ہوا کی کوکھ
ٹھنڈی مٹی کے بوجھ سے
دوہری ہو رہی ہے
خوف تاریک کمروں سے نکلنے والے
سارے راستے مسدود کر چکا ہے
حوصلے جراثیم کش ادویات کے
بھاؤ تاؤ میں مصروف ہیں
کونپلوں نے سبز روشنی سے
ہاتھ ملنے کے ارادے ترک کر دیے ہیں
دلوں کی انگیٹھیوں میں پڑی ہوئی
سرخ بھبوکا آگ سرمئی راکھ میں بدلنے لگی
فاصلے ضرب کے آزمودہ فارمولے آزمانے لگے
تنہائی چپ چاپ پڑٰی
اگلے دنوں کی منصوبہ بندی کرنے لگی
نحوست نے چوباروں کے پیر زخمی کردیے
موت کی دھیمی چاپ سے
سماعتیں بھس کی طرح بھر دی گئیں
مگر میں ۔۔۔۔ تمہارے
صرف تمہارے ساتھ قرنطینہ میں جانا چاہتی ہوں

Leave a Reply