اے متروک چیخوں کے رب
تم کس تجوری میں بند ہو؟
میں جانتا ہوں اس کی کُنجی تم نے ہی نِگلی ہے
یہ کیسا آسمانی پاگل پن ہے
آواز کی ایجاد سے فارغ ہوکر
تم کان لپیٹ کر سو گئے
آنکھیں بنا کر تم نے اپنا منہ
میری بینائی سے مٹا دیا
اب میں تماشہ دیکھتا ہوں
تو کہتے ہو کہ نہ دیکھو
کچھ تو اپنا خوف کھاؤ
 
میں شکایت کے لباس میں لپٹا ہوا
ناشتہ کر رہا ہوں
کرب کی بوتل پی کر
ٹرین میں بیٹھا اپنی نوکری کے بندوبست میں نکلا
راستے میں ہر پتھر کے نیچے
امیدوں کو توڑتا ہوا
لوگوں سے ملتا رہا
مگر تم نہیں ملے
تم شاید سو رہے ہو
کہیں کسی تنہائی کے دل میں
نئی کائنات بو رہے ہو
 
مجھے شک ہے تمھارے چہرے
فرشتوں کی کھالوں میں پیوستہ ہیں
تمہاری آوازیں چیزوں کی خاموشی میں
عادی خیالوں کی طرح اترتی ہیں
تم سوالوں کی دائی ہو
جوابوں کے جلاد
اور میں پہاڑوں کے اکیلے پن میں
ایک بھولی ہوئی لاش کی اداسی میں
برفانی امیدوں کا انجن ہوں
سوچ کا بیمار پرندہ
میں جو تمھیں دیکھ نہیں سکتا

3 Responses

Leave a Reply

%d bloggers like this: