Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

اپر دیر تبدیلی کی زد میں

test-ghori

test-ghori

11 اکتوبر, 2015
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ جناب عمران خان صاحب اپنی تقریروں میں عموماََ اس جملے کو کثرت سے استعمال کرتے ہیں کہ ’’تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آچکی ہے ‘‘۔خیبر پختونخواہ کے شمالی علاقوں بالخصوص مالاکنڈ ڈویژن کا شمار ان انتخابی حلقوں میں ہوتا ہے جہاں جماعت اسلامی جیسی نام نہاد جمہوری جماعت کا مضبوط اور ناقابل شکست ووٹ بینک موجود ہے۔ اگر چہ جماعت اسلامی اپنی مستحکم تنظیمی ساخت کی وجہ سے پورے ملک میں موجود ہے، لیکن پاکستان کے سیکولر مزاج عوام نے گزشتہ 68سال کے دوران انتخابات میں جماعت اسلامی سمیت کسی بھی سخت گیرمذہبی جماعت کے حق میں ووٹ نہیں ڈالے۔ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو کل ووٹوں کا صرف 5سے 6فیصد ملتاہے جبکہ اس کے مقابلے میں اعتدال پسند اور ترقی پسند جماعتوں کے ووٹوں کا تناسب 95فیصد ہے۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ اپنے گوناگوں معاشرتی مظاہر کے ساتھ پاکستان کے عوام کا سیاسی مزاج ہزاروں برسوں کے ارتقائی عمل کی وجہ سے سیکولرہے لیکن بتدریج قدامت پرست جماعتیں اپنی جگہ بنا رہی ہیں ۔ خیبرپختونخواہ کے شمالی اور جنوبی خطوں میں مذہبی جماعتیں جیسا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں جماعت اسلامی اور ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں وغیرہ میں جمعیت علمائے اسلام جیسی جماعتیں انتخابی کامیابی حاصل کرتی آ رہی ہیں۔
انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو کل ووٹوں کا صرف 5سے 6فیصد ملتاہے جبکہ اس کے مقابلے میں اعتدال پسند اور ترقی پسند جماعتوں کے ووٹوں کا تناسب 95فیصد ہے
سن 2013ء کے عام انتخابات میں جہاں خیبرپختونخوا کے شہری علاقوں میں پاکستان تحریکِ انصاف نے واضح برتری حاصل کی وہیں مالاکنڈ ڈویژن کے مختلف علاقوں بالخصوص دیر سے جماعت اسلامی قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئی اور یوں حکومت ساز ی کے مرحلے میں نظریاتی بحران کا شکار پاکستان تحریکِ انصاف نے جماعت اسلامی جیسی رجعت پسند جماعت سے اتحاد کیا جس کے عوض بلدیات ودیہی ترقی اور وزارت خزانہ کا قلمدان جماعت اسلامی کے حصے میں آیا۔ صوبائی کابینہ میں وزارت خزانہ کا عہدہ موجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق جبکہ بلدیات کی وزارت عنایت اللہ خان کوسونپی گئی، اور دونوں کا تعلق دیر سے ہے۔
حلقہ پی کے 93 اپر دیر کی انتخابی سیاست :
مئی 2013کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے 93 اپر دیر سے جماعت اسلامی کے امیدوار ملک بہرام خان کامیاب ہوئے تھے۔ دو سال گزرنے کے بعد ملک بہرام خان کی ڈگری جعلی نکلی تو انہیں اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا اس کے بعد اسی حلقے میں ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس ضمنی انتخاب میں دو امیدوار میدان میں آئے جماعت اسلامی نے جعلی ڈگری کے حامل سابق ممبر صوبائی اسمبلی ملک بہرام ٖخان کے فرزند ارجمند ملک اعظم خان کو اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے صاحبزادہ ثنااللہ کو میدان میں اتاراگیا۔ حیران کن طورپر روایتی اور موروثی سیاست کی سب سے بڑی مخالف جماعت اسلامی نے جعلی ڈگری رکھنے والے سابق رکن صوبائی اسمبلی ملک بہرام خان کی نشست پر ان کے فرزند ملک اعظم خان کو ٹکٹ دے کر نامزد کیا جو جماعت کے اندر دہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریکِ انصاف اور قومی وطن پارٹی نے جماعت اسلامی کے امیدوار کی حمایت کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار صاحبزادہ ثنا اللہ کی حمایت مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی نے حمایت کی ۔ ملک بھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خاتمے کی نوید سنانے والے سیاسی پنڈت اس وقت ششدر رہ گئے جب جماعت اسلامی کے سب سے مضبوط گڑھ اپر دیر میں پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں چودہ ہزار کے مقابلے میں اکیس ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی، اور یوں پیپلزپارٹی کو سات ہزار ووٹوں سے کامیابی ملی ۔ عوامی عدالت میں سنائے جانے والے اس فیصلے کے بعد یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے خاتمے کی بشارت سنانے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں ۔ مقتدر اداروں کے لئے بھی عوام کا واضح پیغام ہے کہ سیاسی قوتوں کے خاتمے کی کسی بھی کوشش کو وہ اپنے ووٹوں کی طاقت سے ناکام بناسکتے ہیں اور پی پی پی جیسی مستحکم جماعتیں اتنی جلدی قومی منظر نامے سے غائب نہیں ہوسکتیں۔
دیر سے موروثی سیاست کا خاتمہ:
حلقہ پی کے 93اپر دیر کی نشست گزشتہ 40برسوں سے جماعت اسلامی کے پاس تھی یہاں کے عوام نے جماعت اسلامی کو مسلسل چھ مرتبہ کامیابی دلوائی چار دہائیوں سے اقتدار میں رہنے کے باوجود جماعت اسلامی نے یہاں کے عوام کے معیارِ زندگی، سماجی ومعاشی حالات، تعلیمی ترقی اور شرحِ خواندگی کو بہتر بنانے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے غربت، افلاس، پسماندگی، جہالت اور قبائلی سخت گیریت یہاں کے عوام کامقدربن چکی ہے۔ اس علاقے میں انتہائی غیر لچکدار قبائلی نظام رائج ہونے کی وجہ سے آبادی کے بڑے حصے یعنی خواتین کو زندگی کے تقریباً ہر شعبے سے خارج کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ ماضی میں خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے خلاف سماجی تنظیموں نے بھر پور احتجاج کیا بالآخر خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کی کوششوں سے پی کے 93کے ضمنی انتخاب میں تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی البتہ خواتین ووٹروں کا ٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔
ملک بھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خاتمے کی نوید سنانے والے سیاسی پنڈت اس وقت ششدر رہ گئے جب جماعت اسلامی کے سب سے مضبوط گڑھ اپر دیر میں پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں چودہ ہزار کے مقابلے میں اکیس ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی
تجزیہ نگار وں کا خیال ہے کہ خواتین کے ووٹوں کی وجہ سے ہی علاقے کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ دیر کے عوام نے موروثی سیاست کو خیر باد کہہ کر اپنے لئے نئی راہوں کا تعین کیا ہے ۔ اس غیر معمولی واقعے کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں واضح تبدیلی رونما ہوچکی ہے، یعنی ’’تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آچکی ہے ‘‘۔اب نومنتخب رکن صوبائی اسمبلی کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے علاقے کی تعمیرو ترقی میں اپناکردار اداکرے تاکہ عوام ناامید نہ ہوجائیں۔
دیر کے عوام کی سیاسی ترجیحات
اپر دیر کے عوام کے پاس ضمنی انتخاب میں دو راستے تھے؛ ایک یہ کہ جماعت اسلامی کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال کر صوبائی اسمبلی میں حزبِ اقتدار کی نشستوں پر بیٹھے یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے کر حزبِ اختلاف کا حصہ بنے لیکن حیران کن طورپر ووٹروں نے موجودہ حکمرانوں پر عدم اعتمادکا اظہارکرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو ترجیح دی ۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگرچہ پی ٹی آئی اور قومی وطن پارٹی کی قیادت نے جماعت اسلامی کی حمایت کا فیصلہ کیاتھا لیکن کارکن اس فیصلے سے متفق نہیں تھے۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جماعت اسلامی کے اپنے کارکن بھی باپ کی جگہ بیٹے کو ٹکٹ دینے کے فیصلے سے نالاں تھے کیونکہ بہرحال دیر کے عوام کے سامنے جماعت اسلامی کی چالیس سالہ کاکردگی تھی ۔ عوام جو کہ طاقت کااصل سرچشمہ ہیں نے جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اورقومی وطن پارٹی کی قیادت کے فیصلے کو ماننے سے انکارکرتے ہوئے پی پی پی کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔ جماعت اسلامی کے لئے یہ تبدیلی انتہائی تشویش کا باعث ہوگی جبکہ پی ٹی آئی کو بھی اب اپنا قبلہ درست کرنے کے ساتھ نظریاتی تذبذب سے باہر نکلناہوگا۔
پی پی پی کا امتحان:
دیر کے ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد اب خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد چھ ہوگئی ہے جن میں سے دو اراکین کا تعلق اپر دیر سے ملحق ضلع چترال سے ہے۔ چترال سے صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں یعنی پی کے 89چترال سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر سلیم خان جبکہ پی کے 90مستوج چترال کی نشست سےبھی پی پی پی کے سینئر راہنما سید سردارحسین کامیاب ہوئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قومی اورصوبائی قیادت کو چترال اور دیر کی سیاست سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پارٹی کے نوجوان قائد بلاول بھٹوذرداری پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور جماعت کی مرکزی تنظیمِ نوکاآغازکریں، ناراض کارکنوں کومنانے کے علاوہ مرکزی، صوبائی اور پھر ضلعی قیادت کا انتخاب جمہوری طریقے سے عمل میں لائے۔ اس کے علاوہ چترال اور دیرکے اراکین صوبائی اسمبلی کواپنے علاقوں کی تعمیر وترقی اور پسماندگی کے خاتمے کی جانب خاص توجہ مرکوز کرناہوگی ورنہ تبدیلی کی جولہر چلی ہے اس کی رخ کسی اور سمت بدل بھی سکتی ہے ۔