Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

زلزلوں کی وجوہ اور اقسام

test-ghori

test-ghori

24 نومبر, 2015
26اکتوبر2015کی دوپہر 2بجکر9منٹ پر زلزلے کے زوردار جھٹکوں سے زمین ہل گئی۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے اکثر محسوس ہوتے رہتے ہیں جن میں سے بعض کافی طاقتور ہوتے ہیں۔ ہم نے آٹھ اکتوبر 2005ء کے تباہ کن زلزلے کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اورمحسوس کیاتھا، مکانات کی دیواریں کانپ رہی تھیں اور اونچے اونچے پہاڑوں کے ہلنے بلکہ جھومنے سے قیامت کا سا منظر دکھائی دیا۔ پاکستان کے محمکہ ارضیات کی رپورٹ کے مطابق رواں برس آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 8.1 جبکہ امریکی جیولوجیکل سروے نے شدت کا اندازہ 7.6لگایاہے۔ اس زلزلے میں دس سال قبل اسی شدت کے زلزلے کے برعکس حالیہ زلزلے میں نقصانات کی شدت بہت کم رہی۔ اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں 75 ہزار افرادلقمہ اجل بن گئے تھے، جبکہ حالیہ زلزلے میں مرنے والوں کی تعداد تین سے چارسو کے قریب ہے۔

تعلیمی پسماندگی، سائنسی علوم سے ناواقفیت اور مذہبی قدامت پرستی کی وجہ سے اس قسم کے مغالطے آج بھی رائج ہیں جن کے تحت بیماری، قدرتی آفات، حادثات اور ناکامیوں کو ان دیکھے خداوں کے کھاتے میں ڈال کر ان کا تدارک مذہبی رسوم کی ادائیگی کے ذریعے کرنے کی بے مصرف کوشش کی جاتی ہے۔
زلزلے کی وجوہ اور اقسام:
26اکتوبر کے زلزلے کو تقریباً ایک ماہ گزرچکا ہے لیکن متاثرہ علاقوں کے عوام میں اب بھی یہ چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ زلزلے اور دوسری قدرتی آفات ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہیں جس کی وجہ سے قدرت اپنی طاقت کا مظاہر ہ کر کے ہمیں ہوش میں لارہی ہے۔ اس قسم کے مغالطے زمانہ قدیم سے رائج ہیں اور مذہبی بنیاد پرستی کی وجہ سے ابھی تک پاکستان سمیت پورے عالم اسلام میں رائج ہیں۔ ایک عرصے تک انسان قدرتی آفات کی وجوہ سمجھنے سے قاصر تھا اس لیے قدرتی آفات کو دیوی دیوتاؤں، بھگوان یا اللہ تعالیٰ کی ناراضی سمجھ کر انہیں خوش کرنے کے لیے زندہ انسانوں، EQ4جانوروں، مال و دولت کی قربانی، توبہ استغفار اور ذکر اذکار کا سہارا لیتا تھا۔ تعلیمی پسماندگی، سائنسی علوم سے ناواقفیت اور مذہبی قدامت پرستی کی وجہ سے اس قسم کے مغالطے آج بھی رائج ہیں جن کے تحت بیماری، قدرتی آفات، حادثات اور ناکامیوں کو ان دیکھے خداوں کے کھاتے میں ڈال کر ان کا تدارک مذہبی رسوم کی ادائیگی کے ذریعے کرنے کی بے مصرف کوشش کی جاتی ہے۔ قدرتی آفات کو عذابِ خداوندی کے طورپر پیش کرنے کا سب سے بڑانقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں ان آفات کی سائنسی وجوہ سے آگاہی اور نقصانات کی تدارک کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔ جس کی وجہ سے موسمی تغیرات اور قدرتی آفات سے سینکڑوں جانیں ضائع ہونے اور اربوں بلکہ کھربوں روپے کے نقصانات کے باوجود پاکستان میں ان آفات سے نمٹنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی جا رہی۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ عوام الناس کو عام فہم اندز میں قدرتی آفات کی وجوہ سے آگاہ کیا جائے۔

زلزلے کی اقسام
سائنسدانوں کے مطابق زلزلے دو قسم کے ہو سکتے ہیں:

1:زیرِ زمین موجود لاوے کے باہر نکلنے سے آنے والازلزلہ:
ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کے اندرونی حصے میں ابلتا ہوا سیال موجود ہے جو زمین کے نیچے حرکت میں رہتا ہے۔ جس مقام پر زمین کی سطح کمزور ہو وہاں انتہائی طاقت کے ساتھ زمین کو پھاڑ کر لاوا باہر نکلتاہے جس کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں ان زلزلوں کی شدت کا انحصار لاوے کی مقدار اور طاقت پر ہوتاہے۔

2: زمینی پرتوں کی حرکت کی وجہ سے آنے والازلزلہ:
ہمارے علاقے میں آنے والے زلزلے زمینی پرتوں کی حرکت کی وجہ سے آتے ہیں۔ ماہرِ ارضیات سید دیدار علی شاہ اس کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں’’زمین بنیادی طورپر سات بڑی پرتوں پر مشتمل ہے (پرت زمین کا ایک ٹکڑا ہے) جو ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی دباؤسے جڑی ہوئی ہیں، ان پرتوں کو ملانے والی لائین ’’فالٹ لائین‘‘ کہلاتی ہے، جونہی دونوں میں سے کوئی ایک پرت پھسلتی ہے تو زلزلہ آتاہے۔ اس پھسلن کے بعد جمع شدہ قوت لہروں کی صورت میں حرکت کرتی ہے۔ اس زلزلے کی شدت کا انحصار دوپرتوں کے درمیان موجود دباؤپر ہوتا ہے‘‘۔


اکتوبر2005ء اور حالیہ زلزلوں میں فرق:

8اکتوبر 2005ء کو ریکٹر اسکیل پر 7.6شدت سے آنے والے زلزلے نے کشمیر، ہزارہ ڈویژن اور اسلام آباد سمیت پورے ملک کو ہلاکررکھ دیا جس میں تقریباً 75 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جبکہ 26 اکتوبر 2015ء کو اسی شدت کے زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین سے چار سو اور مکانات کی تباہی بھی ماضی سے کہیں کم رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رواں برس آنے والے زلزلے کا منبع زمین میں کافی گہرائی میں واقع تھا۔ اس فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہرِ ارضیات سید دیدار علی شاہ کا موقف ہے کہ ’’)پرتوں کی حرکت کی وجہ سے آنے والے( زلزلے تین قسم کے ہوتے ہیں؛ انتہائی گہرائی پر آنے والا زلزلہ (Deep Earthquake) ،درمیانہ یا وسطی زلزلہ (Intermediate Earthquake)، سطحی زلزلہ (Shallow Earthquake)

زلزلے کے منبع سے طاقت کی لہریں نکل کر چاروں جانب روانہ ہوتی ہیں۔ اگر ان لہروں کے راستے میں کوئی رکاؤٹ آئے تو اس سے ٹکرا کر یہ لہریں واپس مڑتی ہیں اور اگر مزاحمت نہ ہو تو لہروں کا سفر اپنی طاقت کے خاتمے تک جاری رہتا ہے
1: انتہائی گہرائی میں آنے والا زلزلہ :
اس زلزلے کا منبع زیرِ زمین انتہائی گہرائی میں ہوتا ہے ماہرین کے مطابق 150کلومیٹر سے زیادہ گہرائی پر آنے والا زلزلہ Deep Earthquakeکے زمرے میں آتا ہے۔ اس قسم کے زلزلوں کی شدت زیادہ لیکن ان کی نقصانات کم ہوتے ہیں۔ حالیہ زلزلہ زیادہ گہرائی میں آنے والا زلزلہ تھا۔ ڈاکٹر مونا لیزا قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ جغرافیہ کی سربراہ ہیں اپنے تجزیے میں بتاتے ہیں’’اکتوبر 2005ء میں آنے والا زلزلے کا منبع آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا اور اس کا منبع زیرِ زمین صرف دس کلومیٹر گہرائی پر تھا جس کی وجہ سے اس زلزلے میں بہت زیادہ تباہی دیکھنے کو ملی اس کے برعکس حالیہ زلزلے کا منبع دوردراز افغانستان کے مشرقی صوبہ بدخشان میں ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں زیرِ زمین 196کلومیٹر گہرائی پر تھا جس کی وجہ سے دونوں کی شدت یکساں اور نقصانات میں نمایاں فرق رہا‘‘۔ امریکن جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کامقام خیبرپختونخواہ کے انتہائی شمالی پہاڑی ضلع چترال سے صرف 67کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔

2: وسطی زلزلہ(Intermediate Earthquake):
اس قسم کے زلزلوں کا منبع زمین کے درمیانی حصوں میں ہوتا ہے۔ انتہائی گہرائی پر آنے والے زلزلوں کے برعکس وسطی زلزلوں میں نقصانات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔

3: سطحی زلزلے (Shallow Earthquake):
اس قسم کے زلزلے زمین کے اوپری حصے میں موجود پرتوں کے ہلنے سے آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس میں نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں جیسے کہ اکتوبر2005ء کازلزلہ۔

ڈاکٹر مونالیزا اور سیددیدارعلی شاہ دونوں اکتوبر 2005ء اور حالیہ زلزلوں کی شدت میں یکسانیت اورتباہ کاریوں میں فرق کو اسی گہرائی اور زمینی سطح کے فرق میں تناظرکے تحت دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر مونالیزا مزید وضاحت کرتی ہیں’’زلزلے کے منبع سے طاقت کی لہریں نکل کر چاروں جانب روانہ ہوتی ہیں۔ اگر ان لہروں کے راستے میں کوئی رکاؤٹ آئے تو اس سے ٹکرا کر یہ لہریں واپس مڑتی ہیں اور اگر مزاحمت نہ ہو تو لہروں کا سفر اپنی طاقت کے خاتمے تک جاری رہتا ہے‘‘۔ سید دیدار علی شاہ ان لہروں کی خصوصیات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں’’زلزلے کے اصل نقطے کے قریب ان لہروں کا طول موج انتہائی کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے اور جونہی وہ حرکت کرتے ہوئے اپنے منبع سے دور ہٹتی ہے تو ان کیے طول موج میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کی طاقت کمزورپڑ جاتی ہے اوریوں زلزلے کے اصل مقام کے قریب زوردارجھٹکے اور دوردراز کے علاقوں میں ہلکی شدت کے زلزلے محسوس کیے جاتے ہیں‘‘۔

اکتوبر 2005ء میں آنے والا زلزلے کا منبع آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا اور اس کا منبع زیرِ زمین صرف دس کلومیٹر گہرائی پر تھا جس کی وجہ سے اس زلزلے میں بہت زیادہ تباہی دیکھنے کو ملی
چترال خطرناک زون پر :
اونچے اونچے پہاڑوں میں گھری وادی چترال کا شمار زلزلوں کے حوالے سے خطرناک خطوں میں ہوتا ہیں۔ ماہر ارضیات سید دیدارعلی شاہ اس کی وضاحت کچھ اس طرح کرتے ہیں’’چترال دو بڑی زمینی پرتوں یعنی شمال میں واقع یوریشین پرت اور جنوب کی جانب واقع انڈو آسٹریلین پرت کو ملانے والی فالٹ لائین پر واقع ہے اس لیے اس خطے پر کسی بھی وقت خطرناک زلزلہ آسکتا ہے یہ فالٹ لائین دروش سے شروع ہوکر برنس اور ریشن سے ہوتی ہوئی شندور سے گزر کر گلگت بلتستان میں داخل ہوتی ہے‘‘۔

اختیاطی تدابیر :
چترال زلزلوں کے لحاظ سے خطرناک علاقے میں واقع ہے لیکن حکومت اورغیر سرکاری تنظیموں نے عوامی آگاہی اور قدرتی آفات کے موقعوں پر اختیاطی تدابیر اپنانے کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔ علاقے میں غربت و افلاس کے باعث لوگوں کے لیے نقل مکانی یا بہتر تعمیرات کے لیے وسائل موجود نہیں جس کی بنا پر عوام زلزلے سے محفوظ عمارتیں تعمیر کرنے سے قاصر ہے۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ مستقبل کی کسی بھی ناگہانی آفت سے بچنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔ زلزلے سے محفوظ عمارتوں کی تعمیر کے لیے 2005ء کے زلزلے کے بعد کشمیر اور ہزارہ ڈویژن میں استعمال کیے جانے والے شیلٹر کا استعمال چترال میں بھی ناگزیر ہے اگر عمارت سازی میں ان چادروں کا استعمال کیا جائے تو کم خرچ سے زلزلوں سے محفوظ عمارتیں تیار ہوسکتی ہیں۔ جس کے لئے حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو عوام کی راہنمائی اور مالی مددکرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں بے انتہا تباہی سے بچاجاسکے۔