز قادری اور دہشت گردی
عموماً بریلوی مکتب فکر کو غیر متشدد اور پر امن خیال کیا جاتا ہے لیکن جس قسم کے بیانات، جلوس اور رویہ اس وقت ممتاز قادری کے معاملے پر دیکھے اور سنے جا رہے ہیں وہ خطرے کی گھنٹی ہیں۔ توہین رسالت کے قوانین دہشت گردی کے غیر منظم واقعات کی ایک بڑی وجہ ہیں اور ممتاز قادری کی طرح کے بہت سے نوجوان اس وقت حب رسول کے نام پر کسی بھی شخص کی جان لینے کو تیار ہیں۔ ریاست کو اس خطرے کو اس کی ابتدائی سطح پر ہی ختم کرنے اور سخت پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ممتاز قادری جیسے دہشت گردوں کو رہا کنے، معاف کرنے یا ان کو حوصلہ افزائی کا سوچا گیا تو یہ پاکستان میں مذہبی رواداری اور برداشت کے خاتمے کا دن ہو گا۔ ماضی میں ہم ختم نبوت کے نام پر ریاست کو گٹھنے ٹیکتے دیکھ چکے ہیں، اگر ممتاز قادری کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا گیا تو پاکستان شاید ایک نئی قسم کی دہشت گردی کا سامنا کرنے پر مجبو ہو جائے گا جس کے تحت ہر فرد کا قتل توہین رسالت کے نام پر جائز ہو جائے گا۔
8۔ ایران سعودی تنازعہ
ہم بہت خوش اسلوبی سے خود کو مشرق وسطیٰ کی صورت حال سے علیحدہ رکھنے کی کوشش میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ تنازع زیادہ نہ پھیلے لیکن آل سعود مشرق وسطیٰ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے کسی قسم کا معقول رویہ اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ ایران سعودی تنازع پاکستان میں بھی شیعہ سنی فساد کو بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے خصوصاً شام اور عراق میں لڑنے کے لیے جانے والے سنی اور شیعہ نوجوانوں کی واپسی یا مزید بھرتیوں کے بعد یہ خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔
9- فاٹا اصلاحات، جوابدہی اور مستقبل کا لائحہ عمل
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نتائج، اثرات اور مستقبل کے حوالےسے منصوبہ بندی کی بھی کمی ہے۔ فوج کا آپریشن ضرب عضب کس حد تک کامیاب ہے، کراچی آپریشن سے دیر پا امن متوقع ہے یا نہیں، فاٹا کا مستقبل کیا ہو گا اور فوجی آپریشن کی کامیابی یا ناکامی کے بعد کی صورت حال سے کس طرح نمٹا جائے گا، ان سوالون کے فی الحال کوئی تسلی بخش جوابات قائم نہیں۔ اگرچہ فاٹا کی اصلاحات کے حوالے سے کام جاری ہے لیکن اس پر مقامی لوگوں کو تحفظات ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔
10- داعش
پاکستان میں بریلوی مکتبہ فکر کی اکثریت کے باعث یہاں شاید داعش اس طرح قدم نہ جما سکے جس طرح انہوں نے عراق اور شام میں اپنی جگہ بنائی ہے لیکن پاکستان کی فرقہ وارانہ تنظیمیں، تحریک طالبان پاکستان اور کالعدم جہادی تنظیمیں افغانستان میں داعش کے ساتھ الحاق کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے امن کے لیے مستقل خطرہ بن سکتی ہیں اور پاکستان میں بھرتیاں اور کارروائیاں کر سکتی ہیں۔