میں جب اصولی طور پر افسانے کی ترسیل کے مسئلے پر غور کرتا ہوں تو لفظ ایک دیو قامت جن کی مانند میرے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے، اس کی مختلف حالتیں اور نوعیتیں مجھے مجبور کرنے لگتی ہیں کہ اس کے مشتقات پر غور کروں، اس کی مختلف ہئیتوں کو سمجھوں اس کی ترتیب اور وضع کے پیرائے کو عمیق انداز میں جانوں۔ لفظ کا کاروبار افسانے میں سب سے اہم اور بنیادی ہے۔ اپنی اصطلاحی اور استعاراتی حیثیت سے کم اپنی روایتی شکل میں زیادہ۔
افسانہ اور شاعری میں یہ فرق ہے کہ شاعری میں لفظ لطیف انداز میں ظاہر ہوتا ہے جبکہ افسانے میں اس کی کھردراہٹ کو ہم متن کےتسلسل میں محسوس کر لیتے ہیں۔ اس صنف میں الفاظ کی نشست و برخاست کا زیادہ دھیان رکھنا پڑتا ہے اور تخلیقیت کے لسانی بہاو کو اس طرح تشکیل دینا ہوتا ہے کہ کوئی لفظ غیر شعور ی طور پر بھی ایسا داخل نہ ہو جس کی روایت میں معنی کا تصادم موجود ہو۔ افسانہ ایسے الفاظ کو اپنی صف میں شامل نہیں ہونے دیتا۔
روایت اور لفظ کا ظاہری رشتہ بہت قدیم ہے۔ اس لیے لفظ اس رشتے کی قواعد میں ڈھلتے ڈھلتے ہمارے لیے بعض اوقات اتنا سہل ہو جاتا ہے کہ ہم کسی پس منظر کو تشکیل دیے بنا لفظ کی روایتی حیثیت کے ظاہری وجود کو بلا دلیل قبول کر لیتے ہیں۔ مثلاً اگر میں یہ سمجھوں کہ افسانہ ایسی صنف ہے جس کا مقصد کہانی ہے، خواہ وہ زندگی کے کسی ماخذ سے متعلق ہو، تو میں اس کہانی میں موجود الفاظ کی انہیں حیثیتوں پر غور کروں گا جس سے مجھے میرے مقصد تک رسائی حاصل ہو سکے، میری بلا سے لفظ خواہ مجھ سے کیسا ہی تقاضہ کیوں نہ کرے اور روایت میں ڈھلے ہوئے الفاظ مجھے میرے فعل میں کامیاب بنانے میں معاون بھی ثابت ہوں گے۔
میں بالخصوص یہ عرض کر دوں کہ یہ کیفیت شاعری میں نہیں پائی جاتی۔ کیوں کہ شاعری میں کسی خیال کی ترسیل کے لیے الفاظ کا جیسا استعمال کیا جا تا ہے وہ اگر ذرا بھی روایت سے لگا کھاتا ہو تو اس کے معنی پوشیدہ رکھ پانا ممکن نہیں رہتا، اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ شاعری میں کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ باتیں کہنے کا چلن رائج ہے، اور غزل کی شاعری میں تو اس صورت حال کی قید اور زیادہ لگائی جاتی ہے۔ مگر افسانے میں ا لفاظ بہت سلیقے سے استعمال ہوتےہیں ساتھ ہی کثرت میں پائے جاتے ہیں اس لیے یہاں الفاظ کی روایت لفظ کی ظاہری حیثیت کے بجائے اس کے باطن میں ضم ہو جاتی ہے۔ جس کے باعث قاری کو اس روایت کی تلاش میں سر گر داں رہنا پڑتا ہے۔ یہاں لفظ چونکہ ایک ایسے کتھا ساگر میں بہہ رہا ہوتا ہے جس پر قدم رکھ کر قاری منزل کے منارے کی طرف بڑھ جاتا ہے اس لیے اسے اس امر کا احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ ان الفاظ نے کہانی کو جس ظاہر معنی کی طرف دکھیلا ہے وہ اصل میں کہانی کے سطحی معنی ہیں۔ اصل شئے تہہ میں ہے جو الفاظ کی ماہئیت اور اس کے چلن کو سمجھنے کے بعد حاصل ہو گی۔
میں نے کسی بھی کہانی کو ہمیشہ ایک اکائی کے طور پر پڑھا ہے، عین ممکن ہے کہ عموماً افسانے کا قاری اسی طرح پڑھتا ہو، لیکن کہانی کو اس طرح پڑھنے سے یا سمجھنے سے ایک بڑا مسئلہ اس کی ترسیل کا وجود میں آتا ہے۔ ترسیل کیا ہے ؟ اس پہ آپ غور کیجیے تو یقیناً کہانی کے مطالعے کے بعد بھی آپ کہانی کی دلچسپ دنیا سے دیر تک محظوظ ہوتے رہیں گے۔ ترسیل کوئی چھلاوا نہیں، یہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ کسی کہانی کا متن جو مصنف کی ذات تک کسی انجان حوالے سے پہنچتا ہے اور پھر الفاظ کی شکل میں ڈھل کے قاری تک پہنچتا ہے۔ الفاظ میں معنی کی ترسیل ایک معنیاتی نظام کے تحت ہوتی ہے۔ جو نظام زبان کا تشکیل کردہ ہے۔ اگر کوئی شخص اس روایتی نظام کو نہ بھی مانے تو بھی معنی کے نئے معنیاتی نظم کے تحت سے الفاظ کی باطنی حرکت کو ایک اکائی کے تحت قبول کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کہانی کا ایک وجود ہے جو ایک مکمل معنی کے بغیر ادھورا تصور کیا جائے گا۔ ان مسئلوں میں ترسیل ہر مقام پر ایک ایسے سیال کی مانند کام کرتی ہے جو لفظ اور معنی اور مصنف اور قاری کے اندور میں متحرک رہتا ہے۔
ترسیل کے لفظی معنی اور اصطلاحی معنی دو مختلف صورتوں میں بٹے ہوئے ہیں، یعنی جب آپ یہ کہتے ہیں کہ کسی شئے کی ترسیل ہوئی تو اس کے مادی معنی مراد لیے جاتے ہیں، لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ کسی خیال کی ترسیل ہوئی تو اس کے معنی بہت وسیع ہو جاتے ہیں۔حالاں کہ یہ مسئلہ شاعری کی حد ود میں بھی خاصہ پیچیدہ ہے، لیکن کہانی میں اس کا فسوں مختلف نوعیت کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کہانی میں سہل معلوم ہوتا ہے جبکہ ہوتا زیادہ مشکل اور دلچسپ ہے۔ میرا کہانی کو پڑھنے کا تجربہ بتاتا ہے کہ میں اس لفظ کے باطن میں اکثر داخل ہونے سے گریز کرتا ہوں۔ مثلاً میں نے کہانی سے کیا حاصل کیا یا یوں کہوں کہ کہانی نے مجھ تک کس غیر مادی وجود کی ترسیل کی اس کو میں بہت دیر تک نہیں سمجھ پاتا۔
غور کرنے والی بات ہے کہ کیا کہانی میں ترسیل کا مسئلہ اس کے اختتام سے وابستہ ہے۔ یعنی کہانی اس وقت تک مجھ میں کچھ رد و بدل نہیں کرے گی یا تحریک پیدا نہیں کرے گی جب تک میں اسے از اول تا آخر پڑھ نہ لوں۔ یہ استفسار اس لیے ضروری ہے کیوں کہ میں بض اوقات کہانی کو کئی مرتبہ ختم ہوتا ہوا محسوس کرتا ہوں، اور اس سے خود میں ایک نوع کی تبدیلی بھی محسوس کرتا ہوں۔مادی وجود تو لفظ اور جملے کی ترسیل کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے” ردا” میں نے کہانی کے دوران اس کا مطالعہ کیا اور فوراً اس کی ترسیل ہو گئی۔ اس کی ترسیل کے لیے میں نے ایک شکل کی مدد لی اور پھر معنی کے نظام میں داخل ہو کر اسے ایک طے شدہ معنی میں ڈھالا اور مسئلہ حل ہو گیا یا اس کے برعکس ایک جملہ ہے کہ “عصمت نے ردا کھینچی۔”یہاں لفظ کی اکائی بے معنی ہو گئی اور جملہ اس طرح اپنی ترسیل میں کامیاب ہو کہ کئی تصویروں نے مل کر ایک فریم بنایا جو اصل میں ایک اکائی کی صورت میں ڈھل گیا اب آپ اس فریم کو مزید بڑا کیجیے اور اسے کہانی کے پورے وجود پر پھیلا دیجیے، پھر جو خیال یا تصویر بنے گی اس کو ایک اکائی میں ڈھال لیجیے۔
افسانے کا یہ چھلاوا آپ کو محسوس کرائے گا کہ کہانی کے جس نکتے کو آپ اہمیت دینا چاہتے ہیں اس کی ترسیل ہو گئی ہے۔ ایک فریم جس میں کہانی کی تمام اکائیاں آ کر جمع ہو گئی ہیں۔ لیکن واقعتاً ایسا ہے نہیں اسی لیے میں نے شعر کی ترسیل کو افسانے کی ترسیل کے مقابلے آسان کہا تھا۔ یہ واقعہ ہے کہ لفظ جس کی ایک اپنی کائنات ہوتی ہے وہ جس صنف میں جتنا زیادہ کھپے گا اس کا صنف کی ترسیل اتنی ہی وسیع ہوتی چلی جائے گی۔ کہانی کو اس طرح پڑھنا کہ اس سے ایک خیال تک رسائی حاصل ہو یہ کوئی کامیاب مطالعہ نہیں ہو سکتا، خواہ کہانی دو صفحات کی ہو یا سو۔
کہانی میں ترسیل کا نظام مختلف اکائیوں میں بٹا ہوتا ہے۔ جس کو صرف نظر کرنے سے کہانی کی غیر مادی فضا متاثر ہوتی ہے۔ مصنف ایک آلے سے بڑھ کر کہانی کو تخلیق کرنے والا ایسا وجود ہوتا ہے جو نامعلوم دنیا کی انجانی روشنیوں سے پُر ہوتا ہے۔ اگر کوئی مصنف یہ دعوی کرے کہ اس کی تصنیف کسی ایک معنی تک قاری کو پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے تو اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہوں گے کہ کہانی کا ارتکازی نکتہ جو مصنف کی نظر میں جلی ہو رہا ہے وہ کہانی کا واحد نکتہ ہے۔ مصنف نے جس طرح توجہ دلائی اس طرف قاری نے نظریں نہ بھی جمائیں تو بھی اسے کہانی کے بطن میں پلنے والے بے شمار نکتوں سے ہم آہنگ ہونے کا موقع ملتا ہے اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ قاری اپنی مرضی سے کسی ایک نکتے کو کہانی کا حاصل تصور کرتا ہے جو مصنف سے مختلف ہے۔ اس سے حاصل یہ آتا ہے کہ ایک کہانی میں بیک وقت دو نکتے ابھر کے سامنے آ جاتے ہیں۔ جس سے کہانی کے وجود کی ظاہری توسیع ہو جاتی ہے۔ اس توسیع کو مزید کرنا ہو تواجتماعی قرات کا تجربہ کرنا چاہیے، جس میں بیک وقت کئی لوگ مختلف نکات کو کہانی کا مرکزی نکتہ قرار دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں مسئلہ کہانی سے زیادہ طباع کا ہو جاتا ہے۔ ایک مرقومہ نکتے کی مختلف حالتوں کا بیان مختلف تجربوں کا بیان ہوتا ہے اس میں ترسیل اپنی مختلف شکلوں میں کام کرتی ہے۔ وہ الفاظ اور ان کے معنی کی حالتوں کو انسانی ذہنوں کے مطابق بنا لیتی ہے۔ کہانی آگے کی طرف بڑھتی جاتی اور لوگ جملوں اور پھر اقتباسوں سے ایک ایک اکائی اخذ کر کے انہیں دوسری اکائیوں سے ملاتے جاتے ہیں،اس طرح جیسے ایک تھال میں پڑے ہوئے مختلف آنٹے کے ذرے پانی کی دھار سے ایک دوسرے سے لپٹتے جاتے ہیں اور پھر گندھتے جاتے ہیں کئی ذرے پہلے آنٹے سے پینڈ کی شکل اختیار کرتے ہیں اور پھر پینڈ سے ایک سخت گولے کی جو ایک جامد شئے بن جاتا ہے۔ خیال کے مدغم ہونے کا عمل بھی ایسا ہی ہے۔
کہانی کے اختتام پہ ترسیل کی جلد بازی میں الجھے ہوئے بیش تر ذہنوں کو کہانی کے اختتام میں ایک گندھا ہوا ٹھوس خیال نصیب ہوتا ہے جس سے لطف اندوز ہونے کا عمل بھی ویسا ہی گاڑھا اور سخت ہوتا ہے جیسا کہ و ہ خیال۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کہانی کی ترسیل کے مسئلے پہ غور کرنا کہانی کے مطالعے کے بعد سب سے زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ میں نے بھی ایک عرصے تک کہانی کی ایک اکائی سے محظوظ ہونے کو ہی کہانی کا حاصل سمجھا، مگر اس امر نے مجھے غیر مطمئن کیا اور میرے اندر یہ ارتعاش پیدا کیا کہ کہانی اتنی آسانی سے اپنی ترسیل نہیں ہونے دے سکتی۔ اس میں کہیں کوئی ترسیلی فسوں ہے جو مجھے اس کے چو طرفہ حلقوں تک پہنچنے سے روک رہاہے۔ اس ترسیل کے عمل میں مانع ہونے والی مختلف حالتیں اس غورو فکر کے بعد مجھ پہ روشن ہونا شروع ہوئیں جن میں سب سے دلچسپ اکائی لفظ کی ہے۔
یہاں یہ بحث بے معنی ہے کہ شاعری میں استعمال ہونے والا لفظ اور کہانی میں استعمال ہونے والا لفظ کس طرح سے دو مختلف حالتوں میں اپنی معنیاتی فضا تشکیل کرتا ہے۔حالاں کہ اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن یہ میرا موضوع نہیں، میں صرف اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ لفظ ہر صنف کے تقاضوں کے تحت کام کرتا ہے اگر شاعری میں ہے تو شاعرانہ تقاضے کے تحت کام کرے گا اور اگر نثر میں ہے تو نثریہ تقاضے کے تحت۔ بہر کیف کہانی میں لفظ کئی اقسام میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ جن میں سادہ اور اکہرے لفظ، تشبیہاتی اور استعاراتی لفظ، گہرے اور تہہ دار لفظ اور کلیدی وذوی معنی لفظ۔ ترسیل کے عمل میں ہر لفظ جس طرح ایک مقدمے کے ساتھ پیوست ہوتا ہے اس مقدمے کی شکل کو بنانے اور بگاڑنے کا عمل لفظ کی حالت کو مختلف صورتوں میں بدل دیتا ہے۔ مثلاً میں نے اوپر لفظ کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا تھا کہ لفظ”ردا” کی ترسیل کہانی میں کیسے ہوتی ہے۔ اب دوسری حالت دیکھیے کہ اگر کوئی لفظ کہانی میں گہرے یا تہہ دار معنی میں استعمال ہو رہا ہے تو وہ کس طرح ترسیل کے عمل کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔اگر کسی کہانی میں ایک لفظ استعمال ہو رہا ہے “منجنیق “تو آپ اس سے کیا مراد لیں گے۔ کہانی کا بیانیہ آپ سے مطالبہ کرے گا کہ آپ ا س کے لغوی معنی مراد لیجیے، لیکن ترسیل کا عمل اس کے اصطلاحی معنی سے محظوظ ہو رہا ہے۔ مغربی کہانیوں میں ایسے بیشتر الفاظ استعمال ہوتے ہیں، روایت کی پاسداری آپ سے تقاضہ کرتی ہے کہ کسی لفظ کے وہ معنی مراد لیے جائیں جو زبان کے بہاو کو مجروح نہ کریں، لیکن وقت معنی کے باطنی نظام کو بالکل تبدیل کر رہا ہے۔ ایسی حالت میں ترسیل کا عمل کبھی ذہانت کا مظاہرہ کرتا ہے اور معنی کی ترسیل میں دونوں رکاوٹیں ختم کر دیتا ہے اور کبھی کند ذہنی کا مظاہرہ کرتا ہے اور لفظ کو مردار بنا دیتا ہے۔ یہ لفظ کی تہہ داری کا مسئلہ ہے۔
اگر آپ ایک قاری ہیں ایسے جو الفاظ کو کم نہیں آنکتے تو یقیناً آپ لفظ کے مختلف معنی کے ترسیل کے مختلف زاویے تراشیں گے اور کہانی کے کینوس پہ بکھرے ہوئے مختلف رنگوں کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن اگر آپ الفاظ کی ترسیل کے عمل کو اہمیت نہیں دیتے تو اختتام میں لفظ بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ لفظ کی ترسیل اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ کہانی میں اس کے معنی کی تلاش میں سرگرداں رہا جائے۔ تاکہ ہر لفظ کے ایک سٹیک معنی کے ساتھ ساتھ مختلف پیچیدہ اور گھماو دار معنی بھی متن کے بین السطور پہ ابھر سکیں۔ سوچنے والا ذہن متن کے اندور میں چھپے معنی کو اسی طرح روشن کرتا ہے۔ کیوں کہ کہانی کا کل سرمہ متن ہوتا ہے اس لیے لفظ کی ترسیل کے لیے ہمیں اس کے معنی کے نظام میں داخل ہونے کی ہر کوشش کو اہمیت دینا پڑتی ہے۔ لفظ اپنی مجموعی حالت میں کس طرح ایک معنی کی ترسیل کریں کے اس کا انحصار ہماری فکر پہ ہوتا ہے۔ میں لفظ کو ایک ایسے شیشے سے دیکھنے کو اہمیت دیتا ہو ں جس سےا س کی رگوں میں بہتےہوے مختلف معنوں کا لہو نظر آ جائے۔ تاکہ ترسیل کے عمل میں سب سے پہلی اکائی ہی مانع نہ ثابت ہو۔