Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

امریکی خارجہ حکمت عملی کے سامراجی خدوخال

test-ghori

test-ghori

31 اکتوبر, 2015
روس شام میں داعش کے خلاف محاذ کا حصہ بن چکا ہے۔ عالمی میڈیا پر روس کو لے کر دو طرح کی بحث دیکھنے کو ملتی ہے؛ ایک تو یہ کہ روس داعش سے زیاد ہ بشارالاسد کو مضبوط کرنے کے لیے اس کے مخالف باغیوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور چونکہ یہ باغی داعِش کے خلاف بھی برسرِ پیکار ہیں سو اِنہیں کمزور کرنے سے داعِش مضبوط ہوسکتی ہے اور اِس سے یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ یوں اس طرح کے آپریشن سے لوگ زیادہ متنفر ہو سکتے ہیں اور انتہا پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ خد شہ امریکہ اور اس کے حامیوں کی طرف سے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حامیوں کی طرف سے کئی سالوں سے جاری کارروائیوں کی نسبت روس کی جانِب سے کی گئی کاروائی نے داعش کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور ماسکو آ نے والے دنوں میں بشارالاسد اور اس کے حامیوں کو شام میں ایک اچھی حکومت چلانے کے لیے کسی دوسرے گروہ یا شخص سے زیادہ منا سب سمجھتا ہے۔ مگر امریکہ کی جنگی حکمتِ عملی اور رویہ ہمیشہ روس سے مختلف رہا ہے۔ وہ نہ تو اپنی سر زمین پہ جنگ چاہتا ہے اور نہ کبھی ہونے دیتا ہے۔ جب امریکہ کو کسی مضبوط ریاست سے کسی قسم کا خطرہ ہوتا ہے وہ اس کے کمزور ہمسائے کے ساتھ یا تو سفارتی تعلقات بناتا ہے یا پھر عسکری تعلقات استوار کرتا ہے۔ امریکہ ہمیشہ کسی خطے میں ویسی حکومت چاہتا ہے جیسی وہاں موجود اس کے سیاسی دوست چاہتے ہیں۔ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں ابھرتی ہوئی معیشت چین کو مات دینے کے لیے امریکہ وہاں قدم جمانا چاہتا تھا مگر وسطی ایشیا پہ ایران کے ساتھ سیاسی اختلافات ہونے کی وجہ سے اس نے افغانستان میں اپنی پسند کی حکومتیں لانے کی کوشش کی تا کہ وسطی ایشیا میں کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے وہاں فوج موجود ہو۔ امریکہ افغانِستان میں عین ویسی حکومت کا خواہاں ہے جیسی خظے میں موجود اس کے سیاسی حلیف پاکِستان اور بھارت چاہتے ہیں۔
امریکی سفارتی حکمت عملی میں دیگر ممالک میں عسکری مداخلت نہایت اہم ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں سیاسی اور معاشی مفادات کے تحت امریکہ کی براہ راست مداخلت کی تاریخ طویل ہے اور یہ سلسلہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جاری ہے۔

امریکی سفارتی حکمت عملی میں دیگر ممالک میں عسکری مداخلت نہایت اہم ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں سیاسی اور معاشی مفادات کے تحت امریکہ کی براہ راست مداخلت کی تاریخ طویل ہے اور یہ سلسلہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جاری ہے۔ عراق اور افغانستان کے بعد بظاہر امریکہ پاکستان کے بعض علاقوں میں میں بھی براہِ راست عسکری مداخلت چاہتا تھا تا کہ افغانستان میں اپنے فوجیوں اور تنصیبات کو محفوظ بنا سکے مگر اس وقت کی پاکِستانی قیادت اس سے نا خوش تھی سو وہ براہِ راست مداخلت نہ کر سکا۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کے دوران پاکستان کو اتحادی بنائے رکھنے کے بعد اب امریکہ نے ہندوستان کو خطے میں اپنے حلیف کے طور پر دیکھنا شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان نے امریکہ کی بجائے چین پر اپنا انحصار بڑھا دیا ہے۔ اوبامہ نے خود بھارت کا دورہ کیا اور کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔

دیگر سامراجی طاقتوں برطانیہ اور فرانس کی طرح امریکہ بھی مذہب کو اپنے لیے کار گر حربہ سمجھتا ہے۔ اَسّی کی دہائی میں روس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر امریکہ نے افغانستان میں نجیب حکومت گرانے کے لیے یہاں مذہب کی بنیاد پر مزاحمت کی سرپرستی شروع کی۔ لوگوں کو مذہب کے نام پر انتہا پسند بنا کر پاکستان اور سعودی عرب کی مدد سے مجاہدین بنائے گئے تاکہ ایک تو خطے میں بڑھتے ہوئے روسی اثرورسوخ روکا جا سکے اور آنے والے دنوں میں یہاں پر اپنی موجودگی کے لیے کوئی جواز تراشا جا سکے۔
امریکی خارجہ پالیسی اور مداخلت کے باعث مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں النصرہ فرنٹ، القاعدہ اور داعش جیسی مذہبی تنظیموں نے قدم جما لیے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ صورتِ حال پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ شام اور عراق میں امریکہ بالکل ویسی حکومت چاہتا ہے جیسی وہاں موجود اس کے حامی ترکی، اِسرائیل اور سعودی عرب چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ حلیف بھی اب امریکی طرز پر اپنے مفادات کے حصول کے لیے عسکریت پسند گروہوں کی سرپرستی اور براہ راست مداخلت کی راہ اپنا چکے ہیں ۔ شام اور عراق میں امریکی و سعودی مداخلت کے باعث شیعہ، سنی تصادم میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی اور مداخلت کے باعث مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں النصرہ فرنٹ، القاعدہ اور داعش جیسی مذہبی تنظیموں نے قدم جما لیے ہیں۔ ان تنظیموں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران افغانستان اور عراق میں امریکی اور اتحادی افواج کی مداخلت سے دنیا میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا ہے ۔ امریکی حکمت عملی مختلف وجوہ کی بناء پر ناکام ہوئی ہے اور القاعدہ سے زیادہ خوفناک تنظیموں کی شکل میں نئے عفریت سامنے آئے ہیں۔
یہ بات امریکہ کے لیے قطعی ناقابلِ قبول ہے کہ امریکی اتحادی ممالک میں ایسی حکومتیں آئیں جو امریکی مفادات کے خلاف ہوں یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے حلیف ممالک میں آمروں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرتا آیا ہے ۔

داعش کے خلاف امریکہ اور اتحادیوں کی کارروائیاں غیرموثر رہی ہیں کیوں کہ امریکی حکام شام اور عراق میں اپنے مفادات کے تحت مخصوص گروہوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ امریکہ نے جو ہتھیار شامی باغیوں کے حوالے کیے تھے وہ بھی داعش کے ہاتھ لگنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ داعش کے خلاف سب سے موثر مزاحمت کردِش آرمی پیش مر گہ کی جانب سے کی جارہی ہے لیکن امریکہ کی جانب سے انہیں ہتھیار فراہم کرنے یا تربیت دینے کے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے اور اور نہ ہی امریکہ کے کسی سیاسی یا عسکری حلیف کی طرف سے انہیں کوئی کمک حاصل ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے کرد مزاحمت کار مضبوط ہوسکتے ہیں اور قوم پرست پیش مرگہ ترکی میں اردگان کے لیے سردرد بن سکتے ہیں۔ ترکی پیش مرگہ کو اس وقت بھی نشانہ بناتا ہے جب وہ کوبانی میں داعش کے خلاف جان کی بازی لگا کر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یوں یہ تاثر بھی عام ہے کہ ترکی شمالی کردستان میں داعش کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے کرد علاقوں میں اپنی فوج استعمال کرسکے۔

شامی خانہ جنگی اور یمنی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کردار تخریبی رہا ہے۔ یہ بات امریکہ کے لیے قطعی ناقابلِ قبول ہے کہ امریکی اتحادی ممالک میں ایسی حکومتیں آئیں جو امریکی مفادات کے خلاف ہوں یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے حلیف ممالک میں آمروں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرتا آیا ہے ۔ اس طرزعمل نے عالمی امن کو خطرات سے دوچار کیا ہے اور مسلح عسکریت پسندی کو عام کیا ہے۔ اگر امریکہ واقعی مشرقِ وسطٰی میں داعش اور دیگر انتہا پسندوں کا خاتمہ چاہتا ہے تو اسے روس، عراق اور ایران کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔ امریکہ کو ترکی اور سعودی عرب جیسے اپنے حلیفوں کے مفادات کو پسِ پشت رکھتے ہوئے عالمی اتفاق رائے کے قیام کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ امریکہ اور سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں نجی ملیشیاز اور جہادی گروہوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی روش ترک کر دیں نہیں تو آنے والے دِنوں میں پاکستان کی طرح اس کا خمیازہ ان ممالک کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔