اولین دور کے انسان جب کائنات پر غور کرتے تو انکا ایک خاص انداز فکر ہوتا تھا جس میں وہ کائنات کے متعلق کچھ کلیات (ideas)تشکیل دیتے تھے۔ ان کلیات کی بنا پر پھرکائنات اور اسکی جزئیات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس طرح یہ کلیات انسان کے علم الکائنات کی بنیاد قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان کلیات کو کلیات اول بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بنیادی کلیات کیونکر وجود میں آئے؟ انسان نے کائنات کی ساخت اور اس سے متعلق دیگر سوالات پر غوروفکر کے نتیجے میں پہلا جامع نظریہ کب تشکیل دیا اور وہ کیا تھا؟ ان سوالات کے جواب کے لئے ہمیں تاریخ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس بحث میں یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ فلسفہ، مذہب اور سائنس کن ذرائع کو تحصیل علم کا بنیادی اور مستند ذریعہ تصور کرتے ہیں۔

 

استخراجی طریق کار اور یونانی علم
تاریخ انسانی اور بالخصوص تاریخ علوم انسانی کا مطالعہ ہمیں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسانی علوم کے اولین دور میں علم کی طلب اور حقائق کی نشاندہی میں استخراجی طریقہ کار(Deduction) ہی رائج تھا اور اس سلسلے میں قدیم یونان کا ذکر لازم ہے۔قدیم یونان انسانی علوم کی پہلی سیڑھی ہے اوریہ پہلی تہذیب ہے جہاں تفہیم کائنات کے لیے سوچ بچار کا عمل دیومالا کے اثر سے آزاد ہوا اور مذہب سے علیحدہ ایک باقاعدہ علم کی حیثیت اختیار کرگیا۔
مشہور مصنف اور سائنسدان آئزک ایسی موف اپنی کتاب "علم اور سائنس کا سفر” کے پہلے باب میں رقمطراز ہیں:
تاریخ انسانی اور بالخصوص تاریخ علوم انسانی کا مطالعہ ہمیں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسانی علوم کے اولین دور میں علم کی طلب اور حقائق کی نشاندہی میں استخراجی طریقہ کار ہی رائج تھا

 

"اہل یونان کا تمدن 800 قبل مسیح میں مائل بہ عروج ہوا۔ سائنس میں ان کا سب سے بڑا اضافہ طرزفکر اور طریق کار کا تھا۔ ان کا مطمع نظر ایسے عمومی اصولوں کی تلاش تھی جو بیان کر سکیں کہ دنیا کا نظام کیسے چل رہا ہے۔ اپنی اس تلاش میں نطریات وضع کرتے وقت خیال رکھا جاتا کہ ان کا ثابت کرنا ممکن ہو۔”

 

علم کے متلاشی حضرات جنہیں بعد ازاں فیلسوف یا فلسفی و حکیم کا نام دیا گیا وہ اپنے غوروفکر کی بنیاد پر کچھ نظریات تشکیل دیتے جن کی بنیاد مزید کچھ بدیہی کلیات پر رکھی جاتی تھی۔ تاریخ دان تقریباً مجموعی طور پر ابھی تک یہ نہیں جان سکے ہیں کہ یہ بدیہی کلیات کیسے اور کیونکر وجود میں آگئے۔اس بارے میں مختلف تاریخ دانوں اور فلسفیوں کی رائے مختلف ہے اور ان میں سے اکثر محض قیاس کی بنیاد پر رائے پیش کرتے ہیں۔ سائنس کی تاریخ پر لکھی جانے والی مشہور تصنیف “تاریخ سائنس” کے مصنف ہنری سمتھ ولیم لکھتے ہیں:

 

"یہ بات لازمی سمجھ لینا ہوگی کہ قدیم انسان کا علم جیسا کہ ہم بتانے جا رہے ہیں اپنی قسم کے لحاظ سے استخراجی تھا۔ ہم ان کلیات کی ترقی کے بارے میں تحقیق نہیں کر سکتے چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ کس نے انہیں دریافت کیا تھا۔”

 

تحصیل علم کے مختلف نظریات
افلاطون جو شہید فلسفہ سقراط کا شاگرد تھا اور فلسفہ لکھنے والوں میں سب سے اول فلسفی سمجھا جاتا ہے یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ یہ کلیات (Forms)روح انسانی میں اسکی جسمانی پیدائش سے پہلے ہی موجود ہوتے ہیں۔ لیکن پیدائش کے وقت جب روح اپنے بدن کے ساتھ منسلک ہوتی ہے تو اس عمل میں یہ ان کلیات کو مکمل طور پر بھول جاتی ہے۔ اور جب انسان اپنے اردگرد کی دنیا میں ان مجرد حقائق کو دیکھتا ہے تو وہ دوبارہ ان کلیات کو جان لیتا ہے۔ یہ نظریہ گویا افلاطون کے فلسفہ مثالیت پسندی کے باعث وجود میں آیا۔
کلیات کی ابتدا سے متعلق ایک اور مشہور نظریہ پایا جاتا ہے جس کے داعی زیادہ تر یورپی فلسفی مثلاَ کانٹ اور ڈیکارٹ وغیرہ کو سمجھا جاتا ہے وہ یہ کہ انسان میں تصورات کے پیدا ہونے کی دو وجوہات ہیں ایک اس کے حواس خمسہ اور دوسرے اس کی اپنی ذاتی فطرت۔ ان دونوں ماخذوں سے انسانی کلیات تشکیل پا سکتے ہیں۔ مثلاَ تصور حرارت کی وجہ حواس جبکہ تصور خدا کی وجہ ذاتی فطرت ہے۔
اسی طرح ایک نظریہ پایا جاتا ہے جسےہم حواس پسندی(Empiricism) کا نام دینا پسند کریں گے وہ یہ ہے کہ ان کلیات کا واحد ماخذ محض حواس ہیں اور اس طرح یہ ذاتی فطری کلیات کے ماخذ کی نفی کرتا ہے۔ یہ حواس ہی ہیں جو انسانی ذہن میں مختلف تصورات کو جنم دیتے ہیں اور وہ ان تصورات میں سے کچھ کو باقاعدہ ربط کے پایے جانے کی وجہ سے کلیات کی شکل دیتا ہے۔ اس نظریہ کا بانی عام طور پر مغربی فلسفی جان لاک کو سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ بعد میں جارج برکلے اور ڈیوڈ ہیوم نے بھی اسی قسم کے نظریے کی حمایت کی ہے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک نظریہ جسے "نظریہ الانتزاع” (Theory of Abstraction)کہا جاتا ہے مسلم فلسفیوں کی جانب سے بھی پیش کیا گیا تھا جس میں تصورات کو دو اقسام یعنی اول وثانی میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تصور اول کی وجہ حواس ہیں جنکی بنیاد پر پھرذہن انسانی ثانوی تصورکو جنم دیتا ہے۔ مثلاَ مٹھاس ایک ثانوی تصور ہے جسکی وجہ تصور اول یعنی حس ذائقہ ہے۔
حواس پسندی کے برعکس عقلیت پسندی (Rationalism) کے مطابق انسان کے اندر ایک قابلیت یا قوٰی عقل (Reasoning)موجودہے اور یہ ہر انسان میں ایسے ہی موجود ہے جیسا کہ کوئی بھی دوسرا عضوپایا جاتا ہے۔ اسے انسانی روح کا عنصربھی کہا جا سکتا ہے۔ عقل کا تعلق کلی مفاہیم کے ادراک (Perception) سے ہے۔ عقل کی ذمہ داری فکر کرنا ہے جس کے ذریعے وہ نامعلوم کو انسان کیلئے معلوم بنا دیتی ہے۔ عقل ہی منطق (Logic)کو تشکیل دیتی ہے۔ منطق ایک قسم کا “صحیح سوچنے” کا قانون ہے اس قانون کی رعایت ذہن کو فکری خطاؤں(Fallacies) سے محفوظ رکھتی ہے۔
اس طرح عقل کے استعمال سے انسان جو بھی اصول یا کلیات درک کرے گا وہ واجب یا مستند قرار پائیں گے اسطرح کہ انسان پر واجب ہوگا کہ انہیں تسلیم کرے اور انکی تصدیق کے لیے کسی بھی قسم کے تجربے یا مشاہدے کی ضرورت نہ ہوگی۔ جب کبھی ایسے عقلی کلیات پیش کیے جائیں گے تو انسان انہیں بدیہی (Intuitive)تصور کرے گا اور ان سے انکار نہیں کر پائے گا۔ مثلاً یہ کلیہ کہ “عدد ایک عدد دو کا نصف ہے۔” یہ کلیات گویا ایمان کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن مذہب کے برعکس ہم کسی بھی وقت مزید عقل کے استعمال سے ان کلیات میں ردوبدل کر سکتے ہیں یا انہیں بہتر شکل دے سکتے ہیں۔ انہی کلیات کو ہم بدیہی یا بنیادی اصول قرار دیں گے جن کی بنیاد پر مزید نئے اصول دریافت کیے جاسکتے ہیں مگر یہ دوسری قسم کے اصول واجب نہیں کہلا سکتے کیونکہ ہر نئے اصول کو پہلے والے بدیہی کلیات کی کسوٹی پر پورا اترنا ہوگا۔ یہی نئے اصول دریافت کرنا سائنس کی ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس اپنے کسی بھی اصول کو بغیر مشاہدے یا تجربے کی پرکھ کے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ سائنس کے مفروضے یا اصول بدیہی یا واجب نہیں ہیں۔
سائنس کی فلسفیانہ بنیاد
مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سائنس کی بنیاد میں بھی کسی بھی دوسری قسم کے علم انسانی کی طرح کچھ فلسفیانہ کلیات کارفرما ہیں۔ ان کلیات کی بنا پر انسان تصورات کو جنم دیتا ہے اور یوں پھر ایک تصور انسان کے اعمال میں بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے گویا انسانی علم کی نوعیت تصوراتی ہے۔ تصورات کلیات سے اخذ ہوتے ہیں اور بدیہی کلیات کا ماخذ انسانی عقل ہے جنہیں فکر کے عمل سے استعمال میں لا کر انسان ان کلیات کا ادراک کرتا ہے۔ اور یہ کلیات خالصتاً واجبی (self-evident)نوعیت کے ہیں اور ان کی تصدیق کے لئے کسی بھی مشاہدہ یا تجربہ کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس سے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوگا کہ پھر کیا سائنس جو کسی بھی بات کو بغیر تجربے یا مشاہدے کے تسلیم نہیں کرتی، معتبر علم مہیا کر سکتی ہے یا نہیں؟ اگر سائنس کی بنیاد ہی کچھ فلسفیانہ کلیات پر ہے تو پھرسائنس علم یا حقیقت کی کھوج میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور یوں معتبر اور صحیح علم مہیا کرنے سے قاصر ہے؟ نیز مشاہدہ یا تجربہ انسانی علم میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟
فلسفہ کا تعلق انسانی علم کو بحیثیت مجموعی دیکھنا ہےجبکہ سائنس کا تعلق جزئی مشاہدات سے ہے۔ اقبال اپنی مشہور کتاب “تجدید فکریات الٰہی” میں رقمطراز ہیں:
“اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کے نظریات قابل اعتماد علم کی تشکیل کرتے ہیں کیونکہ وہ قابل تصدیق ہیں اور ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم فطرت کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں اور اسے قابو میں رکھ سکیں۔ مگر ہمیں یقیناً یہ بات نظرانداز نہیں کرنی چاہیے کہ جسے ہم سائنس کہتے ہیں وہ حقیقت تک رسائی کا کوئی واحد منظم ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ فطرت کے جزوی مطالعات کا ایک مجموعہ ہے۔ ایک کلی تجربے کے جزوی مطالعات جو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نظر نہیں آتے۔ ۔ ۔ جس لمحے آپ سائنس کے موضوع کو مکمل انسانی تجربے کے پس منظر میں دیکھتے ہیں وہ اپنا ایک بالکل مختلف کردار ظاہر کرنے لگتا ہے – – – فطری علوم اپنی فطرت میں جزوی ہیں۔ اگر یہ علوم اپنی فطرت اور اپنے وظیفے کے بارے میں سچے ہیں تو وہ کلی نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کوئی ایسا تصور قائم کر سکتے ہیں جو حقیقت کے کلی تصور پر مبنی ہو۔”
فلسفہ کا تعلق انسانی علم کو بحیثیت مجموعی دیکھنا ہےجبکہ سائنس کا تعلق جزئی مشاہدات سے ہے
گویا اپنی قسم کے لحاظ سے فطری سائنس پر لازم ہے کہ وہ مشاہدات کو اپنا رہنما بنائے۔ جو بھی مفروضہ یا نظریہ مشاہدات سے متصادم ہو اس کو فطری سائنس رد کر دے گی۔ مگر باوجود ان مشاہدات کے فطری سائنس بھی ان بدیہی اصولوں کا انکار نہیں کر سکتی جو اسکی بنیاد میں کارفرما ہیں اور جب سائنسی طریقہ کار سے کوئی مستند نتیجہ برامد ہو گا تو پھر اسے ایک حقیقت تسلیم کیا جائے گا۔ اور اس حقیقت کا مستند و معتبر ہونا بھی اس لیے ہے کہ یہ بنیادی بدیہی کلیات سے مطابقت رکھتی ہے۔
اس کے برعکس انسانی علوم کے حصول اور حقیقت کے انکشاف کے دیگر ذرائع مثلاَ مذہبی واردات (Religious Experience)اور متصوفانہ کشف (Spiritual discovery)وغیرہ کے عمل میں تجربہ ضروری نہیں ہوتا۔ اس قسم کے علم میں محض بدیہی کلیات پر ہی اکتفا کر لینا کافی ہے اور اگر ایک سچائی ان کلیات کے مطابق درست ہو تو اسے مستند تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
ماہیت علم
ان سوالات کے جواب ایک نئی بحث کا دروازہ کھولتے ہیں جس میں یہ طے کرنا ہوگا کہ علم ہے کیا؟ اور کیا کلیات کا جان لینا ہی انسان کے لئے کافی ہے یا پھر جزئیات کا جاننا بھی علم حاصل کرنے کے مترادف ہوگا؟
یہ سوال کہ "علم کیا ہے” بجائے خود ایک فلسفیانہ سوال ہے اور ہم کوئی بھی ایسا تجربہ مرتب کرنے سے قاصر ہیں جو اس سوال کا سائنسی جواب فراہم کر سکے
یہ سوال کہ "علم کیا ہے” بجائے خود ایک فلسفیانہ سوال ہے اور ہم کوئی بھی ایسا تجربہ مرتب کرنے سے قاصر ہیں جو اس سوال کا سائنسی جواب فراہم کر سکے۔ گویا سائنسی علم کی بنیاد بھی فلسفہ پر ہے لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ جس طرح سائنس ہی مکمل اور حتمی علم کا منبع نہیں ہے اسی طرح فلسفہ بھی قطعی علم کا منبع نہیں ہے۔ یہ بھی انسانی مشاہدات کو جاننے اور سمجھنے کا ایک واسطہ ہے۔ انسان ایک بہت ہی پیچیدہ مخلوق ہے۔ یہ محض ایک جسم نہیں کہ جس پر طبیعات کے قانون ہی کا اطلاق ہو۔ انسان کے من کی دنیا بہت وسیع ہے۔ ہزاروں سالوں سے فلسفی اور شاعر اس کو سمجھتے آئے ہیں مگر کوئی بھی اس کو مکمل طور پر نہیں جان سکا۔ کوئی مورخ اس کے افعال کو صحیح اور حتمی طور پر تاریخ کے سانچے میں نہیں ڈھال سکا۔ مخلتف ادوار کا ادب اس میں پائی جانے والی خصوصیات کا حق ادا نہیں کر سکا۔ گویا انسان شناسی ایک سمندر ہے اور یوں علم انسانی کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ کوئی سائنسدان یا فلسفی یا شاعر انسانی مشاہدات کی آخری حد کو نہیں چھو پایا۔

 

نجانے یہ جہاں مجھے
سمجھے تو کیا سمجھے
مگر خود اپنے آپ میں
ہوں اک طفل
ساحل پہ کھڑا
تک رہا ہوں اردگرد
چنتا پھرتا ہوں کنکرے
کہ پاسکوں گوہرکوئی
ہے جبکہ میرے روبرو
اک بحر حق بے کراں!

Leave a Reply