Laaltain

حسن کی صورتحال (خالی جگہیں پُر کرو): تکنیکی جائزہ – اقرا غفار

16 جون، 2020
Picture of اقرا غفار

اقرا غفار

لالٹین پر یہ تحریر یاسر حبیب کے تعاون سے شائع کی جا رہی ہے۔ یاسر حبیب “عالمی ادب کے اردو تراجم” نامی معروف فیس بک گروپ کے ایڈمن ہیں۔ یہ گروپ فیس بک صارفین تک تجربہ کار اور نوآموز مترجمین کا کام پہنچانے کا اہم ذریعہ ہے۔

……………

بیسویں صدی میں جہاں جدیدیت اور روشن خیالی کے نظریات کا پرچار ہوا وہاں اس صدی کے اواخر میں جدید رویوں اور تصورات کی لہر بھی زور و شور سے ابھری آرٹ اور فنون کے تمام شعبے اور زندگی کے بہت سے معاملات جہاں جدیدیت کی دین سے متاثر ہوئے وہاں دوسری طرف مابعد جدیدیت کی واضح جھلکیاں بھی آرٹ اور فن میں برابر محسوس کی گئیں لہذا ادب بھی ان تحریکوں اور مابعد جدید رویوں کا تاثر قبول کیے بنا نہ رہ سکا اور اس کی بعض مثالیں اردو فکشن خصوصا ناول اور افسانے میں دیکھنے کو سامنے آئی جدیدیت کے علمبرداروں روشن خیالی یا خردافروزی کی شمع جلانے والوں كا تقسیم سے پهلے اور تقسیم كے بعد بھی ایك ریلا دكهای دیتا ہے اور ان سے متاثر ادیب بھی اپنی تخلیقات كے ذریعے نماینده نظریات كو كسی صورت میں پیش كرتے هیں مگر مابعد جدیدیت جسے تحریك كی بجایے صورتحال یا رویے كا نام دینا زیاده مناسب سمجھاگیا اس كے زیرِاثر لكهنے والوں كا گروه بیسویں صدی میں كم هی نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اكیسویں صدی كا سورج هی اس كی روشنی اپنے ساتھ لائے گا۔

مابعدجدیدیت ویسے تو انیس سو پچاس کی دہائی سے ادبی اور فکری منظر ناموں پر موجود تھی مگر اس نے عروج کی منزلیں انیس سو اسی میں طے کیں مگر ہمارے ہاں اس کا شورو غوغا اکیسویں صدی میں ہی بلند ہوا اور اب دنیا کے ہر کونے میں ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے کہ ہم مابعد جدید عہد میں رہے ہیں۔مابعد جدیدیت نے عقل کے فراہم کردہ معیارات کوکڑی تنقیدی نظر سے دیکھا، پرکھا اور جانچا ۔ایک شے اس سے لازم و ملزوم قرار دی گئی جس کو تشکیک کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یعنی ہر شے کو شک كی لیبارٹری سے گزارا جائے مابعد جدیدیت اپنے اندر بہت سے افکار اور نظریات کو سموئے ہوئے ہے جن میں لاکان ،دریدا ،فوکو ،بادریلا اور لیوتار کے خیالات کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے اور ان کے بغیر مابعد جدیدیت کا دائرہ کار مکمل نہیں ہو پاتا۔ دریدا نے رد ساخت یا رد تشکیل کا فلسفہ پیش کیا ردتشکیل کے مطابق متن کے معنی کا کوئی مرکز نہیں ہے اور اسی طریقہ کار میں متن کے متعینہ معنی کو بے دخل کرنے کا رجحان فروغ پاتا ہے دریدا نے ساختیات کے تصورات کو بنیاد بنا کر جن كو سوسیر(sauccer( نے پیش کیا تھا ان کو پلٹ ڈالا۔ رد تشکیل کا بنیادی سروکار معنی سے ہے اور اس بات پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے کہ ایک لفظ کے مخصوص معنی نہیں بلکہ ایک سے زائد ہو سکتے ہیں اور ایک متن کی تشریحات بھی ایک سے زائد کی صورت میں ممکن ہے جس کے نتیجے میں پہلے معنی کی موجودگی ختم ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا معنی یا مفہوم لے لیتا ہے اس کے مطابق زبان افتراقات کا نظام ہے اور یہی نظریہ افتراق دریدا کا مرکزی نقطہ ہے۔زبان کے جاری نظام میں معنی دو طریقوں سے پیدا ہوتے ہیں ایک فرق سے دوسرا التوا سے۔ اور اسی وجہ سے معنی خیزی کا عمل یاكھیل جاری رہتا ہے دریدا اس بات پر بھی اصرار کرتا ہے کہ معنی پیدا کرنے کا عمل “موجودگی” سے جڑا ہوا ہے مگر معنی تفریقی رشتے کے موجود اور ناموجود دونوں عناصر سے قائم ہوتا ہے۔

دریدا کے انہی نظریات كی واضح جھلكیاں مرزا اطہر بیگ کے ناول “حسن کی صورتحال (خالی جگہیں پر کرو(” میں ملتی ہیں جہاں ناول میں ایک نئی بیانیہ تکنیک متعارف ہوتی ہے اور سیدھی سیدھی کہانی بیان کرنے کی بجائے متن کی ایک سے زائد متبادل تشریحات پیش کرنے کا گر اپنایا جاتا ہے۔ ہر واقعے کی مختلف توضیحات پیش کرتے ہوئے” ہوسکتا ہے”کی تکرار ناول کا حصہ بنتی ہے۔ یعنی واقعہ ایک ہی ہے مگر اس کے پس منظر مختلف نوعیتوں کے بیان کئے جاتے ہیں اور حتمی پیشکش کی بجائے متعدد سطحوں كے معانی اور مفاہیم شامل ہوتے ہیں۔ مصنف جہاں خود تخیل كے سحر میں گرفتار ہو كر ایك واقعے كو بہت سارےمعنی پہناتا ہوا آگے بڑھتا ہے وہاں وه قاری كو بھی انگلی تھام كر ساتھ چلنے پر مجبور كرتا ہے اور قاری ایك ہی جست میں مصنف كا ہم خیال ہو كر ہر واقعے كے متعدد پس منظر اخذ كرتا ہے۔ قرات در قرات كا عمل ناول كے آغاز میں بھرپور انداز سے موجود ہ۔ے مرزا اطہر بیگ لكھتے ہیں :

“ہوسكتا ہے شخصیت كو وہاں قید كرنے كے بعد عام كپڑے پہنایے گیے ہوں اور اس كا سوٹ وہاں لٹكتا چھوڑ دیا گیا ہوجہاں سے اغوا كنندگان كے خیال كے مطابق كوئی نہیں دیكھ سكتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ہو سكتا ہے یہ مكان شہر میں كام كرنے والے كسی درزی کا ہو اور درزی نے یہ سوٹ دبئی میں كام كرنے والے اور جلد ہی چھٹی پر گھر واپس آنے والے بیٹے كے لیے چرایا ہو۔۔۔۔۔”(صفحہ نمبر ۱۴،حسن كی صورتحال)

دریدائی نقطہ نظر جس کے مطابق متن معنی کا حامل نہیں ہوتا اور ایک سے زائد متبادلات اور تشریحات متن کے اندر موجود ہوتی ہیں اسی نقطہ نظر کو تکنیک بناکر اس ناول میں متعدد موضوعات کی فہرست ملتی ہے اور ناول نگار ایک سے زائد بیانیے ترتیب دیتا ہوا علامتوں کا ایک جہان بھی پیدا کرتا ہے۔ ناول میں جب متن تشکیک کے دوراہے پر کھڑا ہوکر اپنی تشریحات کے در وا کرتا ہے تو قاری بھی مابعد جدید عہد کی آواز پر متوجہ ہوتا ہے۔ حسن کے کردار کے ذریعے ناول نگار اس تکنیک کا استعمال کرتا ہے ،حسن جو کہ ایک اکاؤنٹنٹ ہے اور شہر سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کیمیکل فیکٹری تک کے اپنے سفر کے دوران متعدد چیزوں کو حیرت سے دیکھتا ہےاور اپنی قیاس آرائی سے ایک منظر كے تخلیق ہونے كی متعدد وجوہ سوچتا ہے:
“حسن نے ایسے مناظر دیكھنے شروع كر دیے تھے جو حقیقت میں كوئی وجود نہیں ركھتے تھے بلکہ حسن تو خود ” ہو سکتا ہے یہ میری نظر کا دھوکہ ہو” کو ہمیشہ خوف کے آخری ناقابل تردید متبادل کے طور پر قبول کیا کرتا تھا “۔

پھر اسی کردار کے اندر ایک تجسس پیدا ہوتا ہے کہ چیزیں یا مناظر جیسے نظر آتے ہیں ویسے کیوں ہیں یا ان کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔کیا صرف حسن کے واہمے اس كو کسی الجھن میں گرفتار رکھتے ہیں یا واقعتاًایك منظر یا چیز كے پیچھے متعدد تشریحات یا توضیحات موجود ہو سكتی ہیں۔ یہاں حسن كا كردار خود گفتگو كرتا ہوا نهیں ملتا بلکہ واحد متكلم كی تكنیك اپناتے ہوئے ناول نگار بار بار خود مخاطب ہو كرحسن كی سرگرمیوں پر تبصره كرتا ہے ناول نگار لكھتا ہے:
“ہم سمجھتے ہیں کہ یہی وہ وقت تھا جب حسن نے اپنی حقیقی ذاتی زندگی کو زیادہ حقیقی بنانے کا ہلاکت خیز فیصلہ کیا۔۔۔۔۔ حالانکہ اب بھی وہ اپنے اندر قائم ہونے والے متبادل منظر ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے مطمئن ہو سكتا تھا ۔۔۔۔۔ وہ سوچ سکتا تھا کہ ہو سکتا ہے نام کے تینوں الفاظ میں کہیں نہ کہیں کوئی فرق ہو جو کتبے کے پرانے ہونے ،فاصلے اور گاڑی کی رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے نظر نہ آتا ہو مثلا” حسن محسن ہو سکتا ہے احسن ہوسکتا ہے” (صفحہ نمبر ۲۳ حسن كی صورتحال)

ناول نگار ناول کے آغاز میں ہی آگے آنے والے واقعات یا کہانیوں یا بیانیوں کے بارے میں آگاہ کرنے اور متعارف کروانے کی غرض سے قاری کا ذہن بناتا ہے تاکہ قاری جاری شدہ بیانیے کی تکنیک کو سمجھ کر آگے بڑھے اور بوریت یا اکتاہٹ کا شکار نہ ہو اس لیے حسن کے کردار کو ایک مختصر طریقے سے متعارف کروا کے دوسرے باب” حیرت کی ادارت” میں داخل ہوتا ہے جہاں حسن کے حیرانیوں پر تبصرے اور ایک واضح نوٹ دیا گیا ہے کہ:-
“( مطالعہ اختیاری پچیدہ فکری مباحث سے نالاں قاری اس باب کو نظر انداز کر سکتے ہیں)”

اس نوٹ سے قاری کی دلچسپی میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور کمی بھی ہو سکتی ہے مگر اس طرح کے ابواب جہاں فکری مباحث اور فلسفیانہ مباحث کے در کھولتے ہیں وہاں دوسری طرف ناول کی صنف سے ہٹ کر كوئی دوسری شے معلوم ہوتے ہیں ۔ناول نگار کہانی اور حیرانی کے الفاظ کو مخصوص پیرائے میں استعمال کرتے ہوئے اپنی تحریر کو ناول کی صنف میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور حسن کے کردار کو متعارف کروانے والے باب کو بھی کہانی کی بجائے بھرپور حیرانی کا نام دیتا ہے ناول نگار لکھتا ہے:
“ان ممکنہ سوالات کے حوالے سے فی الحال ہم یہ وضاحت پیش کریں گے کہ کہ اچٹتے خوف کی داستان بھی درحقیقت ایک “حیرانیہ” ہے۔۔۔۔۔
گو تمہیدی ہونے کی وجہ سے کہیں کہیں کہانیاں ہونے کا خواندگی واہمہ پیدا کرتا ہے” (صفحہ نمبر ۳۱،حسن كی صورتحال)

یہاں ناول نگار کے نقطہ نظر کی واضح شبیہ نظر آتی ہے جس کا مقصد قاری كو کہانی سے لطف اندوز ہونے کا موقع مہیا کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد حیرانی کے جہان کے مختلف واقعات سے آگاہ کرنا ہے جہاں ہر واقعہ اپنی جگہ قاری کو حیران کرتا ہوا، ایک الگ پس منظر اور کہانی کے ساتھ ملے گا۔۔ مگر حیرانیوں کی یہ عمارت بھی کہانی کے بغیر استوار نہیں ہو سکتی۔ سیدھی سادی کہانی بیان کرنے کی بجائے ناول نگار کی ساری نظر اس کو تکنیکی مہارتوں میں تبدیل کرنے پر صرف ہوتی ہے اور ناول میں بلاجھجک اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ ردتشکیل کی اس فلسفیانہ اصطلاح کے استعمال كے بغیر یہ فضا پیدا کرنا ناممکن تھا جہاں ایک سے زائد موضوعات اور ایک سے زائد ہمنام کردار ہر باب میں ایک نئے پس منظر اور نئے زاویوں کے ساتھ موجود ہوں۔ ہر کردار کی کہانی مختلف اور ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی ہوں۔ ایک ہی نام کے کردار ہر طبقے میں دکھانا اور ان کرداروں کے توسط سے متعدد علامات کا معنی خیز پیرائے میں اظہار ناول کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مثال کے طور پر: انیلا بلال کے نام سے کردار سکرپٹ رائٹر بھی ہے اور عوامی تھیٹر میں کام کرنے والی ، میلوں میں اداکار انیلہ سسی بھی ہے اور تیسری صورت میں انیلا بلال سنگ تراشی کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک آرٹسٹ اور ایریا مینیجر سعید کمال کے بیوی بھی ہے اسی طرح سعید کمال ،صفدر سلطان كے كردار بھی ہم نامی كے پیرایے میں ایك سے زاید كہانیوں یا حیرتوں كے ساتھ ملتے ہیں۔

جہاں ایک بیانیہ دوسرے بیانیے کی جگہ لیتا ہوا اور ایک حیرت دوسری حیرت کو رد کرتی ہوئی قاری کو تیسرے جہان میں لے جاتی ہے جس کی آگاہی ناول نگار نے حیرت کی ادارت باب میں یوں دی :-
“حسن کی صورت حال میں ایک حیرت سے نجات کسی دوسری حیرت کے ذریعے ہو سكتی ہے جبکہ کہانی میں اور خاص طور پر مضبوط کامیاب کہانی میں حیرت کے خاتمے کا جشن منایا جاتا ہے “(صفحہ نمبر ۳۱ حسن كی صورتحال )

ناول نگار ردتشکیل کے فلسفے کی تکنیک کو ایک طرف رکھتے ہوئے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا تذکرہ کرکے قاری کو ایك ایسے کباڑ خانے میں لے جاتا ہے جہاں ہر شے اپنی جگہ پر مکمل علامت کے طور پر موجود ہے اور جہاں حیرت کی ایک فضا ابھرتی ہے ۔کباڑ خانے میں موجود ہر شے کا ایک پس منظر ہے۔ اس کباڑخانے سے متعارف کروانے والی حسن کی وہی اچٹتی منظر بینی ہے جس کا وہ روز کے سفر کے دوران عادی ہو چکا ہے اور اسی منظر بینی کے دوران قاری اس عہد سے متعارف ہوتا ہے جس میں ایسا کباڑ خانہ ترتیب دیا گیا ہے یہ اسی کی دہائی ہے یعنی ۱۹۸۰ کی۔ پاکستان میں یہ عہد جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کا تھاجب اظہارو خیال پر سخت پابندیاں عاید کی جا چکی تھیں اور زبان بندی کی رسم عام تھی۔ ان پابندیوں سے انحراف کے نتیجے میں جو سزائیں دی گئیں اور جس طرح سے آرٹسٹوں کو جلاوطن کیا گیا اسی طرح کی ایک مثال اس کباڑ خانے میں موجود بوتل کے ذکر سے ملتی ہے اس بوتل کی کباڑ خانے میں آنے سے پہلے كیا جگہ تھی اور کس مقام پر موجود تھی كباڑ خانے میں کس طرح پہنچی اور اس كے ساتھ کیا کیا ہو سکتا تھا ۔ایسی کئی قسم کی تشریحات کے بعد ایسی بوتلوں کو خریدنے والے اور استعمال میں لانے والے کے ساتھ کیا ہوا اس کا ذکر قاری کو اس عہد کے منظرنامے کی واضح تصویر دکھاتا ہے:
” درحقیقت وہ نوجوان یونیورسٹی کے آرٹس ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم تھا اور مجسمہ سازی کی تربیت حاصل کر رہا تھا فائنل امتحان کا کام جسے وہ” تھیسز” کہتا تھا اس نے بوتلوں سے ایک مجسمہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے سفید سیمنٹ، پلاسٹر اور دوسرے جوڑنے والے کیمیکلز کی مدد سے بوتلوں کو ایک خاص ترتیب میں جوڑا ۔۔۔۔اور دیکھنے والے حیران رہ گئے کہ وہ جدید مجسمہ ایک باریش انسانی چہرے جیسا نظر آتا تھا جس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا اور منہ بھی خون اگل رہا تھا مجسمہ ساز نے اپنے شاہکار کو” برداشت كا کلچر” کا عنوان دیا لیکن بدقسمتی سے وہ اپنے تھیسز کو اپنی ڈگری کے امتحان کے لیے پیش نہ کرسکا ۔طلباء کے ایک گروہ نے راتوں رات ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوکر” برداشت کا کلچر ” ہتھوڑوں سے چکنا چور کردیا اور ایک طرف دیوار پر لکھ دیا اس ڈیپارٹمنٹ کا بھی وہی حشر ہوگا جو سومنات کا ہوا تھا”۔

ناول ایک جست کے ساتھ علامتی رخ اختیار کرتا ہوا کباڑ خانے میں موجود چیزوں کی سرگزشت کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ تہذیبی خردافروزی پر پر مبنی مسودہ جو غلطی سے کباڑ خانے میں بھیج دیا جاتا ہے جو دنیا کی تاریخ بدل سکتا تھا اس کی ضرورت اور تلاش قاری کو حیرت میں ڈال دیتی ہے اور میگا فون کی کہانی جس کی ضرورت تھیٹرکے ایک بونے کو ہے اس کے علاوہ استعمال شدہ جوتوں کے تسمے،جمع شدہ ڈاک کے ٹکٹ ،عظیم رہنماؤں کے تھوک، عظیم نجات دہندہ سے رہائی کی صورت میں بٹنے والی مٹھائیاں وغیرہ یہ ایسی اشیا ہیں جو قاری کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔

ناول نگار کے ہاں طنز کی کاٹ ناول کے اس بیانیہ کو( جس کو وه حیرانیے کا نام دیتا ہے( دلچسپ بنادیتی ہے گوکہ ناول میں ربط کے ساتھ کہانی کا عنصر موجود نہیں اور نہ ہی ناول کے پلاٹ پر کوئی خاطر خواہ نظر کرنے کی صورت موجود ہے مگر حقیقت پیش کرتے ہوئے ناول نگار طنزیہ پیرائے میں بے باک ہو کر معاشرے کا نوحہ لکھتا ہے :
“آہ ۔۔۔۔مثلا” کیا ۔۔۔۔۔آپ پوچھتے ہیں کیا۔۔۔۔ جی مثلاًعظیم رہنما کا تھوک۔ دیکھیں میرا نظریہ یہ ہے کہ عظیم رہنما کی ہر چیز عظیم ہوتی ہے اس کی کوئی چیز عامیانہ اور گھٹیا نہیں ہوسکتی اس کا بول و براز بھی نہیں۔ اس کا فضلہ بھی نہیں ۔۔۔۔۔نہیں جناب میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔۔ کیا آپ نہیں جانتے عظیم رہنما وہی ہوتا ہے جو تاریخ پر دلیری سے تھوک سکے اور جب چاہے خود سے رہنمائی مانگنے والے ہجوم پر پلٹ کر اسے اپنے پیشاب سے شرابور کرسکتا ہے اور اپنے فضلے سے لت پت کر سکتا ہے ۔ (صفحہ نمبر ۶۴۔۔حسن كی صورتحال)

ناول نگار ضیاالحق دور کی عکاسی کے لیے جو ایك اور تکنیک ناول میں اپناتا ہے وه سرئیلزم کی تکنیک ہے جہاں اس تکنیک کا آغاز ہوتا ہے وہاں قاری کباڑ خانے سے نکل کر ایک فلمی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے جو سوانگ پروڈکشنز کی ایسی دنیا ہے جو کہ ایک فلم بنانا چاہتی ہے فلم کا نام “یہ فلم نہیں بن سکتی” ہے۔اس فلم کے بے معنی عنوان کے ساتھ بہت سی چیزیں جڑی ہوئی ملتی ہیں جس بنا پر یہ عنوان تجویز کیا جاتا ہے اسی فلم کے بننے کے دوران جب کباڑ خانے کی شوٹنگ کی طرف ڈائریکٹر مڑتا ہے تو فلیش بیک کی تکنیک بھی ناول کا حصہ بن جاتی ہے۔

سرئیلزم کی تکنیک جذبات اور احساسات کے خالص اظہار پر اور لاشعوری کیفیات میں کسی بھی قسم کی رنگ آمیزی سے گریز پر زور دیتی ہے اور اس کا واحد مقصد سچائی کی کھوج کے ساتھ ساتھ نفسیاتی عمل کا آزادانہ اظہار ہے جس بنا پر اس کو مخرب اخلاق پر مبنی اور انتشار پسندی کی حامل تحریک بھی قرار دیا گیا۔

ایسی ہی انتشار پسندی یا بکھراؤ قاری کو اس ناول میں محسوس ہوتا ہے مگر جہاں کھلم کھلا اظہار و بیان پر پابندیاں عائد ہوں وہاں ایسی تحریکوں اور تکنیک کا رواج پانا عام سی بات ہے ۔ناول نگار اسی تکنیک سے مابعد جدیدیت کے پیدا کردہ اس پہلو پر بھی پہنچتے ہیں جو مقامی ثقافتوں کو فروغ دینے کی طرف انسان کو مائل کرتا ہے۔

کباڑ خانے کی شوٹنگ کے ساتھ ساتھ اس فلم کے لوگ مقامی میلے بھاگاں والے کی بھی شوٹنگ کی طرف جاتے ہیں جہاں سرکس دکھانے والے، موت کا کنواں دکھانے والے، دو سروں والا کھوتا دکھانے والے کردار موجود ہیں۔ یہاں دو قسموں کی دنیا سامنے آمنے سامنے ہوتی ہے ایک فلمی دنیا جو تعلیم یافتہ افراد اور مقامی صنعت کاروں کی ہے مگر ثقافت اور اس سے وابستہ اداروں پر پیسہ خرچ کرنے کی بنا پر مختلف دھمکیوں کا نشانہ بن چکی ہے اور دوسری طرف میں میلے کے وہ چھوٹے اداکار جو کم تعلیم یافتہ بلکہ اکثر ناخواندہ اور اپنی ناٹک منڈلیوں سمیت جگہ جگہ منتقل ہونے کو “وچھوڑے” کا نام دیتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے ناٹكوں اور میلوں كو “كنجر خانے” كہہ كر بند كروانے كی دھمكیاں ملتی ہیں۔ ان دونوں میں ایك گہراتضاد موجود ہے مگر دونوں كی صورتحال اس عہد كی عكاسی كر رہی ہے جہاں جبر كی فضا عام ہے جس كی پیشكش كے لیے ناول نگار آغاز میں حسن كی ذہنی كیفیت اور سوانگ پروڈكشنز میں بننے والی فلم كے كرداروں كے جذبات و احساسات كے ساتھ ان كی لاشعوری كیفیات اور فكر كو سرئیلسٹ طریقے سے بیان كرتا ہے:-
“سیفی گھسیٹتا ہے میرا جی چاہتا ہے سیدھا تمہارے جبڑے پر ہیٹ کروں اور کرتا جاؤں۔ عجیب بات ہے ایسے پرتشدد خیال مجھے پہلے تو کبھی نہیں آئے۔ یہ کہاں سے آیا خیر تو کھیل شروع ہو گیا ہے اور لگتا ہے یہ اندر باہر سرئیلسٹ ہوگا” (صفحہ نمبر ۱۶۳ ،حسن كی صورتحال )

سیفی: واہ چیف – یہ تم نے بہت پتے کی بات کی- آپے سے باہر ہونا جب حقیقت آپے سے باہر ہو جاتی ہے ریئل ازم (Realism)آپے سے باہر ہو جاتی ہے تو سرئیلسٹ ہو جاتی ہے ۔خطرہ بہت شدید ہے کہ سرئیلسٹ فلم بنانے والوں کی اپنی دنیا بھی آپے سے باہر نہ ہو جائے سکرین پلے آپے سے باہر ہو جائے “(صفحہ نمبر ۱۷۱ ،حسن كی صورتحال)

ناول نگار مابعد جدید عہد کے تقاضوں اور پاکستان کی موجودہ صورتحال سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے ایسی تکنیک کا سہارا لیتا ہے اور عصری صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے تکنیک کا جواز بھی فراہم کرتا ہے ناول نگار نے ایک انٹرویو میں بتایا :
سریلزم کی بیس (Base)خواب پر ہے واہمہ پر ہے اور یہ فرائیڈ کے Dreams سے نکلا ہے یہ سریئلزم ایک ڈراؤنا خواب ہے بالکل۔ اور ہم، ہماری معاشرتی صورتحال ،ہم سب مسلسل ڈراونے خواب میں ہیں یہ آجکل جو بلاسٹ، بم دھماکے وغیرہ ہو رہے ہیں ہمیں واقعی سرئیلزم سوٹ کرتا ہے مشرقی معاشرے کے تمام حالات و واقعات ہم سب کے سامنے موجود ہیں”۔

مابعد جدیدیت ثقافتی نقطہ نظر کی حامل صورتحال ہے اور ہم مابعد جدیدیت كے عہد میں زنده ہیں اس نقطہ نظر كا فروغ ناول نگار كے مطابق انتہا پسندی كو ختم كرنے كا ذریعہ بن سكتا ہے مگر ناول میں موجود واقعات مقامی ثقافت كو ختم كرنے بلكہ جڑ سے اكھاڑ دینے والے دلخراش بیانیے كو جنم دیتے ہیں پولیس كے افراد مقامی تھیٹر والوں كے ساتھ جو سلوك روا ركھتے ہیں اس كابیان یوں ملتا ہے:
“یہ كنجر لوگ ہیں ان كاكام ہی یہ ہے بس عملہ ذرا شغل میلہ كر رہا ہے یك دم سےاپنی بات۔۔۔شغل میلہ۔۔۔میلہ ہی تو ہے شغل ادھرہے ۔۔۔ویسے میں تمہیں بتادوں تم فلموں والے ہو نا۔۔۔۔یہ سارے بدمعاشی كھاتے ،زانی دھندے،بس سال دو سال كی بات ہیں سب بند ہو جائیں گے وه سب بند كر دیں گے ۔۔۔كون؟ سیفی كے منہ سے بے ساختہ نكلتا ہے رانا حیرت سے ۔۔۔وه جنہیں نیكی بدی كا پتہ ہے جن كے ااندر حیا ہے غیرت ہے عالی جاه كہتے ہیں یہ سب پاك كرنا پڑے گا ۔۔اصل نعره تو یہ ہے ،پاك كرو صاف كرو ۔۔اور یہی كام تم اس وقت كر رہے ہو ۔۔۔سیفی اپنے اوپر قابو ركھنے میں ناكام رهتا ہے”(صفحہ نمبر ۴۳ حسن كی صورتحال)

ناول میں متعدد جگہوں پر عصری صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے ناول نگار نے پاکستان کو فرقہ واریت میں مبتلا ،بم دھماکوں میں گھرا ہوا ،خوف اور جبر کا شکار اور کلچر یا ثقافت سے گریز پا، ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیدا کردہ مسائل کا شکار اور توہمات میں گھرا ہوا پیش کیا۔ بہزاد ڈائریکٹر اور سعید کمال کا کردار ثقافت اور آرٹ کو فروغ دے کر انتہا پسندی کے تمام مسائل کو ختم کرنے کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں:-

” بہزاد: لوک ثقافت میں سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن مسئلہ یہ ہے ہمارا ایک ہی سگنل پر کچھ بڑے نقش بنانے والوں کے لیے غلط ہو سکتا ہے اور کچھ کے لئے بہت صحیح۔۔۔۔۔۔
سر: کہ کلچر آرٹ موسیقی رقص فلم یہ سب خالی جگہیں ہمیں پُر کرنا ہوں گی ہمیں پُر کرنا ہوگی نہیں تو وہاں کچھ اور گھس جائے گا۔
آواز :ہاہاہا۔۔۔ ایکسیلنٹ۔۔۔ ان کے دماغ میں بات کو ڈال دو بلے۔۔۔۔ طریقے سے ۔
سر: لیکن دیکھ لیں سر ۔وہاں “روک دینے والے” “بند کر دینے والے “بھی ہوں گے ۔”۔(صفحہ نمبر ۳۰۲ حسن كی صورتحال۔۔۔۔)

بنیاد پرست رویوں میں گهرے ہوئے اور روشن خیالی کی بنیادوں کو تھامے ہوئے کردار بھی فلم میں موجود ہیں ۔فلم کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ناول نگار نے فلمی اصطلاحوں کو بھی مکالمہ کی صورت میں بخوبی برتا ہے اور ایک شوٹنگ كا مکمل انداز ناول میں موجود ہے ۔ناول میں شوٹنگ كی اصطلاحات كا ذكر یوں ملتا ہے:
“مڈ شاٹ: سعید كمال اپنے گھر میں –نچلے طبقے كے گھر كا باورچی خانہ ۔فرش پر دری بچھی ہے ۔سعید كمال۔۔۔
كٹ
كلوز شاٹ: ایك پیلے رنگ كی گھنٹی كی شكل كا پھول
جس پر سرخ دھبے ہیں zoom out پورا پودا سامنے آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
پین شاٹ: گلزار نرسری كا اندرونی منظر سامنے آتا ہے بلاشبہ ایك زبردست نرسری ہے پھول دار موسمی۔۔۔۔۔۔
ٹریكنگ شاٹ: ملازم كے POV سے آگے بڑھتے ہوئے ۔۔ٹیڑھے میڑھے رستے پر سے گزرتے ہویے كنول كے پھولوں كا ایك تالاب نظر آتا ہے (صفحہ نمبر ۱۵۹حسن كی صورتحال )

بلاشبہ تكنیكی اعتبار سے یہ ایك غیر معمولی ناول قرار دیا جا سكتا ہے۔ اردو ناول میں پہلی بار سکرپٹ رائٹنگ، سکرپٹ، سکرین پلے اور فلم كے دیگر لوازمات كو بطور تكنیك استعمال كیا گیا ہے ایك كامیاب فلم لكھنے والا بہت سے مناظر کے درمیان جن اصولوں كو مد نظر ركھتا ہے ناول نگار نے ان تمام چیزوں كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے اردو ناول كی روایت سے ہٹ كر ایك منفرد اور كامیاب تجربہ كیا ہے۔ مگر اسی تجربے كی بنا پر وه ناول كی روایتی صنف كے ساتھ انصاف نہیں كر سكے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *