محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت پیپلزپارٹی کے شہیدوں کی فہرست میں محض ایک نام کا اضافہ نہیں ہے بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل ہی کی طرح تاریخ میں ایک ایسی یاددہانی کا اضافہ ہے جو ہمیں شدت پسندی اور آمریت کے خلاف جنگ کے لیے جذبہ اور دانش دونوں فراہم کر نے کی اہلیت رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابق چئیر پرسن کی قربانی ہمارے سیاسی شعور کا ایک ایسا حصہ ہے کہ ہم جب بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نکلیں گے ہمیں بینظیر کی شہادت سے ہی آغاز کرنا ہوگا۔ ایک معزول جج کی بحالی، ایک آمر کی مخالفت اور اپنے سیاسی حریف سے جمہوری میثاق یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ پیپلز پارٹی ہی وہ وہ واحد جماعت ہے جو اس ملک میں جمہوری قدروں اور پارلیمانی بالادستی کی مشعل جلائے رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے اپنے سیاسی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے مذہب اور سیاست کی یکجائی کی، ایک منتخب حکومت کو آمریت میں بدلنے والے غیر جمہوری رویوں کی بنیاد رکھی اور بعدازاں موروثی سیاست کا چلن عام کیا۔
پیپلز پارٹی کی خامیاں اور خوبیاں، کامیابیاں اور ناکامیاں سبھی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے سیاسی بلوغت کے حصول کے لیے مکتب کا درجہ رکھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جو رحجانات متعارف کرائے ہیں وہ ہماری سیاسی سمت درست کرنے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے عوامی سیاست کا چلن شروع کیا ، عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا،مزدور اور کسان کی بات کی،روایتی محلاتی سیاست کو للکارتے ہوئے نئی قیادت فراہم کی۔ اور پھر یہ پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے اپنے سیاسی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے مذہب اور سیاست کی یکجائی کی، ایک منتخب حکومت کو آمریت میں بدلنے والے غیر جمہوری رویوں کی بنیاد رکھی اور بعدازاں موروثی سیاست کا چلن عام کیا۔
بھٹو صاحب نے جس عوامی سیاست کی بنیاد رکھی تھی اور بعدازاں اپنی ہے سیاسی جمہوری اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے طاقت کے غلط استعمال کے باعث خود کو غیر مقبول کیا تھاتمام جمہوری حکومتوں اور جماعتوں کے ماضی، حال اور مستقبل کا تجزیہ ہے۔اسی طرح بینظیر بھٹو کی سیاسی زندگی آمریت اور مذہبی انتہا پسندی کی مخالفت سے عبارت ہے۔ بینظیر اور نواز شریف کے درمیان ہونے والا میثاق جمہوریت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آئین پاکستان کے بعد کی اہم ترین دستاویز ہے ۔حالیہ سیاسی بحران کے دوران پیپلز پارٹی کا جمہوری رویہ یقیناً بینظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت کا ہی تسلسل ہے جس کے باعث اگست میں غیر جمہوری قوتوں کا جمہوری تسلسل کو ختم کرنے کا منصوبہ ناکام ہواہے۔
پیپلز پارٹی جو بینظیر کے زمانے میں پورے پاکستان کی نمائندگی کرنے والی واحد جماعت تھی اب صرف اندرون سند کے جاگیرداروں کی جماعت بن کر رہ چکی ہے۔
گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت اور حالیہ سیاسی بحران کے دوران پیپلز پارٹی کے کم زور ہونے کے باعث بہت سے سیاسی تجزیہ نگار پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں پیپلز پارٹی کا زیادہ تر ووٹ بنک پاکستان تحریک انصاف کی طرف مائل ہو چکا ہے اور اگلے انتخابات میں حقیقی مقابلہ مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے درمیان ہو گا۔ بعض مبصرین کے خیال میں تو پنجاب سے پیپلز پارٹی کاخاتمہ وہ چکا ہے اور اب پیپلز پارٹی کی مفاہمتی سیاست میں عوام کے لیے کوئی کشش باقی نہیں رہی۔ اگرچہ ناقدین کے اعتراضات میں وزن ہے اور پیپلز پارٹی جو بینظیر کے زمانے میں پورے پاکستان کی نمائندگی کرنے والی واحد جماعت تھی اب صرف اندرون سندھی کے جاگیرداروں کی جماعت بن کر رہ چکی ہے۔
پیپلز پارٹی کے حوالے سے یہ تیسرا موقع ہے جب یہ کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہو چکی ہے اور بطور ایک جماعت پیپلز پارٹی اب ایک صوبے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ضیاءالحق آمریت، ستانوے کے انتخابات اور اب 2013 کے انتخابات کے بعد ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے خاتمے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اس تاثر میں اس لیے بھی اضافہ ہوا ہے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کو ایک بار آمریت اور دوسری بار دائیں بازو کے قدامت پرست سیاسی اتحاد سے خطرہ تھا لیکن اس بار پیپلز پارٹی کونوجوانوں میں مقبول ترین جماعت تحریک انصاف سے خطرہ ہے لیکن یہ تجزیہ یقیناً قبل ازوقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی کا کارکن اور نچلے درجے کے سیاسی رہنما موجودہ زرداری قیادت سے ناخوش ہے اور بیشتر حمایتی خصوصاً پنجاب میں اپنی وفاداریاں تبدیل کر چکے ہیں، یہ بھی صحیح ہے کہ پانچ سالہ وفاقی حکومت اور دس سالہ صوبائی حکومت کے دوران پیپلز پارٹی کی گورننس کا ریکارڈ بے حد برا ہے جس کی وجہ سے اس جماعت کے غریبوں کی جماعت ہونے کے تاثر کو دھچکا پہنچا ہے، یہ اعتراض بھی بجا ہے کہ یہ پارٹی موروثیت اور روایتی سیاست کا گڑھ بن چکی ہے لیکن اس سب کے باوجود راقم کے نزدیک پیپلز پارٹی ہی مستقبل کی واحد متبادل جماعت قرار پائے گی۔
لیکن اس مرتبہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ ایک قومی جماعت بننے کے لیے جماعت کے اندر جمہوری قدروں کو فروغ دینا ہوگا، پاکستان کے معاشی اور سیاسی مسائل کے لیے ایک واضح منشور دینا ہو گا اور نئی قیادت کو سامنا لانا ہوگا
یہ جماعت اس سے قبل بھی دو مرتبہ تشکیل اور تشکیلِ نو کے عمل سے گزر چکی ہے اور اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس جماعت کی بنیاد رکھتے ہوئے بائیں بازو کی نوجوان اور دانشور قیادت فراہم کی تھی، اسی طرح بینظیر بھٹو نے اپنی جماعت کی تشکیل نو کی اور اسے تین بار انتخابات جیتنے کے قابل بنایا تھا۔ اس وقت بلاول بھٹو کے پاس وقت بھی ہے اور موقع بھی کے وہ پیپلز پارٹی کو اپنی والدہ اور نانا کی طرح تشکیل نو کے عمل سے گزار کر ایک نئی قیادت فراہم کر سکتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ ایک قومی جماعت بننے کے لیے جماعت کے اندر جمہوری قدروں کو فروغ دینا ہوگا، پاکستان کے معاشی اور سیاسی مسائل کے لیے ایک واضح منشور دینا ہو گا اور نئی قیادت کو سامنا لانا ہوگا اب محض بھٹوازم اور شہیدوں کے نام پر ووٹ نہیں حاصل کیے جا سکتے ۔
پاکستان کو درپیش شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خطرے کے پیش نظر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ملک کے تمام لبرل، سیکولر اور ترقی پسند فکر کے حامل افراد نواز شریف اور عمران خان جیسے طالبان پسند سیاستدانوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کا انتخاب کریں گے۔یہ وہ واحد جماعت ہے جہاں پارٹی کا ہر کارکن اور رہنما اپنی قیادت کے فیصلوں پر کھلے بندوں تنقید کرتا ہے اور اختلاف کرنے کے باوجود پارٹی کی جانب سے انتقامی کاروائی کا نشانہ نہیں بنتا۔ اس جماعت کے جیالے بارہااس جماعت کو اس کی غلطیوں کی وجہ سے انتخابات میں مسترد کرچکے ہیں اور بارہا یہ جماعت اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنا ووٹ بنک واپس جیت چکی ہ کیوں کہ یہ جماعت محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ اور ایک وراثت بھی ہے۔ پیپلز پارٹی قوم پرستوں ، ترقی پسندوں، جمہوریت پسندوں اور شدت پسندی کے مخالفوں کے لیے اس وقت واحد انتخاب اور متبادل ہے کیوں کہ یہ جماعت شدت پسندی اور آمریت کی مخالفت کرنے والوں کے حق میں اٹھنے والی بلند ترین آواز ہے۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: