Laaltain

اگر مجھے

6 فروری، 2017
اگر مجھے
اگر مجھے خواب ہی دیکھنا تھے
تو میں خواب دیکھتا
آزادی اور محبت کی سمت کھلنے والی کھڑکیوں
اور کشادہ آنگنوں کے
میں نے کیوں بند دروازوں کے خواب دیکھے
اگر مجھے جاگنا ہی تھا
تو میں جاگ اٹھتا، کسی بادلوں بھری صبح میں
تمہارا ہاتھ تھامے ہوے
میں نے کیوں شک اور دکھ سے بھرے
اس گھر میں آنکھ کھول دی

اگر مجھے بکھرنا ہی تھا
تو میں بکھرتا
سمندر کے سینے پر
یا پھر تمھارے قدموں میں
میں نے کیوں
ان بے اماں راستوں میں
اپنی مٹی خراب کی

اگر مجھے انتظار ہی کرنا تھا
تو میں انتظار کرتا
اس کا ، جو راستے ڈھونڈتا میری طرف آنے کے
میں کیوں آنکھوں میں چراغ لیے
اس رہگزر پر بیٹھا رہا
جہاں سے کوئی نہیں گزرتا

اگر مجھے دوڑنا ہی تھا
تو میں دوڑتا چلا جاتا
کسی بھی نا ہموار سڑک پر، آنکھیں بند کیے ہوے
میں کیوں ان دیکھے بھالے راستوں پر
ٹھوکریں کھاتا پھرا

اگر مجھے رکنا ہی تھا تو میں رک جاتا
کسی بھی جھیل کے کنارے، اجنبی آسمان کے نیچے
میں کیوں بیٹھ گیا
دنوں کی بےکیفی اور اکتاہٹ کی دہلیز پر

اگر مجھے سونا ہی تھا
تو میں سو رہتا یہیں کہیں، اس بستر پر
یا اپنے مضافات میں کہیں
میں کیوں سو گیا، بے خوابی اور اذیت کے پتھر پر
سر رکھ کر ———-

اور اگر مجھے اتنے بہت سے کام کرنا ہی تھے
تو میں اس دوڑ میں بھی شامل ہو جاتا
یا پھر —– دیواروں سے ہی ٹکرا جاتا
انہیں توڑتے ہوئے !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *