Laaltain

دس برسوں کی دلی-قسط نمبر 2

17 دسمبر، 2015

[blockquote style=”3″]

تصنیف حیدر شاعر ہیں اور شاعر بھی وہ جو غزل میں تجربات اور جدت طرازی سے خوف زدہ نہیں۔ دوردرشن اور ریختہ سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل انٹرنیٹ پر اردو ادب کی سہل اور مفت دستیابی کے لیے ادبی دنیا کے نام سے اپنی ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی “دس برسوں کی دلی” ان کے دلی میں گزرے دس برس پر محیط ہے جس کی بعض اقساط ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس آپ بیتی کو اب مکمل صورت میں لالٹین پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

[/blockquote]

دس برسوں کی دلی کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

قسط نمبر 2

 

اس خود نوشت کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
اس لڑکی کا نام آفرین تھا۔ وہ لکشمی نگر میں ہی رہا کرتی تھی، سچن کے اسٹوڈیو سے اس کااس لڑکی کا نام آفرین تھا۔ وہ لکشمی نگر میں ہی رہا کرتی تھی، سچن کے اسٹوڈیو سے اس کا گھر بہت دور نہیں تھا، یہی تقریباً ڈیڑھ دو میل کی دوری پر ہوگا۔ آفرین کو معلوم تھا کہ میں اسکرپٹ لکھتا ہوں، چنانچہ اس نے سوچا تھا کہ میں اس کے کچھ کام آسکوں گا، کام کے آگے وہ کچھ سوچ نہیں سکتی تھی۔ اس نے اسی لیے مجھ سے دوستی بڑھائی، میرا تجربہ اس جیسی بولڈ لڑکی سے ملنے ملانے کا نیا نیا تھا، اس لیے مجھے مزہ آنے لگا، میں اس کے فون کا انتظار کیا کرتا تھا۔ پھر جب ایک دفعہ اس کے گھر جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کی ایک ماں ہیں، جو بہت بیمار ہیں، کوئی عجیب سی بیماری تھی ان کو، جس میں ان کی ریڑھ کی ہڈی گھلی جارہی تھی، باپ اس کا مجھے کبھی گھر پر دکھائی نہیں دیتا تھا۔

 

شاید وہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا دھبہ تھا، جس نے پھیل کر اس کے پورے بدن کو ایک عجیب سی سیاہی کی چپیٹ میں لے لیا تھا۔
اول اول تو زیادہ کچھ پوچھنے گھچجنے کی ہمت نہیں ہوئی، مگر ہمت کا کیا تھا، وہ تو جھجھک کی چار پانچ دیواروں کو پھلانگتے ہی تروتازہ ہوجاتی ہے۔ ایک دن معلوم ہوا کہ آفرین اپنے باپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی، بچن میں اس کے باپ نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی اور اس میں کئی ایک دفعہ کامیاب بھی ہوا تھا، وہ شاید جب چودہ پندرہ برس کی رہی ہوگی، وقت گزرنے کے ساتھ جب اسے سمجھ آیا کہ یہ سب جو کچھ ہو رہا ہے، ٹھیک نہیں ہو رہا، تو اس نے ایک روز ہمت کر کے باپ سے بات کی، اس بات کی شرمندگی تھی یا کچھ اور۔ لیکن پھر اس کا باپ دور رہنے لگا، شاید مہینوں میں، تہوار اہوار کے موقع پرگھر آیا کرتا اور اپنی بیوی سے مل کر اس کے لیے کوئی تحفہ چھوڑ جایا کرتا۔ آفرین کو اپنے باپ سے چڑ تھی، وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی، اس کا ذکر بھی بے کار سمجھتی تھی۔ شاید وہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا دھبہ تھا، جس نے پھیل کر اس کے پورے بدن کو ایک عجیب سی سیاہی کی چپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس واقعے پر میں نے اسے کبھی روتے آنسو بہاتے نہیں دیکھا تھا، وہ نہایت برے لہجے میں کہا کرتی تھی کہ آدمی کوئی بھی ہو، وہ اوپر سے نیچے تک ایک بڑا سا Penisہوتا ہے۔ میں اس سے مل کر اس کی ایسی ہی بے باک باتوں سے متاثر ہوجایا کرتاتھا، اس بات کو بھول کر کہ وہ مجھے بھی اب محض استعمال میں آنے والی ایک شے سمجھتی ہے۔ وہ دوبار اپنا حمل ضائع کراچکی تھی، دو بوائے فرینڈز ، جن سے شاید وہ شادی کر بھی لیتی، اسے چھوڑ کر جاچکے تھے۔کبھی کبھی سلپنگ پلز کا بھی استعمال کرتی تھی، شراب اور سگریٹ دونوں ہی میں نے اسے پیتے ہوئے دیکھا تھا۔ بعض اوقات وہ مجھ سے کہتی تھی:

 

“تم کیسے بے وقوف انسان ہو! شراب نہیں پیتے، سگریٹ نہیں پیتے اور شاعری کرتے ہو۔ جبکہ شاعری نہ کرتے تو کوئی پریشانی نہیں تھی، لیکن شراب اور سگریٹ ضرور تمہیں پینی چاہیے تھیں۔”
میں اسے بتاتا کہ”شراب اور سگریٹ سے آدمی کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔”
وہ کہتی:”شاعری سے کون سا آباد ہوتی ہے؟”
میں کہا کرتاکہ”شراب اور سگریٹ نہیں پیتا تو کیا ہوا، سیکس تو کرتا ہوں۔ یہ نشہ کوئی کم ہے؟”
جواب میں وہ مسکراکرکہتی کہ”تمہیں کیسے شبہ ہوگیا کہ تم اچھا سیکس کر لیتے ہو، جیسے کسی شکم سیر توتے کے ہاتھ کوئی امرود لگ جائے اور وہ اسے جگہ جگہ سے کتر ڈالے، نہ توتے کا کچھ بھلا ہو سکے اور نہ امرود کا۔ اسے سیکس کہتے ہو تم؟”

 

جواب میں وہ مسکراکرکہتی کہ”تمہیں کیسے شبہ ہوگیا کہ تم اچھا سیکس کر لیتے ہو، جیسے کسی شکم سیر توتے کے ہاتھ کوئی امرود لگ جائے اور وہ اسے جگہ جگہ سے کتر ڈالے، نہ توتے کا کچھ بھلا ہو سکے اور نہ امرود کا۔ اسے سیکس کہتے ہو تم؟”
میں جانتا تھا کہ زبان درازی کے ہنر میں میں اس سے جیت نہیں سکتا۔ وہ مجھے فائلز میل کر دیا کرتی تھی، یا فون پر کام سمجھا دیا کرتی تھی۔ میں ان کاموں کو کبھی گورو، کبھی سچن کے یہاں کرکرا کے اسے بھیج دیا کرتا تھا۔ آفرین نے ہمیشہ مجھے پیسے ٹھیک سے دلوائے، چاہے کسی کا بھی کام ہو، کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ اس میں سے آدھے پیسے وہ خود رکھا کرتی تھی، اس لیے کیونکہ کام وہ دلوایا کرتی تھی۔ وقت گزرتا گیا، اس کے ساتھ رہ کر بہت سارے معاملات میں میرے اعتماد کو کافی زور حاصل ہوا۔ میں اس سے مذہبی معاملات، کتابوں، شاعروں، فلسفیوں کی باتیں کرتا تو مرعوب ہوکر کہتی۔ “پڑھا تو تم نے بہت کچھ ہے، مگر اس کا فائدہ کیا ہے؟” میں اس کی بات مانتا تھا۔

 

اردو کی موٹی موٹی کتابیں پڑھنے سے واقعی مجھے اس وقت تک کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا تھا۔ میں اس وقت بارہویں کرچکا تھا اور گریجویشن میں تھا۔ میں اسے بتایا کرتا تھا کہ مجھے اپنے والد سے ورثے میں شاعری کے علاوہ اور کچھ ملا ہی نہیں ہے، جو کچھ بنا تھا، میری جائے پیدائش وسئی میں ہی ختم ہوچکا تھا، وہاں سے برباد ہوکر، تبرکات کی طرح زندگی کا سارا سازو سامان، اپنی خوشیاں اورخوبیاں سب سمندر میں بہاکر میرا پورا خاندان دہلی چلا آیا تھا۔ آفرین کے ساتھ رہ کر مجھے احساس ہوا کہ سچ کتنا ہی کڑوا ہو، اسے کھٹ سے بول دینا اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا میں سمجھتا تھا، حالانکہ وہ خود بھی بہت جھوٹ بولا کرتی تھی، مگر مجھ سے اس لیے نہیں کیونکہ میں نے اسے کبھی کسی لڑکے کے ساتھ جانے، رہنے اور اس کا فائدہ اٹھانے سے روکا نہیں تھا۔ وہ ہندوستانی سوسائٹی کے لحاظ سے ایک قابل نفریں لڑکی تھی، وجہ یہ تھی کہ اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا تو وہ انکار کردیا کرتی تھی، اس کے حساب سے اسے یہ لائف اسٹائل پسند تھا۔ وہ جہاں چاہے جاسکے، جس سے چاہے مل سکے۔ پب، بار، کمیونٹی سینٹر اور ہر بار پارٹی، آفٹر پارٹی کا شور۔ یہ سب مجھے ہمیشہ ایک مصنوعی قسم کی بور کردینے والی چیزیں لگتی تھیں۔ زیادہ شور میں آج بھی میرا دل ڈوبنے لگتا ہے، مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں مجھے اچانک دل کادورہ نہ پڑجائے۔ میں نے اسے ایک آدھ دفعہ مذہب کا حوالہ بھی دیا اور اسے جتایا کہ وہ ایک مسلمان لڑکی ہے، اسے یہ سب نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے جواب میں وہ کہا کرتی تھی کہ وہ جس مذہب میں بھی پیدا ہوئی ہے، وہ بائی چانس ہے، بائی چوائس نہیں۔ نہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتی تھی، نہ دوسرے مذاہب کے۔ جب میں نے اسے اسلام کی کچھ ابتدائی باتیں بتانا چاہیں تو اس نے مجھے روک دیا، سو میں بھی رک گیا۔

 

اب سوچتا ہوں پتہ نہیں کیوں میں اسے مذہب کا حوالہ دیا کرتا تھا۔ کیا دیتا اسے مذہب، اس کے بچپن کی ان کالی پرچھائیوں کو اس پر قابض ہونے سے روک پاتا، جس کی ننگی سچائی یہ تھی کہ اس کا اپنا باپ اس کی عصمت دری کرتا تھا۔ اس کی ماں ایک لاش کی طرح گھر کے کسی کونے میں پڑی اپنے دفن ہونے کا انتظار کررہی تھی، دنیا میں اتنے لوگ روتے ہیں، بلکتے ہیں، پریشان ہیں، ڈرے ہوئے ہیں، بندوقوں کی نوک پر جی رہے ہیں، کسی کے پھاڑے ہوئے کپڑوں سے اپنا تن ڈھانک رہے ہیں، مسجد اور مندر کی دہلیزوں کے اس طرف ادھ ننگے اودے، کالے ، پیلے بچے بھوک سے تنگ آکر سورہے ہیں، عورتیں دس دس روپے میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر دوسروں کو اپنا بدن چھونے کی اجازت دے رہی ہیں۔ ان سب کا کیا بنادیا مذہب نے۔ اس کی تعلیم نے، اس کی برائے نام اچھائی نے۔ وہ تو بس آیا اور کہنے لگا کہ جو اللہ کو مانے وہ اچھا، جو اللہ کو نہ مانے وہ برا۔ یعنی جو بات بنیادی نہیں تھی، اسے بنیاد بنادیا، اور جو بات ضروری تھی، اسے حاشیے پر رکھ دیا۔ زندگی کو لا الہ الا اللہ اور اوم نمہ شوائے سے کوئی مطلب نہیں ہے، اس کی بلا سے کائنات کس نے بنائی ہے، زندگی کے دانوں کو سانسوں کے رشتے میں کس نے پرویا ہے، وہ تو بس ضرورتوں کا، خواہشوں کا، جبلتوں کانام ہے۔ انہی کو پانے کے لیے انسان دنیا بھر کے جرم کرتا ہے اور انہی کی منہ زوری کے بل پر دنیا کے سارے کام کاج چل رہے ہیں۔ اللہ نے اگر دنیابنائی بھی ہے ، تو وہ کبھی دنیاوی معاملات میں اتنا دخیل نہیں ہوا، ہاں ہم اللہ کے معاملے میں شاید حد سے زیادہ دخل دینے لگے ہیں۔ آفرین کہتی تھی مجھ سے، ہمت ہے تو جاؤ اور کسی ریفیوجی سے مذہب کے بارے میں بات کرو! وہ تمہیں حقیقت سمجھائے گا اس کی۔

 

————————-

 

پھر یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ میری اس سے ملاقات کم ہونے لگی، گریجویشن کا آخری سال تھا، جب مجھے عمیر منظر نے ریختہ والوں سے جاکر ملوا دیا۔ میں نوکری سے گھبراتا تھا، میں نے ان سے بھی یہی کہا کہ میں یہاں باقاعدہ نوکری نہیں کرسکتا، ان کا جو بھی کام ہوگا گھر پر بیٹھ کر کردیا کروں گا، لیکن انہوں نے کہا کہ تم نوکری کرو، وہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ خیر ان دنوں میں کچھ ٹھیک ٹھاک کپڑے پہننے لگا تھا، ریختہ میں نے جوائن کیا تھا اور ابھی یہ سلسلہ باقاعدگی کی صورت اختیار نہیں کرپایا تھا، میرے علاوہ وہاں کچھ کمپوزرز تھے، شاید آٹھ دس لوگوں کی ٹیم رہی ہوگی۔ وہاں میرے کام کے معاملات دھرمیندر ساہ کے ساتھ طے ہوئے تھے، یہ ایک بہاری نوجوان تھا، جو کہ پہلے پولی پلیکس نامی کمپنی میں تھا اور بعد میں ریختہ ویب سائٹ کے مینیجر کے طور پر اس شعبے میں آگیا تھا۔ ریختہ کا سارا کام کاج چھٹے فلور پر ہوا کرتا تھا۔ زیادہ لوگ نہیں تھے، سو وہاں کے ایک کمرے میں بڑی سی میز کے گرد چار پانچ لوگ اور ایک کونے میں عدنان نامی ایک لڑکا کام کیا کرتا تھا، جو کہ فوٹو شاپ وغیرہ اچھا جانتا تھا، بعد میں جب باقاعدہ اسکیننگ شروع ہوئی تو اسی نے کتابیں شروعات میں اسکین کرنی شروع کی تھیں، مگر یہ قریب سات آٹھ مہینے بعد کی بات ہوگی۔

 

دنیا میں اتنے لوگ روتے ہیں، بلکتے ہیں، پریشان ہیں، ڈرے ہوئے ہیں، بندوقوں کی نوک پر جی رہے ہیں، کسی کے پھاڑے ہوئے کپڑوں سے اپنا تن ڈھانک رہے ہیں، مسجد اور مندر کی دہلیزوں کے اس طرف ادھ ننگے اودے، کالے ، پیلے بچے بھوک سے تنگ آکر سورہے ہیں، عورتیں دس دس روپے میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر دوسروں کو اپنا بدن چھونے کی اجازت دے رہی ہیں۔ ان سب کا کیا بنادیا مذہب نے۔
دھرمیندر کا رنگ سانولا تھا، قدکچھ ٹھیک ٹھاک، وہ نہ اردو سے واقف، نہ اردو کے ادیبوں کے مزاج سے۔ ہوتا بھی کیسے کہ وہ بنیادی طور پر انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرکے آیا تھا۔ البتہ مینیجنگ کے معاملے میں وہ ٹھیک ٹھاک تھا، کچھ دنوں بعد جب اردو میں غزلیں ریکارڈ کی جانے لگیں تو میں اس کی ایک بات پر بہت ہنسا کرتا تھا، وہ اکثر میرے والد کے غزلیں ریکارڈ کرانے کے بعد پوچھا کرتا تھاکہ آج آپ نے کتنی غزلیں گائی ہیں؟ میں نے دھرمیندر ساہ کو کبھی باس واس نہیں سمجھا، اور نہ اس نے کبھی اس طرح کی کوئی بات کہی۔ ریختہ کے اپنے قیام کے دوران میں جب ایک دو بار میں نے اس پر ’باس‘ ہونے کاالزام لگانا چاہا تو اس نے صاف ہاتھ جھاڑ لیے۔ میں نے اس وقت تک سنجیو صراف کو نہیں دیکھا تھا، ایک دن میرے والد کے توسط سے میری ان سے ملاقات ہوئی، تب تک میں یہی سمجھتا تھا کہ ریختہ کوئی جزوقتی پروجیکٹ ہے، جسے مکمل کرنے کے بعد ہم سب کو اپنے اپنے گھر کی راہ لینی ہوگی۔ سفید چمکدار چہرہ اور اس پر خوبصورت ہلکی سی ڈاڑھی۔ان کی عمر یہی کوئی پچاس کے پیٹے میں ہوگی، مگر اردو زبان و ادب سے ان کی محبت دیکھ کر میں چونک گیا۔ انہی کے ذریعے مجھ پر یہ بات روشن ہوئی کہ اردو سے محبت کرنے والے لوگ واقعی ابھی بھی ہیں اور وہ بھی ایسے سنجیدہ لوگ۔ ورنہ اس سے پہلے تو اردو کے نام پر یا تو ہم نے نام نہاد اکیڈمیوں کے چندہ خور سیکرٹری دیکھے تھے یا پھر چغد پروفیسرز۔ ان دونوں ذاتوں سے آج تک اردو کا کوئی بھلا نہیں ہوا۔ برا ضرور ہوا ہے اور جتنا اس قوم نے اردو کے حق میں زہر بویا ہے، شاید ہی کسی اور سے یہ کام ممکن ہوتا۔ تعلیم کے نام پر صرف انسان نما گدھوں کی افزائش اور مطالعے کے نام پر صرف کچھ رٹائی رٹائی کتابوں کے موٹے موٹے جملے۔ اس کے علاوہ نہ ڈھنگ کی تحقیق سے اس قوم کی دلچسپی ہے نہ تنقید سے۔ خیر، اس میں ان کا اتنا دوش نہیں، بقول شہرام سرمدی انہیں پڑھاتے پڑھاتے نصابی کتابوں پر ادب کا دھوکہ ہوگیا ہے۔ الغرض ریختہ میں دھیرے دھیرے لوگ بڑھنے لگے، اسے باقاعدہ کاروباری تنظیم بنایا جانے لگا، اول اول مجھ پر کسی قسم کی پابندی نہیں تھی، اکثر یہ ہوتا کہ سنجیو صراف اپنے کمرے میں بلا لیا کرتے ، انہیں شعروں کو موضوع کے اعتبار سے کیٹگرائز کرانے کا بڑا شوق تھا، سو اس کام میں ان کے ساتھ آٹھ نو بھی بج جایا کرتے تھے۔ خیر، جب بھی ایسا ہواانہوں نے اپنی گاڑی میں مجھے اور سالم سلیم کو گھر بھجوایا۔ وہ بہت سلیم الطبع آدمی ہیں، اس لیے ان سے کبھی نہ کسی قسم کی مجھے شکایت ہوئی اور نہ پریشانی۔ اکثرکارپوریٹ انڈسٹری میں باس ایسے نہیں ہوا کرتے ہیں، جیسے کہ وہ ہمارے ساتھ رہے۔ ان کے ساتھ بتائے ہوئے وقت کے دوران میں میں نے کچھ شعر کہے تھے، جس میں سے ایک میں ان کا ذکر کیا تھا

 

سرمئی جسم پہ لکھا ہوا اک قصہ ناف کا پڑھتا ہوں
اس کے بعد میں سگریٹ پی کر فرانز کافکا پڑھتا ہوں
مذہب میری بلا جانے میں اپنے شکم سے ہار گیا
میں نعرے ہنر کے لگاتا ہوں،کلمہ صراف کا پڑھتا ہوں

 

ریختہ کے دورانیے میں مجھے سالم سلیم کے ساتھ زیادہ وقت بتانے کا موقع ملا۔ میں اور وہ صبح ساتھ میں دفتر جایا کرتے اور شام کو ساتھ میں گھر آتے۔ ہم شعر و شاعری پر بڑی لمبی لمبی گفتگوئیں کیا کرتے، ساتھ میں خوبصورت لڑکیوں کو تاڑتے اور جنسی موضوعات پرتبادلۂ خیالات کیا کرتے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اس دوران میں کیے گئے میرے شعری تجربات کو جتنا سالم سمجھ سکتا ہے، شاید کوئی اور نہ سمجھے۔ فرحت احساس بھی وہیں تھے، دہلی میں جب ہم نئے نئے آئے تھے تو میں ان سے بڑا متاثر تھا، اپنی کچھ عجیب و غریب رومانی شاعری کا مسودہ (جو کہ خدا کا شکر ہے شائع نہیں ہوا) لے کر ان کے پاس میں لے کر گیا تھا، جس پر ان کا بڑکپن ہے کہ انہوں نے کچھ جملے لکھ دیئے تھے۔ فرحت احساس کو ریختہ کے دور میں میں نے بہت قریب سے دیکھا، وہ بہت صاف گو شخص تھے، ان کے لمبے لمبے بال ان کی شناخت بن گئے تھے، جو کہ اب کندھے تک سانپ کی طرح لہرائے پھرتے تھے۔ اول اول ہم ان کی درویشی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ نہیں، وہ واقعی کچھ معاملات میں بے نیاز آدمی ہیں، اب تھوڑا بہت دنیا دار اورتعلق دار تو ہم سب کو ہونا پڑتا ہے۔ ریختہ میں ان کی شمولیت سے معیار واقعی بلند ہوا تھا، بس اکادکا لوگوں پرمجھے اعتراض رہا، باقی کل ملا کر فرحت صاحب کی شخصیت اور سچائی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے جشن ریختہ میں مشاعرے کی دھما چوکڑی کے خلاف جوشاندار تقریر کی، وہ واقعی سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ بنیادی طور پر وہ شاعر آدمی ہیں، مگر ان کے آس پاس بیگ اٹھا کر ان کی جی حضوری کرنے والے لوگوں میں بہت سے متشاعر بھی شامل ہیں، جنہیں یقینی طور پر فرحت صاحب کی قربت کا زبردست فائدہ حاصل ہوا ہے۔

 

اس سے پہلے تو اردو کے نام پر یا تو ہم نے نام نہاد اکیڈمیوں کے چندہ خور سیکرٹری دیکھے تھے یا پھر چغد پروفیسرز۔ ان دونوں ذاتوں سے آج تک اردو کا کوئی بھلا نہیں ہوا۔ برا ضرور ہوا ہے اور جتنا اس قوم نے اردو کے حق میں زہر بویا ہے، شاید ہی کسی اور سے یہ کام ممکن ہوتا۔
بہرحال رفتہ رفتہ ریختہ سے میرا دل خودبخود اچاٹ ہوتا جارہا تھا، اس کی دو تین وجوہات تھیں۔ ایک طرف مینیجر صاحب اچانک باس بننے کی کوشش میں جٹے ہوئے تھے، وہ اردو کی شاعری کو ہندی کے سامعین کی سطح پر لا کر وزیٹنگ اسٹیٹس بڑھانے کے درپے تھے، جس کے لیے احمد فرازوں اور صابر وسیموں کی بڑی ضرورت تھی، دوسری طرف ایک خاص قسم کا کرپشن اردو والوں کے ساتھ ہورہا تھا۔ بات یہ تھی کہ ریختہ کے لیے بنیادی طور پر کام کرنے والے کمپوزرز اور ایڈیٹنگ بورڈ میں کام کرنے والے لوگ پے رول پر نہیں تھے، لیکن جو لوگ ریختہ ایڈمن کے شعبے میں تھے، ان سب کو پالی پلیکس کے پے رول پر رکھا گیا تھا۔ ہم نے جب اس بات پر اعتراض جتایا تو پے رول کے نام پر ہر ماہ دس ہزار روپے کا چیک ہاتھ میں تھما کر باقی رقم کیش دے دی جاتی، باقی لوگوں کی شاید اس بات سے تشفی ہوگئی ہو ،مگر اس بات سے میں بالکل اتفاق نہیں رکھتا تھا، کیونکہ اسے پے رول پر لینا نہیں کہاجاسکتا ہے۔ وہ تنظیم جو رفتہ رفتہ اپنے ڈسپلن، اپنے نظام میں باقاعدگی اور چھٹیوں کے حساب سے رقم کاٹنے کے حساب کتاب پر کارپوریٹ نیچر آف ورک کا حوالہ دیتی ہو، اس کے لیے لازم تھا کہ وہ دوسری تنظیموں کی طرح اپنے کام کرنے والوں کو پے رول پر لے، تاکہ وہ بھی دوسری کمپنیوں کے ملازمین کی طرح اپنی نوکری سے کچھ مناسب فائدے حاصل کرسکیں۔ یہ تو صارفین کو ٹھگنے جیسی بات تھی، اس کے پیچھے وجوہات جو بھی رہی ہوں مگر مجھے یہ بات پسند نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے اس کی مخالفت بھی کی اور رفتہ رفتہ میرے کام میں بھی سستی آگئی۔ ایک طرف دھرمیندر ساہ ان سب باتوں کی ان سنی کرتا رہا تھا تو دوسری جانب اس نے کمار وشواس جیسے دوٹکے کے متشاعروں کو ریختہ سے جوڑنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا اور دلیل یہ تھی کہ اس کے ایک ٹوئیٹ کر دینے سے ہماری ویب سائٹ ہزاروں قارئین تک پہنچ سکے گی۔ میرا ماننا تھا کہ نیت اچھی ہو تب بھی کام اچھی طرح ہوسکتے ہیں اور کسی بھی غیر منافع بخش ادارے کو اس طرح کے ہتھکنڈے اپنانے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ اردو والوں کا نہ صحیح، مگر میرا اپنا استحصال اور ایسی ان سنی مجھے اچھی نہیں لگی، چنانچہ جب دھرمیندر ساہ سے آخری بار کہا سنی ہوئی تو میں نے اس ادارے کو خیر باد کہنا ہی مناسب خیال کیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں نہایت اندرونی ہیں اور اس سے ان خدمات پر بالکل اثر نہیں پڑتا، جنہیں ریختہ نے انجام دیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *