Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

بلوچستان؛ صحافیوں کا دکھ کون سمجھے؟

test-ghori

test-ghori

16 ستمبر, 2014
بلوچستان میں صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کاحالیہ سلسلہ 2008 میں شروع ہوا اس سے قبل بلوچستان میں صرف ایک صحافی قتل کیا گیا تھا تاہم 2008 سے اب تک تیس سے زائد صحافیوں کو قتل کرنے کی اطلاعات ہیں۔رواں برس28 اگست کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں خبر رساں ادارے آن لائن کے بیوروچیف ارشاد مستوئی سمیت 3 میڈیاکارکنان کا ان کے دفتر میں قتل بلوچستان کی خوفزدہ صحافی برادری کے لیے ایک اور غیر معمولی تنبیہ تھی۔ کوئٹہ کی معروف شاہراہ جناح روڈ پر واقع کبیر بلڈنگ میں ظلم کی یہ داستان تب رقم ہوئی جب رات کی سیاہی دھیرے دھیرے پھیل رہی تھی۔ کبیر بلڈنگ کے D بلاک میں ایک درجن سیڑھیوں کی تنگ چڑھائی کے بعدراہداری کے مشرقی حصے میں آن لائن کا دفتر کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کےصحافیوں ، سیاسی وسماجی کارکنان کا معروف ٹھکانہ تھا جہاں لوگ خبریں پہنچانے کے ساتھ ساتھ ا رشاد مستوئی کی پرمزاح اور دلکش گفتگو سننے بھی جاتے تھے۔آن لائن کے دفترمیں ایک روز ارشاد مستوئی کہنے لگے کہ نجانے صحافیوں کے قاتلوں کی ہٹ لسٹ میں ان کا نمبر کب آئے گا۔
ارشاد مستوئی کی شہادت سے دو سال قبل خضدار پریس کلب کی تالہ بندی تب ہوئی تھی جب ایک مسلح تنظیم کی جانب سے مقامی صحافیو ں کی ہٹ لسٹ جاری کرنے کے بعدصحافتی فرائج کی ادائیگی پر ایک ایک کر کے 5 صحافیوں سمیت خضدار پریس کلب کےاس وقت کے صدر ندیم گرگناڑی کے دو معصوم بیٹوں کو اسکول سے واپسی پرگولیوں سے بھون دیا گیا۔
جس روز ارشاد مستوئی کو شہید کیا گیااس دن وہاں ان کے کارکنان کےسوا کوئی موجود نہ تھا، قاتلوں نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اپنا کام سرانجام دیا اور آسانی سے فرار ہو گئے۔ چند دیگر خبر رساں اداروں کے دفاتر آن لائن کے دفتر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہیں جن میں سے ایک نیوز ایجنسی کے بیوروچیف سے جب میں نے پوچھا کہ کیا وقوعے کے وقت وہ اپنے دفتر میں تھے؟ تو ان کا جواب نفی میں تھا لیکن سب سے دلچسپ بات جو انہوں نے مجھے بتائی وہ یہ تھی کہ جب بالائی منزل پر تین نہتے صحافتی کارکن قتل کیے گئے تو نچلی منزل کے بیشتر دکاندار صورتحال سے بے خبر رہے۔ ایک دکاندار کوتو کراچی سے کسی جاننے والے نے فون پر بتایا کہ جس مارکیٹ میں ان کی دکان ہے وہاں تین صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔
صحافیوں کے قتل کے دیگر واقعات کی طرح ارشاد مستوئی کےقاتلوں کا بھی اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا اور وہ قانون کی گرفت سےآزاد ہیں۔ ارشاد مستوئی سمیت تین صحافتی کارکنوں کے قتل کے بعد کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی جس کے بعد بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے زیر اہتمام کوئٹہ پریس کلب کے سامنے منعقد کیے جانے والے مظاہرے سے خطاب کے دوران بی یو جے کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اب تک بلوچستان میں 35 سے زائد صحافی قتل ہوچکے ہیں لیکن پولیس اور دیگر حکومتی ادارے کسی ایک صحافی کے قاتلوں بھی گرفتار نہیں کر سکے۔خضدار پریس کلب کو ایک مرتبہ پھر تالے لگا کر بند کر دیا گیااور مقامی صحافیوں نے اپنی سلامتی کو درپیش سنگین خطرات کے پیش نظر صحافتی امور کی انجام دہی معطل رکھنے میں ہی عافیت سمجھی جو لمحہ فکریہ ہے۔ ارشاد مستوئی کی شہادت سے دو سال قبل خضدار پریس کلب کی تالہ بندی تب ہوئی تھی جب ایک مسلح تنظیم کی جانب سے مقامی صحافیو ں کی ہٹ لسٹ جاری کرنے کے بعدصحافتی فرائج کی ادائیگی پر ایک ایک کر کے 5 صحافیوں سمیت خضدار پریس کلب کےاس وقت کے صدر ندیم گرگناڑی کے دو معصوم بیٹوں کو اسکول سے واپسی پرگولیوں سے بھون دیا گیا۔اسی طرح پنجگور میں بھی مسلح تنظیموں کی توپوں کا رخ میڈیا ورکرز کی جانب بڑھنے لگا تو صحافیوں نے پریس کلب کو تالے لگا کر سرگرمیاں معطل کر دیں ؛ چمن، تربت اور قلات میں بھی متعدد صحافی ریاستی اداروں اور عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے گولی کے حقدار ٹھہرائے گئے۔
اگرملکی میڈیا نے ریاستی اداروں اور عسکریت پسند تنظیموں کے جبر سے اپنے کارکنوں کو درپیش خطرات کوسنجیدگی سے نہ لیا تو بلوچستان میں لگنے والی آگ سے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے جس کی واضح مثال حامد میر پر ہونے والاحملہ ہے۔
ارشاد مستوئی سمیت تین میڈیا ورکرز کا کوئٹہ میں قتل کے ردعمل کے طور پر8 ستمبر کو بلوچستان بھر میں پریس کلبز کو تالے لگا کرصحافتی سرگرمیاں ایک روز کے لئے معطل کر دی گئیں جو اپنی نوعیت کا بلوچستان میں پہلا احتجاج تھا۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف کوئٹہ میں احتجاجی کیمپ بھی لگایا جس کا وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے دیگر وزراء کے ہمراہ دورہ کیا اور صحافیوں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے لیکن بلوچستان کا تلخ ماضی گواہ ہے کہ یہاں قاتلوں کو حاصل غیر رسمی “استثنا” کو ختم کرنا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بس کی بات نہیں کیونکہ قاتلوں کو یہ سہولت انتہائی طاقتورحلقوں کی جانب سے حاصل ہے۔ ارشاد مستوئی کے قتل کی مذمت بلوچستان کی تمام قوم پرست، علیحدگی پسند اور مذہبی جماعتوں نے کی ۔ بلوچستان میں صحافیوں کی قتل کے بعد حکام حسب سابق زر تلافی کا اعلان کرکے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور قاتل ایک نئی واردات کی منصوبہ بندی میں لگ جاتے ہیں جس کے بعد یہی کہانی بار بار دہرائی جاتی ہے اورہر مرتبہ شہیدوں کی فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
بہت کم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان جیسے حساس علاقے میں آزاد صحافت کو دیوار سے لگانا مستقبل کے لیے نیک شگون نہیں کیونکہ صحافی کے حق کو طشت ازبام کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اگر بلوچستان سے اٹھنے والی یہ آوازیں بند ہو گئیں تو پھر شاید دہشت اور بربریت کے اس شورمیں کوئی کسی کی آواز سننے کے قابل نہ رہے۔ پاکستان کے قومی میڈیا کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کسی ایک فرد یا ادارے کا نہیں بلکہ پورے میڈیا کا مسئلہ ہے۔اگرملکی میڈیا نے ریاستی اداروں اور عسکریت پسند تنظیموں کے جبر سے اپنے کارکنوں کو درپیش خطرات کوسنجیدگی سے نہ لیا تو بلوچستان میں لگنے والی آگ سے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے جس کی واضح مثال حامد میر پر ہونے والاحملہ ہے۔ بلوچستان کے صحافیوں کے دکھ کو سمجھنا اور ان کے دکھوں کے مداوا کے لئے ریاستی اور ادارہ جاتی سطح پرلفظی ہیر پھیر کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔