Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

badaltay-shehar

(بدلتے شہر:لائل پور (فیصل آباد

اسد فاطمی

اسد فاطمی

17 اپریل, 2024

badaltay-shehar
(اسد فاطمی)
چناب اور راوی کے درمیان ساندل بار میں آباد شہر، فیصل آباد، جسے لایلپور بھی کہتے ہیں، اپنی تاریخ میں ایک صدی سے کچھ سال اوپر کی عمر اور تاریخ رکھتا ہے۔ تاریخ کے بسیط گھڑیال پر ایک صدی اگرچہ سوئی کی ایک ہلکی سی جست سے بھی کم مایہ ہے لیکن لایل پور، کسی بھی بڑے شہر کی آغوش میں موجود مقامات، ثقافت، سماجی اداروں اور کرداروں کا حامل ہونے حوالے سے، اس ایک صدی میں ہی خطے کے کئی ایک بوڑھے شہروں سے آگے نکل گیا ہے۔ دریاوں کے کنارے آباد تہذیبوں کے بڑے بڑے قدیمی شہر جو فطرت کے قہر اور زمینی دشمنوں کے خوف سے لوگوں کے ایک محفوظ جگہ اکٹھے ہوکر رہنے کے نتیجے میں آباد ہوئے۔ ان کا قیام تقدیر کے جبر کا ایک نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن لایلپور کا قیام انسانی ارادے اور قدرتِ تدبیر کا ایک استعارہ ہے۔ جسے کسی خوف اور جبر کے تابع نہیں بلکہ مستقبل کا ایک خواب پورا کرنے کی غرض سےایک منصوبے اور واضح سوچ کے تحت بسایا گیاتھا۔ ان سطور میں ہمیں جائزہ لینا ہے کہ اس خواب نے گھڑیال کے گھومنے کے ساتھ ساتھ کیا کیا سہانے اور ناگوار روپ دھارے۔

تقریباً بیالیس لاکھ نفوس سے آباد یہ علاقہ کوئی دو صدیاں پہلے تک ضلع جھنگ کا ایک بے گزران گھنیرا جنگل تھا، جہاں زراعت، گلہ بانی اور لوٹ مار کے پیشہ سے وابستہ جنوبی ہندوستان اور بلوچستان وغیرہ سے آئےسیال، ہرل، کھرل، بھٹی، راٹھور، جوئیہ، بلوچ قبائل ،مقامی نول قبائل اورمقامی سیاہ فام خانہ بدوش اپنے اپنے انداز سے اپنا رزق تلاش کرتے تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے تلخ ثمرات میں دو مظاہر ایسے بھی ہیں جنہیں لایلپور کے قیام کے “جبری محرکات” قرار دیا جا سکتا ہے۔غدر میں زرعی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے بعد ۱۸۵۸ء میں برپا ہونے والے قحط نے مشرقی پنجاب کے زرعی ذرائع کو ناکافی ثابت کر دیا اور غلہ منڈیوں کو مزید کاشتکاریوں کے لیے نئے کھلیان تلاش کرنا پڑے۔ اس دوران ساندل بار سے حاصل کیے گئے غلے نے قحط زدہ لوگوں کو قابل ذکر سہارا دیا۔ ساتھ ہی جنگ ِ آزادی کے دوران بار کے جانگلیوں میں احمد خان کھرل اور مراد فتیانہ جیسے سورماوں نے انگریز راج کے آگے جو مزاحمت کی تھی، راج کے لیے اس علاقہ میں “ریاستی رِٹ” قائم کرنا نہایت ضروری ہو گیا تھا۔ قحط کے دور رس انسداد کے لیے سرجیمز لائل کی سربراہی میں جو سرکاری کمیشن قائم کیا اس نے دریائے چناب کے بھرپور پانیوں سے اس وسیع میدان کو سیراب کرنے کی غرض سے نہروں کی کھدائی کا کام شروع کر دیا۔رفتہ رفتہ لندن، پیرس، کلکتہ، بمبئی اور دلی وغیرہ سے انجنئیر، راج مستری، سرکاری افسر اور ہر طرح کے ماہرین یہاں آنا شروع ہو گئے اور یہ چھوٹی سی آبادی چناب کینال کالونی کہلانے لگی۔ شہر کا بانی جیمز لایل اپنے ماہرین کے ہمراہ دن رات گھوڑے کی زین پر بیٹھ زیر تعمیر شہر کے ایک ایک بازار، برج، چبوترے اور عمارت کی نگرانی کے لیے یہاں سے وہاں سرگرداں رہتا۔ یہاں تک کہ ایک بلند قامت اور شاندار گھڑیال لگے مینار کے گرد نئے تعمیر شدہ آٹھ بازار اور آس پاس کی عمارتیں آہستہ آہستہ ایک آباد شہر کا نقشہ پیش کرنے لگیں۔ گھنٹہ گھر کی تکمیل سال ۱۹۰۴ میں ہوئی۔ پنجاب کی تمدنی زندگی میں ایک اہم اضافے کے لیے جیمز لائل کی ان عملی کوششوں کے اعتراف میں نئے شہر کا نام لائل پور رکھا گیا۔
دریائے چناب کے قلب سے رواں پانی کی رگیں کھینچ کر پوری ساندل بار میں نہروں کا جال بچھایا جا چکا تھا۔ اب اس پانی اور بار کی مٹی سے تازہ دم غلہ پیدا کرنے کے لیے محنتی ہاتھوں کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کے پیش نظر حکومت نے مشرقی پنجاب کے گنجان آباد اضلاع سے ذراعت پیشہ قبائل کو یہاں کے رقبے الاٹ کر کے آباد کرنا شروع کر دیا۔ لائل پور کے قیام کا مقصد چونکہ بہتر پیداوار کا ایک جدید مرکز قائم کرنا تھا لہٰذا مشرقی پنجاب کے جاگیرداروں کو زمینیں دینے کی بجائےوہاں کے چھوٹے مالکین اراضی کسانوں کو یہاں زمینیں الاٹ کی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ الاٹمنٹ کے وقت انگریز آبادکاری افسر کسانوں کے ہاتھوں کی سخت جلد ٹٹول کر انہیں زمین دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتا۔ تاکہ نئے شہر کی بنیاد سرمایہ دارانہ معیشت کے جدید اصولوں پر رکھی جائے، ناکہ جاگیردارانہ روایتوں پر۔ پنجاب کے کاشتکار چونکہ ایک پوری خاندانی وحدت کے ساتھ زرعی عمل میں حصہ لیتے تھے، اس لیے جالندھر، لدھیانہ، ہوشیارپور، امرتسر، فیروزپور، روہتک ہسار اور کپورتھلہ کے علاقوں سے آئے الاٹی کاشتکاروں کو ان کے ضلعوں اور قبیلوں کے اعتبار سے گاؤں اور رہائشی محلوں میں آباد کیا گیا۔ یہ تقسیم اگرچہ پیداواری اعتبار سےنہایت دانشمندانہ فیصلہ ثابت ہوئی لیکن آگے چل کر اس نے شہری زندگی اورسیاست کو ایک منفی رجحان سے بھی ہمکنار کیا جس کا ذکر آگے کی سطور میں آئے گا۔
چند ربیع و خریف گزرنے کے بعد اس نوزائیدہ شہر کے سرسبز مضافات سے اناج کے چھکڑے، گھنٹہ گھر کے گرد گھومتے آٹھ بازاروں میں سجنے لگے۔ شہر کے گرد اناج اور کپڑے کے بڑے بڑے کارخانوں کا حصار بچھنا شروع ہو گیا۔ گوداموں، دوکانوں اور گھروں میں زندگی کی چہل پہل شروع ہوتے ہی آٹھ بازاروں میں زندگی سے وابستہ دوسرے مشاغل بھی پنپنے لگے۔ سینما، کیفے، قحبہ خانے، تھئیٹر،کالج اور عبادت گاہیں شہر کی آئندہ ثقافت کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنے لگے۔کھلیانوں سے آنے والے اُجلی کپاس کے گٹھے کارخانوں میں رنگین کپڑوں میں ڈھلنے لگے۔لائل پور کے بازاروں اور رہائشی محلوں تک میں شور مچاتی پاور لومیں آج بھی ایشیاء کے مانچسٹر کے پارچہ بافی کی صنعت میں گم گشتہ مقام کا پتہ دیتی ہیں۔ یہاں کے مشہور کارخانے لایل پور کاٹن ملز کا افتتاح ۱۹۳۴ء میں گورنر پنجاب سر ہربرٹ ایمرسن نے کیا۔لایل پور کاٹن ملز کے مالک لالہ مرلی دھر شاد اور ٹیکسٹائل صنعت کار سر شنکر لال صنعتی تجربہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے علمی ادبی مراکز سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی ادب دوستی نے لایل پور کی ابھرتی ہوئی ثقافت میں کئی ایک رجحان ساز کام کیے۔ لایلپور کاٹن ملز کے زیرِ اہتمام مشاعروں اور سٹیج ڈراموں کا سلسلہ اس عہد کی روشن ترین جھلکیاں ہیں۔ مشاعروں میں یہاں جوش ملیح آبادی، شکیل بدایونی، حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض، سیماب اکبر آبادی، خوشی محمد ناظر، جگن ناتھ آزاد، تلوک چند محروم، جذبی اور احسان دانش جیسی پر شکوہ آوازیں گونجتی رہیں۔ فلم، تھئیٹر، ڈرامہ، ناٹک اور نوٹنکی پیش کرنے والی کمپنیوں اور اداکاروں کے لیے یہ شہر حصول رزق کا ایک سدابہار منبع بن گیا۔ نیوالفریڈ تھیٹریکل کمپنی، بمبئی پارسی تھئیٹر، الیگزینڈر تھئیٹر، منروا تھیٹر، ایلفنس تھیٹر، وکٹوریہ تھیٹر وغیرہ جیسی کمپنیوں کے لیے ناظرین کی افراط کے اعتبار سے یہ شہر جنت سے کم نہیں تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی تین دہائیوں تک یہ صنعت بام عروج پر پہنچ چکی تھی۔گورنمنٹ کالج کا ڈرامہ تھئیٹر اور لایلپور کاٹن ملز کا تھئیٹر ان میں سرِ فہرست ہیں۔ اس تھئیٹر کی اچھوتی بات یہ تھی کہ ہندوستان بھر سے معروف اداکاروں کے علاوہ اس کے اسٹیج پر مل مینیجر اور ایک معمولی مزدور، ایک ساتھ فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اس تمثیل گھر کے لیے سعادت حسن منٹو سمیت ملک کے کئی عظیم ناموں کو کام کرنے کا موقع ملا۔فنون اور علوم کے بڑے پیمانے پر فروغ سے شہر میں چھاپہ خانوں، اخبارات، ناشروں اور کتاب فروشوں کا کام پھیلا، جس سے سیاسی اور فکری بیداری کی لہر چل نکلی۔ سرمایہ دار اور مزدوروں کے علاقائی مرکز میں انقلاب روس کے اتباع میں مزدور انقلاب کی باتیں شہر میں عام ہوئیں۔معروف سوشلسٹ انقلابی جوان بھگت سنگھ کا تعلق بھی لایلپور کے مضافات سے ہی تھا۔ آزادی سے قبل شہر میں یونیسٹ، کانگریسی، لیگی اور مارکسی رجحانات معمولی فرق کے ساتھ قریب قریب برابر مقبول رہے۔
اگست ۱۹۴۷ء کے بٹوارے میں پنجاب کے دولخت ہونے سے لایلپور کی ہندو اور سکھ آبادی کو شہر چھوڑنا پڑا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہندوستانی پنجاب سے مسلم مہاجرین کی موجِ ظفر موج لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں سے “پاکستانی پنجاب” کی طرف آ نکلی۔مہاجرین پنجاب کی ایک بہت بڑی تعداد لاہور اور پنجاب کے سرحدی شہروں پر آ کر رُک گئی، بہت سے قافلے بسیرے کے لیے مناسب جگہ کے انتخاب میں مختلف اضلاع میں گھومتے رہے۔ نئے خطے میں مشرقی پنجاب کے ان مہاجرین کے لیے سب سے ذیادہ مانوس فضا لایلپور کی رہی جو اس سے نصف صدی قبل بھی بھارتی پنجاب کے ہزاروں آبادکاروں کو اپنے آغوش میں پناہ دے چکا تھا۔ ان قافلوں کی آبادکاری سے لایلپور جو کہ پہلے سے ہی ساندل بار کی جانگلی سرزمین پر ستلج پار کی زبان و ثقافت کا ایک شاداب جزیرہ تھا، اب یہاں کچھ نئے اضافوں کے ساتھ امرتسر، جالندھر، بٹالہ اور دوسرے ہندوستانی اضلاع کی ماجھی بولیاں گونجنے لگیں اور مشرقی پنجاب کے تیز مصالحوں کی خوشبو اور زور و شور سے ساندل بار کی فضا کو مہکانے لگی۔گوردواروں اور اور مندروں کی گھنٹیاں خاموش ہو گئیں لیکن ساتھ ہی درگاہوں اور میلے ٹھیلوں کی رونقوں میں بہت سے نئے چہروں نے اس خلاء کو پر کر دیا۔فنونِ لطیفہ چہرے بدل بدل کر زندہ دل لایلپوریوں کے ہاتھوں لعلیں فن پاروں میں ڈھلتے رہے۔موسیقی میں استاد مبارک خاں قوال، استاد نصرت فتح علی خاں اور دلدار حسین وغیرہ جیسے بے مثال لوگوں کا خمیر اسی شہر سے اٹھا۔ہجرت کے نتیجے میں بھارتی پنجاب سےنئے آئے محنتی کسانوں کی شراکت نے شہر کے گوداموں میں ڈھوئی جانے والی پیداوار کو چار چاند لگا دئیے۔ نوزائیدہ ملک پاکستان کے ابھرتے سرمایہ داروں اور سرمایہ کاروں کے لیے لائلپور ایک مواقع سے بھرپور سر زمین بن چکا تھا۔صنعت کی اس چہل پہل نے مزدوروں اور مالکان کے درمیان فطری تضاد کو مزید واضح اور قطعی بنانا شروع کر دیا۔یہ عہد لائلپور کے چوراہوں اور عامی و خاصی مقامات پر ترقی پسند فکر کے شہرے کا ہے۔۱۹۶۵ء کی جنگ نے پوری قوم میں قوم پرستی اور سلامتی مرکوز خیالات سلگائے، لائل پور بھی نے بھی اس تبدیلی کو تجربہ کیا۔ڈھاکا کا سقوط ہوا تو مشرقی پاکستان کی پٹ سن کی صنعت سے محرومی کے بعد لائل پور کی صنعتی مرکزیت میں اضافہ ہوا۔ لیکن ضیا الحق کے مارشل لاء اور سرد جنگ میں تلخی بڑھنے کے ساتھ لائل پور بھی جہادی ذہنیتوں کو بھگتنے کے تجربے سے گزرا۔ستمبر ۷۷ء میں شاہان سعود سے رسم و راہ کے اعتراف میں، سرکاری طور پر شہر کا نام بدل کر مرحوم عرب سلطان، شاہ فیصل کے نام سے؛ فیصل آباد رکھ دیا گیا۔عوامی محاورے میں اس نام کی ترویج اور اقبال کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ بہت سے لوگ جو نام بدلنے کے سہل کام اور شہر بسانے کے جوکھم میں فرق جاننے کا دعوی رکھتے ہیں، اب بھی شہر کو لائل پور کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔تیسری آمریت کے ان سالوں میں شہر کی ثقافتی سرگرمیوں کو بھی جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔ تھئیٹر اور سینما اصولی اور اخلاقی بحرانوں کا شکار ہو گیا۔شہر میں جدید سرمایہ دارانہ ثقافت کے قیام کا خواب گہناتا نظر آنے لگا اور شہری سیاست میں نظریوں کی کشمکش کی بجائے قبائلی سیاست کے جاگیردارانہ رویے جڑ پکڑ گئے۔شہر میں آباد مقامی اور مہاجر برادریوں کو اپنے قبائل کی صدیوں پرانی “عظمتِ رفتہ” کی یاد پھر سے بے چین کرنے لگی۔کارخانے، تعلیمی ادارے، کچہریاں، دفاتر غرض شہر کا ہر سماجی ادارہ جٹ، ارائیں، راجپوت اور امرتسری، بٹالوی، جالندھری کی شناختوں میں بٹ گیا۔ لیکن ابھی تک کئی ایک رواں دواں صنعتوں میں قبائلی کی بجائے طبقاتی شعور کی کئی چنگاریاں باقی تھیں۔لائل پور کا ریگل چوک، دربار بابا لسوڑی شاہ، جس میں ابھی کچھ سال پہلےتک استاد نصرت فتح علی خاں اور استاد مبارک خاں کے مستانہ ترانوں کی آواز گونجتی تھی، پہلی بار محنت کشوں کے بدن کی سڑاند میں متعفن ہوا، جب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حکم پر مزدوروں نے یہاں احتجاجاً خودسوزیاں کیں۔
بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، افغان جہاد بھی ختم ہوا لیکن ۹۰ء کی دہائی تک دھوبی گھاٹ کےبڑے گراونڈ میں جہادی تنظیموں کے تربیتی مظاہرے نوجوانوں کے خون کو گرماتے رہے، لیکن جہاں جہاں ملوں کےپہیےگھومتے رہے، آجر اور اجیر کا تصادم بھی کم یا زیادہ جاری رہا۔اکیسویں صدی میں پیر دھرنے تک سرکار کی دلچسپیاں بدل چکی تھیں، نئی آمر حکومت گزشتہ آمریت کے خون آشام دھبے دھونے کے لیے روشن خیالی اور صنعت کے فروغ جیسے نعرے لے آئی تھی۔ باہر کے نادیدہ سرمائے نے ملوں کے پہیے چندے تیز گھمانا شروع کیے تو مزدوروں کی بے چینیاں بھی فطری طور پر بڑھیں۔ لائل پور کے پاور لوم ورکرز کی طبقاتی سیاست بائیں بازو کے بالخصوص، اور قومی مباحث میں بالعموم خاص توجہ کا محور بنی رہی۔ لیکن عام شہری سیاست کے تابع ذیادہ تر تحریکیں بالآخر ذات برادری کے تضادات میں الجھ کر اپنے مقصد سے منحرف ہوتی رہی ہیں۔
اپنی آبادی میں لسانی، معاشی اور سماجی طور پر ایسے متنوع اجزائے ترکیبی کا حامل ہونے کی وجہ سےیہ شہر بھی ہر بڑے شہر کی طرح رنگارنگ کرداروں کو پالتا پوستا رہتا ہے۔ادیب، صحافی، سائنسدان، فنکار، ٹھگ، سورما، کن ٹٹے، واعظ، درویش، مزدور اور وضعدار شریف شہری۔۔ یہ تنوع ہر بڑے اور مصروف شہر کا خاصا ہوتا ہے۔ لائل پور ایک صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے متوسط طبقہ کی ایک بڑی آبادی کا حامل ہے۔ یہاں کا متوسط طبقہ، ہر معاشرے کی مڈل کلاس کی طرح صارف رجحانات اور سرمایہ دارانہ معیشت کے بدلتے فیشنوں کے ساتھ مزاج اور وضع بدلتا ہے، لیکن چند ایک امتیازات ایسے ہیں جنہیں صرف لائلپوریوں سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ ۸۰ء کی دہائی میں معیاری تھئیٹر کے زوال نے یہاں ڈرامہ کے ایک نئے روپ کو جنم دیا۔ سٹیج پر عام فہم انداز کے مزاح برائے مزاح کے رنگ نے اگرچہ تھئیٹر کو اس کے درجے سے گرا دیا، لیکن مشرقی پنجاب کے ماجھی لہجے کے مخصوص چٹخارے نے لائلپوریوں کی حس مزاح کے ساتھ مل کر پنجابی زبان کا ایک ایسا مقبول عام طرز گفتگو وضع کیا، جس میں حاضر جوابی، مزاح اور پھبتی کا زندہ دلانہ رنگ، کبھی بھی مکالمے کو بوجھل نہیں ہونے دیتا۔ پنجابی سٹیج کی اس نئی صنعت کی بدولت یہ محاورہ واہگہ کے آر پار، پورے پنجاب میں لائلپوریوں کی خاص شناخت بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے شہروں میں ہر لائلپوری سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سنجیدہ سے سنجیدہ گفتگو کو میں بھی اپنی خاص جملہ طرازی سے فضا کو مزاح بھری نمکینی سے بھر دیں گے۔
آبادکاروں اور مقامیوں کے درمیان باہمی کشمکش کے نتیجے میں یہاں کے باسیوں میں گروہی شناخت ایک خاص وجہ نزاع بنی رہی ہے۔ برطانوی حکومت نے آبادکاروں کو پیداواری فوائد کے لیے گروہ وار آباد کیا تھا، لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں میں اس مفید تقسیم کا ایک بہت بڑا منفی نتیجہ سامنے آیا کہ یہ گروہ ذات گوت اور آبائی ضلعوں کی بنیاد پر منقسم ہو گئے اور سیاسی و سماجی طاقت حاصل کرنے کی رسہ کشی کو ایک خاص قبائلی مزاج سے روشناس کیا۔ تاجر یونین، بار کونسلوں، طلبہ یونینوں سے لے کر اسمبلیوں تک کے انتخابات جٹ، ارائیں، راجپوت کی بنیاد پر لڑے جانے لگے۔ نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں اسناد کی تقسیم کے لیے بھی برادری کا حوالہ ناگزیر سمجھا جانے لگا ہے۔ اگرچہ بہت سے سماجی اداروں کو اس روایت سے استثناء بھی حاصل ہے لیکن اکثریتی ادارے اس رجحان سے آلودہ ہیں۔ کسی صنعتی شہر میں سرمایہ دارانہ جمہوری انداز کی بجائے، قبائلی طرز کی سیاست کا پنپنا اپنی جگہ ایک عجوبہ ضرور ہےلیکن اس کی ایک واضح وجہ یہ ہے کہ کراچی یا بمبئی کے برعکس یہ صنعتی شہر، زرعی پیداواری مضافات کے عین درمیان میں واقع ہے اور ان کے درمیان کوئی ثقافتی اور سماجی فاصلہ حائل نہیں ہے۔ سیاسی وجوہ کے باب میں تیسرے مارشل لاء کے دوران سیاسی رجحانات کو گروہی کشمکش کاسیاست میں داخل کرنے کی ریاستی کوشش کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ قومی معیشت کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے لائل پور کی صنعت چونکہ عرصہ سے آتے رہنے والے مدو جذر اور غیر یقینی صورت حال کا شکار رہی ہے۔ اس امر نے اس جمہوری طرز فکر کو پروان نہیں چڑھنے دیا جو کہ مستحکم سرمایہ دارانہ معیشت کی زایدہ ہے۔
کسی بھی ایسے شہر کے لوگوں کو، جہاں ثقافت، صنعت، فنون لطیفہ، جرائم، روحانیات، سیاست اور عام معاشرت کے اس قدر گوناگوں رنگ ہوں، ایک جملے میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم زندہ دلی، ملنساری اور اپنی ایک الہڑ سماجی و ثقافتی شخصیت ایسے خواص ہیں، جنہیں کسی بھی لائلپوری کی شخصیت سے منہا کر کے اسے جاننا، ایک نہایت کٹھن کام ہے۔
(Published in The Laaltain – Issue 7)