letters-to-the-editor-featured1

ڈیرہ غازی خان اور ساہیوال میں میڈیکل کے سینکڑوں طلبا و طالبات اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور کئی ہفتوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان اور ساہیوال میں میڈیکل کے سینکڑوں طلبا و طالبات اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور کئی ہفتوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اب تک ایک ہزار سے زائد طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں لیکن انہیں اب تک نہ تو ڈگری ملی ہے اور نہ ہی وہ ہاؤس جاب کرنے کے اہل ہو سکے ہیں۔
ڈیرہ غازیخان شہر کے مغرب میں طویل پہاڑی سلسلہ "کوہ سلمان” اور مشرق میں شیر دریا سندھ اپنی پوری آب وتاب سے بہتا ہے قومی شاہراہ پر واقع موجودہ شہر 1901میں آباد ہوا، اس شہر کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ برصغیر پاک و ہند کا پہلا شہر ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر ہوا اور پھر میں یہاں آبادکاری ہوئی۔ پرانا شہر1890 سے بتدریج آہستہ آہستہ دریا برد ہونا شروع ہوا، لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے دوردراز علاقوں میں جانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ نیا شہر بسانے کا منصوبہ بنایا گیا اور صرف چندسالوں میں اک نیا شہر تعمیر ہوا جو باقاعدہ نقشہ کے تحت تعمیر کیا گیا ہے، پرانے شہر کی آبادی کو یہاں منتقل کیا گیا۔ پاکستان کے عین وسط میں آباد، میرانی بلوچ سردار "غازی خان” کے نام سے منسوب ڈیرہ غازی خان شہر میں میڈیکل کالج کے قیام کا فیصلہ اس لیے بھی اہم تھا کہ اس کالج میں چاروں صوبوں کے ایسے تمام بچوں کو تعلیم کے حصول کا موقع ملے گا جو لاہور اورکراچی جیسے بڑے شہروں کے میڈیکل کالجز میں داخلے کے اہل نہیں ہوتے۔ 2010 میں غازی میڈیکل کالج کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ امید ہو چلی تھی کہ اب اس علاقے میں بھی علاج معالجے کی بہتر سہولیات میسر آ سکیں گی، مگر پورے پانچ سال ہوگئے ہیں اس کالج کی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے رجسٹریشن نہیں ہوسکی۔ کالج کے قیام کا کریڈٹ لینے والے سیاست دانوں نے کالج کی پی ایم ڈی سی سے رجسٹریشن کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ کالج میں تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے بہت سے کام کرنے کو تھے جو نہیں کئے گئے۔

پی ایم ڈی سی کی شرائط کے عین مطابق مطلوبہ تعداد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹرزکی تعیناتی پہلی ذمہ داری تھی جس سے اغماض برتا گیا۔ اسی طرح دیگر عملے کی بھرتی اور فنڈز کی تسلسل کے ساتھ فراہمی سمیت دیگر اہم انتظامی امور پر کچھ بھی ٹھیک طرح سے نہیں ہوا، پورے پانچ سال گزر گئے اور اس عرصہ میں زیرتعلیم طلبا و طالبات کا پہلا batch بھی اپنی تعلیم مکمل کر چکا ہے مگر پی ایم ڈی سی سے کالج کی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی حیثیت نہیں، وہ بطور ڈاکٹر ہسپتال میں وہ ہاؤس جاب تک نہیں کرسکتے جب تک پی ایم ڈی سی کالج کی اپنے ساتھ رجسٹریشن کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے ان کی ڈگری پر اپنی مہر ثبت نہیں کرتی۔

پی ایم ڈی سی بھی بری الزمہ نہیں ہے، پی ایم ڈی سی اپنے قوانین کے مطابق اگر اس موقع پر کالج کو کام کرنے سے یک سر روک دیتی تو مسئلہ پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا اور حکومت کالج میں تدریس کا عمل جاری رکھنے کے لیے تدریسی عملہ پورا کرتی
ڈیرہ غازیخان کے میڈیکل کالج کے حوالے سے اس علاقے کے 14 عوامی نمائندگان نے کبھی آواز بلند نہیں کی، سول سوسائٹی کی چند تنظیموں اور زیر تعلیم طلبہ نے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے اور گاہے بگاہے "شوروغوغا” کرتے رہے ہیں مگر ان کی آواز نقارے خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی ہے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے کسی قسم کے عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ کالج کے طلبہ نے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے اپنے حق کی خاطر عدالت بھی گئے ہیں لیکن ان کی خاطر خواہ دادرسی نہیں ہو سکی۔ ہائی کورٹ نے محکمہ صحت کو حکم دیا کہ 20 جنوری 2016 تک فیکلٹی پوری کی جائے مگر تاحال اس حکم پر عمل درآمد نہیں ہو سکا جو توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ حیرت کی بات ہے غازی میڈیکل کالج کے ساتھ شروع ہونے والے تین دیگر میڈیکل کالجز میں پروفیسر ڈاکٹرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹرز کی تعیناتی کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس کا اطلاق یہاں نہیں کیا گیا۔ دیگر میڈیکل کالجوں میں دوسرے کالجز سے ڈاکٹرز کے تبادلے تعیناتی کا طریقہ اختیار کیا گیا جبکہ ڈیرہ غازی خان میں زیادہ تر نئے ڈاکٹرز کی بھرتی یا پھر ترقی دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ پانچ سالوں میں پانچ ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی یہاں تعینات نہیں کیے جا سکے، اس وقت بھی کالج میں چار ڈاکٹرز اس عہدے ہر ہیں۔ پی ایم ڈی سی اس کالج کی رجسٹریشن ان حالات میں نہیں کرسکتی۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب کالج میں پڑھانے کے لیے مطلوبہ تدریسی عملہ ہی نہیں تھا تو پھر یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کو کون پڑھاتا رہا؟ اس حوالے سے پی ایم ڈی سی بھی بری الزمہ نہیں ہے، پی ایم ڈی سی اپنے قوانین کے مطابق اگر اس موقع پر کالج کو کام کرنے سے یک سر روک دیتی تو شاید مسئلہ پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا اور حکومت کالج میں تدریس کا عمل جاری رکھنے کے لیے تدریسی عملہ پورا کرتی لیکن پی ایم ڈی سی نے خاطر خواہ کارروائی نہیں کی۔ اس عرصہ کے دوران تدریسی کلیات میں جہاں کم از کم 16 ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ہونے چاہیئے تھے وہاں صرف دو تین سے کام چلایا گیا۔

پی ایم ڈی سی سے کالج کی رجسٹریشن کے لیے کم از کم 220 نمبروں کی ضرورت ہے یہ نمبر مختلف فیکلٹی میں موجودپروفیسرز ڈاکٹرز کو مد نظر رکھ کر دیئے جانے ہیں۔ یہ نمبر، غازی میڈیکل کالج کے پاس نہیں ہیں فیکلٹی میں ایک ایسوی ایٹ پروفیسر ڈاکٹرکے نمبر20 ہیں اور اگر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرہو تو یہ نمبر اوربھی کم ہوجاتے ہیں۔ پچھلے ہفتے جن آٹھ نئے پرفیسر ڈاکٹرز کی تعیناتی کے احکامات جاری کئے گئے ہیں وہ سب بھی آجائیں تو بھی مطلوبہ نمبر پورے نہیں ہوں گے کیونکہ زیادہ تر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرز کو لگایا جارہا ہے۔ آخر کس جرم کی سزا ہے جو ڈیرہ غازی خان کے میڈیکل کالج کو دی جا رہی ہے۔ پانچ سو سے زائد فارغ التحصیل ڈاکٹرز کے مستقبل کو داو پر کیوں لگا دیا گیا ہے؟ انتظامی امور کے سلسلے میں فیصلوں میں تاخیر سے معاملات مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان اور ساہیوال کے میڈیکل کالجوں کے ساتھ درپیش مسائل کو فوری طور پرحل کیا جائے تاکہ ایک ہزار سے زائد (دونوں کالجز کے فارغ التحصیل ڈاکٹر کی تعداد)ڈاکٹرز کے مستقبل پر چھائی بے یقینی کو ختم کیا جاسکے اور پسماندہ علاقوں میں بھی طب کی اعلیٰ تعلیم کی سہولیات میسر آ سکیں۔

Leave a Reply