Laaltain

بریل اور دیگر نظمیں (محمد رامش)

12 جنوری، 2021

[divider]آئینے سے گفتگو کرتے ہوئے[/divider]

کاش
میں یادوں کی شاخ سے
کوئی قہقہہ توڑ کر
تمہارے ہونٹوں تک لا سکتا

مگر جس باغ کی آبیاری
آنسوؤں سے ہو

اس کے پیڑوں پر
فقط تاریکی کی چھال
منہ چڑاتی ہے

افسوس!!
تاریکی شور بڑھا دیتی ہے

تمہارا شور مجھے جگائے رکھتا ہے

اور
میں تمہاری آنکھوں میں
اس عورت کا انتظار کرتا ہوں
جو اس شور سے موسیقی بن سکتی ہے

 

[divider]کون بتا سکتا ہے[/divider]

 

مٹیالی ہوا کے دوش پر
گندم کے خوشے
ایک دوسرے کو
چومتے ہیں
یا ڈستے ہیں

کون بتا سکتا ہے
ہمارا رزق بڑھ رہا ہے ۔۔۔۔۔ یا تنہائی

ہم ایک بوسیدہ کمان کے

دو انتہائی سرے ہیں
جن کے ملنے پر
قوس ایک سلگتی تڑاخ سے ٹوٹ جائے گی

کون بتا سکتا ہے

کھڑکی کے راستے
روشنی در آتی ہے
یا جہاں زاد عفریت
تانکتی جھانکتی
ہم پر ہنستی ہے

کون بتائے گا ہمیں

اس سے پہلے کہ
فاختائیں
اس ہنسی کی گونج
سے ڈر کر
ہجرت کر جائیں

[divider]بریل[/divider]

اندھوں کی دنیا میں
تمہارا بدن
اک بریل ہے
جس پر
نروان کے الہامی نقشے ثبت ہیں

[divider]آواز کا نوحہ (کشوری امونکر کے لیے)[/divider]

موت اتنی بے رحم کیسے ہو سکتی ہے
جسم کو روح سے چھیل کر الگ کردیتی ہے
بہانوں کے جال بنتی ہے
ایک مہیب سیاہ منظر!
اور اس کے بعد
روح کا خلا پر نہیں ہو پاتا

تو لوگ روتے ہیں
خاک کو
جو خاک کے سمندر میں
بارش کے قطرے کی طرح
گرتی ہے
پھر اسی کی ہو جاتی ہے

شاعر مرثیہ پڑھتے ہیں
لب و رخسار کا
جنہیں موت
اپنی جراحت کی اجرت سمجھ کر
ہتھیا لیتی ہے

اور میں نوحہ کرتا ہوں
آواز کا
جو پیدا ہی بکھرنے کے لیے ہوتی ہے

[divider]نامعلوم سمت[/divider]

اک نا معلوم سمت سے
دھواں اٹھتا ہے
اور ہم اسے پھیپھڑوں کا ایندھن بنا لیتے ہیں

اک نامعلوم سمت سے
کوئی دکھ کا ابدی بیج بوتا ہے
اور ہم اس کو اپنے آنسوؤں سے نشو نما دیتے ہیں

اک نامعلوم سمت سے
پھولوں پر اوس پڑتی ہے
اور ایک عورت کی تصویر دھندلا جاتی ہے

اک نامعلوم سمت سے
فرمانوں بھرا صحیفہ اترتا ہے
اور ہم اپنے لیے زنجیریں کشید کرتے ہیں

اک نا معلوم سمت سے
کوئی دستک ہوتی ہے
اور تجسس ہمارے ذہن میں دھڑکنے لگتا ہے

ہم اس تجسس کی قیمت ادا کرتے ہیں

اپنے نامعلوم سوالوں کے جواب کی خاطر
دھند میں لپٹی زندگی چھوڑ کر
اک نا معلوم سمت کی جانب چل پڑتے ہیں

[divider]خلا پھیل رہا ہے[/divider]

تم جانتے ہو
ہمارا خواب
اک بے انت تاریک خلا میں کھو چکا ہے
اور حد نظر نظر کا دھوکہ ہے

اس دکھ میں کہ ہم نے
اپنی آنکھوں سے بینائی کو جاتے دیکھا،
مستقبل سوچنے اور ماضی دیکھنے میں
ہمارا حال گزر رہا ہے

وقت ظالم ہے
پیٹ کے ایندھن کی خاطر
ہل پھیر دے گا
تمہارے چہرے کی ہموار مٹی پر
لیکن پانی آسمان سے اترتا ہے
اسی لیے تمہاری آنکھیں ابدیت کا استعارہ ہیں

مگر
روحانیت کے تیزاب سے
ہم کب تک دھوئیں
ان زنگ آلود جسموں کو
جنہیں
بے ذائقہ بوسوں کی سیلن نے
اندر سے چاٹ لیا ہے

خلا پھیل رہا ہے

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *