ہندوستانی ہمسائے کے نام مزید خطوط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
دیکھو۔۔۔۔۔
میں نہیں جانتا کہ کیا کہوں اور بات کیسے شروع کروں۔ جانتا ہوں اس وقت تم خفا ہو گے، غصے میں بھی ہوگے اور شاید اب ہم اس برس بھی کرکٹ نہ کھیل سکیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں۔ ٹی وی دیکھنے کی بھی ہمت نہیں پڑ رہی، صبح جیسے ہی پٹھان کوٹ پر حملے کی خبر سنی یقین جانو پہلی دعا یہی نکلی “یا اللہ یہ پاکستانی نہ ہوں”۔ دل ایک دم بے چین ہو گیا کہ ابھی سشما سوراج جی اور پھرمودی صاحب ہو کر گئے تھے اور ابھی پھر۔۔۔۔۔ ابھی تو ممبئی والا معاملہ ہی کسی کروٹ نہیں بیٹھا تھا۔ یہ بھی نہیں دیکھ پایا کہ کتنے ہلاک ہوئے کتنے زخمی ہوئے، کس تنظیم سے تھے شام تک پتہ چلا کہ شاید ہماری طرف سے ہی تھے۔ یوں لگا جیسے کوئی اپنا یا شاید میں خود مر گیا ہوں یا میری روح کا کم از کم کوئی ایک حصہ ایک بار پھر مر گیا ہے جو میرے اور تمہارے مشترکہ اجداد کا وارث تھا۔ تب سے بس منہ لپیٹے پڑا ہوں۔ تاریخ کا ایک بوجھ ہے جس کے تلے میں دبا ہوا ہوں۔
یوں لگا جیسے کوئی اپنا یا شاید میں خود مر گیا ہوں یا میری روح کا کم از کم کوئی ایک حصہ ایک بار پھر مر گیا ہے جو میرے اور تمہارے مشترکہ اجداد کا وارث تھا۔
ہم سب کو احساس ہے کہ ہم نے تمہارے ساتھ اچھا نہیں کیا، تمہارے لیے دل میں بغض رکھے، تمہیں زک پہنچائی، تمہیں نڈھال کرنے کو کرائے کے قاتل تک تیار کیے۔ غلطیاں تمہاری طرف سے بھی ہوئیں، ہم دونوں نے ایک دوسرے کے گلے کاٹے ہیں اور ایک دوسے کو تباہ کرنے کے جتن کیے ہیں، اپنے اپنے خداوں سے ایک دوسرے کی بربادی مانگی ہے، ایک دوسرے کے خلاف شب خون مارے ہیں، مورچے کھودے ہیں، فوجیں کھڑی کی ہیں۔ میزائلوں کے انبار لگائے ہیں، جوہری ہتھیار بنا کر دھمکایا ہے اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے سے نفرت کی ہے۔ لیکن میں اپنی غلطیاں ماننے میں اوران پر شرمندہ ہونے میں پہل کرنا چاہتا ہوں، اللہ مجھے توفیق دے کہ کبھی نہ کبھی ان پر معافی مانگنے میں بھی پہل کر سکوں۔ کیوں کہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کو پہل کرنی پڑے گی۔ یہ بحث فضول ہے کہ تمہارا زیادہ نقصان ہوا یا ہمار، کون جیتا کون ہارا، کس نے پہل کی۔۔۔ نقصان انسانوں کا ہوا، ہار انسانیت کی ہوئی اور پہل بھی انسانیت کو ہی کرنا پڑے گی۔
مودی جی آئے، بے حد اچھا لگا، واجپائی صاحب کی آمد کی یاد تازہ ہوئی، لگا کہ امن کا ایک اور اعلامیہ متوقع ہے ، کہیں نہ کہیں اعلان لاہور یا چناب فارمولے کی گرد جھاڑی جا رہی ہو گی اور پرانی فائلوں پر نئے کور چڑھائے جا رہے ہوں گے، مگر۔۔۔۔۔ تب کارگل ہو گیا، پھر ممبئی ہو گیا اور اب پٹھان کوٹ۔ سمجھ نہیں آتا کہ کس غلطی کا اعتراف پہلے کروں اور کس کی صفائی دوں۔ کشمیر پر حملہ آور جتھوں کی بات کروں، ان بے نام سپاہیوں کی جو 65 کی جنگ سے پہلے بھیجے گئے لیکن جن کے نام کسی سرکاری فائل میں درج نہیں کیے گئے۔ چلو رن آف کچھ پر کوئی حیلہ ڈھونڈ نکالوں گا مگر کارگل۔۔۔۔ کارگل پر کیا کہوں؟ ان سب پر کن الفاظ میں تم سے ندامت کا اظہار کروں جنہیں یہاں سے تم سے نفرت کا نصاب پڑھا کر تمہارے خلاف بارود اگلنے کو بھیجا تھا؟ جن کے لیے چندے مانگے، کیمپ بنائے اور جنہیں روکنے کو تمہیں خاردار تاریں لگانا پڑیں؟
مودی جی آئے، بے حد اچھا لگا، واجپائی صاحب کی آمد کی یاد تازہ ہوئی، لگا کہ امن کا ایک اور اعلامیہ متوقع ہے ، کہیں نہ کہیں اعلان لاہور یا چناب فارمولے کی گرد جھاڑی جا رہی ہو گی اور پرانی فائلوں پر نئے کور چڑھائے جا رہے ہوں گے، مگر۔۔۔۔۔ تب کارگل ہو گیا، پھر ممبئی ہو گیا اور اب پٹھان کوٹ۔
ہو سکتا ہے کہ میں کہوں کہ چھوڑو یار جو ہوا سو ہوا تم نے بھی تو مشرقی پاکستان اور پھر کراچی اور پھر بلوچستان اور۔۔۔۔۔۔لیکن یقین جانو یہ بات کہتے ہوئے کئی بار مجھے خود سے نفرت ہوئی ہے کہ میں کتنی کم زور دلیلوں کی بنیاد پر تم سے نفرت کرتا رہا ہوں اور اس نفرت کی بناء پر جنون اور پاگل پن میں کتنے لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگتا رہا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ جو غلطیاں تم سے ہوئیں تم ان کے بارے میں کیا سوچتے ہو۔ ہو سکتا ہے تم نے بھی کوئی جواز گھڑ رکھا ہو اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کا، لیکن یاد رکھو غلطی کا جواز غلطی کو صحیح ثابت نہیں کر سکتا۔ مجھے پتہ ہے کہ اپنے کیے پر تمہیں بھی کوئی فخر نہیں ہو گا، آخر کوئی کیسے کسی سے نفرت کرنے، دشمنی بڑھانے اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے پر فخر کر سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے اپنی غلطیوں کے جواب میں یہ کہوں کہ تم نے دس لاکھ سے زائد کشمیری مار دیئے کیا ہم چپ کر کے بیٹھ جاتے؟ پھر سوچتا ہوں کہ کل کلاں کو جب بلوچ ور افغان مجھ سے پوچھیں گے کہ ہمیں مارنے والا اور جنگ میں دھکیلنے والا کون تھا تو کیا کہوں گا؟
ہو سکتا ہے کہ میں اس بیساکھی کا سہارا لوں کہ یار ماضی کی بات ہے، ہم نے تو مشرف دور میں پابندی لگا دی ان سب جماعتوں پر نہ ممبئی ہم نے کرایا اور نہ پٹھانکوٹ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میرا ضمیر مجھے ملامت کرے گا کہ ٹھیک ہے میں، میرے ریاستی ادارے، میری حکومت اس سب میں اب ملوث نہیں لیکن کیا میں نے اس سب کو ہونے سے روکنے کے لیے خاطر خواہ کوشش کی؟ وہ جو ہمارے اثاثے تھے کیا انہیں تلف کرنے کے لیے کوئی پیش بندی کی؟ تم سے جھوٹ بول لوں گا، عالمی اداروں کو فریب دے لوں گا لیکن میرا ضمیر تو کبھی معاف نہیں کر سکتا کہ میں نے ان حافظ سعیدوں، لکھویوں، زید حامدوں، جیشوں،لشکروں کو اپنے سامنے دندناتے، تقریریں کرتے، بھرتیاں کرتے، چندے مانگتے اور کھالیں اکٹھے کرتے دیکھا ہے لیکن کچھ نہیں کیا۔ یقین جانو ہم نے سبق سیکھ لیا ہے اور اب کسی جگہ دہشت گردی برآمد کرنے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں لیکن کیا کروں کہ ہر بار اس دعوے کے جواب میں ہر دہشت گرد کا کھرا ہماری زمین تک آتا ہے۔ میں شرمندہ ہوں کہ ہم بہت کچھ نہیں کر پائے، اپنے لیے، ایک دوسرے کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے۔
وہ وقت آ گیا ہے کہ اب ہم دونوں یہ سمجھ لیں کہ ایک دوسرے کی غلطیوں کے جواب میں مزید غلطیاں، نفرت کے جواب میں مزید نفرت، حملے کے جواب میں حملہ، سیاچن کے جواب میں کارگل، 65 کے جواب میں 71، کشمیر کے بدلے بلوچستان۔۔۔۔۔ یہ سب کہیں نہیں رکے گا اور اس سب کو کہیں نہ کہیں روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان چند شرپسندوں، ان مٹھی بھر شدت پسندوں، ان جنگجووں، ان بندوق برداروں، آتنک وادیوں اور فوجیوں کی بجائے دونوں طرف بسنے والے انسانوں کو دیکھیں۔
ہو سکتا ہے کہ میں کہوں کہ چھوڑو یار جو ہوا سو ہوا تم نے بھی تو مشرقی پاکستان اور پھر کراچی اور پھر بلوچستان اور۔۔۔۔۔۔لیکن یقین جانو یہ بات کہتے ہوئے کئی بار مجھے خود سے نفرت ہوئی ہے کہ میں کتنی کم زور دلیلوں کی بنیاد پر تم سے نفرت کرتا رہا ہوں اور اس نفرت کی بناء پر جنون اور پاگل پن میں کتنے لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگتا رہا ہوں۔
مجھے ڈر ہے کہ اب پتہ نہیں کیا ہو گا۔ مذاکرات ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ کون کس پر انگلی اٹھائے گا اور کون کس کو ذمہ دار قرار دے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ اب پھر سے ہم اپنے اپنے میزائلوں سمیت سرحدوں پر مورچے نہ باندھ لیں، مجھے خوف ہے کہ ایک بار پھر دونوں جانب کے انتہا پسند مرنے مارنے کے لیے اکسانا نہ شروع کر دیں، مجھے واقعی اس بات کی تشویش ہے کہ کہیں پھر سے ہم وہیں نہ پہنچ جائیں جہاں سے ہم چلے تھے۔ مجھے اب جنگ سے بھی زیادہ اس بے یقینی سے ڈر لگتا ہے، مجھے اب ان سب آستینیں چڑھائے، چنگھاڑتے اور جنگ کے لیے ذہن سازی کرتے اینکروں، کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں سے گھن آنے لگی ہے جو ہر بار ایسے موقعوں کے لیے اپنی زبانیں زہر میں بجھائے رکھتے ہیں۔
آو ۔۔۔۔۔۔وہ جو ہمیں امن قائم کرنے کی بجائے جنگ کی راہ دکھانا چاہتے ہیں، ویزے میں نرمی کی بجائے سرحدوں کے آر پار بارودی سرنگیں بچھانا چاہتے ہیں، فلموں کی نمائش کی بجائے فنکاروں پر سیاہی انڈیلنا چاہتے ہیں، مذاکرات کی بجائے جھڑپیں چاہتے ہیں۔۔۔۔ انہیں نظرانداز کریں۔ آو یہ تسلیم کریں کہ ہمارا دشمن مشترکہ ہے وہ جو تمہیں مارنا چاہتا ہے اسی کی بندوق میری جانب بھی ہے، وہ جو تمہا مجرم ہے اس کی فرد جرم میں میرا قتل بھی درج ہے۔۔۔۔۔۔۔آو گاندھی جی کی بات سنیں جو کہتے تھے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا قانون پوری دنیا کو اندھا کر دے گا، آو جناح کی بات سنیں جو کہتے تھے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایسے تعلقات ہونے چاہیئں جیسے امریکہ اور کینیڈا کے مابین ہیں، آو واجپائی کی بات سنیں جو کہتے تھے کہ جنگ نہ ہونے دیں گے، آو نواز شریف کی بات سنیں جو دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتا ہے۔ ہمیں ملالہ اور کیلاش ستیارتھی سے سیکھنا ہے کہ ہمارا مستقبل بچوں سے وابستہ ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم انہیں ایک دوسرے سے نفرت کا سبق دے رہے ہیں۔ کیا ایسے میں امن ممکن ہے؟؟؟ اس کا جواب دیتے ہوئے میں خود بھی پریشان ہوں۔
فقط
تمہارا پاکستانی ہمسایہ
تمہارا پاکستانی ہمسایہ