Laaltain

عراق، شام، تیل اور داعش

11 جنوری، 2016
فرانس کے تاریخی شہر اور دارالحکومت پیرس میں خوفناک حملوں سے یہ بات ایک مرتبہ پھر واضح ہوگئی ہے کہ عراق وشام میں سرگرم دہشت گرد اب یورپ کے محفوظ ممالک تک رسائی رکھتے ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم دنیا کی سب سے امیر اور خوفناک دہشت گرد اسلامی تنظیم داعش (آئی ایس آئی ایس) نے قبول کی تھی۔ داعش کے حوالے سے خوف اور خبریں تو بہت ہیں لیکن اس گروہ کے پس منظر اور تشکیل سے متعلق بے حد ابہام ہے۔

 

2003ء میں امن، جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے ‘علمبردار’ امریکہ نے اپنے یورپی حواریوں کے ہمراہ عراق پر حملہ کیا۔ حملے کی وجہ وہ ناقابل بھروسہ انٹیلی جنس معلومات تھیں جن کے مطابق عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا اورصدام حکومت کے القاعدہ سے مراسم کا ‘انکشاف’ کیا گیا۔ حملہ آوروں کے خیال میں عراق کے پاس موجود ہتھیار اور القاعدہ سے اس کے روابط سے دنیا بھر کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ جب ان ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہ ملا توپھر یہ شوشہ چھوڑ اگیا، کہ گزشتہ تین دہائیوں سے عراق صدام حسین کی آمریت کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اور اب مہذب دنیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ عراقی عوام کو صدام کی آمریت سے نجات دلاکر جمہوری روایات سے روشناس کرائے۔ اُس وقت برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا سمیت نیٹو کے 48 ممالک امریکہ کے شانہ بشانہ اس جنگ میں شریک تھے۔ اس حملے کے دوران ان ممالک نے عراق کے مستقبل کا فیصلہ عراقی عوام کی صوابدید پر چھوڑنے کی بجائے اسلحے اور طاقت سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ عراق پر قبضے کے بعد امریکہ اور ان کے نیٹو اتحادیوں نے عراقی فوج، سول افسرشاہی سمیت تمام حکومتی اداروں کو تہس نہس کر دیا جس سے عراقی معاشرے میں ایک تباہ کن خلاء پیدا ہو گیا۔ عراق میں نافذ کیا جانے والا نیا جمہوری نظم سنی اقلیت کو مناسب نمائندگی اور حقوق دینے میں ناکام رہا۔ اس خلاء کو پر کرنے کے لیے دنیا بھر کی جہادی تنظیموں نے عراق کا رخ کرنا شروع کر دیا۔

 

عراق پر قبضے کے بعد امریکہ اور ان کے نیٹو اتحادیوں نے عراقی فوج، سول افسرشاہی سمیت تمام حکومتی اداروں کو تہس نہس کر دیا جس سے عراقی معاشرے میں ایک تباہ کن خلاء پیدا ہو گیا۔
عراق میں القاعدہ کا قیام:

 

داعش کی ابتداء اور ارتقاءکو سمجھنے کے لیے پہلے ان عوامل اور محرکات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے یہاں ایسے سخت گیر سنی گروہ کے لیے گنجائش پیدا ہوئی اور بغداد اس ‘کالی آندھی’ کی لپیٹ میں آگیا۔ عراق پر سن 2003ء میں امریکی حملے کے ایک سال بعد 2004ء میں القاعدہ نے وہاں پر اپنی شاخ قائم کی۔ عراق کے سماجی ڈھانچے میں بہت بڑے سیاسی و انتظامی خلاء کے ساتھ شیعہ سنی کشیدگی بھی موجود تھی۔ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراقی سنی آبادی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین میں القاعدہ کو پنپنے میں بڑی آسانی رہی۔ Vox.com پر 19 نومبر 2015ءکو ISIS, a history: how the world’s worst terrorist group came into beingکے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی ایس دنیا کا سب سے امیر اور طاقتور دہشت گرد گروہ ہے جو سن 2003ءکو امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد وجود میں آیا۔ اس حملے نے عراقی سماج کے سارے مظاہر کو تہس نہس کر دیا جس سے عراق طوائف الملوکی اور انتشار کا شکار ہو گیا۔ بیرونی دنیا کے دہشت گرد عراق کی جانب مائل ہوئے۔ عراق پر قبضے کے بعد امریکہ نے صدام حسین کی سیاسی جماعت اور سنی العقیدہ سول اور فوجی نظم کو ختم کیا اور شیعہ اکثریت کے تعاون سے نئی حکومت کھڑی کی۔ جب عراق میں القاعدہ نے اپنی شاخ قائم کی تو وہ صدام دور کے فوجی اہلکاروں اور فسران کے لیے مزاحمت اور روزگار کا ایک موقع ثابت ہوئی۔ 2004ء ہی میں الزرقاوی کے گروپ نے بھی القاعدہ کی حمایت کر دی اور اس کانام ‘عراقی القاعدہ’ رکھا گیا۔ اس گروہ نے عراقی اہلِ تشیع کی مساجد، مقابر اور عوامی مقامات پر حملے اورمشہور شیعہ شخصیات کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا۔ مسلکی بنیادوں پر اس قتل و غارت کا بنیادی مقصد شیعہ سنی تفریق کو بڑھا کر خانہ جنگی کو ہوادینا تھا، اسی تکفیری طرز پر داعش بھی اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کر ہی ہے۔ عراق اور افغانستان میں القاعدہ کے کمزور ہونے اور بیشتر قیادت کے مارے جانے کے باعث عملاً القاعدہ کی دہشت گردانہ سرگرمیاں ختم ہوچکی ہیں جس کے بعد عراق میں القاعدہ کی شاخ نے شام اور عراق کی خانہ جنگی اور شیعہ سنی تفریق کا فائدہ اٹھا کر سخت گیر اور بنیاد پرست اسلامی تکفیری فکر کی بنیاد پر اپنی تنظیم سازی شروع کی۔

 

نوری المالکی حکومت اور داعش:

 

عراق پر قبضے اور صدام حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے عراق میں جمہوری نظام رائج کرنے کے حوالے سے انتخابات منعقد کیے۔ ان انتخابات میں شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے نوری المالکی کو کامیابی ملی۔ عراق کی کل آبادی کا 60 فیصد شیعہ، 22 فیصد صدام حسین کے حامی عرب سنی اور 18 فیصد صدام مخالف کرد سنی آبادی پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں مسلکی بنیادوں پر شیعہ حکومت قائم ہوئی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق نوری المالکی نے اعتدال پسند سیکولر سیاسی و آئینی نظام کے قیام اور سنی اقلیت کو اقتدار میں جائز نمائندگی فراہم کرنے کی بجائے مسلکی تعصبات پر مبنی حکمرانی کی۔ اور یوں وہ سنی اقلیت جو برسوں سے عراق پر حکمران رہی تھی سیاسی تنہائی کا شکار ہو گئی۔ نوری المالکی کی حکومت کے امتیازی سلوک سے سنی اقلیت خود کو غیر محفوظ سمجھنے کے علاوہ شدت پسند گروہوں میں اپنی بقاء تلاش کرنے لگی۔

 

دو ہزار چودہ میں الزرقاوی کے گروپ نے بھی القاعدہ کی حمایت کر دی اور اس کانام ‘عراقی القاعدہ’ رکھا گیا۔ اس گروہ نے عراقی اہلِ تشیع کی مساجد، مقابر اور عوامی مقامات پر حملے اور مشہور شیعہ شخصیات کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا۔
عراق اور شام کی موجودہ صورت حال کی ذمہ داری بہت حد تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی عراق میں مداخلت اور ناہلی پر عائد ہوتی ہے۔ تقریباً نو برس یعنی2003ءسے 2011ء تک عراق میں رہنے کے باوجود امریکہ ایک مستحکم عراقی فوج، نظام حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے قیام میں ناکام رہا۔ 2011ء میں جونہی امریکی افواج کا عراق سے انخلاء شروع ہوا دہشت گردی بڑھنے لگی۔ زید ال علی فارن پالیسی میں How Maliki Ruined Iraqکے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں وضاحت کرتے ہیں: ”بالآخر 2010ء میں عراق سیکیورٹی کے لحاظ سے نسبتاً بہتر پوزیشن میں آگیا اور ملک کے مختلف مذہبی و نسلی گروہوں کے درمیان مثبت تعلقات استوار ہوگئے۔ لیکن یہ تبدیلی دیر پا ثابت نہ ہوئی۔ کیونکہ نوری المالکی نے سیاسی و انتظامی شعبوں سے اپنے مخالفین کو بے دخل کر دیا، فوج میں من پسند افراد کا تقرر کیا جبکہ پر امن احتجاجیوں کو کچل ڈالا۔ یہی وہ وجوہ تھیں جنہوں نے داعش کو پھلنے پھولنے میں مدد دی“۔

 

داعش کا ارتقاء:

 

آن لائن مجلہ Crethiplethi.com 2009ء سے مشرقی وسطیٰ، اسرائیل، عرب دنیا اور جنوب مغربی ایشیاء وغیرہ کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس جریدے نے 20نومبر 2015ء کو The Historical Roots and Stages in the Development of ISISکے موضوع سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اس ساری صورتحال کو یوں بیان کیاگیا ہے۔

 

“عراق میں امریکیوں نے نوری المالکی کی قیادت والی شیعہ اور قوم پرست جمہوری طرزِ حکمرانی کی حمایت کی تاہم اس دور میں تاریخی لحاظ سے عراق پر (برسوں سے قابض) سنی آبادی کو حکومت سے باہر رکھا گیا کیونکہ وہ (عددی اعتبارسے ) اقلیت میں تھی۔ عراق میں القاعدہ کے قیام سے لے کر داعش تک کے مراحل کو اس رپورٹ میں چار درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے “عراق او ر شام میں القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کا قیام چار مرحلوں میں مکمل ہوا“۔

 

1: پہلا مرحلہ (2004-06) پہلے مرحلے میں عراق میں ابو مصعب الزرقاوی کی قیادت میں القاعدہ کی شاخ کا قیام عمل میں آیا جس نے امریکہ اور اتحادی فوجیوں اور شیعہ آبادی کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی پہلا مرحلہ اس وقت اختتام پزیر ہوا جب (القاعدہ کے راہنما) ابومصعب الزرقاوی جون 2006ء کو امریکہ کے فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے۔

 

تقریباً نو برس یعنی2003ءسے 2011ء تک عراق میں رہنے کے باوجود امریکہ ایک مستحکم عراقی فوج، نظام حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے قیام میں ناکام رہا۔ 2011ء میں جونہی امریکی افواج کا عراق سے انخلاء شروع ہوا دہشت گردی بڑھنے لگی۔
2: دوسرا مرحلہ (2006-11) دوسرے مرحلے میں “امارت اسلامیہ العراقیہ” کا قیام عمل میں آیا۔ آئی ایس آئی دوسری دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتی رہی جس نے امریکہ، اس کے اتحادیوں اور اہل تشیع کے خلاف گوریلا حملے جاری رکھے۔ اس زمانے میں امریکہ کی موجودگی، ان کی عسکری کارروائیوں اور اس دور کی کامیاب خارجہ و داخلہ پالیسی جس میں تمام عراقی طبقات کو عراقی نظم میں شامل رکھا گیا کی وجہ سے آئی ایس آئی کمزور رہی۔

 

3: تیسرا مرحلہ (2012سے جون2014): اس دوران “امارت اسلامیہ العراقیہ” نے خود کو مستحکم کیا اور شام میں جاری خانہ جنگی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس دوران اس تنظیم نے اپنا نام تبدیل کر کے امارت اسلامیہ عراق و شام یاISIS رکھ لیا۔ سن 2011ء میں عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد داعش مزید مضبوط ہوگئی۔ ٹھیک اسی دوران افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلم اکثریتی ممالک میں “بہارِعرب” آمریت مخالف تحریکیں شروع ہوئیں۔ شام میں “بہارعرب” کے اثرات پہنچنے اور بشارالاسد حکومت کے خلاف تحریک کے انسداد کے لیے طاقت کے استعمال سے شامی ریاست میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے داعش کو وہاں اپنے پاوں جمانے کا موقع ملا اور وہاں النصرا فرنٹ کے نام سے اس تنظیم کی شاخ قائم کی گئی۔

 

4: چوتھا مرحلہ (جون 2014ءکے بعد ): داغش کی عسکری فتوحات اور ڈرامائی کامیابی: اسی مرحلے میں داعش نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ جما لیا۔ جبکہ مشرقی شام کے مختلف حصے بھی داعش کے قبضے میں آگئے۔ جہاں حکومتی مرکز ‘الرقہ’ پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس کامیابی کے بعد داعش نے اسلامی امارات (IS)یا اسلامی خلافت کے باقاعدہ قیام کا اعلان کر دیا جس کی قیادت داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کر رہے ہیں۔ ستمبر 2014ء میں امریکہ نے داعش کے خلاف بھر پور مہم کا آغاز کیا“۔

 

ابوغریب جیل پر حملہ:

 

21جولائی 2013ء کو البغدادی نے ایک منصوبے کے تحت بغداد کے قریب واقع ابوغُریب جیل پر حملہ کر دیا۔ اس جیل میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے 500 کے قریب خطرناک دہشت گرد موجود تھے۔ حملے میں صرف 50 داعش اہلکاروں نے حصہ لیا اور 500 دہشت گردوں کو رہا کرکے اپنے ہمراہ لے گئے۔ حملے کے وقت جیل کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکار ذرا برابر بھی مزاحمت نہ کر سکے اور بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے داعش جنگجووں نے جیل توڑ ڈالی۔ بی بی سی نیوز میں 2 اگست 2014ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اگرچہ داعش اور القاعدہ کے درمیان زیادہ ہم آہنگی موجود نہیں لیکن عراق اور شام کی حد تک دونوں مل چکے ہیں۔ اس گروہ میں شامل افراد کی کل تعداد کا صیحح اندازہ تو نہیں البتہ ہزاروں افراد اس گروہ سے منسلک ہیں۔ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی میدان جنگ کے بہترین کمانڈر اور منصوبہ ساز ہے۔ ابوبکر البغدادی نے دنیا بھر میں موجود عالمگیر سنی خلافت کے حامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے میں بہت کامیاب رہی ہے۔ بعض تجزیہ نگار داعش اور القاعدہ کا تقابلی جائزہ یوں کرتے ہیں کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ایک امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اور امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل تھے یعنی القاعدہ کا سربراہ جدید تعلیم یافتہ جبکہ ان کے پیروکار جاہل قبائلی تھے۔ اس کے برعکس داعش کی قیادت ناخواندہ جبکہ اس گروپ کے جنگجو اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی بی سی انگریزی سروس کی اس رپورٹ میں لندن کے کنگ کالج کے پروفیسر پیٹرنغمان کے حوالے سے لکھا گیا ہے ”البغدادی کے گروپ (داعش) میں 80 فیصد غیر ملکی جنگجو شامل ہو کر شام میں لڑ رہے ہیں، جن میں سے اکثریت فرانس، برطانیہ، جرمنی، یورپین ممالک، امریکہ اور عرب دنیا سے تعلق رکھتے ہیں“۔

 

شروع میں داعش کی مالی مدد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کے امیر طبقات کر رہے تھے جو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹانا چاہتے تھے۔ بعدازاں عراق اور شام کے تیل سے مالامال علاقوں پر قبضے سے اس تنظیم کو بے تحاشا آمدنی ہونے لگی ہے۔
بشار الاسد کی گمراہ کن پالیسیاں:

 

Vox.com کی مذکورہ بالا رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ سن 2011ء میں جب شام بہارِ عرب سے متاثر ہونے لگا اور عوام سڑکوں پر نکل کر بشارالاسد کی آمریت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے تو اسی وقت بشارالاسد حکومت کی حکمت عملی کی وجہ سے اس عوامی تحریک کا رخ مذہبی شدت پسندی کی جانب ہو گیا۔ اسد نے انتہائی خطرناک جواء کھیلا، یعنی ان کا یہ خیال تھا کہ اگر ان کے مخالف مذہبی شدت پسند ہوں گے تو یورپ اور امریکہ اس مذہبی تحریک سے خوفزدہ ہو کر ان (اسد) کا ساتھ دیں گے اور یوں شام کی جمہوریت نواز سیکولر تحریک بشارالاسد کی غلط اور گمراہ کن پالیسیوں کی بابت مذہبی شدت پسندی میں تبدیل ہوگئی۔ سعودی عرب، امریکہ اور یورپ نے بھی شام کے معاملے میں ایسی ہی غلطیاں کیں۔ داعش کی مالی سرپرستی کرنے والوں کے ہاتھ سے یہ تنظیم بہت جلد نکل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے شام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سن 2013ء میں شام کا شہر رقہ داعش کے قبضے میں آ گیا جو کہ ہتھیار ڈالنے والا شام کا پہلا بڑا شہر تھا۔

 

داعش کے مالی وسائل :

 

مبصرین کے مطابق داعش دنیا کی امیر ترین دہشت گرد تنظیم ہے جو مختلف طریقوں سے لوٹ مار کے ذریعے اپنی دولت میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ شروع میں داعش کی مالی مدد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کے امیر طبقات کر رہے تھے جو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹانا چاہتے تھے۔ بعدازاں عراق اور شام کے تیل سے مالامال علاقوں پر قبضے سے اس تنظیم کو بے تحاشا آمدنی ہونے لگی ہے۔ مشرقی شام میں موجود تیل کے ذخائر پر بھی اس تنظیم کا قبضہ اس کے لیے مالی طور پر سودمند رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان کا خاندان داعش سے سستے داموں تیل خرید رہا ہے جس کی بنا پر ترکی بالخصوص ترک صدر داعش کے حوالے سے نرم گوشہ اختیارکیے ہوئے ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے بھی کئی مرتبہ ترکی پر داعش کی مدد اور ان سے تیل خریدنے کے الزامات عائد کیے ہیں لیکن بدقسمتی سے روس ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کرسکا۔ اس کے علاوہ داعش نے عراق او رشام کے تاریخی مقامات کو لوٹ کر وہاں موجود نواردات بھی بیچے ہیں۔ پروفیسر نغمان کا خیال ہے کہ “موصل پر قبضے سے قبل جون 2014ء میں داعش کے پاس 900 ملین ڈالر کی نقد رقم موجود تھی موصل پر قبضے کے بعد ان کے اثاثوں کی مقدار 2 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ موصل پر قبضے کے بعد وہاں کے مرکزی بنک کی شاخ کو لوٹا گیا تھا جبکہ شمالی عراق کے تیل کے ذخائر پر قبضے کے بعدان کے اثاثوں میں مزید کئی گنا اضافہ ہوا“۔

 

دہشت گردی اس وقت پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور القاعدہ کے بعد داعش اب ایک نیا خطرہ بن کر سامنے آئی ہے۔ یورپ، امریکہ اور مسلم ممالک وک سمجھنا ہو گا کہ یہ صرف بنیاد پرست تکفیری اسلام اور خلافت کے قیام کا خواب ہی نہیں جو ایسی تنظیموں کی وجہ ہے بلکہ عالمی طاقتوں خصوصاً امریکہ اور سعودی عرب کی تباہ کن خارجہ پالیسی ہے جس کی وجہ سے آج مشرق وسطیٰ اس عفریت کا شکار ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا امریکہ، اس کے یورپی حواری، سعودی عرب اور ایران دہشت گردی کے ان وجوہ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *