Laaltain

قاری اساس تنقید – ایک وضاحتی نوٹ

1 جولائی، 2016
Picture of ستیہ پال آنند

ستیہ پال آنند

پس ساختیاتی اسکول کے مطابق کسی بھی شعری متن کو تنقید کے عمل سے گذارنے کا صحیح طریق کار اس میں اجزاء کے بہم دگر پیوست ہونے کے عمل کی پرکھ ہے، جو اس کے لسانی نظام کو خشت بر خشت عمارت کی طرح پیوستہ رکھتا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ قاری اساس تنقید (Virtual Textual Practical Criticism) کی ایک جہت، یعنی ہیئتی جزو کی چھان بین کی بنیاد تو بیسویں صدی کے شروع میں ہی پڑ گئی تھی تو غلط نہ ہو گا۔ یعنی جب یہ کہا گیا کہ معنی قرآت کے عمل کی کشید ہے اور زمان اور مکان کے لامحدود فاصلے معنی آفرینی کو کچھ کا کچھ بنا سکتے ہیں تو یہ بات لگ بھگ طے ہو گئی تھی کہ خلق ہونے کے بعد تخلیق نہ صرف ایک آزاد اور خود کفیل اکائی بن جاتی ہے، یعنی ایک ایسی اکائی معرض وجود میں آتی ہے جس کا تعلق اپنے خالق سے قطع ہو چکا ہے، بلکہ ہر نئے ماحول میں یہ ‘کارگہۂ شیشہ گری’ اپنا الگ وجود رکھتی ہے۔ کسی بھی شعری متن کی “خود مکتفیت” کو تسلیم کرنا قاری اساس تنقید کا بنیادی اصول ہے۔ قاری اِسے اپنے وقت اور ماحول کی عینک سے دیکھ اس میں ریاضیاتی درستگی کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی بات کر سکتا ہے اور انجانے میں ہی اپنے زمان و مکان سے ماخوذ رسم و رواج، سوچنے اور رہن سہن کے طریقے کو اس متن پر منظبق کر کے اپنے معانی ۔۔ اس پر آویزاں کر سکتا ہے۔ پس ساختیاتی تنقید نے بھی بارتھ کے اس نظریے میں خامیاں تلاش کی تھیں کہ صرف اسٹرکچر (پیاز کے چھلکوں کی تاویل) پر ہی انحصار رکھ کر کسی گٹھلی تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ اس لیے پس ساختیاتی اسکول کے مطابق کسی بھی شعری متن کو تنقید کے عمل سے گذارنے کا صحیح طریق کار اس میں اجزاء کے بہم دگر پیوست ہونے کے عمل کی پرکھ ہے، جو اس کے لسانی نظام کو خشت بر خشت عمارت کی طرح پیوستہ رکھتا ہے۔اس طرح پس ساختیاتی تنقید شرع و تفسیر کے عمل میں قاری اساس تنقید کے طریقِ کار کی اصل شروعات تسلیم کی گئی ہے۔

 

قاری اساس تنقید (Virtual Textual Practical Criticism) وقت کے دریا کو پار کرنے کے لیے اس پُل کا کام کرتی ہے جو کسی بھی متن کو زمانۂ حال کی خارجی دنیا سے براہ راست متعلق کر دیتی ہے۔اس طریق کار میں کسی بھی متن کی معنیات کو “تخلیق” یا “فصل” کا نام دے کر یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی قاری، کہیں رہتا ہوا قاری، کسی بھی زمانے کا قاری، اس ’فصل‘ کو اپنے زمان اور مکان کے ’سابق اور حال‘ سے رشتہ جوڑتا ہوا حق بجانب ہے کہ اس سیاق و سباق میں اسے پرکھ کی کسوٹی پر رکھ کر اپنا کام کرے۔ نظم کا رشتہ جو شاعر سے قائم تھا، اس وقت ہی منقطع ہو گیا تھا جب وہ معرض ولادت میں آئی تھی۔ اس وقت کی حقیقت آج کی فرضیت نہیں، آج کی حقیقت ہے۔

 

تین نئی اصطلاحات جو اس سلسلے کی کڑیاں ہیں، وہ ہیں، (۱)قاری (۲)قرآت کا طریق کار اور (۳) ردِ عمل …اس میں قاری کا قرآتی طریقِ کار اوّلیں اہمیت کا حامل ہے۔اس عمل کے دوران قاری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ متن کی شکست و ریخت کرے، ایسے ہی جیسے کسی عمارت کو ڈھا کر اس کا ملبہ بکھرا دیا جاتا ہے۔ پھرموضوع کی سطح پر اپنے مطالعے، تجربے اور ذاتی ترجیحات کے پیمانوں سے اس کی مناجیات کی قدر و منزلت کو پرکھے اور اس کی نئی تعریف بھی متعین کرے۔ اس کام کے دوران میں دو عوامل کا ظہور ناگزیر ہے۔ پہلا عمل تشکیلی ہے اور اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ پرانے متن اور نئے قاری کے مابین معنویت کی مصالحت کا سمجھوتا قرار پا جائے۔ دوسرا موضوع سے متعلق ہے کہ قاری کو یہ کلّی اختیار ہے کہ وہ متن کی تشریح (توسیع کی حد تک) اپنی منشا کے مطابق کرے۔

 

زمان و مکان کی توسیع کا عمل اتنا تیز تر ہے کہ کاغذ کے پرزے پر تحریر کردہ متن کی خود مرتکزیت صرف ادب کے مورخ اور محقق پر انحصار رکھ سکتی ہے، عام قاری پر نہیں۔
ایک پروفیسر کے طور پر میرا اپنا یہ عقیدہ ہے کہ یہ کام قاری سے بہتر اور کوئی نہیں کر سکتا کہ متن کے لسانی اور ہیئتی نظم کو کھنگال کر “آج” کے سیاق و سباق میں اس کے معنی تلاش کرے۔ متن کی معینہ صورت صرف کاغذ کے ایک پرزے پر ہے یا ایک کتاب میں ہے۔ زمان و مکان کی توسیع کا عمل اتنا تیز تر ہے کہ کاغذ کے پرزے پر تحریر کردہ متن کی خود مرتکزیت صرف ادب کے مورخ اور محقق پر انحصار رکھ سکتی ہے، عام قاری پر نہیں۔ تعلیق کے ہر دم رواں دواں عملِ مسلسل سے گذرتے ہوئے اس متن کے معانی دن رات تغیر پذیر رہتے ہیں اور یہ نئے نئے معانی کے غلاف اوڑھتا اور اُتارتا رہتا ہے۔ قرآت کے عمل کی تھیوری الفاظ کے باہم رشتوں کو سمجھ کر، اور انہیں اپنے آس پاس کی سچائیوں سے منسلک کر کے ایک ایسی صورتحال کو کھوج نکالتی ہے جو قاری کی سچائی ہے اور آج کی سچائی ہے یہ ایک ایسا عمل ہے، جس میں قاری اور متن مصافحہ کرتے ہیں،اور گلے ملتے ہیں۔ قاری متن کے ہاتھ کی گرفت اور اس کے جسم کی لطافت کو محسوس کرتا ہے اور پھر اپنے ہاتھ کو متن کے جسم پر پھیر کر ہر اس عضو کو ٹٹولتا ہے جو اس کے خیال میں اہم ہے۔ یہ اعضا الفاظ ہیں جو عبارت میں پروئے ہوئے ہیں۔ان میں صرفی، نحوی،تصریفی، ملّخص، منصرف، قواعدی صفات ہیں۔اسی عبارت میں روز مرہ، محاورہ، مرصع انشاء، تلطیف عبارت، ضرب المثل، مصطلحات وغیرہ بھی ہیں، جچے تُلے الفاظ بھی ہیں، ماقل و دل، من وعن تطبیق الفاظ بھی ہے اور ’’مولویت‘‘ بھی….. بقول وہ خصوصیت بھی ہے جسے وہ Intentional Sentence Correlativesکہتا ہے، یعنی جہاں مصنف نے intentionally یعنی جان بوجھ کر (بوجوہ) اپنے متن میں شکست و ریخت یا دوبارہ عمارت سازی کا جتن کیا ہے، گویا کہ ملبے کے اوپر ہی ایک نیا محل تعمیر کر لیا ہے۔ (غالب کے ہاں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے)۔ انگریزی میں سترھویں صدی کے وسط میں میٹا فزیکل شعرا (ڈّنؔ وغیرہ) کے ہاں بھی یہ خوبی بکثرت ملتی ہے۔ ۔۔

 

اب اگر اپنی تخلیق کے وقت ایک نظم یا غزل کا ایک شعر کسی طلسم کدے کی نقاب کشائی کرتا بھی تھا، تو آج وہ نا پید ہے۔ قاری کے حیط ادراک میں اس کا آنا ایسے ہی ہے جیسے آج کے جودھپور میں رہنے والے کسی قاری نے شیلےؔ کے اسکائی لارک کوواقعی اڑتا ہوا دیکھ لیا ہو۔ یا ایک خشک خطے میں بسے ہوئے قاری کو ، جسے سمندر یا سمندری جہاز اور اس کی deck کبھی دیکھی ہی نہ ہو، یہ سطر سمجھنے میں کیا دشواری پیش نہیں آ سکتی ہے اِس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔The boy stood on the burning deck ….مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ قاری کا فرض قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ علامت اور ایہام کے نقاب میں پوشیدہ اس چہرے کی صحیح (یا کم از کم ’نقل برابر اصل‘) شناخت کرے جو شیلےؔ نے اپنے خوابِ بیداری میں یا افیون کے نشے میں کسی کالریجؔ نے دو صدیاں پہلے اپنے نشہ آور خواب میں دیکھا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *