یکایک اس کی زندگی میں سے خلا ناپید ہو گیا۔ اسے لگا جیسے دنیا کی ساری چیزیں ایک دوسرے کے اُوپر پیوست ہو گئی ہوں۔ ایک دوسرے سے پیوست ہونے میں قُربت کا احساس ہونا چاہیے، مگر یہ کیسی قُربت تھی، جس میں تمام اجسام کی سہ رُخی ابعاد غائب ہو کر دو رُخی رہ گئی تھیں۔ تما م اشیاء اب صرف دو سمتوں میں حرکت کر رہی تھیں۔ دائیں بائیں ، اُوپر نیچے۔ کسی کے کوئی آگے نہیں تھا اور کسی کے کوئی پیچھے بھی موجود نہیں تھا۔ اسے لگا پوری کائنات بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔دنیا کسی تصویر میں موجود اجسام کی طرح پیوستہ نہیں ہے۔ اسے تمام جہات میں موجود ہونا چاہیئے۔ مگر اس وقت یہ اُس کے لئے دیوار پر چسپاں کسی تصویر ہی کی طرح ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ برسوں سے اپنے شاگردوں کو یہ پڑھاتا چلا آیا تھا کہ تیسری جہت فاصلوں سے ہی آگاہ نہیں کرتی ،بلکہ کون کہاں اور کیوں ہے اس کا بھی احساس دلاتی ہے۔اسے یہ خود آگاہی حاصل تھی کہ تیسری جہت زندگی کو معنویت عطا کرتی ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ اُلجھ کر رہ گیا تھا۔
پچھلے حادثوں کی گردش کرتی اطلاعات کا خوف ان کی رگوں میں پہلے سے موجود تھا۔یکایک وہ دس سالہ بچہ بول پڑا جسے ماضی کے سال خوردہ بوڑھے ہاتھوں نے پہلے سے زیادہ مضبوطی سے دبوچ رکھا تھا۔
دادا کیا یہ لوگ ہمیں مار دیں گے؟
دادا کیا یہ لوگ ہمیں مار دیں گے؟
۔۔۔۔۔۔
مسافروں سے بھری بس نے جوں ہی اُبھری ہو ئی سنگلاخ پہاڑی کا موڑ کاٹا تو دھماکا خیز آوازوں نے اُن کا استقبال کیا۔ڈرائیور نے زور کا بریک لگایا ۔ وہ جان گیا تھا کہ آگے بڑھنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ بس کے اندر سراسیمگی پھیل گئی۔ سب ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے، مگر خاموش رہے، کیوں کہ جوابوں سے نا آشنا ہونے کے باوجود آنے والے لمحوں کی سنگینی سے آگاہ تھے۔ پچھلے حادثوں کی گردش کرتی اطلاعات کا خوف ان کی رگوں میں پہلے سے موجود تھا۔یکایک وہ دس سالہ بچہ بول پڑا جسے ماضی کے سال خوردہ بوڑھے ہاتھوں نے پہلے سے زیادہ مضبوطی سے دبوچ رکھا تھا۔
’’ دادا کیا یہ لوگ ہمیں مار دیں گے ؟ ‘‘
اکلوتے بیٹے کی اکلوتی اُولاد کے اس غیر متوقع سوال پر بوڑھے کے شکن آلودہ ماتھے پر کچھ اور رگیں اُبھر آئیں۔ بوڑھا سمجھ گیا کہ اس کا پوتا جانتا ہے کہ ان پہاڑی دروں سے گزرتے ہوئے ان کی برادری کے لوگوں کی روحوں اور جسم کو اس طرح دو لخت کر دیا جاتا ہے جیسے اس کا دادا باہر سے سخت اور ہرے دکھائی دینے والے تربوز کو چھری کے سخت وار سے دو حصوں میں تقسیم کر کے اندر کے نرم اور سرخ گُودے کو نمایاں کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اُسے جب آپریشن تھیٹر میں لایا گیا تو یکایک وہ اُچھل پڑا۔ کمرا بھاری مشینوں ، آلات اور تیز روشنی والے قمقموں سے مزّین تھا۔ مگر اُس کے اُچھلنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ وہ بولا۔
’’ ڈاکٹر ! میں ٹھیک ہو گیا ہوں۔ میں اس کمرے کے تینوں ابعاد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ پارہا ہوں۔ اب مجھے کسی لیزر یا انجیکشن کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
’’ آپ گھبرائیے نہیں ، یہاں لیٹ جائیے، جتنا آپ پُرسکون رہیں گے، میں آسانی سے کام کر سکو ں گا۔ ‘‘ ڈاکٹر نے اُس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
مسافروں سے بھری بس نے جوں ہی اُبھری ہو ئی سنگلاخ پہاڑی کا موڑ کاٹا تو دھماکا خیز آوازوں نے اُن کا استقبال کیا۔ڈرائیور نے زور کا بریک لگایا ۔ وہ جان گیا تھا کہ آگے بڑھنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ بس کے اندر سراسیمگی پھیل گئی۔ سب ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے، مگر خاموش رہے، کیوں کہ جوابوں سے نا آشنا ہونے کے باوجود آنے والے لمحوں کی سنگینی سے آگاہ تھے۔ پچھلے حادثوں کی گردش کرتی اطلاعات کا خوف ان کی رگوں میں پہلے سے موجود تھا۔یکایک وہ دس سالہ بچہ بول پڑا جسے ماضی کے سال خوردہ بوڑھے ہاتھوں نے پہلے سے زیادہ مضبوطی سے دبوچ رکھا تھا۔
’’ دادا کیا یہ لوگ ہمیں مار دیں گے ؟ ‘‘
اکلوتے بیٹے کی اکلوتی اُولاد کے اس غیر متوقع سوال پر بوڑھے کے شکن آلودہ ماتھے پر کچھ اور رگیں اُبھر آئیں۔ بوڑھا سمجھ گیا کہ اس کا پوتا جانتا ہے کہ ان پہاڑی دروں سے گزرتے ہوئے ان کی برادری کے لوگوں کی روحوں اور جسم کو اس طرح دو لخت کر دیا جاتا ہے جیسے اس کا دادا باہر سے سخت اور ہرے دکھائی دینے والے تربوز کو چھری کے سخت وار سے دو حصوں میں تقسیم کر کے اندر کے نرم اور سرخ گُودے کو نمایاں کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اُسے جب آپریشن تھیٹر میں لایا گیا تو یکایک وہ اُچھل پڑا۔ کمرا بھاری مشینوں ، آلات اور تیز روشنی والے قمقموں سے مزّین تھا۔ مگر اُس کے اُچھلنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ وہ بولا۔
’’ ڈاکٹر ! میں ٹھیک ہو گیا ہوں۔ میں اس کمرے کے تینوں ابعاد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ پارہا ہوں۔ اب مجھے کسی لیزر یا انجیکشن کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
’’ آپ گھبرائیے نہیں ، یہاں لیٹ جائیے، جتنا آپ پُرسکون رہیں گے، میں آسانی سے کام کر سکو ں گا۔ ‘‘ ڈاکٹر نے اُس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
بوڑھے نے سیٹ سے اُٹھتے ہوئے اپنے پوتے کو سینے سے جکڑ لیا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ حال میں کہیں موجود اس کے اپنے بیٹے کے ماضی اور مستقبل کے رشتوں کی کڑی ٹوٹنے والی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ ظالم لوگ معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔
’’ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ میں صرف دوہی ڈائمینشن محسوس کرتا رہا ہوں، مگر اس کمرے میں دائیں بائیں، اُوپر نیچے کی علاوہ آگے پیچھے یعنی ساری سمتیں موجود ہیں، چنانچہ اس کا مطلب میری آنکھیں ٹھیک کام کر رہی ہیں۔ ‘‘
’’ آپ کتابی ڈائیمینشن کا خیال اپنے دماغ سے نکال دیں۔ آپ کو جو بیماری ہے، مجھے معلوم ہے، اور میں اس کا ہی علاج کر رہا ہوں۔ اگر آپ میرے ساتھ تعاون نہیں کریں گے تو میں آپ کا علاج نہیں کر سکوں گا۔ آپ یقیناًمیری بات سمجھ رہے ہوں گے۔‘‘ ڈاکٹر نے رسانیت سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
اس دوران دو مدد گاروں نے اُسے آپریشن ٹیبل پر لٹا دیا۔ اسے بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے ایک مدد گار کا ہاتھ جھٹک دیا۔ ڈاکٹر کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہو گئے۔ اس نے ہاتھوں کے دستانے اُتارتے ہوئے غصے میں کہا۔
’’ انہیں باہر لے جاؤ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
’’ ایک ایک کر کے سب باہر آجاؤ۔‘‘
سخت اور کرخت آواز اُبھری۔ سب نے ایک دوسرے کو بے بسی سے دیکھا۔ وہ جانتے تھے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ بوڑھے نے سیٹ سے اُٹھتے ہوئے اپنے پوتے کو سینے سے جکڑ لیا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ حال میں کہیں موجود اس کے اپنے بیٹے کے ماضی اور مستقبل کے رشتوں کی کڑی ٹوٹنے والی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ ظالم لوگ معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اسی لیے اس نے اپنے پوتے کو دھیرے سے کہا۔
’’ آپ کتابی ڈائیمینشن کا خیال اپنے دماغ سے نکال دیں۔ آپ کو جو بیماری ہے، مجھے معلوم ہے، اور میں اس کا ہی علاج کر رہا ہوں۔ اگر آپ میرے ساتھ تعاون نہیں کریں گے تو میں آپ کا علاج نہیں کر سکوں گا۔ آپ یقیناًمیری بات سمجھ رہے ہوں گے۔‘‘ ڈاکٹر نے رسانیت سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
اس دوران دو مدد گاروں نے اُسے آپریشن ٹیبل پر لٹا دیا۔ اسے بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے ایک مدد گار کا ہاتھ جھٹک دیا۔ ڈاکٹر کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہو گئے۔ اس نے ہاتھوں کے دستانے اُتارتے ہوئے غصے میں کہا۔
’’ انہیں باہر لے جاؤ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔
’’ ایک ایک کر کے سب باہر آجاؤ۔‘‘
سخت اور کرخت آواز اُبھری۔ سب نے ایک دوسرے کو بے بسی سے دیکھا۔ وہ جانتے تھے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ بوڑھے نے سیٹ سے اُٹھتے ہوئے اپنے پوتے کو سینے سے جکڑ لیا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ حال میں کہیں موجود اس کے اپنے بیٹے کے ماضی اور مستقبل کے رشتوں کی کڑی ٹوٹنے والی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ ظالم لوگ معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اسی لیے اس نے اپنے پوتے کو دھیرے سے کہا۔
اس نے چاہا کہ وہ ڈاکٹر کو جا کربتائے کہ اس کی آنکھوں پر عذاب رگوں سے نہیں، بلکہ کلیجوں کے پھٹنے سے آیا تھا، جب اس کے بوڑھے باپ اور بیٹے سمیت پوری بس کے مسافروں کو دین کے خود ساختہ دائرے سے خارج قرار دیتے ہوئے زندگی کے دائرے سے باہر پھینک دیا تھا۔
’’ ہم جب بس سے اُتریں تو تم فوراً بس کے نیچے سے دوسری طرف نکل کر بھاگ جانا۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔‘‘
بوڑھے کے الفاظ بچے کے کانوں تک پہنچ گئے تھے ۔ وہ دادا کی بات سمجھ بھی گیا تھا، مگر اسی لمحے بس سے اُترنے والے پہلے مسافر کے پیروں تلے زمین کچھ اس طرح کھینچ لی گئی جیسے کرتب دکھانے والا میز اور اُس پر دھرے سامان کے درمیان بچھے میز پوش کو اس طرح کھینچ لیتا ہے کہ سامان کا توازن برقرار رہتا ہے ۔مگر یہاں مسافر اپنے توازن کو قائم رکھنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔ اس کی کربناک چیخ میں دوسرے خوفزدہ مسافروں کی چیخیں بھی شامل ہو گئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
شام تک اُسے اندازہ ہو گیا کہ اس کی بیماری برقرار ہے۔ سامنے دکھائی دینے والی چیزیں اب بھی ایک دوسرے کے اُوپر پیوست ہو رہی ہیں۔ اس نے سوچا کہ ڈاکٹر کو جا کر بتائے، مگر فوراً ہی اُسے خیال آیا کہ وہ صبح ڈاکٹر کو بے حد ناراض کر آیا تھا۔ اُسے یاد آیا کہ کچھ دن پہلے ڈاکٹر نے اُسے بتایا تھا کہ کسی وقت بلڈ پریشر اچانک غیر معمولی حد تک بڑھ جانے کے سبب اس کی آنکھ کے اندر باریک باریک رگوں سے خون خارج ہو کر آنکھ کے اندر جمع ہو گیا ہے۔ اور یہ اچھی علامت نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے اسے لیزر اور انجیکشن تجویز کیا تھا اور صبح لگایا جانے والا انجیکشن علاج ہی کی ایک کڑی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
تمام مسافر بس سے اُتارے جا چکے تھے۔ بوڑھا اور اس کا دس سالہ پوتا اُترنے والے آخری افراد تھے، اور نعرے کی گونج میں زمین کی چھونے والا آخری قدم اسی بچے کا تھا ، جس کے دادا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی تھی کہ ، خدا کے واسطے اس بچے کو چھوڑ دو، مگر جواب میں نفرت بھرا ایک بے رحم قہقہ، مسرتوں میں دراڑ ڈالتے نعرے کی گونج، فضا کو نامانوس کرتی بارود کی بو اور معصوم حلقوم سے اُبلتے گرم انسانی لہو کی مہک کے علاوہ وہاں اور کچھ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
خیالات کی رو بہتی چلی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو کسی غیر معمولی بات کی وجہ سے اچانک شاک لگا ہو اور آپ کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا ہو۔ اس کے ذہن کے پردے پر چند ماہ کے واقعات گردش کرنے لگے۔ وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ یادوں کی لہروں پر اُبھرنے والا ایک واقعہ بکھر کر رہ گیا۔ جسم میں خوف سرائیت کر گیا۔ اسے لگا جیسے آس پاس آتشیں اسلحے سے گولیاں برسائی جا رہی ہوں۔ نہ جانے کس قدر سنگین منظر تھا ،جس نے اُسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس نے قریبی جالیوں کا سہارا لیا اور سنگی فرش پر ڈھیر ہوتا چلا گیا۔ اس نے چاہا کہ وہ ڈاکٹر کو جا کربتائے کہ اس کی آنکھوں پر عذاب رگوں سے نہیں، بلکہ کلیجوں کے پھٹنے سے آیا تھا، جب اس کے بوڑھے باپ اور بیٹے سمیت پوری بس کے مسافروں کو دین کے خود ساختہ دائرے سے خارج قرار دیتے ہوئے زندگی کے دائرے سے باہر پھینک دیا تھا۔
بتاتے ہیں کہ اس کی آنکھوں کے بنیادی اوصاف میں تیسری ڈائمینشن اب بھی موجود تھی، مگر لاوے کی طرح پھٹ جانے والی رگوں سے نکلنے والے خون کی دبیز تہہ کی وجہ سے سارے خوش نما منظر دھندلاگئے تھے، اور جما ہوا خون اب دھیرے دھیرے اپنی اصل رنگت بھی کھوتا جا رہا تھا۔ بوڑھے باپ اور نو عمر بیٹے کی صورت میں ماضی اور مستقبل ، اور آنکھوں سے چیزوں کے آگے پیچھے ہونے کے احساس کی گم گشتگی لئے مرد قلندر جو اپنی بیمار بیوی کو برسوں پہلے دشوار گزار رستوں سے شہر کے ہسپتال لاتے ہوئے سفر کے درمیان ہی کھو چکا تھا، کے پاس اب خاندانی سرمائے کی صورت میں کوئی جمع پونجی نہیں بچی تھی۔ اور اب صرف لمحہ بھر کو بڑھ جانے والے فشار خون نے اس کی باریک رگوں کے تناؤ کو بڑھاتے ہوئے اس کی آنکھوں کو خون آلودہ کر دیا تھا۔ وقت کی چوتھی جہت میں موجود ہوتے ہوئے بھی اس کی زندگی منجمد ہو کر رہ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
بوڑھے کے الفاظ بچے کے کانوں تک پہنچ گئے تھے ۔ وہ دادا کی بات سمجھ بھی گیا تھا، مگر اسی لمحے بس سے اُترنے والے پہلے مسافر کے پیروں تلے زمین کچھ اس طرح کھینچ لی گئی جیسے کرتب دکھانے والا میز اور اُس پر دھرے سامان کے درمیان بچھے میز پوش کو اس طرح کھینچ لیتا ہے کہ سامان کا توازن برقرار رہتا ہے ۔مگر یہاں مسافر اپنے توازن کو قائم رکھنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔ اس کی کربناک چیخ میں دوسرے خوفزدہ مسافروں کی چیخیں بھی شامل ہو گئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
شام تک اُسے اندازہ ہو گیا کہ اس کی بیماری برقرار ہے۔ سامنے دکھائی دینے والی چیزیں اب بھی ایک دوسرے کے اُوپر پیوست ہو رہی ہیں۔ اس نے سوچا کہ ڈاکٹر کو جا کر بتائے، مگر فوراً ہی اُسے خیال آیا کہ وہ صبح ڈاکٹر کو بے حد ناراض کر آیا تھا۔ اُسے یاد آیا کہ کچھ دن پہلے ڈاکٹر نے اُسے بتایا تھا کہ کسی وقت بلڈ پریشر اچانک غیر معمولی حد تک بڑھ جانے کے سبب اس کی آنکھ کے اندر باریک باریک رگوں سے خون خارج ہو کر آنکھ کے اندر جمع ہو گیا ہے۔ اور یہ اچھی علامت نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے اسے لیزر اور انجیکشن تجویز کیا تھا اور صبح لگایا جانے والا انجیکشن علاج ہی کی ایک کڑی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
تمام مسافر بس سے اُتارے جا چکے تھے۔ بوڑھا اور اس کا دس سالہ پوتا اُترنے والے آخری افراد تھے، اور نعرے کی گونج میں زمین کی چھونے والا آخری قدم اسی بچے کا تھا ، جس کے دادا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی تھی کہ ، خدا کے واسطے اس بچے کو چھوڑ دو، مگر جواب میں نفرت بھرا ایک بے رحم قہقہ، مسرتوں میں دراڑ ڈالتے نعرے کی گونج، فضا کو نامانوس کرتی بارود کی بو اور معصوم حلقوم سے اُبلتے گرم انسانی لہو کی مہک کے علاوہ وہاں اور کچھ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
خیالات کی رو بہتی چلی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو کسی غیر معمولی بات کی وجہ سے اچانک شاک لگا ہو اور آپ کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا ہو۔ اس کے ذہن کے پردے پر چند ماہ کے واقعات گردش کرنے لگے۔ وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ یادوں کی لہروں پر اُبھرنے والا ایک واقعہ بکھر کر رہ گیا۔ جسم میں خوف سرائیت کر گیا۔ اسے لگا جیسے آس پاس آتشیں اسلحے سے گولیاں برسائی جا رہی ہوں۔ نہ جانے کس قدر سنگین منظر تھا ،جس نے اُسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس نے قریبی جالیوں کا سہارا لیا اور سنگی فرش پر ڈھیر ہوتا چلا گیا۔ اس نے چاہا کہ وہ ڈاکٹر کو جا کربتائے کہ اس کی آنکھوں پر عذاب رگوں سے نہیں، بلکہ کلیجوں کے پھٹنے سے آیا تھا، جب اس کے بوڑھے باپ اور بیٹے سمیت پوری بس کے مسافروں کو دین کے خود ساختہ دائرے سے خارج قرار دیتے ہوئے زندگی کے دائرے سے باہر پھینک دیا تھا۔
بتاتے ہیں کہ اس کی آنکھوں کے بنیادی اوصاف میں تیسری ڈائمینشن اب بھی موجود تھی، مگر لاوے کی طرح پھٹ جانے والی رگوں سے نکلنے والے خون کی دبیز تہہ کی وجہ سے سارے خوش نما منظر دھندلاگئے تھے، اور جما ہوا خون اب دھیرے دھیرے اپنی اصل رنگت بھی کھوتا جا رہا تھا۔ بوڑھے باپ اور نو عمر بیٹے کی صورت میں ماضی اور مستقبل ، اور آنکھوں سے چیزوں کے آگے پیچھے ہونے کے احساس کی گم گشتگی لئے مرد قلندر جو اپنی بیمار بیوی کو برسوں پہلے دشوار گزار رستوں سے شہر کے ہسپتال لاتے ہوئے سفر کے درمیان ہی کھو چکا تھا، کے پاس اب خاندانی سرمائے کی صورت میں کوئی جمع پونجی نہیں بچی تھی۔ اور اب صرف لمحہ بھر کو بڑھ جانے والے فشار خون نے اس کی باریک رگوں کے تناؤ کو بڑھاتے ہوئے اس کی آنکھوں کو خون آلودہ کر دیا تھا۔ وقت کی چوتھی جہت میں موجود ہوتے ہوئے بھی اس کی زندگی منجمد ہو کر رہ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
2 Responses
Bht e umfa andaz ik dard ko bayan krne m rkha gaya he …yaqeqan dard ki gahraae ko paker ase kahaniyan likhi jati hen
Pasandeedgi ka hukriya Dost.